بہار مدرسہ بورڈ — تاریخ و تجزیہ

قاضی شمیم اکرم رحمانی

 امارتِ شرعیہ کے نائب ناظم اور معروف صاحب قلم عالم دین مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی صاحب کی قدیم قابل قدر کاوش ہے

بہار مدرسہ بورڈ — تاریخ و تجزیہ
بہار مدرسہ بورڈ — تاریخ و تجزیہ

کتاب دیکھنے کے بعد محسوس ہوا کہ جب یہ کتاب پہلی مرتبہ شائع ہوئی ہوگی تو اس کی جلد اور طباعت نہایت خوبصورت رہی ہوگی، مگر مرورِ زمانہ نے اس کی ظاہری خوبصورتی کو ماند کر دیا تھا۔ کئی صفحات کٹ پھٹ گئے تھے، تاہم سرورق پر جلی حروف میں خوبصورت خط کے ساتھ کتاب کا نام "مدرسہ بورڈ — تاریخ و تجزیہ” کندہ تھا۔

یہ تصنیف سنہ 1995 میں شائع ہوئی، جب جناب پروفیسر محمد سہراب صاحب مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے چیئرمین تھے۔ کتاب میں ان کا مقدمہ بھی شامل ہے، جس میں انہوں نے مدرسہ بورڈ کی تاریخ لکھنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ عام طور پر بورڈز کی تاریخ قلم بند نہیں کی جاتی، لیکن بہار مدرسہ بورڈ ایک ایسا ادارہ ہے جو اس کا مستحق ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

> "بہار مدرسہ بورڈ کا معاملہ دوسرا ہے، یہ صرف ایک سرکاری بورڈ ہی نہیں بلکہ بہار میں بیسویں صدی کی ایک تعلیمی تحریک ہے، جس نے ابتدا ہی سے اپنی ایک شناخت بنائی، علمِ دین و دنیا کی تفریق کو مٹایا، علماء اور دانشوروں کے درمیان بڑھتی خلیج کو کم کیا، اور ملت کے لیے ہر محاذ پر کام کرنے والے افراد تیار کیے، جس کے بڑے مثبت اور دور رس اثرات تعلیمی اور معاشی طور پر سامنے آئے۔” (ص 25)

مذکورہ گفتگو سے جزوی اختلاف کی گنجائش ضرور ہے، تاہم مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کا نصاب اور نظام پروفیسر محمد سہراب صاحب کے بیان کی تائید کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس مقدمے کے علاوہ جناب اخلاق الرحمن قدوائی (سابق گورنر بہار)، جناب جے پرکاش نارائن (سابق وزیرِ تعلیم، حکومت بہار)، جناب مولانا شکیل قاسمی (صدر جمعیت شبابِ اسلام بہار) اور جناب الحاج غلام سرور (سابق وزیرِ تعلیم و اسپیکر اسمبلی بہار) کی قیمتی تحریریں بھی کتاب میں شامل ہیں، جو کئی اعتبار سے نہایت اہم اور اہلِ علم کے لیے مفید ہیں۔

یہ سچائی ہے کہ بہار مدرسہ بورڈ کا نام آتے ہی عموماً ذہنوں میں کرپشن اور بدعنوانی کا تصور ابھرتا ہے، جس کی وجہ بورڈ سے منسلک بعض افراد کا کردار ہو سکتا ہے۔ تاہم اس کتاب میں مفتی صاحب نے بورڈ کی مستند تاریخ اور اس کا غیر جانب دارانہ تجزیہ پیش کیا ہے۔ آغاز سے ارتقاء تک کی تمام تفصیلات ایک مورخ اور تجزیہ نگار کی حیثیت سے نہایت سلیقے اور ترتیب سے قلم بند کی ہیں۔ اس موضوع پر مضامین تو ملتے ہیں، لیکن کتابی شکل میں یہ ایک منفرد اور اہم کارنامہ ہے۔

کتاب کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے: پہلے باب میں بہار میں علومِ اسلامیہ کے قدیم مراکز کا ذکر ہے۔دوسرے باب میں مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ کا تفصیلی تذکرہ ہےتیسرے باب میں بہار ایگزامینیشن بورڈ پر گفتگو ہے۔چوتھے باب میں بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ، پٹنہ کے بارے میں پرمغز مواد فراہم کیا گیا ہے۔پانچویں باب میں نصاب اور اس میں ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

مصنف نے صفحہ نمبر 8 پر دوسری جلد کی تیاری کا ذکر بھی کیا ہے، تاہم تقریباً تیس برس گزر جانے کے باوجود یہ واضح نہیں ہے کہ وہ شائع ہوئی یا نہیں

گرچہ یہ کتاب مدرسہ بورڈ کی تاریخ پر لکھی گئی ہے، لیکن اس کے ذریعے بہار کی دینی تعلیمی تاریخ پر بھی اچھی خاصی روشنی پڑتی ہے۔ اسلوب میں سادگی، روانی اور برجستگی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کتاب کا اندازِ تحریر مفتی صاحب کی موجودہ تحریروں کے مقابلے میں زیادہ جامع اور مؤثر محسوس ہوتا ہے۔ دورانِ مطالعہ یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ مصنف نے کئی مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود اس کام کو مکمل کیا، اسی لیے یہ تصنیف نہ صرف مدرسہ بورڈ کے لیے ایک تاریخی دستاویز ہے بلکہ اہلِ علم کے لیے ایک قیمتی سرمایہ بھی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ دیگر بورڈز کی طرح نہیں، ہے بلکہ اپنی ایک منفرد اور شاندار تاریخ رکھتا ہے، جس پر اسے بجا طور پر فخر کا حق حاصل ہے۔ مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی کی یہ تصنیف اس تاریخ کو محفوظ کرنے کی ایک سنجیدہ اور کامیاب کوشش ہے۔ اگر اس کی ازسرِ نو اشاعت اور دوسری جلد کی تکمیل عمل میں آ جائے تو یہ نہ صرف بورڈ کے وقار میں اضافہ کرے گی بلکہ بہار کی دینی و تعلیمی تاریخ کا ایک اہم باب ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جائے گا اور آنے والی نسلوں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بنے گا۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare