علم و تحقیق کا امین – محمد روح الامین

سید علقمہ عرشی (بنارس)

محمد روح الامین قاسمی میُوربھنجی، سرزمین اڈیشا سے تعلق رکھنے والے ایک عالم دین، حافظ و قاری اور ایک قلمکار ہیں، جو اپنی علمی و تحقیقی کاوشوں اور ویکیپیڈیا پر علماء کے سوانحی صفحات تخلیق کرنے کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ وہ اردو، انگریزی، اور عربی زبانوں میں مضامین لکھنے کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کے استعمال میں بھی مہارت رکھتے ہیں، جو ان کے تحقیقی کام کو مزید مؤثر بناتی ہے۔

علم و تحقیق کا امین – محمد روح الامین
علم و تحقیق کا امین – محمد روح الامین

ابتدائی زندگی اور تعلیمی سفر

محمد روح الامین 11 اکتوبر 1996ء کو چڑئی بھول، ضلع میُوربھنج، اڈیشا، بھارت میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک علمی گھرانے سے ہے۔ ان کے والد قاری محمد نور الامین نہ صرف دارالعلوم حسینیہ، مدنی نگر کے بانی ہیں بلکہ جمعیۃ علماء ضلع میُوربھنج کے ناظم عمومی بھی ہیں۔ ان کے والد کا شمار صوبہ اڈیشا کے معروف قراء میں ہوتا ہے۔

محمد روح الامین کی ابتدائی دینی تعلیم جامعہ تجوید القرآن عثمانیہ، جگت سنگھ پور میں ہوئی۔ 2009ء میں انہوں نے مدرسہ عربیہ مفتاح العلوم، کھٹبن ساہی، کٹک میں داخلہ لیا اور 2013ء میں وہیں سے حفظِ قرآن مکمل کیا۔

انھوں نے اگست 2013ء میں جامعۃ الشیخ حسین احمد المدنی، خانقاہ، دیوبند میں عالمیت کے لیے درجۂ فارسی میں داخلہ لیا، عربی دوم کے سال عید الاضحیٰ کے وقت طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے اپنا بقیہ تعلیمی سال (2015–16ء) جامعہ اسلامیہ مرکز العلوم، سونگڑہ میں پورا کیا۔ پھر اگلے سال جامعۃ الشیخ میں عربی سوم پڑھ کر 2017ء میں انہوں نے باقاعدہ طور پر دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا اور 2023ء میں دورۂ حدیث شریف کا سال پڑھ کر درسِ نظامی کے نصاب سے عالمیت کی تکمیل کی۔ اگلے سال انھوں نے شیخ الہند اکیڈمی، دار العلوم میں تقریباً پانچ ماہ رہ کر تحقیق و مضمون نگاری کی تربیت لی اور اپریل 2024ء میں المعہد العالی الاسلامی، حیدرآباد میں تکمیلِ افتا کے لیے داخلہ لیا۔

ادبی و تحقیقی خدمات

محمد روح الامین اپنی تحریری خدمات کے لیے اردو اور انگریزی ویکیپیڈیا پر "Khaatir” کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ فروری 2021ء سے ویکیپیڈیا پر متحرک ہیں اور اردو ویکیپیڈیا پر اب تک 500 سے زائد صفحات تخلیق کر چکے ہیں اور پچاسوں مضامین کی از سر نو تجدید کی ہے، جن میں 100 سے زائد علما کے سوانحی خاکے شامل ہیں۔ انگریزی ویکیپیڈیا پر بھی انہوں نے تقریباً 60 صفحات تخلیق کیے اور دسیوں مضامین کی تجدید کی۔ عربی ویکیپیڈیا پر بھی ان کے صفحات موجود ہیں۔ اردو ویکیپیڈیا پر سب سے زیادہ ترامیم والے بیس صارفین میں بیسواں نام ان کا ہے۔

محمد روح الامین کی خاص دلچسپی علماء کی سوانح عمری لکھنے میں ہے۔ ان کے تحقیقی مضامین مختلف اہم ویب سائٹس اور رسائل میں شائع ہو چکے ہیں، جن میں قندیل آن لائن، بصیرت آن لائن، دیوبند آن لائن، ابوالمحاسن ڈاٹ کام، الہلال میڈیا، جہازی میڈیا وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے مضامین اور تبصرے ماہنامہ پیامِ اشرف، صدائے اسلام، اور سمت جیسے جرائد میں بھی شائع ہو چکے ہیں۔

منتخب مضامین اور تحقیقی کام

محمد روح الامین نے ویکیپیڈیا کے علاوہ متعدد علماء کے سوانحی خاکے مختلف ویب سائٹس اور جرائد پر تحریر کیے ہیں، جن میں مولانا سید محمد اسماعیل کٹکیؒ، مولانا سید سراج الساجدین کٹکی قاسمیؒ، شیخ الحدیث مولانا نصیر احمد خان بلند شہریؒ، مولانا محمد عثمان معروفیؒ، مولانا ذبیح اللہ قاسمیؒ، مولانا بلال اصغر دیوبندیؒ، مولانا سید حسین احمد قاسمی عارف گیاویؒ، مولانا محمد جابر صاحب قاسمی بنجھار پوریؒ، مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی، مولانا شاہ عالم گورکھپوری، مولانا مفتی عمر عابدین قاسمی مدنی، مولانا مفتی عبد اللہ معروفی، ڈاکٹر مفتی محمد اللہ خلیلی قاسمی اور مولانا سید کفیل احمد قاسمی شامل ہیں۔ ان کے تحقیقی کام کا محور علما کی حیات و خدمات اور ان کے علمی و دینی کارناموں کو محفوظ کرنا رہا ہے۔ اس کے علاوہ پروفیسر ڈاکٹر کرامت علی کرامت مرحوم کی حیات و خدمات پر بھی ان کا مختصر و جامع مضمون شائع ہو چکا ہے۔

یہ مضامین مختلف ویب سائٹس پر شائع ہوئے ہیں، جن کے لنکس دستیاب ہیں اور انہیں انٹرنیٹ پر ان کے مختلف ناموں سے تلاش کیا جا سکتا ہے، جیسے محمد روح الامین میُوربھنجی، محمد روح الامین بن محمد نور الامین، محمد روح الامین میوربھنجی وغیرہ۔

ویکیپیڈیا سے باہر علماء اور بعض ادبا پر لکھے گئے ان کے سوانحی خاکوں کا مجموعہ "علم و ادب کے روشن چراغ” کے نام سے زیر ترتیب ہے۔

دیگر خدمات اور پروگراموں میں شرکت

محمد روح الامین نے اپنی خدمات کو مزید وسعت دیتے ہوئے ویکی کانفرنس انڈیا 2023 اور ٹرین دی ٹرینر 2024 جیسے اہم ویکیپیڈیا پروگراموں میں شرکت کی ہے۔ ان کی تحریریں اور تحقیقی مضامین ان کے ذاتی بلاگ کے علاوہ دیگر ویب سائٹس جیسے قندیل آن لائن، دیوبند آن لائن، ابوالمحاسن ڈاٹ کام پر شائع ہوتی ہیں۔

خاندانی پس منظر

محمد روح الامین کے نانا، مولانا قاری سید حسین احمد قاسمیؒ (تخلص: عارف گیاوی)، علامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ کے شاگرد اور ایک معروف نعت گو شاعر تھے۔ ان کی نانی کے ماموں مولانا قاری فخر الدین فخر گیاویؒ بھی ایک ممتاز صاحب نسبت عالم دین و شاعر تھے۔

ان کے تین ماموں بھی علمی میدان میں نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں:
1. مولانا مفتی محمد اعظم ندوی – استاذ المعہد العالی الاسلامی، حیدرآباد و امام و خطیب مسجد بقیع، بنجارہ ہلز، حیدرآباد
2. مولانا زاہد حسین ندوی – امام و خطیب محمدی مسجد، ہلدی پوکھر، مشرقی سنگھ بھوم (خلیفہ و مجاز حضرت مولانا سید عبد اللہ حسنی ندویؒ)
3. مولانا مفتی محمد خالد ندوی قاسمی – حیدرآباد سے قریب وقار آباد میں واقع کالج "حیدرآباد انسٹی ٹیوٹ آف ایکسیلنس (HIE)” میں عربی کے لیکچرار

محمد روح الامین کا علمی و تحقیقی سفر ان کی گہری دلچسپی، لگن، اور اسلامی علوم کے فروغ کی کاوشوں کا مظہر ہے۔ ان کی تحریری خدمات ویکیپیڈیا اور مختلف ویب سائٹس پر اردو زبان اور اسلامی ورثے کی ترویج کے لیے ایک اہم سنگ میل ہیں۔ ان کی شخصیت تحقیق، ادب، اور ٹیکنالوجی کے امتزاج کی بہترین مثال ہے، اور آنے والے وقتوں میں ان کی خدمات مزید اہمیت اختیار کریں گی۔

ذاتی زندگی اور دوستانہ رویہ

محمد روح الامین کی شخصیت نرم مزاجی، حوصلہ افزائی اور متانت کا حسین امتزاج ہے۔ ان کی روزمرہ کی زندگی میں شائستگی اور وقار نمایاں ہیں۔ وہ ہمیشہ دوسروں کو آگے بڑھنے کی ترغیب دیتے ہیں اور ان کا اندازِ حوصلہ افزائی دل کو چھو لینے والا ہوتا ہے۔ تحقیق اور علم دوستی ان کی شخصیت کے اہم پہلو ہیں، جن کی بدولت وہ دوستوں اور متعلقین کے درمیان خاص مقام رکھتے ہیں۔

میرا اور محمد روح الامین کا تعلق ہمیشہ بے تکلفی اور خلوص پر مبنی رہا ہے۔ وہ ہمیشہ خندہ پیشانی اور محبت سے پیش آتے ہیں۔ ان کے تحقیقی مزاج اور علمی ذوق نے مجھے بھی اپنے علمی اہداف کے حصول میں حوصلہ اور رہنمائی فراہم کی ہے۔ ان کے ساتھ وقت گزارنا ہمیشہ ایک سیکھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ ان کی گفتگو نہ صرف شگفتگی سے بھرپور ہوتی ہے بلکہ علم کا خزینہ بھی پیش کرتی ہے۔ وہ میرے مشوروں اور سوالات کو نہایت اہمیت دیتے ہیں اور اپنی علمی گفتگو سے مجھے ہمیشہ متاثر کرتے ہیں۔

علاوہ ازیں، موصوف خوش الحان بھی ہیں اور نغمہ سرائی میں مہارت رکھتے ہیں۔ ان کی مترنم آواز اور خوش الحانی کسی بھی اسٹیج یا پروگرام کو مسحور کرنے کے لیے کافی ہے۔ ان کی آواز میں ترنم کا ایسا جادو ہے جو سامعین کے دلوں پر اثر چھوڑ جاتا ہے۔ مجھے کئی مرتبہ ان کے نغمات سننے کا موقع ملا ہے، اور خاص طور پر ان کی آواز میں کلامِ عاجز مجھے بہت پسند ہے۔ ان کی خوش الحانی ہر موقع کو یادگار بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

میری دعائیں اور نیک تمنائیں ہمیشہ ان کے ساتھ رہی ہیں اور ہمیشہ رہیں گی۔ مجھے بلکہ ہر کسی کو ان سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ دعا ہے کہ ان کا علم دن بدن ترقی کرے، ان کا قلم مضبوط سے مضبوط تر ہو، اور وہ اپنی منزل کی جانب بڑھتے رہیں۔ خدا کرے وہ علم و ادب کے افق پر یہ کہتے ہوئے چھا جائیں کہ

”کہ دو میر و غالب سے ہم بھی شعر کہتے ہیں
وہ صدی تمہاری تھی، یہ صدی ہماری ہے۔“

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare