’ادے پور فائل‘ میں شرانگیزی
(حافظ)افتخاراحمدقادری
دنیا میں جب بھی فتنہ و فساد نے سر اٹھایا تو اس کی جڑیں اکثر نفرت و تعصب اور غلط معلومات پر مبنی نظریات میں پیوست ہوتیں ہیں۔ آج کے جدید دور میں بھی فلمی صنعت جو انسانیت، رواداری اور حقیقت پر مبنی کہانیوں کو پیش کرنے کا مؤثر ذریعہ بن سکتی تھی وہی صنعت بعض اوقات نفرت اور تفرقے کو ہوا دینے کا آلہ بن چکی ہے۔ ایسی فلمیں جو کسی خاص مذہب و مسلک یا عقیدے کو منفی انداز میں پیش کرتی ہیں نہ صرف اخلاقی اعتبار سے افسوسناک ہیں بلکہ معاشرتی طور پر بھی خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں۔ مذہبی منافرت پر مبنی مواد صرف ایک فلم نہیں ہوتا بلکہ وہ ذہنوں میں شکوک و شبہات، دلوں میں نفرت اور معاشروں میں دراڑیں ڈالنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ متنازعہ فلموں کے ذریعہ ملک کے ماحول کو گرمانے کی تیاری مستقبل میں ہوتی رہی ہے۔ ان فلموں کا ریلیز سے پہلے ہی تنازعات میں گھر جانے کا مقصد بتانے کی ضرورت نہیں کیونکہ سب جانتے ہیں کہ موجودہ حکومت اور ان کی پارٹیوں کی مقبولیت مسلمانوں اور ہندؤں کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی کرنے کے بل پر ہی قائم ہے۔ فی الوقت جو فلم ریلیز ہونے کو ہے وہ ملک کے لوگوں کو الجھا کر سماج میں تفرقہ پیدا کرنے والی ہے۔ اس وقت فلموں اور سوشل میڈیا کا استعمال معاشرے میں تفرقہ پیدا کرنے اور مذہب کے نام پر نفرت پھیلانے کے لئے ہو رہا ہے۔ جس طرح فلموں کے نام مسلمانوں کے نام پر رکھے جا رہے ہیں وہ صرف آپسی بھائی چارہ کو ختم کرکے مذاہب کے درمیان دیوار کھڑی کرنا چاہتے ہیں۔

ایسی فلموں کا مقصد صرف مسلمانوں کو بدنام کرنے کے سوا کچھ نہیں اور اس کا نتیجہ ماحول کو فرقہ وارانہ بنیاد فراہم کرنا ہے۔ ملی اداروں کے سرکردہ رہنماؤں کے بیان آتے ہی مسلم کمیونٹی میں پہلے بے چینی پھیلتی ہے اور پھر خوف و ہراس اور بی جے پی یہی چاہتی بھی ہے۔ ایسے میں ذرا ٹھہر کر یہ غور کریں کہ جب مسلمانوں کی اس بیان بازی سے یہ سازشیں رکنے والی نہیں ہیں کیونکہ موجودہ حکومت کو مسلمانوں کی دل آزاری سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور وہ ایسی فلمیں بنانے کے لئے باضابطہ تیاری کرتی ہے تو پھر اس پر اعتراض درج کرانے کا ایک واحد طریقہ قانونی کارروائی ہے۔ نفرت کو عام کرنے والی ایسی فلمیں اظہار رائے کی آزادی کے نام پر بنائی جاتی ہیں لیکن عدالت میں متعدد ایسی مثالیں ہیں جس میں فاضل ججز نے اظہار رائے کی آزادی کی بھی حدیں مقرر کی ہیں اور وضاحت کی ہے کہ اظہار رائے کی آزادی کی قیمت پر معاشرے میں انتشار پھیلانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ خاص کر دو مذہبی کمیونٹی کے مابین جس کے نتیجے میں فساد کا برپا ہونا عام بات ہے اور اس فساد کے دوران جو کچھ ہوتا ہے اس کی وضاحت ضروری نہیں۔ یقیناً موجودہ سرکار کے دور اقتدار میں اپنے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے اور اسے پورے ملک کے لوگوں نے پسند نہ کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔ ایسے میں ہند و مسلم کارڈ کھیلنے کے علاوہ اس کے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ اس قسم کی نفرت انگیز فلموں کو جتنا زیادہ نظر انداز کیا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ ساتھ ہی ایسے تمام ڈائریکٹر اور پروڈیوسر پر سخت قانونی کارروائی کی جائے تاکہ وہ آئندہ ایسی سازشوں میں ملوث ہونے سے پہلے دس بار سوچنے پر مجبور ہوں۔ کیوں کہ ہمارا ملک آئین سے چلتا ہے اور آئین کی دفعات کو نافذ کرنے کے لئے عدالتیں موجود ہیں جہاں قابل جج تعینات ہیں ہمیں ان پر اعتماد کر کے اپنی فریاد وہاں پہنچانے میں تامل نہیں کرنا چاہئے۔
ٹیلر کنہیا لال کے قتل پر بنائی گئی فلم ’ادے پور فائلز‘ کا ٹریلر منظر عام پر آتے ہی اس پر پابندی لگانے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا ہے۔ فلم کے ٹریلر میں نوپور شرما کا وہ متنازعہ بیان بھی شامل ہے جس کی وجہ سے نہ صرف ملک بھر میں فرقہ وارانہ ماحول خراب ہوا تھا بلکہ عالمی سطح پر ملک کی شبیہ خراب ہوئی تھی اور دیگر ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات پر بھی منفی اثر پڑا تھا۔ پھر مجبور ہوکر بی جے پی نے اس کو پارٹی سے نکال دیا تھا۔ فلم کے ٹریلر میں نبی کریم ﷺ اور ان کے ازواج مطہرات کے خلاف نازیبا تبصرہ کیا گیا ہے جس سے ملک کا امن و امان خراب ہوسکتا ہے۔ یہ فلم کلی طور پر ایک مذہبی طبقے کو بدنام کرتی ہے جس سے نفرت کو فروغ، شہریوں کے درمیان احترام اور سماجی ہم آہنگی کو شدید خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ اس میں ’گیان واپی مسجد‘ جیسے زیر التوا اور حساس معاملے کا ذکر کیا گیا ہے جو اس وقت وارانسی کی ضلعی عدالت اور سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ یہ چیزیں آئین ہند کے آرٹیکل چودہ پندرہ اور اکیس میں دیے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
فلم کی ریلیز پر پابندی لگانے کے لئے ملک کے علماء نے ہائی کورٹ میں پٹیشن داخل کی ہے۔ پٹیشن میں تحریر کیا گیا ہے کہ اظہار رائے کے حق کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے فلم میں قابل اعتراضات مناظر کو دکھایا گیا ہے جس سے اسلام، مسلمانوں کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔ فلم میں انتہائی گھٹیا اور نفرت آمیز مکالمے لکھے گئے ہیں۔ فلم کا ٹریلر دیکھ کر مسلمان دشمنی ظاہر ہوتی ہے۔ ٹریلر دیکھنے کے بعد پوری فلم میں کس طرح کے مکالمے اور مناظر ہوں گے اس کا بس تصور ہی کیا جاسکتا ہے۔ ملک کے امن و امان اور فرقہ وارانہ یکجہتی کو آگ لگانے کے لئے یہ فلم بنائی گئی ہے۔ یہی نہیں اس فلم کے سہارے ایک مخصوص طبقہ ان کے علماء اور دینی تعلیمی اداروں کے شبیہ کو مجروح کر کے انہیں بدنام کرنے کی دانستہ سازش کی گئی ہے۔ تعجب اس بات پر ہے کہ سنسر بورڈ نے اپنے اصولوں ضوابط کو طاق پر رکھ کر کس طر ح اس فلم کو نمائش کی اجازت دے دی؟ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے بعض ایسی طاقتوں اور لوگوں کا ہاتھ ہے جو ایک مخصوص طبقہ کے کردار و عمل کو منفی انداز میں پیش کرکے اکثریت کے ذہنوں میں ان کے خلاف مذہبی منافرت کا زہر گھول دینا چاہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ دوسرے سرکاری اداروں کی طرح یہ ادارہ بھی فرقہ پرست طاقتوں کے ہاتھوں کا کھلونا بن چکا ہے۔ یہ کوئی پہلی فلم نہیں ہے اس سے پہلے بھی بورڈ کئی متنازع فلموں کو منظوری دے چکا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ ایک بڑی سازش کے تحت اس طرح کی فلمیں بنائی جاتی ہیں۔
اس فلم کا دو منٹ ترپن سیکنڈ کا جو ٹریلر ریلیز کیا گیا وہ ایسے مکالمات اور مناظر سے بھرا ہوا ہے جس سے پورے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ فلم میں ادے پور میں ہوئے ایک واقعہ کو موضوع بنایا گیا لیکن اس کا محض ٹریلر دیکھنے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ فلم کا مقصد ایک مخصوص مذہبی طبقہ کو منفی اور متعصبانہ انداز میں پیش کرنا جو اس طبقہ کے افراد کو وقار کے ساتھ جینے کے بنیادی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس میں نہ صرف گیان واپی مسجد جیسے حساس معاملہ کا ذکر کیا گیا ہے بلکہ فلم کا ٹریلر وہی توہین آمیز مواد پیش کرتا ہے جو نوپور شرما کے متنازع بیان میں موجود تھا جس کی وجہ سے نہ صرف ملک بھر میں فرقہ وارانہ ماحول خراب ہوا تھا بلکہ عالمی سطح پر ملک کی شبیہ خراب ہوئی تھی اور دیگر ممالک کے ساتھ ہمارے دوستانہ تعلقات پر بھی منفی اثر پڑا تھا۔
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے جس کا آئین سیکولر ہے جس نے ہر شہری کو بولنے کی آزادی کے ساتھ ساتھ زندہ رہنے، کھانے پینے، پہننے اور اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی دی ہے لیکن اظہار کی آزادی کے نام پر کسی کو بھی کسی شہری یا ایک مخصوص طبقہ کی مذہبی دل آزاری کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی گئی۔ لہٰذا اس فلم کا بائیکاٹ ضروری ہے کیونکہ یہ صرف تفریح نہیں ایک بیانیہ ہے۔ ایسی فلمیں ایک منظم بیانیے کا حصہ ہوتی ہیں جس کا مقصد ایک مخصوص مذہب یا فرقے کو بدنام کرنا، اس کے ماننے والوں کو دوسرا اور خطرناک ثابت کرنا ہوتا ہے۔ اگر ہم خاموش رہے تو یہ بیانیہ مضبوط ہو جائے گا۔ جب کسی ایک گروہ کو بار بار منفی کردار میں دکھایا جائے تو وہ باقی معاشرے کی نظروں میں مجرم یا قابلِ نفرت بن جاتا ہے اور یہ پرتشدد رویوں کو جنم دیتی ہے۔ جس کا نتیجہ فسادات، امتیازی سلوک اور قتل و غارت کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ کیوں کہ نوجوان دماغ تیزی سے اثر لیتے ہیں۔ وہ جو کچھ اسکرین پر دیکھتے ہیں اسے سچ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اس طرح مذہبی منافرت کی جڑیں کم عمری سے ہی ان کے ذہنوں میں بیٹھ جاتی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ایسی فلموں کو ہرگز نہ دیکھیں نہ شیئر کریں اور اپنے قریبی لوگوں کو بھی اس فلم کے منفی اثرات سے آگاہ کریں۔ بائیکاٹ صرف ایک فلم کے خلاف احتجاج نہیں بلکہ ایک واضح اعلان ہے کہ ہم نفرت کے خلاف ہیں، ہم تعصب کو قبول نہیں کریں گے اور ہم اپنی نئی نسل کو محبت، امن اور باہمی احترام کی راہ دکھائیں گے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ خاموشی بھی کبھی کبھی ظلم کی حمایت بن جاتی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں امن و انصاف اور بھائی چارہ قائم رہے تو ہمیں ایسی فلموں، کتابوں اور نظریات کے خلاف کھل کر اور پر امن طریقے سے آواز بلند کرنی ہوگی۔ آیئے! ہم سب مل کر کہیں نہ تعصب، نہ نفرت صرف امن، محبت!مذہبی منافرت پر مبنی فلموں کا بائیکاٹ کریں اور انسانیت کا ساتھ دیں۔