معصوم مرادآبادی کی خاکہ نگاری:ایک اجمالی تعارف

ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا

خاکہ نگاری کی فنی تاریخ بہت قدیم نہ سہی لیکن ادبی روایت یقیناً قدیم ہے۔ اردو کے پرانے تذکروں میں جہاں ہمیں خاکہ نگاری کے ابتدائی نقوش ملتے ہیں،وہیں فکشن میں کردار نگاری کے زمرے میں بعض خاکے معرکۃ الآراء ہیں۔ جیسے ڈپٹی نذیر احمد کے یہاں مرزا ظاہر دار، سرشار کے یہاں آزاد اور فوجی کا خاکہ وغیرہ۔ اگرچہ یہ سب خیالی کردار تھے لیکن خاکہ نگاری غضب کی ہے۔ اردو میں خاکہ نگاری کے بنیاد گذاروں میں بابائے اردو مولوی عبدالحق اور اسی زمانے میں مرزا فرحت اللہ کا نام سرفہرست ہے۔ بعد ازاں کئی مشاہیر نے خاکے لکھے مثلاً رشید احمد صدیقی، منٹو، محمد طفیل، یوسف ناظم، مجتبیٰ حسین وغیرہ اور بہت سے نام ہیں۔ اس وقت مقصد خاکہ نگاری کی تاریخ بیان کرنا نہیں بلکہ اردو میں اس کی روایت پر بس ایک نظر ڈالنا مقصود ہے۔

معصوم مرادآبادی کی خاکہ نگاری:ایک اجمالی تعارف
معصوم مرادآبادی کی خاکہ نگاری:ایک اجمالی تعارف

خاکے دو قسم کے ہوتے ہیں، قلمی خاکے، (Pen Skech) اور شخصی خاکے (Life Skech)۔ عصر حاضر میں شخصی خاکہ نگاری پر توجہ دی گئی اور بہت سے سے عمدہ شخصی خاکے وجود میں آئے۔ ان خاکہ نگاروں میں معصوم مرادآبادی کا نام ایک منفرد شناخت اور اہمیت کا حامل ہے۔ یوں تو معصوم مرادآبادی اردو کے معروف صحافی ہیں اور موجودہ دور کے صحافت نامے میں ان کا نام سرِفہرست ہے۔ لیکن موصوف نے خاکہ نگاری تفنن طبع کے طور پر شروع کی اور اردو زبان کے دامن کو کثیر تعداد میں عمدہ خاکوں سے نوازا۔

گزشتہ چند برسوں میں شائع ہونے والے خاکوں کے بعض مجموعے جو میری نظر سے گزرے انھیں پڑھ کر یہ احساس ہوا کہ صحافت اور خاکہ نگاری میں کچھ مماثلت ومطابقت ہے تب ہی اردو کے بعض نامور صحافی خاکہ نگاری سے بھی رغبت رکھتے ہیں۔ اول تو ان حضرات کو اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں بہت سے رنگا رنگ لوگوں سے ملنے اور ان کے انٹرویوز لینے کا موقعہ ملتا ہے، اتنی گوناگوں خصوصیات رکھنے والی شخصیات سے ذاتی واقفیت ہوجاتی ہے کہ اکثر خاکہ لکھنے کا خیال پیدا ہوجانا لازمی ہے۔ دوسرے صحافت اور خاکہ نگاری میں قدرِمشترک یہ بھی ہے کہ دونوں میں حقیقت بیانی کا عنصر غالب ہوتا ہے۔ تصور، تخیل اور تخلیقیت کی فسوں کاریاں کم ہوتی ہیں۔ معصوم مرادآبادی کے علاوہ سہیل انجم اور شمع افروز زیدی کے تحریر کردہ خاکے پڑھ کر مجھے یہی محسوس ہوا۔ یوں تو ابن کنول مرحوم اور غضنفر صاحب کے خاکوں کے بھی کئی مجموعے شائع ہوئے ہیں لیکن ان کی اور بات ہے۔ وہ فکشن نگار پہلے ہیں خاکہ نگار بعد میں۔

ابھی حال میں معصوم مرادآبادی کے تحریر کردہ خاکوں کے دو مجموعے ”چہرے پڑھا کرو“ اور ”نگینے لوگ“ شائع ہوئے ہیں۔ دونوں کتابوں میں مجموعی طور پر 94کے قریب خاکے ہیں اور جن شخصیات کی خاکہ گری کی گئی ہے، وہ سب ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ اول الذکر مجموعے میں ان مرحومین کا ذکر ہے جن کی وفات پر یہ خاکے لکھے گئے اور آخر الذکر ”نگینے لوگ“ میں موجود حضرات کا ذکر خیر ہے۔ (اللہ ان سب کی عمریں دراز کرے)۔ آخر میں آٹھ یانووہ مضامین بھی شامل ہیں جو کتابوں پر تبصرے کے حوالے سے لکھے گئے لیکن ان میں بھی خاکہ نگاری کے نقوش موجود ہیں۔ اب تمام خاکے پڑھنے کی تو فوری طور پر تاب و طاقت نہیں تھی، لہٰذا میں نے چند خاکے پڑھے۔ کچھ مشاہیر ادب کے، کچھ سیاسی رہنماؤں کے اور کچھ ان لوگوں کے جن سے میں ذاتی طور کسی حد تک وقف ہوں۔ ”چہرے پڑھا کرو“ میں شمس الرحمٰن فاروقی، گوپی چند نارنگ، شمیم حنفی، گلزار دہلوی کے علاوہ دلیپ کمار، فخرالدین علی احمد، اے پی جے عبدالکلام، بی اماں،حسرت موہانی جیسی عظیم شخصیات بھی ہیں، ایک باب اسلامی مفکروں اورعلماء کے نام مختص ہے تو کئی سیاست دانوں اور انتظامی عہدے داروں کے نام بھی موجود ہیں۔ زیادہ تر یہ خاکے ان حضرات کی وفات پر لکھے گئے تھے۔ ان کا ذکر غم آلود نرمی، احترام اور تحسین کے ساتھ کیا گیا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ وفیات پر لکھے ہوئے خاکے بھی محض تعزیت، توصیف و تعظیم وتکریم تک محدود نہیں ہیں بلکہ سیاق و سباق کے طور پر مرحوم کے دور کے تہذیبی، تمدنی، سیاسی اور ادبی منظرنامے کی بھی تصویر کشی کی گئی ہے جو آج کے قاری کے لیے معلومات کا بیش قیمت ذخیرہ ہے۔ یہاں میں ”نگینے لوگ“ اور ”چہرے پڑھا کرو“میں متذکرہ صرف ان چند اصحاب کے خاکوں پر خامہ فرسائی کی جرأت کروں گی جن سے میں ذاتی طور پر واقف ہوں۔ مجتبیٰ حسین، گلزار دہلوی اور منور رانا۔ مرحومین میں جبکہ حسن احمد نظامی، مودود صدیقی، حسن ضیاء اور حقانی القاسمی جو موجودہ ادبی کہکشاں کا حصہ ہیں۔ لیکن پہلے چند سطور معصوم مرادآبادی کی خاکہ نگاری کے بارے میں۔

معصوم مرادآبادی کی خاکہ نگاری:ایک اجمالی تعارف
معصوم مرادآبادی کی خاکہ نگاری:ایک اجمالی تعارف

معصوم مرادآبادی کے خاکوں کی ایک خوبی جس نے مجھے متاثر کیا، ان کی زبان، اندازِ بیان اور اسلوب ہے۔وہ عام فہم، سادہ و سلیس اور دلچسپ نثر لکھتے ہیں۔ اندازِ بیان اتنا لبھاؤنا ہوتا ہے بعض ایسے لوگوں کے خاکے بھی اپنے آپ کو پڑھوا لیتے ہیں جو قاری کے لیے یکسر اجنبی ہوتے ہیں،یعنی نہ شناسا اور نہ کوئی معروف ہستی۔ حقیقت نگاری میں بھی ان کی زبان سپاٹ اور بے رس نہیں ہوتی ہے۔ دوسری خاص بات یہ ہے کہ ہر شخصیت کی خاکہ گری کرتے ہوئے صاحب خاکہ کی شخصیت کے مطابق زبان و بیان میں بھی ان کا اندازِتحریر مختلف ہوتا ہے یعنی سب کو ایک ہی لکڑی سے ہانکنے کی روایت ان کے یہاں بالکل نہیں ہے۔ معصوم صاحب کے تحریر کردہ خاکوں کی ایک اضافی خوبی ان کی حس مزاح یا ظرافت ہے۔ یہ وصف خاص طور پر ان لوگوں کے خاکوں میں نمایاں ہے جن سے موصوف کے بے تکلفانہ تعلقات رہے ہیں۔ بعض چیدہ چیدہ مثالیں پیش ہیں۔

مودود صدیقی کے خاکے میں یوں رقم طراز ہیں:

”دفتر ان کی اور وہ دفتر کی سب سے بڑی کمزوری ہیں،کیونکہ ان کی ذات دفتر کے نظم وضبط کے جس سانچے میں ڈھلی ہوئی ہے اس میں دفتر کے بغیر ان کا اور ان کے بغیر دفتر کا کوئی تصور نہیں ہوسکتا۔“(نگینے لوگ)

مجتبیٰ حسین کے باب میں لکھتے ہیں:

”ان کی ادبی سرگرمیاں اوران کے ادبی دوست ہی دہلی میں ان کا اوڑھنا بچھونا تھے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ایک فرمانبردار شوہر کی طرح وہ آفس سے سیدھے گھر پہنچ گئے ہوں۔“(چہرے پڑھاکرو)

حسن ضیاء کی صحافتی عظمت کا بیان اس لیے بھی زیادہ دلچسپ ہوگیا ہے کہ یہاں نثر میں صنعت حسنِ تعلیل کا استعمال نظر آتا ہے۔ ملاحظہ ہو

”حسن ضیاء کی ادارت کے دوران ماہنامہ ’آجکل‘کا قد اس قدر بلند ہوا کہ ان کی سبکدوشی کے بعد حکومت کو ’آجکل‘ کا سائز گھٹا کر آدھا کرنا پڑا۔“(نگینے لوگ)

حقانی القاسمی کے خاکے میں ان کا لحاف نامہ خاصا طویل ہے۔ صرف دو تین سطریں نقل کرنا چاہوں گی۔ملاحظہ ہو:

”ان کے پاس ایک لحاف تھا، کوئی اور ڈگری نہیں تھی، حالانکہ انھوں نے دارالعلوم دیوبند اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے ایم اے، ایم فل کیا تھا۔“

”ہاسٹل کی زندگی انسان کو کیا سے کیا بنادیتی ہے۔ سردیوں کے موسم میں یہ لحاف ان کے اوپر ہوتا اور گرمی کے دنوں میں وہ لحاف کے اوپر۔ وہ اپنے اثاثہ جات اسی لحاف کے نیچے چھپا کر رکھتے تھے۔“

”دہلی میں اپنی عملی زندگی کا آغاز ایک ایسے اخبار سے کیا جو خود کم چلتا تھامگر اس کا ایڈیٹر زیادہ چلتا تھا۔“(نگینے لوگ)

مزاح کی ان پھل جھڑیوں کے بعد چند سطریں اس خاکہ کے بارے میں جس نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا۔ یہ خاکہ ہے گلزار دہلوی کا جو معصوم مرادآبادی کے طویل خاکوں میں سے ایک ہے، اگر چہ یہ خاکہ گلزار دہلوی کے انتقال پر اظہار رنج و تعزیت کے حوالے سے لکھاگیا ہے، لیکن یہ محض تعزیت، توصیف و تعظیم تک محدودنہیں ہے بلکہ سیاق و سباق کے طور پر گلزار دہلوی کی طویل العمری کے دورانئے میں دہلی کے تہذیبی، تمدنی، ثقافتی، معاشرتی اور ادبی منظرنامے کی تصویر کشی ہے جو اسے ایک تاریخی اور دستاویزی اہمیت کا حامل بنادیتی ہے۔ یہ خاکہ صرف گلزار صاحب کی شخصی صورت گری اور کوائف کا بیان ہی نہیں بلکہ اس دور کی بھی مرقع سازی ہے۔ ان تمام قدآور ادبی شخصیات کا ذکر جن سے گلزار دہلوی نے اکتساب فیض کیا یا ان کے قریبی تعلقات رہے۔ تقریباً 25 مشاہیر کا ذکر کیا گیا ہے جن میں سے ہر ایک بجائے خود اردو ادب کی تاریخ میں مقتدر حیثیت اور اہمیت کا حامل ہے۔ گلزار صاحب کے والد زار دہلوی، مولوی عبدالحق، پنڈت دتاتریا کیفی، مولوی سمیع اللہ، سائل دہلوی، بیخود دہلوی، نوح ناروی، احسن ماہریروی، جوش ملیح آبادی وغیرہ وغیرہ جیسی مایہ ناز اردوئے معلی کی ادبی اور شعری وراثت کی حامل شخصیات کا ذکر، مختلف انجمنوں جیسے انجمن تعمیر اردو، ادارہ نظامیہ کی خدمات، اس کے علاوہ گلزار صاحب کی دہلی کلاتھ مل کے مالک سرشنکر لال سے وابستگی، اردو ماہنامہ ”سائنس کی دنیا“کی ادارت،جامعہ ملیہ اسلامیہ میں انور جمال قدوائی کی قیادت میں سائنسی صحافت کی بنیاد گزاری وہ تمام انجمنیں اور محفلیں جن میں گلزار دہلوی کی شخصیت نے رنگ آمیزی کی تھی، ہر سال روزہ رکھ کر ”روزہ رواداری“ کے افطار کا انعقاد، غرض اس ایک خاکے میں نہ صرف گلزار دہلوی کی حیات و خدمات بلکہ دہلی کے گلی کوچوں اور محلوں کے ناموں اور ان کی ادبی اور تاریخی اہمیت کی معلومات سے واقفیت ہوتی ہے۔ دہلی سے باہر کے لوگوں کے لیے تو یہ خاکہ دہلی کی قدیم ادبی اور معاشرتی معلومات کے حوالے سے اس خاص دور کا انسائیکلو پیڈیا ہے جسے پڑھ کر آج کی نسل کو علم ہوتا ہے کہ

دہلی کے نہ تھے کوچے اوراق مصورتھے

جو شکل نظر آئی تصویر نظرآئی

میں معصوم مرادآبادی صاحب کو ان قابل قدر کتابوں کی تصنیف پر مبارک باد دیتی ہوں جو نہ صرف ادبی، سیاسی، صحافتی شخصیات کے خاکوں کے مجموعات ہیں بلکہ تحقیق کرنے والوں کے لئےریفرنس بک کی حیثیت رکھتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare