Follow Us

عبداللہ حسین کی دسویں برسی

معصوم مرادآبادی

آج اردو کے ممتاز ترین ناول نگار عبداللہ حسین کی دسویں برسی ہے۔ انھوں نے آج ہی کے دن یعنی 4/جولائی2015 کو لاہور میں وفات پائی۔ انتقال سے دوبرس قبل میری ان سے لاہور میں اس وقت ایک دلچسپ ملاقات ہوئی تھی جب میں الحمراء آرٹس کونسل کی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کرنے وہاں گیا تھا۔ اردو فکشن کی دنیا میں عبداللہ حسین کی مقبولیت کا واحد حوالہ ان کا شہرہ آفاق ناول ”اداس نسلیں“ ہے۔حالانکہ اس کے بعد بھی فکشن سے متعلق ان کی کئی کتابیں منظرعام پرآئیں، لیکن جو مقبولیت ”اداس نسلیں“ کو حاصل ہوئی وہ کسی اور کو نہیں حاصل ہوسکی۔ اب تک ”اداس نسلیں“ کے پچاس ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جب وہ یہ تاریخ سازناول لکھ کر اشاعت کے لیے ایک پبلشر کے پاس گئے تو مسودہ پڑھ کر وہ حیرت زدہ رہ گیا۔ پبلشر نے اس ناول کو شائع کرنے سے پہلے عبداللہ حسین سے کہا کہ ابھی تک فکشن رائٹر کے طورپر آپ کی کوئی شناخت نہیں ہے لہذا اس ناول کی اشاعت سے پہلے آپ کو کچھ کہانیاں لکھنی ہوں گی تاکہ اردو قارئین آپ سے متعارف ہوسکیں۔ تبھی اس ناول کی اشاعت ممکن ہوسکے گی۔یہی ہوا بھی۔ پہلے عبداللہ حسین نے کچھ کہانیاں لکھیں جو مختلف ادبی رسائل میں شائع ہوئیں اور جب لوگ انھیں فکشن رائٹر کے طورپر جان گئے تو ”اداس نسلیں“ کی اشاعت ممکن ہوسکی۔

عبداللہ حسین کی دسویں برسی
عبداللہ حسین کی دسویں برسی

”اداس نسلیں“ کا پلاٹ اوربیانیہ ایسا تھا کہ وہ اپنے دور میں اردو کا سب سے بڑا ناول قرار دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی عبداللہ حسین کی شہرتوں کو پر لگ گئے۔

یوں تو 2013کے سفر کے دوران لاہور میں الحمراء آرٹس کونسل کی کانفرنس میں کئی اہم ادیبوں اور شاعروں سے ملاقات ہوئی،جن میں حسینہ معین، انتظارحسین، عطاء لحق قاسمی، کشورناہید، شکیل عادل زادہ ، سہیل وڑائچ اور انورشعور سمیت متعدد شخصیات شامل تھیں، لیکن مجھے اس سفر میں سب سے زیادہ کشش عبداللہ حسین میں محسوس ہوئی جو کانفرنس کے تینوں دن بڑی پابندی سے وہاں آتے رہے۔ فکشن نگار کے طورپر اتنی شہرت اور مقبولیت حاصل کرنے کے باوجود ان کے ہاں جو عاجزی اور انکساری تھی، اس نے مجھے بہت متاثر کیا۔ اپنے دہلی کے سفر کا حال بیان کرتے رہے اور ڈھیر ساری باتیں کیں۔ان سے یہ پہلی اور آخری ملاقات بہت یادگار تھی۔

عبداللہ حسین14/اگست 1931کو برطانوی ہند میں راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔انھوں نے لاہور میں وفات پائی۔ وہی لاہور جس کے بارے میں یہ پنجابی کہاوت بہت مشہور ہے کہ "جس نے لاہور نہیں دیکھا، سمجھو وہ پیدا ہی نہیں ہوا“ عبداللہ حسین لاہور میں پیدا تو نہیں ہوئے لیکن اس کی خاک کا پیوند ضرور بنے۔ان کا اصل نام محمدخان تھا۔ ان کے والد محمداکبر خاں برطانوی دور میں راولپنڈی میں ایکسائز انسپکٹر تھے۔آبائی وطن خیبر پختونخواں کا ضلع بنوں تھا۔ عبداللہ حسین کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔1946میں گجرات کے اسلامیہ ہائی اسکول سے میٹرک اور 1952میں گجرات کے زمیندار کالج سے بی ایس سی کیا۔ ذریعہ تعلیم انگریزی ہونے کی وجہ سے انھوں نے انگریزی پر دسترس حاصل کی۔ اسی زمانے میں انھوں نے کئی انگریزی ناولوں کا مطالعہ کیا۔ دیگر یوروپی ادب کا بھی انگریزی ترجمہ پڑھا۔روسی اور فرانسیسی ناول بھی پڑھے۔ انھوں نے بعد کو اپنے ناولوں اور افسانوں کے ترجمے بھی خود ہی کئے۔گھریلو حالات کی وجہ سے آگے کی تعلیم حاصل نہیں کرسکے۔وطن میں کچھ ملازمتیں کرنے کے بعد انھیں 1959میں کولمبو میں فیلو شپ مل گئی۔اس دوران وہ کیمیکل انجینئرنگ میں ڈپلوما کرنے کناڈا بھی گئے لیکن ایک سال بعد ہی وطن واپس آگئے اورمختلف ملازمتیں کرنے کے بعد وہ1966میں لندن چلے گئے۔ انھوں نے کچھ عرصہ لیبیا میں بھی گزارا۔

عبداللہ حسین نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز کہانی لکھنے سے کیا تھا۔ یہ سلسلہ 1962میں شروع ہوا جب ان کی پہلی کہانی ”ندی“لاہور کے رسالہ ”سویرا“ میں شائع ہوئی۔ بعد ازاں اسی رسالے میں ان کی تین مزید کہانیاں ”سمندر“، ”جلاوطن“،اور ”پھول کا بدن“ شائع ہوئیں۔1963میں ایک اور کہانی ”دھوپ“ شائع ہوئی۔پھر انھوں نے طویل خاموشی اختیار کرلی۔

قبل ازیں 1956میں والد کے انتقال سے انھیں شدید ذہنی جھٹکا لگا اور وہ نروس بریک ڈاؤن کا شکار ہوگئے۔صحت یابی کے بعد انھوں نے ”اداس نسلیں“ لکھنے کاکام شروع کیا۔پانچ سال تک اس پر محنت کرتے رہے اور مئی1961میں یہ پایہ تکمیل کو پہنچا،لیکن اس کی اشاعت 1963میں عمل میں آئی۔ اس ناول میں تین نسلوں کے کوائف بیان کئے گئے ہیں۔ انھوں نے اس ناول کو لکھنے سے پہلے تاریخ کا گہرا مطالعہ کیا۔یہ ایک تاریخی ناول ہے، لیکن ان کا کہنا تھا کہ ”میں نے اداس نسلیں کو بہت شعوری طورپر تاریخی ناول سمجھ کر نہیں لکھا۔ انھوں نے اس ناول کو محبت کی کہانی سمجھ کر لکھا تھا اور آخرتک ان کے ذہن میں یہی تصور تھا۔اس ناول کی اس قدر پذیرائی ہوئی کہ یونیسکو نے اسے انگریزی ترجمہ کے لیے منتخب کیا۔عبداللہ حسین نے برطانیہ میں اپنے قیام کے دوران اس کا انگریزی ترجمہ ”The Weary Generations کے نام سے کیا تھا۔ اس کی اشاعت سے انگریزی حلقوں میں بھی اس کی خوب پذیرائی ہوئی۔ہندوستان میں ہارپر کولنزاور پاکستان میں سنگ میل پبلی کیشنز نے اسے شائع کیا۔عبداللہ حسین کی اصل پہچان ان کے پہلے ناول ”اداس نسلیں“ سے ہی ہے جس کے اب تک پچاس ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ اس کے بعد ان کی کتاب ”نشیب“1981میں منظرعام پرآئی جس میں پانچ افسانے اور دوناولٹ شامل تھے۔بعدازاں 1982میں ”باگھ“، 1989میں ”قید“، 1994 میں ”میراث“، 1996 میں ”نادار لوگ“منظرعام پرآئے۔”نادار لوگ“ کا دوسرا حصہ وہ ”آزاد لوگ“ کے عنوان سے لکھ رہے تھے مگر بوجوہ مکمل نہیں کرسکے۔ 2012 میں چھ افسانوں پر مشتمل مجموعہ ”فریب“ کے نام سے شائع ہوا۔ انھوں نے انگریزی میں Emigre Journey کے نام سے ایک ناول لکھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ان کے افسانے ”واپسی کے سفر“ کی توسیعی شکل ہے۔ انھوں نے افغانستان کو محور میں رکھ کر Afghan Girlکے نام سے بھی ایک ناول لکھا۔

عبداللہ حسین کے ساتھ خاکسار کی یہ تصویر نومبر2013کی ہے، جو لاہور میں الحمراء کانفرنس کے دوران لی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare