حضرت مولانا علی میاں ندویؒ کی ادبی اور ثقافتی خدمات : میرا مطالعہ

مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی

بیسوی صدی میں اپنے افکار وخیالات، احوال ومشاہدات، مختلف ملی تنظیموں میں شراکت، اسلام کی بے باک ترجمانی، عصری زبان وبیان، اسلوب وانداز میں اسلام کی تشریح وتوضیح اور انسانی اعلیٰ اخلاقی قدروں کی پیام رسانی کے ذریعہ پوری مسلم دنیا کوجن لوگوں نے متاثر کیا اوربڑی تعداد میں جن کے پیغامات کو لوگوں نے قبول کیا، اس میں ایک بڑا اور سرفہرست نام مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ (آمد: 24نومبر1914، رفت:31/ دسمبر1999) کا ہے، اس کی تفصیل جاننی ہو تو حضرت مولانا علیہ الرحمہ کی خود نوشت کاروان زندگی کی تمام جلدوں کا مطالعہ کرنا چاہیے، جس میں حضرت مولانا نے خود اپنے قلم سے اپنی زندگی کے مشاہدات وتجربات، احساسات وتأثرات ہندوستان اور عالم اسلام کے واقعات وحوادث اور تحریکات وشخصیات کا ایسا مرقع تیار کیا ہے جو اپنی آپ بیتی بھی ہے اور حقیقت پسندانہ جگ بیتی بھی، یہ کتاب چودہویں صدی ہجری اور بیسوی صدی عیسوی کی بہترین تاریخ ہے۔

حضرت مولانا علی میاں ندویؒ کی ادبی اور ثقافتی خدمات
حضرت مولانا علی میاں ندویؒ کی ادبی اور ثقافتی خدمات

اس کے علاوہ حضرت مولانا علیہ الرحمۃ کی شخصیت پر ان کے خانوادہ یا دارالعلوم ندوۃ العلماء سے وابستہ اور دیگر اہل علم حضرات نے جو لکھا ہے وہ بہترین ماخذ ومراجع ہیں، مثلاً مولانا سید محمد رابع حسنی ندویؒ کی ”عہد ساز شخصیت“، مولانا عبد اللہ عباس ندوی ؒ کی”میر کارواں“، مولانا سید بلال عبد الحئی حسنی کی”سوانح مفکر اسلام“ مولانا ابو سحبان روح القدس ندوی کی ”مولانا علی میاں اور علم حدیث“، مولانا محمد اسجد ندوی کی ”مولانا ابو الحسن علی ندوی حیات اور کارنامے“، ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی ”ابو الحسن الندوی کما عرفتہ“، مولانا عبد الباسط ندوی کی ”مولانا سید ابو الحسن علی ندوی افکار وآثار“، محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی ”مولانا علی میاں کی دعوت دین کے چند اہم پہلو“، مولانا طارق ایوبی ندوی کی ”مولانا ابو الحسن علی ندوی ایک ملی مفکر“،نیز تعمیر حیات اور رابطہ کولکاتہ کامولاناعلی میاں نمبر جس کے مدیر نذر الاسلام نظمی تھے کا مطالعہ انتہائی مفید اور حضرت مولانا کی شخصیت اور ان کی خدمات کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔

جب کسی شخصیت کے کارنامے وسیع اور ان پر لکھنے کے لیے بہت سارا مواد موجود ہو تو ان پر کسی نئی کتاب کا تربیت دینا اور پی ایچ ڈی کرنا آسان ہوتا ہے، خصوصاً اس وجہ سے بھی کہ ان دنوں پی اچ ڈی کے مقالے زیادہ تر قینچی اور پیسٹ کے فن کا کمال ہوا کرتے ہیں، اوربقول گوپی چند نارنگ ان کی خصوصیت یہ ہوی ہے کہ دفتیوں کے درمیان چند اوراق لکھے ہوا کرتے ہیں، جن میں سرچ (تلاش) ہی نہیں ہوتی ری سرچ تو اس سے بہت اوپر کی چیز ہے چند کتابوں کے تراشے جمع کرکے حاصل مطالعہ لکھ دیا جاتا ہے اور بس، چنانچہ حضرت مولانا علی میاں ندوی کی شخصیت اور خدمات کو پی اچ ڈی کے مقالہ کے لیے ہندوبیرون ہند میں بہت سارے لوگوں نے چنا اور پچاس سے زائد لوگوں نے مولانا کی ہمہ جہت شخصیت اور خدمات کے الگ الگ پہلوؤں پر مقالہ لکھ کر پی اچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، با خبر ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم یونیورسٹی علی گڈھ کی لائبریری میں مولانا علی میاں پر پی اچ ڈی کے تیس (30)مقالے موجود ہیں، اور کئی مقالے دار العلوم ندوۃ العلماء کی لائبریری میں بھی ہیں۔

حضرت مولانا کے منہج تنقید اور ان کے ادبی نظریہ پر عربی میں بھی ایم فل وپی اچ ڈی کے مقالے لکھے گیے، مولانا پر انگریزی میں عبد القادر چوغلے (جنوبی افریقہ) کی دو ضخیم جلدیں شائع ہو چکی ہیں، عبد المجیدسلمانی ترکی کی کتاب ”الفکر والسلوک السیاسی عندأبی الحسن الندوی اور احمد الوشمی کی منھج النقد عند أبی الحسن۔ خاص طور پر قابل مطالعہ ہیں۔

ہند وبیرون ہند میں جو کام حضرت مولانا پر ہوا اور جو مقالے لکھے گیے اس کی فہرست سازی کی نہ یہاں ضرورت ہے اور نہ موقع، بہار کی سطح پر ڈاکٹر ممتار احمد خاں مرحوم کی زیرنگرانی مولاناڈاکٹرشکیل احمد قاسمی اور ڈاکٹر ذاکر حسین ساکن فتح آباد، سرائے ویشالی استاذ مڈل اسکول محمد پور رہوا نے پروفیسر عبد المالک صدر شعبہ اردو جے پی یونیورسٹی چھپرہ کی زیر نگرانی حضرت مولانا علی میاں پر مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔

آخر الذکر ڈاکٹر ذاکر حسین (ولادت ۳/ مئی ۳۷۹۱) مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ویشالی میں میرے شاگرد رہے ہیں، یہ عجب اتفاق ہے کہ ان کے والد ماسٹر محمد نصیر الدین بن بنو علی منصوری میرے والد کے شاگرد تھے، بلکہ ان کی تعلیمی سرپرستی بھی میرے والد ماسٹر محمد نور الہدیٰ (م 2017ء) نے کی اور اللہ نے والد صاحب کی محنت اور دعا کو قبول کرکے انہیں تعلیمی شعبہ سے لگایا، انہوں نے اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلائی، وہ کہا کرتے ہیں کہ ہر چیزکی ایک قیمت ہوتی ہے، آپ کے پاس بس قوت خرید ہونی چاہیے، اس بات کو وہ عملی زندگی میں برتتے بھی جس کے نتیجے میں آج ان کی سبھی لڑکے معاشی اعتبار سے کامیاب ہیں اور کئی علمی کاموں سے جڑے ہوئے ہیں، ڈاکٹر ذاکر حسین ان لوگوں میں ہیں، جو علمی سر پرستی کی وجہ سے مجھے پشتینی اوراپنا خاندانی استاذ سمجھتے ہیں او رتحریر وتقریر میں اس کا اعلان بھی فخر سے کرتے رہتے ہیں۔

ڈاکٹر ذاکر حسین نے حضرت مولانا علی میاں ندوی کی ادبی وثقافتی خدمات کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا ہے، اس میں صرف ایک باب اس موضوع پر ہے، بقیہ چھ ابواب میں دو یعنی باب اول اور باب ششم ضرورت کے تحت لکھے گئے ہیں، ظاہر ہے جس شخص کی ادبی وثقافتی خدمات کو قارئین کے سامنے آپ لانا چاہتے ہیں، اس کے بارے میں قاری کو جاننا چاہیے کہ وہ کون تھے، چنانچہ ڈاکٹر ذاکر حسین نے پہلا باب ”مختصر سوانح“ کا قائم کیا ہے، جو ضروری تھا، باب ششم میں انہوں نے حاصل مقالہ نتیجہ اور حوالہ جاتی کتب کا ذکر کیا ہے، تحقیقی مقالہ کے لیے یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ باب سوم میں حضرت مولانا علی میاں ندوی کی تحریرکے عقلی وجمالیاتی رجحان، جدید اردو نثر کے ارتقاء میں علی میاں کی خدمات کو بھی ادبی کے زمرے میں ڈال کر شامل کرنے کا جواز پیدا کر سکتے ہیں، البتہ باب چہارم میں ”عالم دین کی حیثیت سے عالم اسلام میں علی میاں کا مرتبہ“ ایک اضافی چیز ہے، اس کا ان کی ادب وثقافت سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے، اس باب کے مندرجات کو باب اول میں سمیٹا جا سکتا تھا، لیکن پی اچ ڈی کے لیے لکھے گئے مقالوں کی اپنی کچھ مجبوری ہوتی ہے، جسے اسکالر کبھی باب میں اضافہ کرکے اور کبھی طول طویل اقتباسات نقل کرکے پوری کرتا ہے، اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اسکالرکی اصلی اور اپنی بات دوسروں کے تراشے اور اقتباسات میں دب کر رہ جاتی ہے۔

ڈاکٹر ذاکر حسین کی دو کتابیں اردو کے اصول تدریس اور ”بچوں کی نفسیات اور نشو ونماپر پہلے چھپ چکی ہے، اول الذکر پر میرا تفصیلی تبصرہ ہفت روزہ نقیب میں بھی آچکا ہے، گلدستہئ ذاکر کے نام سے ایک کتاب اور تیار ہے، جو ابھی غیر مطبوعہ ہے۔

ڈاکٹر صاحب کی اب تک جتنی کتابیں طبع ہوئیں، جتنے مضامین چھپے اور خبریں شائع ہوئیں، ان میں سب سے اچھی، پاک، صاف اور شستہ زبان اس مقالہ کی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر ذاکر حسین اپنی تحریروں اور اسلوب کے اعتبار سے ترقی پذیر ہیں، ان کے لکھنے کی صلاحیت دن بدن مضبوط ہورہی ہے اور ان کا اسلوب مسلسل ارتقاء کے راستے پر گامزن ہے۔

میں ڈاکٹر صاحب کوپی اچ ڈی کے اس مقالہ کی طباعت کے موقع سے ہدیہئ تبریک پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ وہ تیزی سے ترقی کریں اور مجھے خوشی ہے کہ میرا شاگرد ترقی کے منازل طے کرتا جارہا ہے، اللہ رب العزت اس کتاب کے نفع کو عام وتام فرمائے، آمین یارب العالمین وصلی اللہ علی النبی الکریم وعلی اٰلہ وصحبہ اجمعین۔

Leave a Reply