اردو صحافت اور محمد مسلم
معصوم مرادآبادی
آج عہد ساز اردو روزنامے ” دعوت” کے سابق ایڈیٹر محمد مسلم کا یوم وفات ہے۔ انھوں نے آج ہی کے دن یعنی 3 جولائی 1986 کو دہلی میں وفات پائی تھی ۔ محمد مسلم نے اپنی تمام زندگی ملی اور صحافتی خدمات میں صرف کی۔ 1953 سے لے کر تادم آخر ’دعوت‘ کے مدیر کی حیثیت سے تقریباً 34 سال وہ اردو صحافت سے وابستہ رہے۔ مسلم صاحب کی پیدائش 20ستمبر 1920 کو بھوپال کے محلہ جہانگیرآباد میں ہوئی۔ اردو، عربی، فارسی اور انگریزی کی تعلیم گھر پر ہی اپنے نانا سے حاصل کی۔ 1935 میں ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا اور 1938میں بھوپال کے قدیم روزنامے ’ندیم‘ سے بطور سب ایڈیٹر وابستگی اختیار کی۔ یہیں سے ان کی صحافتی زندگی کا آغاز ہوا۔ 1947میں باقاعدہ ’ندیم‘ کی ادارت سنبھالنے کے بعد اپنی بے باکی اور جرأت مندی کا مظاہرہ کیا اور 1948 میں قید کرلئے گئے۔ چند مہینے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد رہا ہوئے۔ اس سے قبل 1946 کی غذائی تحریک کو ناکام کرنے کی غرض سے چلائی گئی مہم میں انہیں جیل جانا پڑا تھا۔ 1953 میں بھوپال سے ’ندیم‘کی ادارت سے سبکدوش ہوکر ’دعوت‘ کے مدیر معاون کے طور پر دہلی تشریف لائے اور تمام عمر یہیں بسر کی۔ 1956 میں باقاعدہ ’دعوت‘ کے مدیر مقرر ہوئے اور اس طرح 1982 تک اپنے مخصوص طرز نگارش اور لب ولہجے کے سبب اردو صحافت میں مقبول ہوتے چلے گئے۔

میں نے محمد مسلم صاحب کی صحافتی خدمات کے بارے میں کچھ پرانے کاغذات، کتابوں اور مجلوں کی ورق گردانی شروع کی تو اس سلسلے کی سب سے کار آمد چیز وہ مجلہ محسوس ہوا جو لکھنؤ میں منعقدہ آل انڈیا اردو ایڈیٹرس کانفرنس کے دوسرے اجلاس کے موقع پر شائع ہوا تھا۔ یہ کانفرنس 17 تا 19 نومبر 1973 کو لکھنؤ میں منعقد ہوئی تھی۔ اس نہایت کار آمد مجلہ کے مرتب اردو ایڈیٹرس کانفرنس کے بانی صدر ہاشم رضا عابدیؔ الہ آبادی مرحوم تھے۔ مجلے کے پہلے صفحے پر محمد مسلم صاحب کا نام ہاتھ سے لکھا ہوا دیکھ کر مجھے کچھ تجسس گزرا۔ اندازہ ہوا کہ یہ مجلہ در اصل مسلم صاحب کی ملکیت تھی اور کسی نے اسے عاریتاً لیا ہوگا اور مختلف ہاتھوں سے گزر کر اس کی فوٹو کاپی مجھ تک پہنچی۔ اس مجلہ میں ہمارے عہد کے اہم ترین صحافیوں کے ساتھ محمد مسلم صاحب کا ایک مضمون بھی شامل تھا جو انہوں نے اردو اخبارات کے مسائل پر قلم بند کیا ہے اور صفحہ 63 پر موجود ہے۔ دو صفحات کے اس مختصر مضمون میں محمد مسلم صاحب نے اردو اخبارات اور اخبار نویسوں کے مسائل پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آج سے لگ بھگ نصف صدی پہلے اردو صحافت جن مسائل سے جوجھ رہی تھی ان میں آج تک کوئی بڑی تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے۔ اگرچہ اخبار سازی اور طباعت کی تکنیک یکسربدل گئی ہے اور نئی ٹکنالوجی نے اردو اخبارات کی دنیا میں انقلاب برپا کیا ہے۔ وہ اخبارات جو کسی زمانے میں لیتھو مشینوں پر دقت پسند کاتبوں کی خوبصورت مگر دیر طلب کتابت سے آراستہ ہوتے تھے ان کی جگہ اب رنگین ویب مشینوں اور کمپیوٹروں نے لے لی ہے۔ آج اردو کا اخبار نکالنا جتنا آسان ہے اتنا اس سے پہلے کبھی نہیں تھا۔ تکنیکی انقلاب نے جہاں اردو اخبارات کو بے پناہ سہولتیں فراہم کی ہیں، وہیں ان سہولتوں کا فائدہ اٹھا کر اردو صحافت میں کچھ ایسے عناصر بھی داخل ہوگئے ہیں جو محض مفادات حاصلہ اور کاروبار کرنے کیلئے اخبار نکالتے ہیں۔
مسلم صاحب اردو صحافیوں کی جس اعلیٰ نسل سے تعلق رکھتے تھے، اس نسل کے لوگ اب قطعی ناپید ہوچکے ہیں۔ آزادی کے بعد کے صحافیوں میں مولانا عبدالماجد دریابادی، مولانا عثمان فارقلیط، حیات اللہ انصاری، جمیل مہدی، عشرت علی صدیقی، محمد مسلم اور ناز انصاری جیسے کہنہ مشق صحافیوں کی ایک طویل فہرست ہے جس پر نظر ڈالنے سے اردو صحافت کے شاندار ماضی کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ اسی صف کے ایک صحافی محمد صلاح الدین کراچی سے شائع ہونے والے روزنامہ ’جسارت‘ اور بعد کو ہفتہ وار ’تکبیر‘ کے ایڈیٹر ہوئے اور جنہیں پاکستان کی ظلمت پسند طاقتوں نے نہایت بے دردی سے قتل کردیا۔ مجھے ان سے نیاز حاصل تھا۔ 80 کی دہائی میں کراچی میں اس کے بعد دہلی میں ان کے ایک سفر کے دوران ’دعوت‘ کے دفتر واقع سوئیوالان میں ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ صلاح الدین صاحب کے علاوہ ہندوستان میں جن صحافیوں سے نیاز حاصل کرنے کا موقع ملا ان میں حیات اللہ انصاری، سلامت علی مہدی، ظ انصاری، محمد سلیمان صابر، ناز انصاری، محفوظ الرحمن اور سعید سہروردی ایسے نام ہیں جن کی محبت اور شفقت سے مجھے بہت کچھ سیکھنے اور سمجھے کا موقع ملا، لیکن افسوس کہ محمد مسلم صاحب سے کبھی ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہوا۔ البتہ ان کا تذکرہ اپنے مشفق و محترم بزرگ مولانا افتخار فریدی اور محترم دوست جاوید حبیب مرحوم کی زبانی بار بار سنتا رہا اور اس بات پر ملال رہا کہ کاش مجھے بھی مسلم صاحب سے شرف نیاز حاصل ہوتا۔
مسلم صاحب کو قریب سے جاننے والوں نے ان کے جو شخصی اوصاف بیان کئے ہیں، ان کے مطابق وہ ایک متوازن اور سلجھے ہوئے ذہن کے انسان تھے۔ ملی مسائل کے بارے میں وہ تعمیری اور دور اندیشانہ نقطہ نگاہ رکھتے تھے۔ جذباتیت کے بجائے تحمل اور بردباری سے کام لیتے تھے۔ مزاج میں بلا کی انکساری، عاجزی اور سادگی تھی۔ اردو صحافت کیلئے ان کی خدمات کا جائزہ لیتے وقت یہ محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے اسے ایک بڑے مشن اور مقصد کے تحت اختیار کیا تھا۔ ان کی سب سے بڑی دین سہ روزہ ’دعوت‘ کا وہ معیار تھا جو اس کے ساتھ ختم ہوگیا۔ اگرچہ دعوت کے بانی مدیر اصغر علی عابدی مرحوم تھے۔ عابدی صاحب کے بعد یہ ذمہ داری پوری طرح مسلم صاحب کے کاندھوں پر آپڑی اور انہوں نے بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ اسے نبھایا۔ اپنی ادارت کے زمانے میں انہوں نے اخبار کے علاوہ اپنی سرگرمیوں سے مسلم نوجوانوں میں دینی اور سیاسی بیداری پیدا کی۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ مسلم تنظیموں کا وفاق قائم کرنا تھا۔ اگرچہ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے سرخیل مفتی عتیق الرحمن عثمانیؒ تھے لیکن اس کی تشکیل میں مسلم صاحب کی کوششوں کو کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
مسلم صاحب اپنے دور کے صف اول کے صحافیوں میں شمار ہوتے تھے۔ بھوپال میں ’ندیم‘ سے وابستہ ہونے سے پہلے وہ خاکسار تحریک سے وابستہ رہ چکے تھے۔ ان کا مزاج بنیادی طور پر تحریکی تھا اور مزاج کی یہی کیفیت انہیں جماعت اسلامی کے قریب لائی۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا نظام الدین کے بقول ”وہ صحافت کو صرف پیشہ نہیں بلکہ ایک مقدس مشن سمجھتے تھے اور لکھتے وقت برابر ان کو یہ احساس رہتا تھا کہ قلم سے کوئی ایسی بات نہ نکل جائے جو آخرت کی رسوائی کا باعث ہو۔“
اخبار نویس کے طور پر مسلم صاحب کی نگاہ صرف اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ وہ اردو اخبارات کے مسائل اور مصائب پر بھی بھرپور دسترس رکھتے تھے۔ اب سے 53 برس پہلے انہوں نے اردو صحافت کے مسائل پر جن خیالات کا اظہار کیا تھا ان میں سے بیشتر اب بھی جوں کے توں ہیں۔ یہ مسائل خواہ اردو اخبار ات کی توسیع اشاعت سے تعلق رکھتے ہوں یا معاملہ اچھے تیز صحافیوں اور مترجموں کا ہو۔ اپنے مضمون کے آغاز میں محمد مسلم صاحب نے یہ لکھا ہے کہ:
”یہ حقیقت سب ہی جانتے ہیں کہ 1947 کے بعد مختلف اسباب وعوامل کی بنا پر اردو زبان کو ہمارے ملک میں زبردست محرومیوں سے واسطہ پیش آیا لیکن اسی کے ساتھ اس حقیقت کا بھی اعتراف کرنا ہوگا کہ اردو زبان اتنی سخت جان، سخت کوش اور اتنی طاقت ور بھی ہے کہ آج بھی ملک کے ہر صوبے میں اس کو بولنے اور سمجھنے والوں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔ اس کی کتابیں ملک کے چپے چپے میں پڑھی جاتی ہیں اور کشمیر سے کیرالہ اور آسام سے کَچھ تک ان کی مانگ ہے۔“
محمد مسلم صاحب نے ملک کی مختلف ریاستوں سے شائع ہونے والے اردو اخبارات کی تعداد اشاعت کا جائز ہ پیش کرتے ہوئے آگے لکھا ہے کہ:
”یہ تو اردو کا ایک پہلو ہے جو واقعی بڑا دل خوش کن ہے لیکن اس کا دوسرا تاریک پہلو بھی نگاہ میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ جو یہ ہے کہ اردو زبان کے اخبارات اتنی ہمہ گیری کے باوجوو پسماندہ ہوتے چلے جارہے ہیں اور یہ افسوس ناک حقیقت تسلیم کرنے میں ہمیں کوئی تکلف بھی نہیں ہونا چاہئے۔ 1947میں اردو اخبارات دوسری زبانوں کے اپنے ہم عصروں سے جس طرح لوہا لیتے تھے بلکہ ان سے تیز چلنے کی کوششیں کرتے تھے، آج کے اردو اخبارات دوسرے ہم عصروں سے ہی نہیں بلکہ 25 سال پہلے کی اردو صحافت سے بھی پست تر ہوگئے ہیں۔ 1947 سے پہلے ادب، قانون، معاشیات، مذہب، معاشرت، فنون لطیفہ، صنعت و حرفت، طب، تعلیم اور مختلف علوم وفنون کا اچھا مرقعہ ہوتے تھے اور اپنے وقت کی ترقی یافتہ صحافت کے شانہ بشانہ چلتے تھے۔ اس وقت یہ سب میدان سمٹ گئے ہیں اور یہ باصلاحیت ترقی یافتہ صحافت صرف اپنے وجود کو بچائے رکھنے میں مصروف ہے۔ پسماندگی کے اس دور میں ناگزیر ہے کہ اردو صحافت کو ایک کمزور تر صحافت قرار دے کر ایک مسئلے کی حیثیت سے اس کی حالت سدھارنے کی کوشش کی جائے۔“