امام عالی مقام سیدنا امام حسین صبر و رضا کے عظیم پیکر

حافظ افتخاراحمدقادری

امام عالی مقام حضرت سیدنا امام حسین رضی الله تعالیٰ عنہ کی زندگی انسانی معاشرے کے لیے ہر لحاظ سے نصیحت آموز اور نمونہ عمل ہے۔ آپ رضی الله تعالیٰ عنہ کی زندگی کا انفرادی، سماجی و سیاسی، معاشی و انتظامی پہلوؤں سے مطالعہ کرنا معاشرے کے لئے بہت سود مند ہے۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ اس عظیم الشان شخصیت کی سیرت کا ہم نے اکثر انفرادی نقطہ نظر سے جائزہ لیا، محدود نظریہ اور کج فکری سے آپ کو پہچانا لیکن آپ رضی الله تعالیٰ عنہ کی حیاتِ مبارک کے اصل پہلو کو عموماً نظر انداز کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی بہت سے ایسے افراد ہیں جو اس عظیم المرتبت شخصیت کی فضلیت، شان و عظمت اور مقام و مرتبہ سے نابلد ہیں جبکہ اس پاک ذات کی فضیلت میں حضورِ اقدس ﷺ سے متعدد روایات نقل ہوئی ہیں۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں: ’’حسن و حسین جنتی جوانوں کے سردار ہیں‘‘۔(خطباتِ محرم) ارشاد فرمایا: ’’حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں‘‘۔(خطباتِ محرم) امام عالی مقام حضرت سیدنا امام حسین رضی الله تعالیٰ عنہ کی فضیلت، شان و عظمت خود حضورِ اقدس ﷺ بیان فرما رہے ہیں۔

امام عالی مقام سیدنا امام حسین صبر و رضا کے عظیم پیکر
امام عالی مقام سیدنا امام حسین صبر و رضا کے عظیم پیکر

کربلا کا تاریخ ساز واقعہ محرم الحرام 61 ہجری میں رونما ہوا جو تاریخ انسانیت کے ایک اہم ترین مذہبی، سیاسی و سماجی تحولات میں سے ایک ہے۔ اس واقعہ کا ایک ایک لمحہ انسانیت کے لئے ایک درسگاہ ہے جس کا صحیح تجزیہ کرنا ضروری ہے تاکہ کربلا کی تحریک سے ہر ممکن حد تک استفادہ حاصل کیا جاسکے۔ تاریخ شاہد ہے کہ آج سے تقریباً چودہ سو سال قبل یزید نے مدینہ منورہ میں تعینات اپنے گورنر کو لکھا کہ حسین ابن علی، عبدالله بن زبیر اور عبدالله بن عمر کو بلاؤ اور ان سے میری بیعت کی دعوت دو۔ اگر وہ بیعت سے انکار کردیں تو ان کا سر قلم کر دو۔ اس کے جواب میں نواسہ رسول، فرزند علی و بتول، امام عالی مقام حضرت سیدنا امام حسین رضی الله تعالیٰ عنہ نے جرائت و جواں مردی اور بہادری سے تاریخی جملہ ارشاد فرمایا: ”مجھ جیسا تجھ جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا“۔(تاریخ کربلا) اس تاریخی جملے سے تحریک کربلا کا اصل ہدف اور نصب العین واضع ہوگیا۔ حضرت سیدنا امام حسین رضی الله تعالیٰ عنہ کے اس چھوٹے مگر خوبصورت جملے نے یزید ابن معاویہ کو للکارا اور حق و باطل کے فاصلے کی بے نظیر مثال قائم فرمائی۔ بدنصیبی یہ کہ ہم نے قیام کربلا کو ایک حادثہ سمجھا ہے۔ امام عالی مقام واقعاً مظلوم تھے۔ یزیدی افواج نے امام عالی مقام اور آپ کے اصحاب و انصار اور اہل بیت پر ایسے مظالم ڈھائے جن کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ بلاشبہ تحریک کربلا ایک مصمم ارادہ والی تحریک تھی۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی تحریک نہیں تھی بلکہ باطل نظام، فاسق و فاجر نظام کے خلاف علی الاعلان تحریک تھی جس کا ایک ایک مجاہد جواں مردی، بہادری، شجاعت و دلیری، صبر و رضا، مزاحمت و استقامت کی مثال تھا۔ حضرت سیدنا امام حسین رضی الله تعالیٰ عنہ نے شعوری طور پر شہادت کا انتخاب کیا۔ نہ صرف مدینہ سے سفر کے آغاز اور روضہ رسول ﷺ کی الوداعی رات یا مکہ مکرمہ سے سر زمین عراق تک کے سفر میں بلکہ برسوں پہلے ہی سے معلوم تھا اور رسول خدا ﷺ کے زمانے میں ہی شہادت سے خبر دار تھے۔ امام عالی مقام حضرت سیدنا امام حسین رضی الله تعالیٰ عنہ نے علی الاعلان اپنے قیام کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے قیام کا مقصد امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہے۔ میرے قیام کا مقصد رسول الله ﷺ کی امت کی اصلاح، آپ ﷺ کی سنتوں اور قوانین الٰہی کا احیا ہے جنہیں یزید ملعون نے پائمال کیا تھا۔ نہضت کربلا کا یہ ہدف اس قدر عظیم ہے کہ امام فرماتے ہیں کہ آپ نہیں دیکھتے ہیں کہ حق کو روندا جارہا ہے اور باطل کو روکا نہیں جا سکتا۔ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کی طرف روانگی کے وقت سید الشہداء حضرت امام حسین رضی الله تعالیٰ عنہ نے جو وصیت لکھی اس میں آپ نے توحید کی آفاقی حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے بعد فرمایا میں خود خواہی یا سیر و تفریح کے لئے مدینہ سے نہیں نکل رہا اور نہ ہی میرے سفر کا مقصد فساد و ظلم ہے بلکہ میرا مقصد امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اپنے اس سفر کے دوران امت کے مفاسد کی اصلاح کروں۔ رسول الله ﷺ کے قوانین اور ان کی سنتوں کو زندہ کروں۔

چونکہ عاشورا کے کلچر میں یزید بذات خود ایک بہت بڑی برائی ہے۔ اس الٰہی کلچر میں جب برائی سر نکالتی ہے تو اس کے خاتمہ کے لئے چھ ماہ کا معصوم بھی اپنے گلے پر تیر کھانے کے لئے نکلتا ہے۔ نوجوانوں کو شہادت قند سے زیادہ شیریں لگتی ہے۔ عاشورائی کلچر کے یہ سرفروش سینہ تان کے نکلتے ہیں اور دین محمدی کی آبیاری کے لئے قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔ اپنے آپ کو خلیفۃ المسلمین کہنے والا یزید دین محمدی کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ان حالات میں حضرت سیدنا امام حسین رضی الله تعالیٰ عنہ کے پاس دو ہی آپشن تھے۔ مزاحمت یا بیعت۔ مزاحمت کا نتیجہ شہادت یا حکومت الٰہی کا قیام تھا اور بیعت کا نتیجہ اسلام کی رسوائی اور تباہی تھی۔ آپ نے مزاحمت کا راستہ انتخاب کیا اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا علم بلند کیا، امت کو بنی امیہ کے خطرات سے خبردار کیا۔ امام عالی مقام نے سب کو یزید پلید اور اس کے کارندوں کے خلاف مزاحمت کی دعوت دی۔ ایک غیر مسلم مؤرخ لکھتا ہے: ’’اپنے عزیز ترین لوگوں کی قربانی دے کر حسین نے دنیا کو قربانی کا سبق سکھایا، اسلام اور مسلمانوں کا نام تاریخ میں درج اور دنیا میں روشن کیا، اگر ایسا واقعہ رونما نہ ہوتا تو یقینی طور پر آج اسلام اپنی اصلی حالت میں باقی نہیں رہتا۔‘‘(تاریخ کربلا) عاشورہ کا واقعہ جو حق و باطل کے درمیان خونریز معرکہ تھا اگرچہ بظاہر اصحاب حق کی شہادت ہوئی لیکن درحقیقت انہوں نے عظمت و بزرگی اور ایمان و یقین کے ایسے مظاہر دکھائے جو تاریخ کے اوراق میں آج بھی سنہری حروف سے درج ہیں۔ حقیقی معنوں میں آپ نے اپنے اہداف و مقاصد حاصل کر لئے۔ کربلا کے ان جانثاروں نے لوگوں کو فخر و آزادی کا راستہ دکھایا۔ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ڈوبتی ہوئی انسانیت کو نجات کے شمع دکھائی۔

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

 پس وقت کا تقاضا ہے کہ امت مسلمہ کربلا کے ایک ایک کردار کو اپنا رول ماڈل بنائیں۔ محفل امام حسین کے انعقاد کے ساتھ ساتھ ان کی سیرت کو بھی اپنائیں۔ جب تک کربلا کے جانبازوں کے کردار، افکار و نظریات کو ہم معاشرے میں نافذ نہیں کریں گے تب تک کربلا کے اصل ہدف اور مقصد کو حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ یہ واقعہ تاریخ اسلام کا ایک اہم باب ہے۔ بلاشبہ یہ ایک ایسا المیہ ہے جس کا ذکر رہتی دنیا تک ہوتا رہے گا اور ہر دور اس امر کی گواہی دیتا رہے گا کہ حق و باطل کی باہمی رزم آرائی کا سلسلہ ازل سے ابد تک جاری ہے۔ آدم و ابلیس کے درمیان چپقلش پیدا ہوئی تھی وہ بعد ازاں ہر عہد میں حق و باطل کی مختلف طاقتوں کے درمیان برپا رہی۔ قرآن مجید کی تعلیمات اور اسوہ رسول الله ﷺ سے ہم پر یہ حقیقت منکشف ہو جاتی ہے کہ حقیقی اسلام کا پیش کردہ دستورِ زندگی کسی خاص انسان، کسی گروہ، ملک یا دور تک محدود نہیں کیونکہ رب العالمین کا یہ آفاقی نظامِ رحمت و برکت تمام بنی نوع انسان کی ہمہ گیر فلاح و بہبود اور ہدایت و ترقی کے لئے ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی رحمت بھی تمام جہانوں کے لئے ہے نہ کہ صرف ایک قوم تک۔ اس لئے کسی انسان کو یہ حق نہیں دیا گیا کہ وہ خدا کے بندوں کو اپنا بندہ و غلام بنائے۔ یزید چونکہ موروثی طور پر جبرا اپنے آپ کو لوگوں کا حاکم بنوانے پر تلا ہوا تھا جب کہ حضورِ اکرم ﷺ کے تربیت یافتہ، فاطمہ کے لخت جگر اور علی مرتضیٰ کے نور نظر کسی صورت میں بھی جبر و اسبتداد اور فسق و فجور پر مبنی نظام سیاست و حکومت کے حامی نہیں ہوسکتے تھے۔ اسلام تو حقیقی جمہوری اور شورائی نظام سیاست کو فروغ دینے کا علمبردار ہے۔ قرآن مجید میں ہے: حکومت صرف الله کے لئے ہے نظریہ اسلام کے پیرو کاروں پر یہ فرض قرار دیا گیا کہ وہ انسانی دستورِ حیات کے بجائے خالق کائنات اور مالک ارض و سموٰت کے نظام کو قائم کریں۔ خلافت اور ملوکیت دو متضاد نظام ہیں۔ خلافت کے نظام میں انسان خدا کے احکام و فرامین کے مطابق اپنے جملہ معاملات طے کرتا ہے جبکہ ملوکیت میں آمریت کے سہارے انسان اپنے احکام کو جبراً نافذ کرنے کا عادی ہوتا ہے۔ محسن انسانیت بنی نوع انسان کو ان تمام انسانی زنجیروں سے آزاد کرانے آئے تھے جنہوں نے انسانوں کو مختلف طرح کے اوہام، باطل نظریات، ظالمانہ قوانین اور انسانیت سوز عادات و رسوم میں جکڑا ہوا تھا۔ شہید کربلا حضرت سیدنا امام حسین رضی الله تعالیٰ عنہ نے اسی اسلامی نظریہ حیات کے تحت یزید کی ملوکیت اور اس کی جبری بیعت کو قبول کرنے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ اس کے خلاف بہادری سے نبرد آزما بھی ہوئے اور اس مقصد کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ نے میدان کرب و بلا میں اپنی اور اپنے جاں نثار عزیز ساتھیوں کی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا۔ آپ نے بڑی شجاعت و استقامت، اصول پسندی، اسلام دوستی اور صبر و رضا کے ساتھ اپنے وقت کے جابر و فاسق کے خلاف کلمہ حق بلند کرتے ہوئے اس حدیث پاک پر عمل کرکے دکھایا: ظالم سلطان کے سامنے حق کی بات کرنا بہترین جہاد ہے۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ انسان جس مقصد کے لئے جان دیا کرتا ہے وہ مقصد اسے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہوتا ہے۔ اگر وہ مقصد عزیز تر از جان نہ ہو تو پھر آدمی اپنی جان کی قربانی دینے سے گریز کرتا ہے۔ اسلام کی آبرو بچانے کے لئے صبر و رضا کے اس عظیم پیکر نے کربلا کے لق دق صحرا میں اپنا خون بہا کر اسے گلزار بنا دیا۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare