۲۴؍ فروری ۱۹۸۹ : ایک بھولی بسری داستان
تکلف برطرف : سعید حمید
۲۴ ؍فروری ۱۹۸۹ ء کو بھلایا نہیں جا سکتا ؟
کیا ہوا تھا اس دن ممبئی میں ؟
کچھ مسلمانوں نے سلمان رشدی کی کتاب ’’شیطانی آیات ‘‘کے خلاف احتجاجی جلوس نکالنے کا اعلان کیا ،
پولس نے جلوس پر پابندی عائد کردی ، جلوس کے منتظمین کو گرفتار کرلیا ، لیکن ۔مستان تالاب میں ۲۴ ؍ فروری ۱۹۸۹ء کو ہزاروں افراد اکٹھا ہوگئے ۔وہ آزاد میدا ن کی طرف چل پڑے ، ہجوم غیر منظم تھا ، قیادت سے محروم تھا ، لیکن اس کو قابو میں کرنے کیلئے پولس کے پاس کوئی پختہ اور بہتر انتظام نہیں تھا ۔کچھ فرقہ پرست عناصر بھی پولس کی قیادت میں موجود تھے ، جنہوں نے ان حالات کا فائدہ اٹھایا ۔

اور پھر ۔لاٹھی چارج کی نوبت نہیں آئی ، آنسو گیس نہیں داغی گئی ، سیدھے ۳۰۳ ؍ رائفلوں سےفائرنگ کی گئی ۔
اس لئے ، مسلمانان ممبئی کیلئے ۲۴ ؍ فروری ۱۹۸۹ ء کا وہ دن انتہائی الم ناک دن بن گیا۔کچھ برس تک ہر سال اس کا غم منایاجاتا رہا ۔
لیکن۔۱۹۸۹ء سے ۲۰۲۵ء ؟؟چھتیس سال مکمل ہوگئے ؟
آج۲۰۲۵ ء یعنی پورے۳۶؍سال ۔۔۔۔
تیس۔۔۔ پینتیس ، چھتیس سال کا عرصہ کم نہیں ہوتا ہے ،
مگر ایسا بھی نہیںکہ ۲۴ فروری ۱۹۸۹ ء کو بالکل ہی فراموش کردیا جائے ۔
سلمان رشدی نے اپنی اہانت آمیز کتاب کے ذریعہ عالم اسلام کے جذبات سے کھلواڑ کیا تھا ۔
اس کی کتاب کیخلاف ساری دنیا میں احتجاج ہوا ، ایران کے آیت اللہ خمینی نے اس کے خلاف قتل کا فتوی بھی جاری کیا ۔
کچھ لوگوں نے اس احتجاج کو بے سبب بھی قرار دیا ، حکومت ہند نے بے شک ، فوری طور پر اس کتاب پر پابندی عائد کردی تھی ، جب کہ کتاب لندن سے انڈیا پہنچی بھی نہیں تھی ، کسی نے بھارت میں یہ کتاب پڑھی بھی نہیں تھی ، جو لوگ احتجاج کا کال دے رہے تھے ، انہوں نے بھی یہ کتاب نہیں پڑھی تھی ، سلمان رشدی بھی انڈیا میں نہیں تھا ، لنڈن میں تھا ۔
اس کے باوجود ، یہاں احتجاج کیوں ؟ احتجاجی لیڈران کا کہنا تھا کہ عالم اسلام کے ساتھ ساتھ ، ہندوستان کے مسلمان بھی احتجاج کر رہے تھے ۔ان کا احتجاج حکومت ہند کے خلاف نہیں تھا ۔ان کا احتجاج سلمان رشدی اور اس کی پشت پناہ مغربی مملکتوں کے خلاف تھا ۔
اس لئے ، وہ کہہ رہے تھے ، کہ احتجاج کی اجازت دی جائے ، ان کے ہم نوا علما ء ، قائدین کا کہنا تھا کہ کتاب پر پابندی کے باوجود بھی اگر کچھ مسلمانوں نے احتجاجی جلوس نکالنے کا فیصلہ کیا ، تو اس سے سوجھ بوجھ کے ساتھ نمٹنا چاہئے تھا ۔
الزام ہیکہ ممبئی پولس نے ایسا نہیں کیا ۔ممبئی کے کچھ قدرے غیر معروف افراد اور اداروں نے مستان تالاب ناگپاڑہ سےآزاد میدان تک ایک احتجاجی جلوس کا اعلان کردیا ، یہ لوگ سماج کے با اثر افراد نہیں تھے ، ان میں سے تو بہت سے بالکل غیر معروف تھے ۔
مسلمانوں کی بڑی بڑی تنظیموں اور معروف شخصیات نے اس احتجاج سے دوری بنائی ہوئی تھی ۔
اس زمانے میں مستان تالاب جلسہ اور جلوسوں کا بڑا مرکز ہوا کرتا تھا ۔
۲۴؍ فروری ۱۹۸۹ ء جمعہ کا دن تھا ۔بعد نماز جمعہ جلوس کے نکلنے کا وقت دیا گیا تھا ۔
اس زمانہ میں احتجاجی جلوس بھی جمعہ کے دن ، بعد نماز جمعہ ہی نکالے جاتے تھے ،
کیونکہ ۔نماز جمعہ کی وجہ سے نمازیوں کا ہجوم بہ آسانی مل جاتا تھا ۔
اسلئے ۔جس طرح ہر احتجاجی جلوس کا اعلان ہوا کرتا تھا ، مسلم ایکشن کمیٹی نامی ایک نوزائیدہ اور غیر معروف تنظیم نے بروز جمعہ ، مورخہ ۲۴ ؍ فروری ۱۹۸۹ ء کے دن بعد نماز جمعہ مستان تالاب سے آزاد میدان کیلئے ایک احتجاجی جلوس کا اعلا ن کردیا ، جن کی یہ لیاقت اور صلاحیت نہیں تھی کہ ایسے غضب ناک موضوع پر کوئی احتجاجی پروگرام منظم کیا جائے ۔
ان کے خلاف ممبئی کے کچھ سنجیدہ افراد و اداروں نے آواز ضرور اٹھائی تھی جنہیں ڈر تھا کہ اگر اس جلوس میں کچھ غیر متوقع واقعہ ہوگیا تو پھر لا ء اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے ، پولس افسران کو بھی یہ محسوس ہوا کہ غیر معروف تنظیم اور افراد کے ذریعہ نکالا جانے والا یہ جلوس لا ء اینڈ آرڈر کیلئے مسئلہ پیدا کرسکتا ہے ۔
موضوع ہی آتش فشاں بن چکا تھا اور سلمان رشدی کے خلاف اس اہانت آمیز ناول ـ’’شیطانی آیات ‘‘ کی وجہ سے غصہ کو لاوا پھوٹ پڑنے کیلئے تیار ہی تھا ۔
لیکن ۔ممبئی پولس نے اس جلوس کے موقعہ پر امن و امان برقرار رکھنے کی سنجیدہ اورایماندارنہ کوشش نہیںکی ۔
پہلے قدم کے طور پر جلوس پر پابندی عائد کی گئی ۔اس کی کوئی ضرورت نہیںتھی ۔یہ جلوس حکومت ہندکے خلاف نہیں تھا ۔
اس جلوس کا موضوع بھی متنازعہ نہیں تھا ، جس کی وجہ سے مسلمانوں اور دیگر کسی مذہبی فرقہ میں کشیدگی یا حریفائی کا معاملہ بن سکتا تھا ۔
اسلئے ، جلوس پر پانبدی عائد کرنا ، بلاوجہ معاملہ کو خراب کرنے کا پہلا قدم تھا ۔اگر پابندی عائد نہیں کی جاتی تو شائد جلوس گذر جاتا
اور کوئی مسئلہ بھی پیدا نہیں ہوتا ۔
دوسری غلطی ؛
پولس نے مسلم ایکشن کمیٹی کے تمام عہدیداروں کو جنہوں نے جلوس کا اعلان کیا تھا ، ۲۴ ؍ فروری ۱۹۸۹ء سے کچھ روز قبل گرفتار کرلیا ۔اس لئے ، میدان میں کوئی منتظم باقی نہیں رہ گیا ۔
تیسرے ؛
مستان تالاب سے آزاد میدان کی طرف کوچ کرنے والے ہجوم نما جلوس کو قابو کرنے کیلئے پولس کے اعلی افسران نے کوئی مناسب حکمت عملی نہیںمرتب کی ۔ثبوت تو اس بات کا بھی ملا ہے کہ ممبئی پولس کے کچھ اعلی پولس افسران ممبئی کے مسلمانوں کو ایسا سبق سکھانا چاہتے تھے ، کہ وہ آئیندہ بیس تیس برس تک احتجاجی جلوس نکالنا بھول جائیں۔
شائد ایسا ہی ہوا ہے ،
۲۴ ؍فروری ۱۹۸۹ ء سے ۲۴؍ فروری ۲۰۲۵ء اور آج تک ۔۔تک اگر غور کیا جائے ، تو حسب ذیل حقائق سامنے آتے ہیں،
گذشتہ تیس ۔۔پینتیس برس میں مستان تالاب سے کوئی دوسرا جلوس آج تک نہیں نکل سکا ۔
مستان تالاب میں گذشتہ تیس ۔۔پینتیس برس میںملی موضوعات پر ہونے والے جلسوں ، جلوسوں کا سلسلہ ہی ختم ہوگیا جب کہ آزادی سے قبل سے لیکر ۲۴ ؍ فروری ۱۹۸۹ء تک ، مستان تالاب میں تاریخ جلسہ ، جلوس ہوا کرتے تھے ۔
خلافت ہاؤس سے نکلنے والا جلوس عید میلادالنبی ﷺ بھی آزادی کے بعد سے کئی دہائیوں تک مستان تالاب پر ہی اختتام پذیر ہوا کرتا تھا ، اور جلسہ میں تبدیل ہو جایا کرتا تھا ۔مستان تالاب میں ہونے والے جلسوں سے ملک و ریاست کی کئی تاریخی شخصیات علمائے کرام و
لیڈران نے جن میں علی برادران ،سے لیکر مولانا ضیاء الدین بخاری ، غلام محمود بنات والا اور بال ٹھاکرے تک متعدد قائدین بھی شامل ہیں ، عوام سے خطاب کیا تھا ۔
لیکن۔تیس۔۔پینتیس برس ہوگئے ۔ آج تک اس میدان میںکسی جلسہ ، جلوس کی اجازت نہیںملی ۔
شیواجی پارک کی جو اہمیت پریل، لا ل باغ علاقہ کیلئے ہے ، وہی اہمیت ناگپاڑہ ، مدنپورہ ، بھنڈی بازار علاقوں کیلئے مستان تالاب کی تھی ۔۲۴ ؍فروری ۱۹۸۹ ء کے بعد سے وہ اہمیت ختم ہوگئی ۔
اب مستان تالاب میں کسی جلسہ کی اجازت نہیں دی جاتی ہے ،
مستان تالاب سے کوئی جلوس نکالنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے ،
جمعہ کے دن ، بعد نماز جمعہ کسی احتجاج کی اجازت نہیں دی جاتی ہے ،
کیوں ؟
پولس والے پرانا ریکارڈ دکھاتے ہیں ، دیکھو ، ۲۴ ؍فروری ۱۹۸۹ ء کے دن کیا ہوا تھا ؟
ممبئی پولس والے ۲۴ ؍ فروری ۱۹۸۹ ء کو نہیں بھولے ، ممبئی کے مسلمان بھول گئے ،
۲۴؍فروری ۱۹۸۹ء کو ممبئی کے مسلمانوں پر پائیدھونی ، محمد علی روڈ اور دیگر علاقوں میں بے تحاشہ فائرنگ ہوئی تھی ،
بارہ مسلمان شہید ہوئے ، دنیا بھر میںملعون سلمان رشدی کی کتاب کے خلاف ہونے والے احتجاج میں ممبئی کے مسلمانوں نے دنیا کی
سب سے بڑی قربانی پیش کی تھی ۔اور تیس برس میں اسے بھلا دیا گیا ؟
کیا اس زمانہ کے ایڈیشنل پولس کمشنر شنگاری کے وہ الفاظ سچ ثابت ہوئے ، جو انہوںنے کرافورڈ مارکیٹ پر فائرنگ سےقبل ایک انگریزی صحافی کے سامنے کہے تھے ؟
انہوں نے کہا تھا ؛ ’ ’ آج ہم ان مسلمانوں کو ایسا سبق سکھا دیں گے ، کہ وہ آئیندہ پچیس تیس برس احتجاج کرنا ہی بھول جائیں گے ۔
۲۴ ؍ فروری ۱۹۸۹ ء سے ۲۴ ؍ فروری ۲۰۱۹ ء اور ۲۰۲۴ تک ، تیس سے پینتیس برس ہو چکے ہیں ۔
ایک طرف جہاں ممبئی کے مسلمان سلمان رشدی ، اس کی کتاب ، اس کے خلاف احتجاج کو بھول چکے ہیں ، وہ یہ بھی بھول گئے کہ پوری دنیا میں ناموس ﷺ کے نام پر سلمان رشدی کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں سب سے بڑی قربانی ممبئی کے مسلمانوں نے پیش کی تھی ۔وہ ان بارہ مسلم نوجوانوں کو بھول گئے جو پولس فائرنگ کی وجہ سے اس دن شہید ہوئے تھے ۔