پندرہویں صدی ہجری کے اعلام بہار شریف و عظیم آباد (سابق ضلع پٹنہ) ( تیسری قسط)

طلحہ نعمت ندوی

۸ قاری حسان مکی

قاری حسان صاحب بہاری ثم مکی کا آبائی وطن بہارشریف اور والد کا نام عبدالسبحان تھا، ۷جمادی الاولی ۱۳۶۸ھ مطابق ۱۵ فروری ۱۹۴۸ کوان کی ولادت ہوئی ،انہوں نے بہارشریف کے مدرسہ اسلامیہ اور گیا کے مدرسہ انوار العلوم میں تعلیم کے بعد مدرسہ مظاہر العلوم میں داخلہ لیا ،اور ۱۳۸۸ھ میں تکمیل کی ،پھر کچھ سال مختلف مشاغل میں گذارکر تمام گھر والوں کے ساتھ مکہ مکرمہ منتقل ہوگئے ،اورپوری زندگی ،تعلیم وتربیت اور ارشاد وتبلیغ میں گذاری ،مدینہ میں بھی چند سال رہے ،حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کے اجل خلفاء میں تھے ۔اپنے علاقہ میں بھی مدرسہ کے قیام اور دعوت کی خدمات انجام دیں۔۳ جون۲۰۱۹ مطابق۲۰۱۲۸ رمضان المبارک ۱۴۴۰ھ کو کلکتہ میں وفات پائی اور اپنی خانقاہ واقع موضع دھرم پور(تحصیل علی گنج) ضلع جموئی میں دفن ہوئے ۔(تفصیل کے لئے دیکھئے تذکرہ خادم قطب الاقطاب از مولانا عبداللہ خالد مظاہری ،بہارشریف ۲۰۲۱ء)

پندرہویں صدی ہجری کے اعلام بہار شریف و عظیم آباد (سابق ضلع پٹنہ) ( تیسری قسط)
پندرہویں صدی ہجری کے اعلام بہار شریف و عظیم آباد (سابق ضلع پٹنہ) ( تیسری قسط)

۹۔ ڈاکٹرمختارالدین آرزو

مشہور فاضل ومحقق ،ماہر غالبیات ،ڈاکٹر مختار الدین آروزفرزند مولانا ظفرالدین قادری کا وطن قریہ رسول پور میجرہ (راجگیر)مضافات بہارشریف آبائی وطن تھا ،ملک برادری سے تعلق تھا ،ابتدائی تعلیم کے بعد مدرسہ شمس الہدیٰ پٹنہ میں عالمیت کی تکمیل کی پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں علامہ عبدالعزیز میمنی سے استفادہ کیا ،ان کی نگرانی میں ڈاکٹریٹ کے لیے صدر الدین علی بن ابی الفرج البصری کی کتاب الحماستہ البصریۃ کی تصحیح و تعلیق و تحشیہ کے عنوان سے تحقیقی مقالہ لکھا، جس پر ۱۹۵۲ء میں انھیں پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی۔ انھوں نے جنوری ۱۹۵۳ء میں بحیثیت لیکچرار شعبہ عربی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ملازمت کا آغاز کیا۔اس کے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے اوکسفورڈ چلے گئے اور ۱۹۵۶ء میں جامعہ اوکسفورڈ سے ڈی فل کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۵۸ء میں وہ علی شعبہ اسلامک اسٹڈیز علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ریڈر اور ۱۹۶۷ء میں اسی ادارے کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ یہاں سے انھوں نے اعلیٰ پائے کا علمی و تحقیقی رسالہ مجلہ علوم اسلامیہ کا اجرا کیا ۔ ۱۰ اپریل ۱۹۹۸ء کو مولانا مظہر الحق عربک اینڈ پرشینیونیورسٹی پٹنہ کے بانی وائس چانسلر مقرر ہوئے۔ ان کی اہم کتابوں میں کربل کتھا، سیر دہلی، تذکرہ آزردہ، تذکرہ گلشن ہند، تذکرہ شعرائے فرخ آباد، احوال غالب، حیاتِ ظفر، خطوطِ اکبر، حیات ملک العلماء، علمی مکتوبات، عبد الحق، دیوان حضور، کچھ بکھرے خطوط اور ذاکر صاحب کے خط شامل ہیں۔ مختصر علالت کے بعد۱۷ رجب ۱۴۳۱ھ مطابق۳۰ جون ۲۰۱۰ء کو علی گڑھ ہی میں وفات پائی۔(ان کے حالات پر دسیوں کتابیں اور مقالات آچکے ہیں،دیکھئے نذر مختاز از مالک رام )

۱۰۔ کلیم عاجز

کلیم عاجز کے والد کا نام کفایت حسین اور وطن تیلہاڑا تھا جو اب ایکنگر سرائے بلاک اور نالندہ ضلع میں ہے ،یہیں ۱۹۲۶ میں ان کی ولادت ہوئی ۔انہوں نے ابتدائی تعلیم وطن میں پھر پٹنہ میں حاصل کی ،تقسیم ہند کے فساد میں وطن کے ویران ہوجانے کے بعد پٹنہ میں مقیم ہوگئے اورتجارت سے وابستہ ہوگئے ،پھر یہیں سے ۱۹۵۳ء میں گریجویشن اور اس کے بعد ایم اے اردو کے امتحانات پاس کئے ،پھر پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی ،اور پٹنہ کالج میں لکچرار ہوگئے ، اور طویل مدت تک تدریسی خدمت کے بعد اسی عہدہ سے سبکدوش ہوئے ،لیکن ان کا اصل امتیاز ان کی شاعری اور غزل گوئی ہے جس نے پوری اردو دنیا سے زبردست خراج تحسین وصول کیا۔ان کی شعری ونثری دونوں یادگاریں بہت بڑی تعداد میں ہیں۔اور خود ان پر متعدد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔پٹنہ میں انہیں خصوصی اعزاز سے بھی نوازا گیا ، بین الاقوامی سطح پر ان کی شعری عظمت مسلم ہے۔اردو کی ملکی وصوبائی تنظیموں کے ذمہ دار اور رکن بھی رہے،تبلیغی جماعت کےامیر بہار بھی تھے اور سرگرم داعی اسلام بھی۔فروری۲۰۱۵ ربیع الثانی ۱۴۳۶ھ میں پٹنہ ہی میں وفات پائی۔(تفصیلی حالات کے لئے دیکھئے،کلیم عاجز کی خود نوشت ،نیز اب ایسا شکستہ حال غزل خواں نہ آئے گا از ڈاکٹر وسیم احمد مطبوعہ پٹنہ ،کلیم عاجز ،وہ ایک شاخ نہال غم از پروفیسر محسن عثمانی ندوی ،ودیگر کتب)

۱۱۔ قاضی عبدالودود

مشہور محقق قاضی عبدالودود کے والد قاضی عبدالوحید تھے اورآبائی وطن پٹنہ سیٹی تھا ،۸ مئی ۱۸۹۶کو اپنی نانہال کاکو (جہان آباد)میں پیدا ہوئے ۔ان کی ابتدائی تعلیم گھر ہی پر ہوئی ،چودہ سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کرلیا ،اور شام کے ایک قاری سے جن کو ان کی تعلیم کے لئے مقرر کیا گیا تھا انہوں نے قراءت بھی سیکھی لیکن بعد کی زندگی میں یہ ساری تعلیم ان کو بے کار معلوم ہوئی۔والد کے انتقال کے بعد وہ محمڈن اسکول پٹنہ سیٹی میں داخل ہوگئے ،پھر علی گڑھ گئے ،وہاں کچھ سال رہ کر پٹنہ واپس آگئے اور یہاں پٹنہ کالج سے ۱۹۲۰ میں گریجویشن کا امتحان دے کر سند حاصل کی ،۱۹۲۳ میں وہ اعلی تعلیم کےلئے برطانیہ گئے ،وہاں کیمبرج سے معاشیات کی ڈگری حاصل کی پھر قانون کی تعلیم حاصل کی اور سات سال کے بعد ۱۹۲۹ میں پٹنہ واپس آئے ،کچھ دن یہاں کی عدالت میں وکالت کرتے رہے ،اسی دوران تحریک آزادی میں بھی شامل رہے ،اس کے بعد معاشی فارغ البالی کی وجہ سے وکالت چھوڑ کر خود کو علمی وتحقیقی کا موں کے لئے وقف کردیا ،اور پٹنہ کی تعلیمی ،وملی اور سماجی سرگرمیوں میں مشغول رہے،اور پوری زندگی انہیں مشغلوں میں گذاری ۔دنیائے اردو میں تحقیق کے حوالے ان کی جو شناخت ہے وہ اہل علم سے مخفی نہیں۔سیکڑوں علمی مقالات ان کے قلم سے نکلے ، جن کے مجموعے ان کی وفات کے بعد شائع ہوئے۔پٹنہ میں اردو کی تحقیق کے لئے اپنا ایک ادارہ بھی قائم کیا ۔انہیں صدر جمہوریہ ہند کی طرف ان کی علمی خدمات پر اعزاز بھی عطا کیا گیا ۔۲۵ جنوری ۱۹۸۴ مطابق ۲۲ربیع الثانی ۱۴۰۴ھ کو پٹنہ ہی میں اپنی رہائش گاہ پر وفات پائی اور پیر موہانی قبرستان پٹنہ میں آسودہ خاک ہوئے۔(رسائل میں معاصر پٹنہ اور غالب نامہ دہلی نے ان کی وفات کے بعد ان پر خصوصی شمارے شائع کئےجن میں ان کے تفصیلی حالات دیکھے جاسکتے ہیں۔)

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare