خواتین پر رسول عربیؐ کے احسانات
محمد منہاج عالم ندوی
زمانۂ جاہلیت میں انسانیت کرب واضطراب سے کراہ رہی تھی ، ظلم وسفاکی کے مہیب بادل چھائے ہوتے تھے ؛لیکن جب اسلام آیا تو اس نے نفرت وکدورت کے خلیج کو پاٹ دیا،ظلم وستم کی چکی کو نیست نابود کردیا،امن وامان کو بحال کیا،بغض وعناد،کفروضلالت کی تاریکی کو ختم کرکے نور کی شمع جلائی اورانسانی منافرت کو پس پشت ڈال کر اخوت وبھائی چارگی کو فروغ بخشا اوردنیا کو وہ نظام زندگی دیا کہ اس سے آج بھی ساراجہاں منور ہے اور اس کی روشنی سے مستفید ہورہے ہیں،اس نے ہر مرحلہ میں انسانیت کی بھلائی اوران کی عظمت ورفعت کا خاص خیال رکھا ،جب کہ اسلام سے قبل انسانیت شب تاریک میں ڈوبی ہوئی تھی ، ان کے عقل وخرد پر ایسا دبیز پردہ پڑا ہواتھا کہ حق وباطل کے درمیان امتیاز کرنا مشکل تھا۔ایک دوسرے کو حقیرسمجھنا اور اپنی سربلندی کا راگ الاپنا ان کا مقصد زندگی تھا، کوئی کسی سے کمتر نہیں ہر ایک اپنے کو اوروں سے بہتر سمجھتا، قبیلہ قبیلہ میں جھگڑا،باتوں باتوں میں لڑائی ایک عام سی بات تھی ، لوگ آپس میں دست وگریباں تھے، طعن وتشنیع کا بازار گرم تھا، ناچاقی ونااتفاقی عروج پر تھی،ایک دوسرے کی عزت وسربلندی کانہ پاس تھا اور نہ ہی اچھے اور برے کے درمیان تمیز ، عدل وانصاف اور مساوات کا گلہ گھونٹ دیا گیاتھا، ظلم وجبر ،سفاکی ودرندگی اور خانہ جنگی عروج پر تھی ، اسلام نے انھیں برائیوں پر قدغن لگایااوراسے جڑ سے مٹانے کی ہرممکن سعی کی گئی ،جن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صحابی رسول حضرت ربعی بن عامر رضی اللہ عنہ نے رستم کے دربار میںکہا تھاکہ ’’ اللّٰہُ ابْتَعَثَنَالِنُخْرِجَ مَنْ شَائَ مِنْ عِبَادۃِ الْعُبَادِالیٰ عِبَادَۃِ اللہِ وَ مِنْ ضِیْقِ الْدُّنْیَااِلیٰ سَعَتِھَاوَمِنْ جَوْرِالاَدْیَانِ اِلیٰ عَدْلِ الاِسْلَامِ‘‘ ترجمہ اللہ نے ہمیں بھیجا ہے تاکہ اللہ جسے چاہے بندوںکی غلامی سے نکال کر ایک اللہ کی عبادت کی طرف لائیں اور اسی طرح دنیا کی تنگی سے اس کی کشادگی کی طرف اور ظلم وجور سے نکال کراسلام کی عدل اورانصاف کی طرف (البدایہ والنھایہ)۔

اسلام نے جن وانس ،چرند پرند،ہر ایک کے لیے نعمت اور رحمت کا پیغام عام کیا ،دبے کچلے ،سماج میں بے وقعت سمجھے جانے والوں کو وہ مقام عطاکیا جس کا انہیں گمان تک نہ تھا ،قبائلی تفریق اوربھید بھاؤ کو مٹاکرمساوات کا درس دیااورفرمایا کہ تما م انسان برابر ہیں سبھی ایک ماں اور باپ آدم وحوا سے پید کیے گئے ہیں قرآن کہتا ہے ’’یاایھالناس اتقواربکم الذی خلقکم من نفس واحدۃ ‘‘ کہ ڈرو اس رب کے نام سے جس نے تمہیں ایک جان سے پید اکیا ، گویا اس نے انسانوں کو یہ یاد دلایا کہ تم ایک ہی ہو تمہارے بیچ ذات برادری،رنگ ونسل کی بنیادپر کوئی تفاوت نہیں برتا گیا سوائے خشیت ایزدی اوراللہ کے خوف کے ’’لافضل لعربی علی عجمی ولالعجمی علیٰ عربی الابالتقویٰ‘‘ ۔
حضوراکرم صلی اللہ علیہ نے ہرایک کو ان کاحق دیا، لوگوں کے ساتھ انصاف کا معاملہ برتا ، چاہے کوئی بھی ہو،جن وانس ہرایک کو اسلام کی آمد،نزول قرآن ،وحی الٰہی کافائدہ پہونچااور مرجھائی ہوئی دنیا میں بہارکانیا موسم کھل اٹھا،آمد مصطفیٰ سے رنگ و بو میں نئی تازگی آئی ،کلیاںچٹکنے لگیں،بہاریں مسکرانے لگیں۔مولانا الطاف حسین حالی نے کہا
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخٔہ کیمیا ساتھ لایا
وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوت ہادی
عرب کی زمیں جس نے ساری ہلادی
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری حیات طیبہ ر حمتوں ،عنایتوں اور لطف وعنایات سے بھری پڑی ہیں ، اگر آپ اس دنیا میں تشریف نہیں لاتے تو شاید میزان عدل اس دنیا میں کبھی قائم نہیں ہو پاتا ،کسی کو اپنا حق بھی نہیں مل پاتا ،آپ کی آمد پر جہاں عام انسانوں کو انصاف ملا وہیں غیرذوی العقول کو بھی اس سے محروم نہ رہے، گویاآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات ہر گوشہ اور چپے میں ہیں، مردہو یاعورت ،بوڑھا ہو یاجوان، کمزور ہو یا طاقت ور، مالدارہو یاغریب یوں تو کوئی بھی ایسا نہیں جن پر رسول عربی صلی اللہ علیہ کے احسانات نہیں ہیں ؛مگر خواتین پر جو انعام واکرام اور احسانات آپ نے فرمائے ہیں ایسا لگتا ہے کہ آپ اس طبقہ کو خصوصی انعام واکرام سے نوازنے اور انہیں مسرت کا نوید بخشنے کے لیے ہی مبعوث کیے گئے تھے ۔
جب آپ سیرت نبویؐ ،احادیث مبارکہ اور تاریخ اسلام کامطالعہ کریں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ آپ ؐ کے احسانات کو بھلا یانہیں جاسکتا،چاہے معاشرتی زندگی کا معاملہ ہو یا کسی بھی شعبۂ حیات کا ،آپ نے اپنے گھریلو معاملات میں جو کردار نبھایا ہے وہ ہم سب پر عیاں ہے اور عام خواتین کے ساتھ آپ کا جو طرزعمل رہاہے وہ آج بھی ہرایک انسان کے لیے آئیڈیل اورنمونہ کی حیثیت رکھتاہے؛ چاہے وہ باپ کی شکل میں ہویا بھائی کے ،بیٹے کی صورت میں ہو یاشوہر کے آپ نے دنیاکے سامنے عملی جامہ پہناکر بتادیا کہ اگر آپ باپ ہیں تو آپ کا اپنی اولاد کے ساتھ کس طرح کے تعلقات ہونے چاہئیں ،اگر بھائی ہیں تو آپ کاان کے ساتھ برتاؤ اور رویہ کیسا ہے ؟اگر آپ اولاد ہیں تو ان کے ساتھ کس طرح پیش آرہے ہیں ؟ اگر شوہر ہیں تو آپ کو ان کے حقوق کس طرح ادا کرنے چاہیے ؟سب کچھ حضور کی تعلیمات میں موجود ہیں ۔آپ نے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی چنانچہ فرمایا:’’استوصوا بالنساء خیرًا‘‘(بخاری و مسلم)ترجمہ: عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔
سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو ہر طرح کے حقوق دے کر نہ صرف یہ کہ ان پر احسان فرمایا بلکہ انسانیت کو ایک نئی زندگی دی اور جینے کا پور احق عطاکیا جس کا تصور اسلام سے پہلے نہیں تھا ، ان کے بارے میںکئی کئی بشارتیں دیں ، خوش خبریا ں سنائیں حضورؐ نے فرمایا ’’الْدُّنْیاَ کُلُّھَا مَتَاعٌ وَخَیْرُمَتَاعِ الْدُّنْیَا الْمَرْئَ ۃُ الصَّالِحَۃُ‘‘(مسلم شریف)کہ دنیا متاع ،پونجی ہے اور دنیا کی سب سے اہم پونجی ایک اچھی عورت ہے ،چنانچہ جن بچیوں کی پیدائش کولوگ باعث ننگ وعار سمجھتے تھے اسلام نے ایک ایسا تصوردیا کہ لوگ بچی کی پیدائش پر سرفخرسے بلندکرنے لگے اور جن عورتوں بہن بیٹیوں ،بہوؤں کا تصورکرکے لوگ تلملااٹھتے تھے اور درد وکر ب، پریشانی وکلفت کی زندگی گزارنے پر مجبورہوجاتے تھے ،اب ان کی پرورش وپرداخت کو اپنا طرۂ امتیاز سمجھنے لگے،بچیوں کو احترام اور محبت وشفقت کی نگاہ سے دیکھاجانے لگا، ان کو ان کا حق ملنے لگا،چاہے وہ عزت، علم، وراثت، نکاح کا مسئلہ ہو یاکوئی اور معاملہ ۔ماں، بیوی، بہن اور بیٹی کی عظمت ہر قلب میں جاگزیں ہوگئی ۔’’ ــاِنَّ الْجَنَّۃ تَحْتَ اَقْدَامِ الْاُمَّھَاتْ‘‘ کے ذریعہ ماؤں کو عظمت کاتاج پہنا دیا، بیٹیوں اور بیویوں کو تقدس عطا کی،عورت کو بیوی کے طور پر عزت دی کہ دنیا میں ایسی مثال نہیں ملتی آپؐ نے فرمایا:’’خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِأَہْلِہِ، وَأَنَا خَیْرُکُمْ لِأَہْلِی‘‘(ترمذی)ترجمہ: تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو، اور میں تم میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہوں۔یقینا یہ سب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان رحمت و برکت کامظہر ہیں قرآن کریم نے آپ کو رحمت کے لقب سے ملقب فرمایاارشاد باری تعالیٰ ہے :’’وَمَا أرْسَلْنَاکَ إلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِین‘‘(الأنبیاء: 107) ترجمہ: اور ہم نے آپ کو سارے جہان کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔
اسلا م سے قبل لوگوں نے ان کی زندگی کو عذاب بناکر رکھ دیا تھا ،آج کی یہ ا سلام مخالف دنیا ہزارنعروں اور وعدوں کے باجود ان کو وہ رفعت ومنزلت نہیں عطا کرسکتی جو اسلامی تعلیمات اور اسلام کے سایۂ عاطفت میں ہے ۔ یکسانیت ،مروت ومحبت کا ڈھنڈورا پیٹنے کے باوجود ان کو وہ مقام نہیں دے سکتی جو آج سے تقریبا ساڑھے چودہ سوسال قبل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا،آج کی نئی نئی سرکاری اسکیمیں اور یوجنائیںجو محض عورتوں کے نام پر لائی جاتی ہیں اسلامی احکامات وفرامین کے سامنے عشر عشیر بھی نہیں ؛حکومتیں اس سے اپنا مطلب تو نکال لیتی ہیں مگر انہیں خاطر خواہ کوئی فائدہ نہیں مل پاتا؛مگرجس اسلام نے انہیں تحت الثریٰ سے اٹھاکرثریا تک پہونچا دیا،ان کی عظمت رفتہ کو بحال کیا ،انہیں جینے کا حق دیااور اس ظلم کو ختم کیا، قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’وَإِذَا الْمَوْئُودَۃُ سُئِلَتْ، بِأَیِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ‘‘ (التکویر: 8-9)کہ’’ یاد وکرو جب زندہ درگور کردی گئی بچی سے پوچھا جائے گا کہ بتا ؤ تمہیں کس پاداش میں قتل کردیا گیا تھا‘‘ یہی نہیں بلکہ بیٹی کو نعمت قرار دے کر ان کی تربیت اور پرورش وپرداخت کو جنت میں جانے اورحضورؐ کی معیت نصیب ہونے کاذریعہ بنادیااور جولوگ بچیوں کو بوجھ سمجھتے تھے ان کے لیے مزدہ سنادیاکہ ’’من عال جاریتین حتی تبلغا، جاء یوم القیامۃ أنا وہو کہاتین‘‘(مسلم)کہ جو شخص دو بیٹیوں کی پرورش کرے یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائیں، وہ قیامت کے دن میرے ساتھ اس طرح ہوگا (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو انگلیاں ملا کر دکھائیں)اس سے بڑا انعام واکرام اور کیا ہوسکتا ہے؟۔
آج تعلیم وایجوکیشن کے نام پر واویلا مچایاجاتاہے کہ اسلام عورتوںکو تعلیم سے روکتا ہے،انھیں گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں،وہ خود مختار نہیں ہے ، انھیں شریعت کے جبڑے میں مقبوض کردیا گیا ہے وہ ذر ااسلام سے قبل کی تاریخ کا مطالعہ کریںانھیں خود بخود اندازہ ہوجائے گاکہ دین اسلام میں ان کے لیے کتنی گنجائش رکھی گئی ہے ۔ اسلام کی شروعات ہی اقراء سے ہوئی اور تعلیم وتعلم پر جتنی توجہ اسلام نے دی کسی اور مذہب میں اس کو اتنی اہمیت نہیں دی گئی ،اسلام نے ہرایک کو علم سیکھنے اورسکھانے کا مکلف بنایاہے اور اسے حاصل کرنا ایک فریضہ قراردیاہے اور فرمایا ہے ’’طلب العلم فریضۃ ‘‘ تعلیم نسواں کو فروغ بخشا بلکہ خواتین نے اپنے علم سیکھنے کے لیے اپنے کچھ دن مقرر کررکھاتھا، جس میں وہ آپ سے ہرضروری علم سیکھتی تھیں اور استفادہ کرتی تھی چنانچہ حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ چندعورتیں اللہ کے نبیؐ کے پاس آئیں اور خصوصی دنوں میں تعلیم کی درخواست کیںتو اللہ کے نبی ؐ نے ان کے لیے دن متعین فرمایا اوران کو تعلیم دی وعظ ونصیحت بھی فرمائی :’’غَلَبَنَا عَلَیْکَ الرِّجَالُ، فَاجْعَلْ لَنَا یَوْمًا مِن نَفْسِکَ، فَوَعَدھُنَّ یَوْمًالَقِیَھُنَّ فِیْہِ فَوَعَظَھُنَّ وأَمَرَھُنَّ‘‘(بخاری)اسلام نے ان کو وراثت میں بھی حق دیا اورن اپر احسان عظیم فرمایا ’’ لِلرِّجَالِ نَصِیبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَائِ نَصِیبٌ‘‘(النساء: 7)ساتھ ہی نکاح جیسے اہم معاملہ میں ان کی اجازت اور انکی پسند ناپسند کا خیال رکھاگیا ،بعج جگہوں پرشوہرکی وفات کے بعد ان کو ترکہ سمجھ کر تقسیم کرنے کا رواج تھا اس غلط رسم سے انھیں آزادکرایا، خواتین سے متعلق اظہا رہمدردی ،الفت ومروت، کا ایسا نمونہ دنیا کی کسی تاریخ ، سماج اور مذہب میں نہیں ملے گا جوکہ مذہب اسلام اور رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا۔