رہائی کے بعد اعظم خاں کی سیاست
معصوم مرادآبادی
سیتا پور جیل سے رہائی کے بعد اعظم خاں کے سیاسی مستقبل کے بارے میں قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہوگیا ہے۔کہا جارہا ہے کہ وہ سماجوادی پارٹی سے ناراض ہیں اور بہوجن سماج پارٹی کا دامن تھام سکتے ہیں۔حالانکہ انھوں نے یہ کہتے ہوئے اس کی تردید کی ہے کہ وہ بکاؤ مال نہیں ہیں۔سبھی جانتے ہیں کہ سیاست بنیادی طور پر امکانات اور موقعہ شناسی کا کھیل ہے۔ جو شخص جتنا زیادہ موقع شناس ہوگا وہ اتنا ہی کامیاب قرار پائے گا۔ اعظم خاں اترپردیش کی سیاست کے ایک منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں۔ 9/ بار ممبراسمبلی اور دومرتبہ ممبر پارلیمنٹ رہنے کے بعد وہ سیاست کے داؤ پیچ کو پوری طرح سمجھ گئے ہیں۔ ان کے بارے میں تازہ قیاس آرائیوں کا سبب یہ ہے کہ وہ فی الحال سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو سے ناراض ہیں۔ حالانکہ انھوں نے اس کا برملا اظہار نہیں کیا ہے، لیکن ان کی گفتگو کے بین السطورسے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ان کے اندرسماجوادی پارٹی کے لیے اب وہ جذبہ باقی نہیں رہ گیاہے جو پہلے کبھی تھا۔ سیتا پور جیل میں 23/ماہ گزارنے کے بعد جب منگل کی صبح وہ ضمانت پر رہا ہوئے تو جیل کے باہر ان کے چاہنے والوں کے علاوہ نامہ نگاروں کا بھی ایک ہجوم تھا۔ہر کوئی ان سے یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ ان کا مستقبل کا منصوبہ کیا ہے؟ انھوں نے اس کا سیدھا جواب دینے کی بجائے مسکراکر صرف اتنا کہا کہ”دیکھئے آگے کیا ہوتاہے۔“

سبھی جانتے ہیں کہ اعظم خاں سماجوادی پارٹی کے بانی ملائم سنگھ یادو کے معتمد خاص رہ چکے ہیں۔ اس دوران کئی بار ملائم سنگھ کے ساتھ ان کے رشتوں میں دراڑ بھی پیدا ہوئی اور ایک بار انھیں پارٹی سے معطل بھی کیا گیا، لیکن دیرسویر انھیں واپس لے لیا گیا۔ ملائم سنگھ اور اعظم خاں کے معاملات ایسے تھے کہ دونوں ایک دوسرے کی مجبوری تھے، اس لیے ناراضگی کا دورانیہ زیادہ نہیں ہوتا تھا۔لیکن ملائم سنگھ کے انتقال کے بعداکھلیش یادو کی سماجوادی پارٹی میں ان کی وہ اہمیت باقی نہیں رہ گئی ہے۔ملائم سنگھ پرانا ساتھی ہونے کی وجہ سے ان کے ناز نخرے برداشت کرتے تھے، لیکن اکھلیش یادو ایسا نہیں کرتے۔ فی الحال اکھلیش یادو سے ان کی ناراضگی کی دووجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ ان کی طویل قید وبند کے دوران پارٹی نے ان کی رہائی کے لیے کوئی ’آندولن‘ نہیں چلایا۔اعظم خاں کی ناراضگی کا دوسرا سبب یہ ہے کہ2024کے عام انتخابات میں ان کی شدید مخالفت کے باوجودمولانا محب اللہ ندوی کو رامپور سے ٹکٹ دیا گیا۔ اب تک یہ ہوتا رہا تھا کہ رامپور کا ہر چھوٹا بڑا ٹکٹ اعظم خاں کی مرضی سے ہی دیا جاتا تھا۔ لیکن یہ پہلی بار ہوا کہ ان کے حلقہ انتخاب سے ایک اجنبی کو ٹکٹ دیا گیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ لوک سبھا چناؤ کے دوران رامپور میں سماجوادی پارٹی کے ارکان نے سردمہری کا مظاہرہ کیا، لیکن اس کے باوجود مولانا محب اللہ ندوی چناؤ جیت گئے۔ اس سیٹ پر2019 کے چناؤ میں خود اعظم خاں نے پہلی بار لوک سبھا چناؤ جیتا تھا۔ اس سے قبل وہ1996 میں راجیہ سبھا کے ممبر چنے گئے تھے۔
رامپور وہ شہر ہے جہاں پچھلے چالیس برس سے اعظم خاں کا جلوہ ہے۔وہ رامپور حلقہ سے 9 بار یوپی اسمبلی کے ممبر چنے گئے۔انھوں نے اپنی وزارت کے زمانے میں کافی تعمیراتی کام بھی کرائے اور رامپور شہر کی قسمت بدل دی۔یہی وجہ ہے کہ وہ لگاتار کامیاب ہوتے رہے۔ صرف ایک بار انھیں کانگریس کے افروز علی خاں کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ ان کے لیے یہ شکست ناقابل قبول تھی اور اس کا ان کے ذہن پر بہت منفی اثر پڑا۔ بعدکو اعظم خاں کے کچھ معتمدلوگوں کی سفارش پر ملائم سنگھ نے راجیہ سبھا کا ممبر بناکر انھیں حوصلہ دینے کی کوشش کی۔مگر راجیہ سبھا میں ان کا دل نہیں لگا، کیونکہ وہ قومی سیاست کے مزاج آشنا نہیں تھے اور صوبائی سیاست ہی انھیں راس آتی تھی۔نتیجہ یہ ہوا کہ انھوں نے درمیان ہی میں راجیہ سبھا کی رکنیت سے استعفیٰ دے کر اسمبلی کا چناؤلڑا۔ کامیاب ہوکر وہ ملائم سنگھ کابینہ میں وزیربنے۔اس دوران ان کا سب سے اہم کام رامپور میں مولانا محمدعلی جوہر یونیورسٹی قائم کرنا تھا۔ جس کے لیے انھوں نے بڑی دوڑ دھوپ کی،لیکن اس یونیورسٹی کے قیام میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے انھوں نے مبینہ طورپرکچھ ایسے کام کئے، جو پوری طرح قانون کے دائرے میں نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ 2017میں بی جے پی سرکار بننے کے بعد ان کے خلاف مقدموں کی ایک باڑھ سی آگئی۔ المیہ یہ تھا کہ اس میں بعض ایسے لوگ بھی ان کے خلاف گواہ بنے جو ان کا دایاں ہاتھ تصور کئے جاتے تھے۔اعظم خاں کے خلاف قائم کئے گئے بعض مقدمات اتنے مضحکہ خیز تھے کہ سب کو ان پر حیرت تھی۔ مثال کے طورپر انھیں مرغی، بکری اور بھیس چوری جیسے مقدمات میں ماخوذ کیا گیا تھا۔ظاہر ہے یہ ایک انتقامی کارروائی تھی۔ ان کے خلاف 100سے زائد مقدمات قائم کرکے انھیں جیل بھیج دیا گیا اورہیٹ اسپیچ معاملے میں ان کی لوک سبھا کی رکنیت بھی ختم ہو گئی۔ اعظم خاں نے سیتاپور جیل میں 23/ماہ کا عرصہ نہایت صبر واستقلال کے ساتھ گزارا۔ ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو کب کا سرنگوں ہوگیا ہوتا، لیکن اعظم خاں چونکہ ایک مضبوط قوت ارادی کے مالک ہیں، اس لیے انھوں نے ہمت نہیں ہاری۔اس سے قبل انھیں اسی جیل میں 27 /مہینوں تک قید رکھا گیا تھا۔ مجموعی طورپر انھوں نے سیتاپور جیل میں پانچ سال گزارے۔اعظم خاں کے خلاف ان کارروائیوں کو اترپردیش سے مسلم قیادت صفائے کی مہم کا ایک حصہ قرار دیا گیا۔
قید وبند کی صعوبتوں سے اعظم خاں کا پرانا رشتہ ہے۔ وہ جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم حاصل کررہے تھے اور طلبہ یونین کے سیکریٹری تھے تو 1977 میں ایمرجنسی کے دوران انھیں گرفتار کرکے بنارس جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ وہاں انھوں نے 18مہینے مسلسل قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ رہا ہونے کے بعد ہی انھوں نے رامپور سے اسمبلی کا پہلا الیکشن لڑا۔لوک دل اور جنتا دل کے بعد سماجوادی پارٹی ان کا ٹھکانہ بنی۔ وہ سماجوادی پارٹی کے بانیوں میں شامل ہیں، لیکن ایک ایسے وقت میں جب یوپی اسمبلی کے انتخابات سرپر ہیں، ان کا سماجوادی پارٹی سے ناراض ہونا اکھلیش یادو کی مشکلوں میں اضافہ کا سبب بن سکتا ہے۔ اعظم خاں کو اترپردیش میں ایک طاقتور مسلم لیڈر کے طورپر دیکھا جاتا ہے اور ان کی اس امیج کا سب سے زیادہ فائدہ سماجوادی پارٹی کو ہی ملا ہے۔وہ ہمیشہ اپنی شرطوں پر اس پارٹی میں رہے ہیں۔لیکن ان کی قیدوبند کی صعوبتوں کے دوران گومتی میں کافی پانی بہہ چکا ہے۔ اسی لیے یہ قیاس کیا جارہا ہے کہ وہ بہوجن سماج پارٹی کا دامن تھام سکتے ہیں۔لیکن اعظم خاں کو قریب سے جاننے والوں کا خیال ہے کہ وہ سماجوادی پارٹی چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے۔ ہاں دباؤ ڈالنے کے لیے وہ قیاس آرائیوں کو لگام بھی نہیں دیں گے تاکہ اکھلیش یادو کو اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کرنے پر مجبور کرسکیں۔ لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ایم پی،ایم ایل اے کورٹ سے ہیٹ اسپیچ معاملے میں سزا یافتہ ہونے کی وجہ سے اعظم خاں فی الحال الیکشن نہیں لڑسکتے۔ اسی معاملے میں ان کی لوک سبھا رکنیت رد کی گئی تھی۔اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ اگر2027 کے الیکشن میں سماجوادی پارٹی کی سرکار بنی تو اس میں اعظم خاں کا کیا رول ہوگا؟فی الحال وہ دہلی کے ایک اسپتال میں زیرعلاج ہیں۔