صحافت کی قربان گاہ پر

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

ملکوں کی آزادی، قوموں کی ترقی، جمہوریت کی حفاظت کے لیے صحافت کی اہمیت ہر دور میں رہی ہے، برسراقتدار لوگوں اور حکمرانوں نے ہر دور میں صحافیوں کو خریدنے کی کوشش کی ہے، کچھ بکے بھی ہیں اور جو نہ بک سکے انہیں اپنے جان کی بازی لگا دینی پڑی، جان کی بازی لگانے میں جسمانی، ذہنی اذیت وتشدد کے ساتھ سرقلم ہونا بھی شامل ہے، یہ کہانی پہلے سے زیادہ بڑے پیمانے پر دہرائی جارہی ہے، البتہ اب سرکٹانے والے کم اور گودی میڈیا بن کر پرنٹ میڈیا اور الکٹرونک میڈیا میں بک جانے والے صحافی زیادہ ہیں اور جن کی لن ترانیوں سے ملک میں نفرت کا ماحول بڑھ رہا ہے، باشندگان کے درمیان تفریق پیدا ہورہی ہے اور ملک کو اُس سمت میں دھکیلا جارہا ہے جو کسی بھی طرح ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔

صحافت کی قربان گاہ پر
صحافت کی قربان گاہ پر

ابھی حال ہی میں رپورٹرس وداؤٹ بوڈ رس کی طرف سے سالانہ رپورٹ آئی ہے، جس میں اس نے مانا ہے کہ عالمی سطح پر صحافت کی آزادی بدترین سطح پر پہونچ گئی ہے، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یکم جنوری ۵۲۰۲ء؁ سے اب تک پندرہ صحافیوں کو ہلاک کیا جاچکا ہے، یہ وہ صحافی ہیں جو صحافی کی حیثیت سے حکومت میں رجسٹرڈ ہیں، کارکن صحافی جو ہلاک کیے گیے اور جو بغیر رجسٹریشن کے نمائندہ کے طورپر کام کرتے ہیں وہ اس فہرست سے خارج ہیں، 2000ء سے لے کر آج تک 2003ء صحافی جان سے جاچکے ہیں، گذشتہ سال سرسٹھ (67) صحافیوں کو قتل کیا گیا، 2015 سے 2024 کے درمیان ایک سو انتالیس (139) صحافیوں نے صحافت کی قربان گاہ پر اپنے کو قربان کردیا، 747 صحافی غائب ہیں، ہوسکتا ہے کہ وہ کہیں قید وبند کی زندگی گذار رہے ہوں، پانچ سو سرسٹھ (567) حراست میں بھی لیے گیے ہیں جن میں 532 صحافی اور 35 میڈیا کارکن ہیں، صحافیوں کے لیے سب سے خطرناک ملک رپورٹ کے مطابق اریٹریا ہے، یہ پہلے بھی 180 نمبر پر تھا اور آج بھی اسی مقام ہے، دیگر دس ممالک میں شمالی کوریا179، چین 178، شام177، ایران176، افغانستان175، ترکمانستان174، روس171 ویں نمبر ہے، اس رپورٹ کے تجزیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شام، افغانستان، ترکمانستان وغیرہ میں صحافیوں کے اعتبار سے حالات قدرے بہتر ہوئے ہیں، البتہ امریکہ جو آزادی رائے کا پروپیگنڈہ کرتا رہا ہے، ڈونالڈ ٹرمپ کے آنے کے بعد وہاں کے حالات مسلسل خراب ہو رہے ہیں، اس بار 180 ملکوں کے درمیان وہ 57 ویں نمبر پر ہے، سب سے زیادہ صحافیوں کے لیے خطرناکی سے دور یورپ کے ممالک ہیں، جہاں اظہار رائے کی آزادی کو خاص اہمیت دی جاتی ہے، رپورٹرس وداوٹ بوڈرس کے مطابق ”دنیا کی نصف سے زائد آبادی ان ممالک میں رہتی ہے، جہاں صحافتی آزادی کی صورت حال ”انتہائی سنگین“ ہے۔

واقعہ یہ ہے قیدوبند، جسمانی تشد کے ساتھ صحافیوں کو اپنی جان کی قربانی بھی دینی پڑتی ہے اور وہ صحافت کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھ جاتے ہیں، اس سلسلے کی سب سے پہلی دلی اخبار کے مدیر مولوی باقر (ولادت1780) نے دی تھی، جنہیں انگریزوں نے توپ کے دہانے پر باندھ کر گولی سے اڑا دیا تھا، ان کی تحریریں ہندومسلم کو متحد کرنے اور انگریزوں کے خلاف چلنے والی تحریکوں کو شعلہئ جوالا بنانے کے لیے ہوا کرتی تھیں، انہیں 16ستمبر1857 کو گرفتار کرلیا گیا اور بغیر کوئی مقدمہ چلائے 16ستمبر کو شہید کردیا گیا، انگریزی دور حکومت میں گنیش شنکر ودیارتھی (ولادت 26اکتوبر1890) کو فساد کے دوران بے قابو حملہ آوروں نے 25مارچ 1931 کو ہلاک کردیا، وہ 1913 سے کان پور سے پرتاپ اخبار نکال رہے تھے، وہ انگریزوں کے خلاف مسلسل لکھتے رہے، کان پور میں جب فساد پھیلا تو اسے پر امن رکھنے کے لیے مجمع میں گھس گیے، بلوائیوں نے چاقو مارمار کر ان کی جان لے لی، نظام حیدرآباد کے خلاف لکھنے کی وجہ سے شعیب اللہ خان (ولادت اکتوبر 1920) کو بھی جان دینی پڑی، 22اگست 1948 کی رات کو چار حملہ آوروں نے ان کے ہاتھ کاٹ دیے اور پھر گولیوں کی بوچھاڑ کردی، جس کی وجہ سے ان کی جان چلی گئی، وہ امروز اخبار سے وابستہ تھے، یہی حال جیوتی مریڈے (ولادت 1955) کا ہوا، وہ مڈڈے کے صحافی تھے، انڈر ورلڈ پران کی گہری نظر تھی، داؤد اور چھوٹا راجن کے اختلاف پر وہ خصوصیت سے لکھتے تھے، 11جون 2011 کو انڈرولڈ کے مثو نے انہیں قتل کردیا، انڈرولڈ پران کی دو کتابیں ہیں، زیروڈائل: دی ڈینجرس ورلڈ آف انفارمس اور ”خلاص“ شامل ہیں، وہ چندی ریگس ٹورچرس نامی کتاب لکھ رہے تھے، انہوں نے ڈان کو چندی، کا نام دیا تھا، چھوٹا راجن نے ناراض ہوکر قتل کروا دیا، بے باک قلم رام چندر چھترپتی (ولادت19مارچ1950) کا بھی تھا، ان کے اخبار پورا سچ نے ڈیرہ سچا سودا کے رام رحیم سے متعلق جنسی استحصال کی کہانی لوگوں تک پہونچائے، جس کی پاداش میں 24اکتوبر2002 کو ان پر گولیاں چلائی گئیں اور 21نومبر 2002 کو ان کی موت ہوگئی، رام رحیم آج بھی اسی جرم میں عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہے، گوری لنکیش (ولادت 29جنوری1962) ذات پات، مذہبی تشدد اور خواتین کے حقوق پر مسلسل لکھتی رہتی تھیں، وہ لنکیش پتریکے میگزین کی ایڈیٹر تھیں، پورے ملک میں بڑھ رہی فرقہ پرستی اور سرکاری استحصال ان کا خاص موضوع تھا، 5دسمبر2017 کو بنگلور میں ان کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، لسّا کول(ولادت 1945) دوردرشن سے جڑے ہوئے تھے اور سری نگر دور درشن کے ڈائرکٹر تھے، دہشت گرد ان کے پروگراموں سے ناراض تھے، 13فروری1990 کو وہ دہشت گردوں کے ہتھے چڑھ گیے اور انہیں اپنی جان گنوانی پڑی، امریکی صحافی جیمس فولی القاعدہ اور شام میں جنگ کی رپورٹنگ کرتے تھے 2012 میں دہشت گردوں نے انہیں اغوا کیا اور کوئی بائیس مہینے بعد اسے بھی موت کے گھاٹ اتار دیا، قلم کو ہتھیار بناکر لڑنے اور مرنے کی یہ کہانی مکمل نہیں ہے، یہ تو صرف چند افراد کا ذکر ہے، یہ موضوع طویل ہے اور نقیب کا اداریہ اس کا متحمل نہیں ہے۔

جو صحافی اپنی جان جوکھم میں نہیں ڈالنا چاہتے وہ یاتو بچ بچاکر لکھتے ہیں یااپنے قلم کو ایک خاص سمت دینے کی منہ مانگی قیمت وصولتے ہیں، جن کے لیے یہ بھی ممکن نہیں ہوتا تو یہ کہہ کر خاموش ہوجاتے ہیں ؎

وہ جو خواب تھے مرے ذہن میں نہ میں کہہ سکا نہ میں لکھ سکا

کہ زبان ملی، تو کٹی ہوئی، کہ قلم ملا تو بکا ہوا

بشیر بدر کے لفظوں میں صحافی یہ اعلان بھی کر دیتا ہے کہ

بڑے شوق سے مرا گھر جلا کوئی آنچ تجھ پہ نہ آئے گی

یہ زباں کسی نے خریدلی، یہ قلم کسی کا غلام ہے

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare