مولانا آزاد کی سوانح حیات کا ایک نیا حوالہ
پروفیسر محسن عثمانی ندوی
اگر غالب سے متعلق معلومات کا کوئی نیا گوشہ سامنے آجائے تو ماہرین غالبیات میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور اس نئے گوشہ کو طشت از بام کرنے والے کا نام اور کام ادب میں شہرت دوام حاصل کرلیتا ہے۔یہ نیا گوشہ خواہ علمی نہ ہو لیکن اگر اس کا انتساب غالب جیسے شاعر سے ہوجائے تو اسے اہمیت حاصل ہوجاتی ہے مثال کے طور پر غالب کا شعر ہے
قرض کی پیتے تھے مئے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
اب اگر کوئی غالبیات کا محقق داد تحقیق دے کر یہ انکشاف کرے کہ غالب فلاں فلاں شخص سے قرض لے کر اور فلاں مئے فروش کے گھر سے بادہ گلفام خریدکر مئے نوشی فرما یا کرتے تھے اور قرض کے بوجھ سے ہمیشہ پریشان رہتے تھے اور پھر قرض خواہوں کے مسلسل تقاضہ کی وجہ سے فلاں فلاں شخص سے قرض لے کرشراب کا قرض اداکرتے تھے اورمسلسل مقروض رہنے کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار رہتے تھے اور شاعرکی پریشانی کو دیکھ کر فلاں فلاں مخیرحضرات ان کی گا ہے بگاہے مالی مدد بھی کردیا کرتے تھے تو اس تحقیق کو غالبیات میں اہم اضافہ سمجھا جائے گا۔

مولانا ابو الکلام آزاد کی بھی ادب اور اسلامی علوم کی دنیا میں ایک شخصیت ہے، گراں مایہ شخصیت، عبقری شخصیت،نابغہ روزگار شخصیت۔علمی اور ادبی اعتبارسے ایسی ثروت مند شخصیت بہت کم پیدا ہوتی ہے۔ادب میں ان کا ایک خاص رنگ تھا۔مولانا آزاد کے ایک رفیق کار منشی عبد القیوم خاں تھے، انہوں نے’ترجمان القرآن‘ کی کتابت کی تھی اور اسی کے ساتھ وہ’غبار خاطر‘ کے کاتب بھی تھے اور یہ دونوں کتابیں مولانا آزاد کی شاہکار کتابیں ہیں۔’ترجمان القرآن‘میں وہ تفسیر کے عرش سلیمانی پر جلوہ افروزنظر آتے ہیں اور ’غبار خاطر‘ میں وہ مملکت ادب کی اورنگ زیبی کرتے نظر آتے ہیں اور الہلال تو وہ اسلوب اور زبان کے اعتبار سے سحر حلال ہے،قوم کو جگانے کے لئے صور اسرافیل ہے اور بانگ رحیل ہے۔
منشی عبد القیوم خاں پرویں رقم تھے اوراعلیٰ درجہ کے خوشنویس تھے اور مولانا آزاد نے کلکتہ میں انہیں اپنے گھر میں جگہ دی تھی، جہاں وہ سکون کے ساتھ بیٹھ کر کتابت کرتے تھے۔اہل کمال کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کیا جاتا ہے۔ انہوں نے ’ترجمان القرآن‘کے علاوہ ’غبار خاطر‘ کی بھی کتابت کی تھی۔’خطوط ابوالکلام آزاد‘مرتبہ مالک رام میں منشی عبدالقیوم خاں کے نام مولانا آزاد کے ۴۱ خطوط موجود ہیں۔ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہاں پوری کا بھی اس نئی کتاب میں جو ”منشی عبد القیوم خاں خطاط“ کے نام سے حال ہی میں شائع ہوئی ہے، منشی عبد القیوم خاں پرمعلوماتی مضمون ہے۔ ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہاں پور ی،مولانا آزاد کے معتقد،مداح اور ابوالکلامیات کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ابو سلمان شاہجہاں پوری کا خیال تھا کہ منشی عبد القیوم خاں کے حالات زندگی پردہ خفا سے سطح بروز و جلا تک کوئی لائے تو مولاناآزاد کی زندگی کے کچھ نئے گوشے سامنے آئیں گے۔ماہ وسال کی بے شمار گردشوں کے بعد آخر”منشی عبد القیوم خاں خطاط“ کے نام سے اب یہ کتاب سامنے آئی ہے اوریقینا یہ کتاب مولانا آزاد کی شخصیت کے بارے میں ایک نیا حوالہ قرار دی جاسکتی ہے۔ مولانا آزاد کی شخصیت پر کوئی نیا تحقیقی کا م کرنے والاسوانح نگار اس کتاب سے مستفید ہوسکتا ہے۔ کسی بھی نظام شمسی کے کئی ستارے ہوتے ہیں اور ہر ستارے کی اپنی جگہ پر اہمیت ہتی ہے۔ہر بڑی شخصیت کے گرد پیش کچھ چھوٹی بڑی شخصیتیں ہوتی ہیں،ان سب سے مل کر نظام شمسی کی تشکیل ہوتی ہے۔مولانا آزاد کے رفیق کار منشی عبد القیوم خاں پر یہ کتاب اردوکے معروف صحافی معصوم مرادآبادی نے ترتیب دی ہے۔معصوم مرادآبادی اپنی متوازن فکر، قلم کی متانت اور حق گوئی کے لئے شہرت رکھتے ہیں اور اپنے ناموس قلم کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔
منشی عبد القیوم خاں کے نامور صاحبزادے مولانا عبد الملک جامعی تھے،جو ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب کے خاص شاگرد تھے اور مولانا الیاس کے قریبی رفقا میں تھے اور تبلیغی جماعت کے سرگرم رکن اور کارکن تھے، لیکن تبلیغ کے لوگ اب کا نام بھی نہیں لیتے ہیں۔ ان کی زندگی کا آخری پڑاؤمدینہ منورہ تھا، مولانا عبد الملک جامعی معصوم مرادآبادی کے ماموں تھے۔ ایں خانہ ہمہ آفتاب است۔ اس کتاب میں مولانا عبد الملک جامعی کا مضمو ن بھی اپنی والد منشی عبد القیوم خاں پر موجود ہے۔ منشی عبد القیوم خاں صاحب نے مولانا آزاد پر اپنی تحریر میں جو اسی کتاب میں شامل ہے‘مولانا آزاد کے تنگی اور عسرت کے زمانہ پر روشنی ڈالی ہے اور چونکہ وہ مولانا آزادکے ہم نشین تھے اور ان کے مکان کے مکین تھے بلکہ ان کے اسرارورموز کے امین تھے او’رترجمان القرآن‘کی مقدس کتابت کی وجہ سے مثل کراماً کاتبین تھے اس لئے مولانا آزاد کے بارے میں ان کا بیان معتبر ہے۔ ان کاکہنا ہے کہ’ترجمان القرآن‘کی تصنیف کے وقت ”مولانا آزادکئی کئی دن ابلے ہوئے چاولوں پر گذر اوقات کرتے تھے۔دال بھی ہر روز میسر نہیں آتی تھی۔“ مال وزر کی ریل پیل اور خوش حالی اور خوش جمالی کا زمانہ اقلیم وزارت کے بعد شروع ہوا، یا ابتدا میں نسبتاً فراغت ضرور حاصل تھی جب وہ کلکتہ سے الہلال نکالتے تھے۔ یہ مولانا آزاد کا فقر غیور تھا، جس کی وجہ سے ان کی مفلسی،فقیری، بے زری اور قلاشی کا راز فاش نہیں ہوسکا۔اس راز پر سے منشی عبد القیوم خاں صاحب نے پردہ اٹھایا ہے۔مولانا آزاد اکثر مقروض بھی ہوجاتے تھے اور اس قرض کو ادا کرنے میں منشی عبد القیوم خاں نے مدد کی تھی۔بعض کتابوں کی اشاعت میں بھی انہوں نے ہی مالی اخراجات کا انتظام کیا تھا۔
اس کتاب سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ’ترجمان القرآن‘ کا تیسرا اور آخری حصہ کبھی منظر عام پر نہیں آیا۔غم حیات اور غم حالات نے انہیں اس کی مہلت ہی نہیں دی اور آشوب سیاست نے انہیں اس کی فرصت نہیں دی۔مولانا آزاد کی نیت لکھنے کی تھی لیکن وہ لکھ نہیں سکے۔علم وادب کی دنیا کا یہ بہت بڑا سانحہ ہے۔زیر نظرکتاب ایک دفتر ہے جس میں کئی اہم شخصیتوں کے حالا ت زندگی آگئے ہیں اور ہر شخصیت ایک جلوہ صد رنگ ہے۔سب سے اہم بات یہ کہ مولانا آزاد کی زندگی کے کئی پہلو، پہلی باراس کتاب سے نظر کے سامنے آتے ہیں۔وہ مولانا آزادجو در مکنون تھے اورعلم کی وسعت کے ساتھ سیاسی بصیرت رکھتے تھے لیکن ان کو شکایت رہی کہ ان کی آواز ایک طبقہ کے لئے صدا بصحرا رہی، ایک دور افتادہ صدا۔ یہ کتاب قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی نے شائع کی ہے۔