اردو کونسل ، ہند کا”یادگاری مجلہ”

                                       انوارالحسن وسطوی

                 اردو کونسل،ہند کے جشن سیمیں(سلور جوبلی) منعقدہ 27/ اگست2025ء کے موقع پر شائع یہ یاد گاری مجلہ کونسل ہذا کے روح رواں اورفعال و سے متحرک ناظم اعلیٰ ڈاکٹر اسلم جاوداں کی اتنی عمدہ،شاندار اور تاریخی حیثیت کی حامل پیشکش ہے جس کا اعتراف نہ کیا جانا تنگ دلی اور بے ایمانی کہی جائے گی ۔ مجلہ پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہی آنکھیں خیرہ ہو کر رہ جاتی ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا بدذوق ہو گا جو یہ مجلہ ہاتھ میں لے اور کم ازکم اس کی ورق گردانی بھی نہ کرے۔ مجلہ نکالنے میں تو ڈاکٹر اسلم جاوداں کو مہارت اور کمال حاصل ہے۔ انہوں نے2007ء میں سہ ماہی”ندائے پاسدار”کا اتنا شاندار،دلکش، جاذب نظر اور لاجواب”شاہ مشتاق نمبر” نکالا تھا جس کی یاد ابھی بھی لوگوں کے ذہن میں تازہ اور باقی ہے۔ اردو ڈائرکٹوریٹ میں مامور رہنے کے زمانہ میں بھی ڈاکٹر اسلم جاوداں نے”بھا شا سنگم”کے کئ ایسے یادگار شمارے نکا لے جو آج بھی اپنی اہمیت کا احساس دلا رہےہیں اور آیندہ بھی دستاویزی حیثیت کے حامل رہیں گے۔

اردو کونسل ، ہند کا"یادگاری مجلہ" 
اردو کونسل ، ہند کا”یادگاری مجلہ”

                 ز یر تذکرہ مجلہ دو حصوں میں منقسم ہے۔ پہلا حصہ اردو کونسل،ہند کے تعارف اور دستورالعمل پر مشتمل ہے جبکہ دوسرا حصہ "ضمیمہ” کے عنوان سے ہے۔ پہلے حصے میں اردو کونسل کا تاریخی پس منظر،چند کار گزاریاں ،نصب العین، اغراض ومقاصد اور اصول وضوابط کے علاوہ کونسل کی مجلس شوریٰ کی تشکیل کے ضوابط اور واٹس ایپ گروپ کے اصول وقواعد کو بالتفصیل تحریر کیا گیا ہے۔ اس طرح مجلہ کے اس باب کے مطالعہ سے اردو کونسل،ہند کی تشکیل کا پس منظر اور اس کی تاریخ کی پوری تفصیل سے قاری کماحقہ واقف ہوتا ہے۔ اس باب کے آخری حصے میں اردو کونسل کی ریاستی کمیٹی کے عہدیداران کے اسمائے گرامی معہ موبائل نمبر درج کیے گئے ہیں ۔اس کے بعد کے صفحات میں ریاست بہار کے تمام 38/اضلاع میں قایم اردو کونسل کی ضلعی شاخ کی تفصیل الگ الگ صفحے پر نہایت قاعدے اور سلیقے سے دی گئی ہے جسے دیکھ کر بخوبی یہ اندازہ لگ جاتا ہے کہ کتنی محنت اور چھان پھٹک کے بعد ضلعی شاخیں قائم کی گئی ہیں اور ہر ضلع کی کیسی کیسی اہم اور معتبر شخصیتوں کو اردو کونسل سے جوڑنے اور منسلک کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ بالفاظ دیگر سمندر سے موتی رولنے کا کام کیا گیا ہے۔ راقم السطور گذشتہ چالیس سال سے زائد عرصے سے اردو تحریک سے منسلک ہے۔اس لمبے عرصے میں متعدد اردو تنظیموں سے میری سرگرم وابستگی رہی ہے۔گذشتہ صدی کے نصف اواخر میں تقریباً ربع صدی تک اردو کی سب سے بڑی اور قدیم لسانی تنظیم "انجمن ترقی اردو”سے بطور خاص منسلک رہا ہوں لیکن میں نے کبھی بھی انجمن ہذا کا کوئی ایسا مجلہ نہیں دیکھا جس میں اس باقاعدگی سے پوری ریاست کی ضلعی کمیٹیوں کے عہدیداران کی تفصیل کسی کتاب یا کسی مجلہ میں یکجا کی گئی ہو۔مجلہ کے پہلے باب کی پہلی تحریر "کچھ میری بات” کے عنوان سے ہےجسے اداریہ کی تحریر کا نام بھی دیا جا سکتاہے۔ اس تحریر میں ڈاکٹر اسلم جاوداں نے اس مجلہ کا شان نزول ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔ ملاحظہ ہو یہ اقتباس:

                          ” اکتوبر 2024ء میں جب ارد کونسل ہند کی شاخیں بہار کے تمام اضلاع میں قائم کرنے کا فیصلہ لیا گیا اور تین ماہ کے اندر تقریباً پورے بہار میں جب اس کی شاخیں قائم ہو گئیں تو ہر ضلعے سے مطالبہ ہو نے لگا کہ اردو کونسل ہند کا دستورالعمل کیا ہے ؟اس کے اغراض ومقاصد کیا ہیں ؟ اس کا طریقہ کار کیا ہے؟لہذا اسی ضرورت کے پییش نظر اردو کونسل،ہند کے دستورالعمل،اغرا ض ومقاصد اور اسکے طریقہ کار پر مشتمل ایک کتاب کی اشاعت کا فیصلہ لیا گیا۔ یہ کتاب ا سی مقصد کے پیش نظر شایع کی گئی ہے۔”

(اردو کونسل کا یاد گاری مجلہ —-ص،5)

اردو کونسل ، ہند کا"یادگاری مجلہ" 
اردو کونسل ، ہند کا”یادگاری مجلہ”

       مجلہ کا دوسرا حصہ جو "ضمیمہ "کے عنوان سے ہے اسکی چھے ذیلی سرخیاں ہیں،جنکی ترتیب حسب ذیل ہے:

ــــ اردو کو زندہ رکھنا کیوں ضروری ہے؟

ـــــ انگریزی کی بجائے اردو الفاظ استعمال کریں۔

ـــــ اردو کا پس منظر اور پیش منظر

ـــــ تحفظ اردو دھرنا( ایک رپورتاژ)

ـــــ اردو کونسل کے سابق صدر شمایل نبی کی رحلت

 ــــ اردو کے سلسلے میں حکومت کے اہم نوٹی فکیشنز

      یوں تو مذکورہ تمام عناوین کی تحریرں دلچسپ ، معلوماتی اور قابل مطالعہ ہیں لیکن”تحفظ اردو دھرنا” (منعقدہ 14/دسمبر 2024ء) نہایت دلچسپ،چشم کشا اور معلوماتی ہے جس کے مطالعہ سے یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ موجودہ حالات میں اردو کی تحریک چلانا جوئے شیر لانے اور ہتھیلی پر سرسوں جمانے کے مترادف ہے۔ ایسا اس لیے کہ موجودہ ماحول میں ہم میں سے بیشتر لوگ حق پرستی کی جگہ مصلحت پسندی اور بہادری کی جگہ بزدلی کا شیوہ اختیار کیے ہوئے ہیں ۔ مصلحت کے تحت حق بولنے اور سچ لکھنے کا رواج تقریباً ختم ہو چکا ہے۔بشیر بدر نے اس حقیقت کی ترجمانی اپنے اس شعر میں یوں کی ہے:

بڑےشوق سے میرے گھر جلا کوئی آنچ نہ تم پہ آئے گی

یہ زباں کسی نے خرید لی یہ قلم کسی کا غلام ہے

    مذکورہ دھرنے کے انعقاد میں اردو کونسل کے ناظم اعلیٰ ڈاکٹر اسلم جاوداں کو کن دشوار گزار اور صبر آزما حالات کا سامنا کرنا پڑا اسکی پوری روداد انہوں نے اپنے اس رپورتاژ میں نہایت سچائی اور دیانت داری سے لکھ ڈالی ہے جس کے مطالعہ سے انکی ہمت،جرات،قوت استقامت اور غیر متزلزل ارادے کامعترف ہونا پرتاہے۔اس ضمن میں ان کی تحریر کا یہ اقتباس ملاحظہ فر مایا جا سکتا ہے جس سے ان کا درد جھلکتا ہی نہیں چھلکتا نظر اتا ہے:

     "14/ دسمبر2024ء کو پٹنہ کے گردنی باغ دھرنا استھل پر اردو کونسل،ہند کے زیر اہتمام جو "تحفظ اردو دھر نا "کا تاریخی انعقا د ہوااسکی پوری داستان اس کتاب میں بہت تفصیل،تمام جزئیات کے ساتھ بیان کی گئی ہے ۔جس کی خاص بات یہ ہے کہ اس دھرنے کے توسط سے بہار میں اردو دوستوں کی ایک حقیقی تصویر پیش کی گئی ہے،جس میں کچھ چہرے آپ کو عجیب وغریب لگیں گے ،مگر درجنوں چہرے محبت اردو کے نور سے جگمگا تے نظر آئیں گے ۔ان کی داستان سن کر آپ کے دل میں بھی ادو کی محبت انگڑائی لے گی لیکن کچھ چہرے آپ کو بہت مایوس کریں گے۔کچھ لوگوں کی پیشانی پر ان تصاویر کو دیکھ کر شکن بھی آئے گی،مگر سچائی کو چھپا نا بھی ایک جرم ہے۔ بڑی دلچسپ اور چشم کشا داستان ہے،تحفظ اردو دھرنے کی،اگر آپ نے یہ نہیں پڑھا تو بہار میں اردو کی تاریخ میں محبان اردو کے روشن کردار اور منفی صورت سے آپ واقف نہیں ہو سکیں گے ۔”(ایضاً ـــ ص، 6 )

              ” تحفظ اردو دھرنا” کی یہ رپورتاژ کل 32/صفحات پر مشتمل ہے ۔ مصنف مجلہ نے دھرنا کی جو منظر کشی کی ہے اس کا اسلوب اور انداز بیان اتنا دلچسپ،دل آویز اور پر کشش ہے جس کا جواب نہیں۔ راقم السطور کو مصنف کے اس دعویٰ سے پوری طرح اتفاق ہے کہ اس رپورتاژ کو پڑھنے والے یہ محسوس کریں گے جیسے وہ بھی اس دھر نے میں شامل تھے۔ مجھے اس کا اعتراف اس لئے ہے کہ میں اس تاریخی واقعہ کا عینی شاہد ہوں۔ ڈاکٹر اسلم جاوداں نے اپنے اس رپورتاژ میں ایک جگہ راقم السطور کے تعلق سے پتہ نہیں کس طرح اور کیوں یہ تحریر فر ما دیا ہے کہ:

            ” انوارالحسن وسطوی اردو ایکشن کمیٹی میں رہنے کے باوجود نہ صرف یہ کہ پورے جوش وخروش اور اخلاص نیت کے سا تھ اس”تحفظ اردو دھرنا” میں شریک ہوئے بلکہ اپنے ساتھ ویشالی کے محبان اردو کی ایک جماعت بھی لے کر بیٹھے۔” (ایضاً -ص،116)

      راقم السطور مصنف کی اس بات کی سختی سے تردید کرتا ہےکہ اردو کونسل کے مذکورہ دھر نے میں میری شرکت اردو ایکشن کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے ہرگز نہیں ہو ئ تھی بلکہ میری شرکت "کاروان ادب,حاجی پور” کے عہدیدار(جنرل سکریٹری) کی حیثیت سے ہوئی تھی ،جس کی اطلاع میں نے قبل ہی ڈاکٹر اسلم جاوداں کو بھی دے دی تھی اور اردو ایکشن کمیٹی کے نائب صد رڈاکٹر ریحان غنی ،جنرل سکریٹری ڈاکٹر اشرف النبی قیصر اور سکریٹری ڈاکٹر انوار الہدیٰ کو بھی فرداً فرداً۔ اپنے اس فیصلے سے مطلع کردیا تھا۔جب اردو ایکشن کمیٹی نے اس دھرنے سے خود کو الگ رکھا تھا تو پھر اردو ایکشن کمیٹی کے ممبر کی حیثیت سے دھرنے میں میری شرکت کا کیا جواز تھا ۔ میرے اس دعویٰ کی دلیل یہ ہے کہ دھرنے سے ایک روز قبل بتاریخ13/دسمبر کو راقم السطور اور "کاروان ادب” کےصدر مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کا مشترکہ بیان روز نامہ قومی تنظیم ،پٹنہ سمیت متعدد اخبارا ت میں شائع ہوا تھا جس میں "کاروان ادب” کی جانب سے اردو کونسل کے اس دھرنے کو کامیاب بنا نے اور اس موقع سے اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی گئی تھی ۔ پتہ نہیں رپورتاژ لکھتے وقت ڈاکٹر اسلم جاوداں کو یہ بات کیسے یاد نہیں رہی؟

            یہاں ایک اور بات کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ راقم السطور نے اردو کونسل ،ہند کےقیام(27/اگست2000ء)کے موقع پر منعقدہ میٹنگ میں انجمن ترقی اردو،بہار کی مجلس عاملہ کا رکن ہونے کے باو جو ا س میں شرکت کی تھی اور یہ بات بھی مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میری یہ شرکت محبی ڈاکٹر ریحان غنی کی تحریک اور تشویق پر ہوئ تھی،اس وقت برادرم اسلم جاوداں سے میری کوئی دید وشنید نہیں تھی۔ انجمن ترقی اردو ،بہار سے علیحدگی کے بعد تقریباً 15/برس تک میں اردو کونسل،ہند کی مجلس عاملہ کا رکن رہا۔میری یہ نامزدگی کونسل کے بانی صدر جناب شمایل نبی صاحب کے ذریعہ ہوئی تھی لیکن ۔14/دسمبر 2024ء کے ” تحفظ اردو دھر نا”میں میری شرکت "اردو کونسل”کے رکن کی حیثیت سے نہیں بلکہ "کاروان ادب” کی نمائندہ کی حیثیت سے ہوئی تھی جسکی پوری وضاحت سطور بالا میں کی جاچکی ہے۔ مذکورہ "تحفظ اردو دھرنا” کے موقع سے "اردو کونسل”اور "اردو ایکشن کمیٹی” کے درمیان جو اختلاف رونما ہوئے اس سے راقم السطور کو دلی صدمہ پہنچا، جس کے نتیجے میں میں نے رضا کارانہ طور پرمذکورہ دونوں تنظیموں سے گذشتہ دسمبر2024/ میں ہی اپنی وابستگی ختم کر لی۔ اب نہ میں”اردو کونسل”میں ہوں اور نہ” اردو ایکشن کمیٹی” میں۔ حتیٰ کہ اردو کی دیگر تنظیموں سے بھی خود کو الگ کر لیا ہے۔ فی الوقت صرف "کاروان ادب ، حاجی پور” ( جس کا میں بانی جنرل سکرٹری بھی ہوں )سے وابستگی باقی ہے ۔ اس سے بھی ان شاءاللہ "کارواں ادب”کے صدر مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب کی مکمل صحتیابی کے بعدمستعفی ہو جا نے کا مکمل ارادہ رکھتا ہوں۔ تاکہ اپنی بقیہ زندگی آزاد پنچھی کی طرح گزار سکوں۔ اردو کی خدمت کرنے کے لیئے کسی تنظیم سے وابستہ ہو نا کوئی ضروری نہیں ہے ۔تنظیم سے وابستگی کے بغیر بھی اردو کی خدمت کا فریضہ انجام دیا جا سکتا ہے۔اللہ کاشکر ہے کہ اردو تنظیموں سے علیحدگی کے باجود بھی راقم السطور ابھی بھی اردو کا کل وقتی خادم ہے ۔

شکوہ سنجی اپنی عادت میں نہیں داخل مگر

دل دکھا تو لپ پہ حرف ناگوار آ ہی گیا

                                      (کلیم عاجز)

                  مجلہ کے دوسرے باب کی آخری تحریر "اردو کونسل”کے بانی صدر جناب شمایل نبی صاحب کی رحلت کے تعلق سے ہے جو انکی وفات کے بعد مختلف اخبارات میں شائع تفصیلی خبروں پر مشتمل ہے ۔ اس رپورٹ میں اسلم جاوداں صاحب نے شمایل نبی صاحب کی مختصر سوانح حیات بھی درج کردی ہےاور ان کی رحلت پر موصول ہوئے پیغام اظہار تعزیت کا بھی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ جناب جاوداں نے اپنے مرحوم صدر کے تعلق سے بجا طور پر یہ اعتراف کیا ہے کہ:

                            "شمائل نبی صاحب کی شخصیت ہمہ جہت اور ہمہ گیر تھی۔ وہ بیک وقت ایک ہر دل عزیزبڑے سیاسی رہنما،اردو تحریک کے سالار، مختلف تنظیموں کے سربراہ ، خادم قوم وملت اور ایک معتبر صحافی بھی تھے۔ وہ انسانیت کے جوہر سے مزین ایک ہمدرد اور غم گسار انسان تھے۔جن کی رحلت ایک عہد کا خاتمہ ہے۔” ( ایضاً ــ ص ،127 )

                        مجلہ کا اختتام اردو کے تعلق سے حکومت کے چند اہم نوٹیفکیشنز کی شمولیت پر ہو ا ہے۔ اس فہرست میں کئی ایسے اہم ،معلو ماتی اور کارآمد سرکاری مکتوب کو یکجا کیا گیا ہے جس کا علم اردو والوں بالخصوص اردو تحریک سے منسلک لوگوں کو ضرور ہی ہونا چاہیے،تاکہ وقت ضرورت ان نوٹیفکیشنز کی روشنی میں اردو کاذ کی آواز بلند کی جا سکے۔یہ نوٹیفکیشنز اردو کے حقوق کی لڑائی لڑ تے وقت ہتھیار کا کام دے سکتے ہیں۔142/صفحات پر مشتمل اس بیش قیمتی اور کارآمد مجلہ کی قیمت صرف 300/روپے ہےجسے "ادو کونسل ہند،دارالغیاث،

 سبزی باغ پٹنہ ــ 4 اور”بک امپوریم”اردو بازار ،سبزی باغ ، پٹنہ -4 سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ا ردوکی محبت میں اتنی معمولی سی رقم بھی اگر کوئی چرچ کرنے کی ہمت نہ جٹا سکے تو اسے اردو دوست،اردو نواز،محب اردو یا مجاہد اردو کہنے اور کہلانے کا کوئی حق حاصل نہیں ہو سکتا ہے ۔ جگر مرادآبادی کے اس شعر پر اپنی اس تحریر کا اختتام کرتا ہوں:

        انکا جو کام ہے وہ اہل سیاست جانیں

       میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare