موجد تسطیر ڈاکٹرطارق منظور
معصوم مرادآبادی
ڈاکٹر طارق منظور سے میری شناسائی کا دورانیہ کوئی چار دہائیوں کو محیط ہے۔ میں نے انھیں سب سے پہلے نوّے کی دہائی کے شروع میں ہفتہ وار ”اخبارنو“ کے دفتر میں دیکھا تھا۔یہ ان کی جوانی کا دورتھا اور وہ عملی زندگی میں قدم رکھ رہے تھے۔ مجھے ان کی جس ادا نے متاثر کیا ، وہ ان کے کا کام کرنے کا سلیقہ اور قرینہ تھا۔ نہ جانے کیوں مجھے ایسے لوگوں سے عقیدت ہوجاتی ہے جو اپناکام سلیقے اور ہنرمندی کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔چاردہائیوں پہلے استوار ہونے والا یہ رشتہ آج بھی اسی سرگرمی اور محبت کے ساتھ برقرار ہے۔

ڈاکٹر طارق منظور کی پیدائش 24دسمبر 1955کو بستی جیسی مردم خیز’بستی ‘ میں حکیم منظوراحمد کے ہاں ہوئی۔انھوں نے اردو اور تاریخ میں پوسٹ گریجویشن کیا اوراردو میں دوہے پر قابل قدر کام کیا ۔ دوہے سے متعلق بنیادی غلط فہمیوں پر ان کا مقالہ علمی و ادبی حلقوں میں بحث کا موضوع بنا۔اب تک ملک کے موقر اخبارات وجرائد میں ان کے دوسو سے زائد مضامین شائع ہوچکے ہیں۔ ادب کے ساتھ انھیں صحافت سے بھی دلچسپی رہی ہے۔ وہ ہندی اور اردو کے کئی بڑے اخبارات کی مجلس ادارت میں شامل رہ چکے ہیں۔ وہ اخبارات وجرائد کی ادارت اور صورت گری میں یکساں کمال رکھتے ہیں۔ انھوں نے ”دہلیزجدید “ کے نام سے ایک کامیاب جریدہ بھی شائع کیا۔انھیں ریڈیو اور دوردرشن سے وابستہ رہنے کا موقع بھی ملا۔ادب وشاعری پرپانچ مستقل کتابوں کے علاوہ بچوں کے لیے ان کی 27 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔وہ کئی قومی اور بین الاقوامی سیمیناروں میں شرکت کرچکے ہیں۔
طارق منظور نے اردو کے شعری ادب میں صنف تسطیر کا اضافہ کیا۔انھیں نثر ونظم دونوں پر عبور حاصل ہے ۔ ہندی اور اردو میں یکساں کمال کے ساتھ لکھتے ہیں ۔ ادب ، شاعری ،صحافت ، تنقید ، بچوں کا ادب گویا وہ لکھنے لکھانے کے ہرمحاذپر سرگرم نظر آتے ہیں اور اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔
ان کی غزلوں کا پہلا مجموعہ ”خوشبو کچے مکان کی “1987میں شائع ہوا تھا۔ اس کے بعد 1993 میں ان کے نثری مضامین کا مجموعہ ”تنقیدی تحریریں“ کے عنوان سے شائع ہوا۔ 1995 میں شائع ہونے والا ”دوہا سنسار“ ہندی اور اردو میں دوہوں کا مجموعہ تھا۔تسطیرپر ان کی پہلی کاوش ”نئی تلاش “ کے عنوان سے 1997میں منظرعام پر آئی ۔اس کے بعد تسطیرات پر مشتمل ایک مجموعہ ”ورق ورق تسطیر“ کے نام سے شائع ہوا ۔ تازہ مجموعہ اسی کی توسیع ہے ، جس میں چھ سو تسطیرات شامل ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ
” عام انسان جس واقعہ کو سرسری اور غیراہم سمجھ کر نظرانداز کردیتا ہے ، شاعر کا خلاق ذہن اس سے نئی جہت پیدا کرتا ہے۔تسطیر بھی ایسے ہی خلاقانہ ذہن کی اختراع ہے جسے اردو کے شعری ادب میں ہیئت کا ایک منفرد اور دلچسپ تجربہ کہنے میں مجھے کوئی تذبذب نہیں ہے اور اس تجربے کی شروعات راقم السطور کے ہاتھوں غیر شعوری طورپرہوئی۔“
شعری میدان میں ڈاکٹر طارق منظور سب سے پہلے ساحر لدھیا نوی سے متاثر ہوئے۔ بعد کو انھوں نے ترقی پسند جدید غزل کی پیروی کی ۔ نظم کے میدان میں وہ حرمت الاکرام کی نظم ”کلکتہ ایک رباب “ سے بہت متاثر ہوئے ۔شعرگوئی کا جب خیال آیا تو سب سے پہلے دوہوں کی طرف متوجہ ہوئے اور انھوں نے جمیل الدین عالی کے دوہوں کو مسترد کیا ۔ اس کے بعد اہل فن ان کی طرف متوجہ ہوئے۔ جمیل الدین عالی پران کے اعتراضات کو قبول کرتے ہوئے ندافاضلی جیسے شاعر نے ان کی فنی پیروی کی۔دوہوں پر زورآزمائی انھوں نے1976میں انٹر میڈیٹ کے بعد ہی شروع کردی تھی۔
علی گڑھ کے مختصر تعلیمی قیام میں انھیں قطعہ نگار اخترانصاری کے ہاں برپا ہونے والی محفلوں میں شریک ہونے کا موقع ملا ۔ ان ہی محفلوں میں وہ طارق چھتاری ، غیاث الرحمن ، اسعد بدایونی ، شہپر رسول اور نیازجیراجپوری وغیرہ کے حلقہ احباب میں شامل رہے۔علی گڑھ سے شائع ہونے والے پندرہ روزہ جریدے ”خیروخبر“ میں ان کا افتتاحیہ کالم شائع ہوتا تھا۔اردو کے ساتھ ساتھ ہندی ادب وصحافت میں بھی انھیں یکساں مقبولیت حاصل رہی۔ انھوں نے دشینت کمار کے مجموعہ ”سائے کی دھوپ “ پر جو سیرحاصل تبصرہ لکھا ، اسے کملیشور نے ”ساریکا “ میں اہتمام سے شائع کیا اور ہندی حلقوں میں اسے خاص طورپر پسند کیا گیا۔اب ان کی پہچان کا حوالہ تسطیر ہے جس کے وہ خود موجد ہیں۔ یہ شاعری کی بالکل نئی صنف ہے۔
میں شاعری کا پارکھ نہیں ہوں ۔ اس لیے اس پر کوئی حتمی رائے نہیں دے سکتا۔ نثر میرا میدان ہے اور صحافت کے راستے سے اس میں داخل ہوا ہوں۔ نثر لکھنے والے کی مجبوری یہ ہے کہ نثرکبھی مکمل نہیں ہوتی جبکہ شعر کہنے والے کی سہولت یہ ہے کہ وہ اسے ابتدائی تراش خراش کے بعد مکمل کرلیتا ہے۔ اس طرح میری اس نثری تحریر پرڈاکٹر طارق منظورکی تسطیر کو فوقیت حاصل ہے۔ وہ اردو شاعری کی جملہ اصناف میں مہارت رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری میں آمد ہی آمد ہے اور کہیں بھی آورد کا گمان نہیں ہوتا۔ وہ اب تک تین ہزار تسطیرات کہہ چکے ہیں ۔ بابا فرید سے لے کر امیرخسرو ، قلی قطب شاہ ، میر، غالب اور مومن سے لے کر موجودہ دورتک کوئی ایسا قابل ذکر شاعر نہیں جس کے کلام کی انھوں نے تسطیر نہ کی ہو۔انھوں نے سنجیدہ شاعری کو تسطیر کے ذریعہ طنز ومزاح کے انداز میں بدل دیا ۔
تسطیر کیا ہے اور یہ کب ایجاد ہوئی ؟ اس سوال کا جواب خود دینے کی بجائے ڈاکٹر طارق منظور نے اس کتاب میں شبنم شیخ کا ایک سیرحاصل مضمون شامل اشاعت کیا ہے۔وہ لکھتی ہیں کہ ” تسطیر تضمین ہی کی ایک ترقی یافتہ شکل ہے ، جس کا اپنا ایک مخصوص نظام ہے۔ اس میں شعر کے دونوں مصرعوں کو الگ الگ کرکے جگہ بنائی جاتی ہے اور اس خالی جگہ میں عروض کی تمام پابندیوں کی پاسداری کرتے ہوئے دونوں مصرعوں کے درمیان تسطیر نگار اپنے وضع کردہ دومصرعے پیوست کرتا ہے اور اس طرح چارمصرعوں کا ایک قطعہ وجود میں آتا ہے اور اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ قاری کو اس میں طنز ومزاح کی چاشنی کا لطف حاصل ہوسکے ۔مثال دیکھئے ۔ مجازکا مقبول شعر ہے
بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا
تری زلفوں کا پیچ وخم نہیں ہے
مذکورہ شعر پر ڈاکٹر طارق منظور کی تسطیر ملاحظہ فرمائیں۔
بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا
خبر یہ سانحے سے کم نہیں ہے
بھلا کتے کی دم سیدھی ہوکیسے
تری زلفوں کاپیچ وخم نہیں ہے