ظلم کے شکار بن گئے یہ بے قصور خاندان
تکلف برطرف : سعید حمید
بے بناہ قیدی ، اس عنوان سے ایک کتاب لکھنے والے مصنف واحد شیخ نے
۱۱؍جولائی ۲۰۲۵ ء کو مراٹھی پترکار سنگھ میں ایک پروگرام منعقد کیا تھا ،
عنوان تھا ؛
BEHIND THE BARS & BEYOND:
THE UNSEEN STRUGGLES OF FAMILIES
اس پروگرام میں کئی ایسے خاندانوں کے افراد نے اپنی مشکلات کی پردرد داستان پیش کیں ، جن کے کفیل اور کمانے والے برسوں سے دہشت گردی کے الزامات میں جیلوں میں بند ہیں ۔

ان میں ممبئے لوکل ٹرین بم بلاسٹ کے بھی کئی مجرم ہیں ، جو ، (۱۹) برس سے جیلوں میں ہیں۔
بیشتر متاثرین کی کہانی ، ان کے وکیلوں کی زبانی پیش کی گئی ۔
ایک مجرم محمد علی شیخ کے بیٹے نے جو گونڈی ممبئی کا باشندہ ہے ، اپنے والد کی گرفتاری کے بعد سے آج تک ، ان کے خاندان کیلئے یہ سانحہ کس قدر کرب ناک و دردناک گزرا ، اورا ٓج وہ کس حال میں زندگی گذار رہے ہیں ، یہ باتیں پیش کیں ۔
مشہور قانون داں ،ایڈوکیٹ مہر دیسائی ، صحافی پرتھ اور اس کالم نویس کو بطور مہمان اس پروگرام میں مدعو کیا گیا تھا ، جہاں کچھ سننے ، کچھ سمجھنے اور کچھ سنانے کا موقع مل گیا ۔
میرے لئے یہ ایک ایسا واقعہ تھا ، جب یادوں کے دریچے گویا کھل گئے اور مجھے وہ دور ، اس دور کے واقعات ، اس دور میں کئی بے قصور مسلم نوجوانوں کی جبری گرفتار ، ان کے خاندانوں کی انصاف کیلئے بھاگ دوڑ ، انصاف کی جستجو ، مایوسی میں گھری جدوجہد اور دیواروں سے سر ٹکرانے جیسی کوششیں یاد آنے لگی ۔
کئی چہرے آج بھی یاد ہیں :
عشرت جہاں کی والدہ اور ان کا خاندان ، عشرت جہاں کا گجرات پولس نے انکاؤنٹر کردیا اور کہا نی گڑھ لی کہ وہ ایک دہشت گرد تھی ۔
خواجہ یونس کے والد اور والدہ ، جو اپنے مرحوم بیٹے کی لاش کے باقیات حاصل کرنے کی آرزو میں در در بھٹکتے رہے ، عدالتوں میں چکر کاٹتے رہے ، ان کے اعلی تعلیم یافتہ بیٹے کو ممبئی کرائم برانچ نے گھاٹکوپر بم بلاسٹ کے الزام میں گرفتار کیا اور حراست کے دوران ٹارچر میں اس کا قتل کردیا گیا ، تو اس کی لاش کو مجرمانہ طور پر ٹھکانے لگا دیا گیا ۔
پھر ایک جھوٹی کہانی گڑھ لی گئی کہ سی آئی ڈی کا دستہ اسے لیکر انکوائری کیلئے جا رہا تھا ،
کہ راستہ میں پولس جیپ کو حادثہ پیش آیا ، سارے پولس والے بیہوش ہوگئے اور خواجہ یونس ہتھکڑی سمیت فرار ہوگیا ۔
اس گڑھی ہوئی کہانی میں اہم کردار متنازعہ پولس افسر سچن وازے نے ادا کیا تھا جو بعد میں امبانی ہاؤس کے پاس بارود بھری کار کھڑی کرنے اور تھانے
کے ایک تاجر کو جس کی کار اس معمہ خیز کیس میں استعمال کی گئی تھی ، قتل کرنے کے کیس میں گرفتار بھی ہوا ، اور اسے پولس سروس سے معطل کردیا گیا ۔ اس کا باس سابق سی آئی ڈی افسر پردیپ شرما تھا ۔
خواجہ یونس پر حراست میں تشدد کیا گیا اور سی آئی ڈی لاک اپ میں ہی اس کی موت ہوگئی ۔ اس واقعہ کا ایک چشم دید گواہ بھی تھا ۔
جے جے اسپتال کا فورینسک میڈیکل افسر ڈاکٹر عبدلمتین ، اسے بھی بم دھماکی کیس میں زبردستی ٹھونس دیا گیا تھا ، اور وہ اس لاک اپ میں موجود تھا ، جہاں ٹارچر کی وجہ سے خواجہ یونس کو خون کی الٹی ہوئی تھی ۔
جے جے اسپتال میں ڈاکٹر عبدالمتین کا کام ہی لاشوں کی فورینسک جانچ کرنا ، اور ان کی وجوہات کا سائینسی طور پر پتہ چلانا تھا ، اس لئے خون کی الٹی ہونے سے ہی ڈاکٹر عبدلمتین کو یہ اندازہ ہو گیا کہ خواجہ یونس حراست میں بھیانک پولس ٹارچر برداشت نہیں کرسکا اور اس کی موت واقع ہو گئی ۔ یہ کھلا ، قتل تھا ، پولس حراست میں قتل کا کیس تھا ۔
لیکن پولس والوں کے جرائم کی پردہ پوشی کا کھیل شروع کردیا گیا ، اس زمانے میں انکاؤنٹر اسپیشلسٹ کہلائے جانے والے پولس افسران اپنی وردی کے قد سے بھی اونچے بنا دئیے گیے تھے ، اور وہ وردی کی آڑ میں ، نیشنل سیکوریٹی کے نام پر قانون کی دھجیاں ، ہی دھجیاں اڑا رہے تھے ۔دوسری جانب نام نہاد پروپگنڈہ مشنری جن میں ٹی ویچینل ، اخبارات اور بالی ووڈ پیش پیش تھے ، ان قانون کی دھجیاں اڑانے والے نام نہاد انکاؤنٹر اسپیشلسٹ افسروں کو ہیرو بنا کر پیش کر رہے تھے ، اس لئے مظلوموں کی آواز سنی تک نہیں جا رہی تھی ۔انکاؤنٹر اسپیشلسٹ کے نام پر اسکواڈ بن گئے ۔
ممبئی میں اے ٹی ایس اور انیٹی ایکس ٹورشن سیل ، گجرات میں اے ٹی ایس ، دہلی میں اسپیشل سیل ، حید رآباد میں ایس ٹی ایف ، یوپی میں اے ٹی ایس اور اسپیشل ٹاسک فورس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ان سارے انکاؤنٹر اسپیشلسٹ افسران کا ایک نیٹ ورک بن گیا تھا ۔ ایک دوسرے کی وہ مدد کیا کرتے تھے ۔
اسلئے ہمیں یہ اطلاع بھی ملی کہ ممبرا کی عشرت جہاں اور پونے کے جاوید شیخ کو ممبی کے ہی کچھ نام نہاد انکاؤنٹر اسپیشلسٹ افسران نے پکڑ کر گجرات اے ٹی ایس کے حوالے کیاتھا ، ورنہ ممبرا کی ایک کالج اسٹوڈنٹ عشرت جہاں کیوں گجرات جاتی ؟
اس اطلاع کو ثبوت میں تبدیل کرنا بہت مشکل تھا ، لیکن اس بات کا تو اندازہ ہو گیا کہ اس زمانے میں جن مسلمانوں کو دہشت گردی کے کیسوں میں ٹھونسا جا رہا تھا ، اس میں مختلف ریاستوں کی پولس فورسز کے نام نہاد انکاؤنٹر افسروں کا غیر اعلانیہ نیٹ ورک کام کررہا تھا ۔ وہ سب ایک دوسرے کے رابطے میں رہتے تھے ۔
وہ سب ایک دوسرے کی غیر قانونی طریقے سے بھی مدد کیا کرتے تھے ۔ وہ مشکل کیس میں پھنس جانے پر قانون کی گرفت سے بچنے کیلئے ایک دوسرے کو مشورہ بھی دیا کرتے تھے ۔
اسلئے یہ کہا جاتا ہے کہ جب سی آئی لاک اپ گھاٹ کوپر میں ٹارچر کے دوران خواجہ یونس کی موت ہوگئی تو اس کی لاش کو ٹھکانے لگانے اور جھوٹی کہانی گڑھنے کا آئیڈیا گجرات کے نام نہاد انکاؤنٹر اسپیشلسٹ افسروں کے تجربے کی روشنی میںممبئی کے مجرم پولس والوں نے اخذ کیا ۔
اب جبکہ ، یہ بات طے ہو چکی ہے ، پولس ، حکومت اور عدالت نے بھی مان لی ہے ، کہ خواجہ یونس کا پولس حراست میں قتل ہو گیا ، اور اس کے فرار کی کہانی جھوٹی تھی اور اس کیس میں سچن وازے سمیت چار پولس والے گرفتار بھی ہوئے ، اور پولس سرو س سے ان کی معطل بھی کردیا گیا ۔تو یہ پتہ کیوں نہیں لگایا گیا کہ خواجہ یونس کی لاش کو کہاں ٹھکانے لگا دیا گیا ؟
ایسا خیال ہے کہ جس طرح سہراب الدین شیخ کی بیوہ کو گجرات پولس نے قتل کے بعد ایک پرائیوٹ فارم ہاؤس میں دفن کردیا اور اس جگہ ایک سمنٹ کنکریٹ کا کمرہ ، چبوترہ بنا دیا گیا تاکہ فورینسک ثبوت باقی نہیں رہے ، ایسا ہی طریقہ خواجہ یونس کی لاش کو بھی ٹھکانے لگانے کیلئے اختیار کیا گیا ۔
خواجہ یونس کیس میں پہلے ان کے والد انصاف کیلئے در در بھٹکتے رہے ۔ وہ پربھنی سے ممبئی آتے تھے اور عدالت کے چکر لگایا کرتے تھے ۔ برسوں چکر لگاتے رہے ، سنوائی نہیں ہوئی ، انصاف نہیں ملا ۔
ان کے انتقال کے بعد ان کی بیوہ اور خواجہ یونس کی والدہ نے حصول انصاف کی جدوجہد کی کمان سنبھال لی اور ضعیفی ، بیماری کے باوجود پربھنی سے ممبئی آتی رہیں ، اور انصاف کیلئے در در بھٹکتی رہیں ، انہیں بھی انصاف نہیں ملا اور وہ بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئیں ۔
خواجہ یونس کیس انصاف سے کھلوار کا معاملہ ہے ، جو یہ کہتا ہے کہ ہمارے یہاں دیر بھی ہے ، اندھیر بھی ہے ۔
اس صورتحال کا شکار کتنے ہی خاندان بن گئے ، جن کی کہا نیاں اس پروگرام میں پیش کی گیئ۔
اور مجھے بھی یاد ہے حج ہاؤس کے امام یحیی کی فیملی ، میرا روڈ کے بزرگ عطا ء الرحمن کی فیملی پر ہونے والے مظالم جن کے تین بیٹے تھے اور تینوں کو بم دھماکہ کیس میں ملوث کردیا گیا ، پربھنی کے محمد الطاف کے والد محمد اسمعیل کی جدوجہد ، اور یہ فہرست طویل ہے ۔ مظلوم خاندانوں کی مدد اور بے گناہ ملزمین کی قانونی امداد ایک اہم میدان ہے جس میں کام کرنے والے اداروں اور افراد کی تعداد قدرے کم ہے ۔ ضروری ہے کہ اس جانب زیادہ توجہ دی جائے !!!