زبان، جرم اور شناخت : بنگالی بولنے والے مسلمانوں کی صورتحال
شمس آغاز
ہندوستان ایک ایسا عظیم ملک ہے جس کی بنیاد کثیر لسانی، کثیر مذہبی اور کثیر ثقافتی ہم آہنگی پر رکھی گئی ہے۔ یہاں زبان، مذہب، نسل اور تہذیب کی گوناگونی کو قومی وحدت کا جزو لاینفک تسلیم کیا گیا ہے۔ یہی تنوع ہندوستانی آئین اور جمہوری روایات کی روح ہے۔ تاہم گزشتہ چند برسوں کے دوران ملک میں جو سیاسی، انتظامی اور سماجی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، ان میں ایسے رجحانات واضح طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں جو نہ صرف جمہوری اقدار سے متصادم ہیں بلکہ اقلیتوں کے بنیادی حقوق کو پامال کرنے کی سمت میں بڑھتے ہوئے قدم محسوس ہوتے ہیں۔ ایسا ہی ایک افسوسناک واقعہ حال ہی میں ہریانہ کے صنعتی شہر گروگرام میں پیش آیا،جہاں مغربی بنگال اور آسام سے تعلق رکھنے والے 74 بنگالی بولنے والے مسلمان مزدوروں کو محض شک کی بنیاد پر حراست میں لیا گیا۔ ان میں سے اکثریت صفائی، کوڑا کرکٹ چننے اور کچی بستیوں میں رہنے والے مزدوروں پر مشتمل تھی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان لوگوں کو کسی باقاعدہ چارج، نوٹس یا قانونی کارروائی کے بغیر صرف اس شبہے میں حراست میں لیا گیا کہ یہ غیر ملکی ہیں، جبکہ ان میں سے بیشتر کے پاس آدھار کارڈ، ووٹر شناختی کارڈ، پین کارڈ، اور یہاں تک کہ پاسپورٹ جیسے مستند اور قانونی دستاویزات موجود تھے۔

حراست میں لیے گئے ان افراد کے رشتہ داروں نے شہریت کے ثبوت کے طور پر مغربی بنگال کے مختلف تھانوں سے سرکاری دستاویزات فراہم کیےلیکن حکام نے ان ثبوتوں کو غیر مؤثر قرار دے کر نظر انداز کر دیا۔ اس عمل سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ معاملہ صرف شناختی دستاویزات کا نہیں بلکہ ایک منظم تعصب اور امتیازی رویے کا ہے۔ ان تمام تر واقعات میں نہ صرف انسانی وقار کو پامال کیا گیا بلکہ ہندوستانی آئین کی روح کو بھی مجروح کیا گیا،جو ہر فرد کو برابر کے حقوق، مساوی سلوک، اور قانونی تحفظ فراہم کرنے کی ضمانت دیتا ہے۔
یہ ایک نہایت اہم اور فکرانگیز سوال ہے کہ کیا اب اس ملک میں بنگالی زبان بولنا جرم تصور کیا جانے لگا ہے؟ بنگالی ہندوستان کی آٹھویں شیڈیول میں شامل تسلیم شدہ زبانوں میں سے ایک ہے۔ اسے بولنے والے کروڑوں افراد نہ صرف مغربی بنگال بلکہ آسام، تریپورہ، جھارکھنڈ، بہار، دہلی اور دیگر کئی ریاستوں میں پائے جاتے ہیں۔ زبان کسی فرد کی شہریت یا وفاداری کا تعین نہیں کر سکتی، کیونکہ زبان کا تعلق تمدن اور تہذیب سے ہوتا ہےنہ کہ سرحدوں سے۔ اگر محض زبان کی بنیاد پر کسی فرد کی شہریت پر سوال اٹھایا جائے تو یہ پورے لسانی تانے بانے کو بکھیرنے کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔
یہ معاملہ صرف ایک قانونی مسئلہ نہیں بلکہ ایک آئینی اور اخلاقی بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ہندوستانی آئین کا آرٹیکل 21 ہر فرد کو زندگی اور شخصی آزادی کا حق دیتا ہے اور اس میں یہ بھی شامل ہے کہ کسی فرد کو اس کے حقوق سے اس وقت تک محروم نہیں کیا جا سکتا جب تک مکمل قانونی طریقہ کار اختیار نہ کیا جائے۔ لیکن ان حراستوں میں قانونی عمل کی خلاف ورزی کھلم کھلا کی گئی ہے۔ بغیر کسی نوٹس کے، بغیر عدالت کے حکم کے اور بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے لوگوں کو حراست میں رکھنا قانون کی روح کے خلاف ہے۔
ان واقعات سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ بنگالی بولنے والے مسلمان ایک خاص سیاسی و انتظامی تعصب کا نشانہ بنائے جا رہے ہیں۔ جب کسی خاص زبان بولنے والے یا مذہب کے ماننے والے طبقے کو بار بار شک کی نگاہ سے دیکھا جائے، ان کی دستاویزات کو جعلی قرار دے دیا جائے، ان کے بچوں کو تعلیم سے محروم کر دیا جائے، ان کے گھروں کو بلڈوزر سے ڈھا دیا جائے، تو یہ صرف ان افراد پر ظلم نہیں بلکہ ملک کی جمہوری اقدار، آئینی اصولوں اور انسانی حقوق کی صریح پامالی ہے۔ درحقیقت،یہ واقعات ملک کے جمہوری ڈھانچے اور برابری پر مبنی نظام پر سنجیدہ سوالات اٹھاتے ہیں، جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
آسام میں بھی گزشتہ کچھ برسوں سے ایسی ہی پالیسیوں کا مشاہدہ کیا گیا ہے، جہاں ریاستی حکومت نے مبینہ غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف بے دخلی مہم شروع کر رکھی ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ مہم بنگلہ دیش سے غیر قانونی طور پر آ کر بسنے والوں کے خلاف ہے۔ لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ اس مہم کا اصل نشانہ بنگالی بولنے والے مسلمان ہیں، جن میں سے بیشتر دہائیوں سے آسام میں مقیم ہیں۔ ان کے پاس زمین کی دستاویزات، سرکاری اسکولوں سے تعلیم کے سرٹیفکیٹ، شناختی کارڈز، اور یہاں تک کہ ووٹر لسٹ میں نام بھی درج ہیں، پھر بھی ان کو غیر ملکی قرار دے کر گھروں سے نکالا جا رہا ہے۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق تقریباً 8,000 گھروں کو بلڈوزر کے ذریعے منہدم کر دیا گیا ہے۔
بے دخلی کی ان کارروائیوں کے دوران پیش آنے والے دل دہلا دینے والے واقعات نے ریاستی مشینری کی بے حسی کو بے نقاب کر دیا ہے۔ ایک واقعے میں 19 سالہ شاکور علی کی موت اس وقت ہوئی جب پولیس کی موجودگی میں اس کے گھر کو مسمار کیا جا رہا تھا۔ یہ واقعہ صرف ایک نوجوان کی موت نہیں بلکہ انسانی ہمدردی، عدالتی احکامات اور انتظامی ذمہ داری کی موت بھی ہے۔ گوہاٹی ہائی کورٹ نے پہلے ہی ہدایت دی تھی کہ کسی بھی بے دخلی سے قبل متبادل رہائش فراہم کی جائے، لیکن ان ہدایات کو یکسر نظر انداز کر کے ہزاروں افراد کو کھلے آسمان تلے چھوڑ دیا گیا۔بے دخلی کی یہ مہم صرف آسام تک محدود نہیں رہی۔ اس کا اثر شمال مشرق کی دیگر ریاستوں تک بھی پہنچ چکا ہے۔ ناگالینڈ، منی پور، اور میگھالیہ نے بھی ایسے افراد کو اپنی سرحدوں میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے خصوصی الرٹس جاری کیے ہیں، جنہیں وہ غیر قانونی تارکین وطن قرار دیتے ہیں۔ اس قسم کے اقدامات سے نسلی کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے اور علاقائی ہم آہنگی کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔
ان ریاستوں میں حالیہ بے دخلیوں اور نقل مکانی کی وجہ سے اب تک تقریبا پچاس سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے بیشتر لوگ غریب، مزدور اور پسماندہ طبقات سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنی روزی روٹی کمانے کے لیے دوسرے شہروں یا ریاستوں میں ہجرت کرتے ہیں۔ ان کے لیے پہلے ہی تعلیم، صحت، رہائش اور تحفظ جیسی بنیادی سہولتیں دستیاب نہیں تھیں، اب جب ان کو جبراً ان کے گھروں سے نکالا جا رہا ہے تو ان کی زندگیاں مکمل طور پر اجڑ چکی ہیں۔
انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے باوجود ان متاثرین کی باز آبادکاری کے لیے کوئی منصوبہ موجود نہیں ہے۔ حکومت کی خاموشی اور عدالتی نظام کی تاخیر ان لوگوں کی زندگی کو مزید کربناک بنا رہی ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ جب ان لوگوں کے پاس قانونی دستاویزات موجود ہیں، جب وہ ملک میں پیدا ہوئے، وہیں تعلیم حاصل کی، وہیں کام کرتے ہیں، تو انہیں غیر ملکی کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟۔
ان واقعات کا ایک اور تشویشناک پہلو یہ ہے کہ بعض سیاسی بیانات کے ذریعے معاشرے میں ایک مخصوص قسم کا خوف اور بے یقینی پیدا کی جا رہی ہے۔ بعض سیاسی رہنما یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ آسام میں ہندو اگلے 10 برسوں میں اقلیت بن جائیں گےکیونکہ مبینہ طور پر لاکھوں کی تعداد میں بنگلہ دیشی مسلمان آ کر بس گئے ہیں۔ یہ بیانات کسی مستند تحقیق یا ثبوت پر مبنی نہیں بلکہ محض سیاسی مقاصد کے لیے دیے جا رہے ہیں تاکہ اکثریتی طبقے میں خوف پیدا کیا جا سکے اور انہیں خاص رخ پر ووٹ دینے کے لیے آمادہ کیا جا سکے۔
ان بیانات اور پالیسیوں کا مقصد 2026 میں ہونے والے ریاستی انتخابات سے پہلے ووٹروں کو مذہب اور نسل کی بنیاد پر تقسیم کرنا ہے۔ یہ خطرناک حکمت عملی نہ صرف فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچا رہی ہے بلکہ آئینی اصولوں اور انسانی شرافت کو بھی داغدار کر رہی ہے۔ غیر مصدقہ دعوے، جیسے کہ "دس لاکھ ایکڑ زمین پر غیر قانونی تارکین وطن کا قبضہ”، نہ صرف خوف و ہراس پیدا کرتے ہیں بلکہ معاشرے میں شک و شبہ کا ایسا بیج بوتے ہیں جو دیرپا نفرت میں تبدیل ہو سکتا ہے۔
ان تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے فوری ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتیں اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں۔ ایسے تمام اقدامات جو کسی لسانی یا مذہبی اقلیت کو نشانہ بناتے ہوں، انہیں فوری طور پر روکا جائے۔ عدالتوں کو چاہیے کہ وہ ان حراستوں اور بے دخلیوں کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائیں۔ ان افراد کو فوری انصاف فراہم کیا جائے جنہیں بغیر کسی جرم کے، بغیر کسی مقدمے کے صرف زبان یا مذہب کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا۔
مرکزی حکومت کو بھی اس معاملے میں مداخلت کرنی چاہیے اور یہ یقینی بنانا چاہیے کہ ہر ریاست آئینِ ہند کی پاسداری کرے۔ اگر ریاستی حکومتیں انسانی حقوق اور آئینی اصولوں کی خلاف ورزی کرتی ہیں تو مرکز کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان خلاف ورزیوں کا نوٹس لے، اصلاحی اقدامات کرے اور ان مظلوم شہریوں کی زندگیوں کو بحال کرے۔
ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ قومی سطح پر ایک ایسا مکالمہ شروع ہو جو لسانی، مذہبی اور نسلی تنوع کو تسلیم کرے اور اسے قومی طاقت میں تبدیل کرے۔ ہندوستان کی اصل طاقت اس کی تنوع میں ہے، اور جب اس تنوع کو جرم بنا دیا جائے تو یہ ملک کی روح کو مجروح کر دیتا ہے۔ بنگالی زبان ہو یا اُردو، تمل ہو یا تلگو یہ سب ہماری قومی میراث کا حصہ ہیں، نہ کہ کوئی خطرہ۔ اگر آج بنگالی بولنے والے مسلمان مزدور نشانہ بن رہے ہیں تو کل کوئی اور کمیونٹی بھی اس کی زد میں آ سکتی ہے۔
آج جب ہندوستان خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے پر فخر کرتا ہے، اور اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم پر انسانی حقوق کی وکالت کرتا ہے، تو کیا یہ اُس کی اخلاقی، آئینی اور انسانی ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ اپنے ہی شہریوں کو انصاف، شناخت اور وقار کے ساتھ جینے کا حق فراہم کرے؟ اگر ریاستیں اپنی عوام کو محض ان کی زبان، مذہب یا نسل کی بنیاد پر شک کی نگاہ سے دیکھنے لگیں،تو جمہوریت اپنے حقیقی مقصد اور روح سے دور ہوتی چلی جائے گی۔
یہ وقت ہے کہ ہندوستان بحیثیت قوم اپنے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑے اور ہر اس پالیسی و عمل کی مخالفت کرے جو انسانی حقوق، آئینی اصولوں اور سماجی انصاف کے منافی ہو۔ ہمیں بطور شہری اس سچائی کو تسلیم کرنا ہوگا کہ بنگالی زبان بولنا کوئی جرم نہیں بلکہ ایک عظیم ثقافتی ورثہ ہے۔ کسی انسان کی زبان، اس کی شہریت یا حب الوطنی کا معیار نہیں ہو سکتی۔ زبان دلوں کو جوڑنے کا ذریعہ ہے، دیواریں کھڑی کرنے کا ہتھیار نہیں۔