بہار شریف، راجگیر ، نوادہ ومضافات ایک قدیم سفرنامہ کی روشنی میں

   ابوذر محمد شیبان

(ماخوذ از جین دھرم کے مقدس مقامات (آئینۂ جاترا )مصنفہ بابو نیمی داس وکیل سہارنپور ،تحریر 1911۔قدیم املا قدیم نمبرات ،اور بعض علامات کی تبدیلی وچندتوضیحات کے ساتھ یہ تحریر پیش کی جارہی ہے۔(

بہار شریف، راجگیر ، نوادہ ومضافات ایک قدیم سفرنامہ کی روشنی میں
بہار شریف، راجگیر ، نوادہ ومضافات ایک قدیم سفرنامہ کی روشنی میں

بختیارپور سے چھوٹی لائن بہار تک جو 15 میل پر ہے جاتی ہے ،اس کا نام بختیارپور بہار لائٹ ریلوے ہے۔ بختیارپور میں اترے، اس سے ملی ہوئی دس قدم کے فاصلہ پر چهوٹی لائن ہے، بیچ میں بہت بڑا مسافر خانہ ہےجو دونوں لائن کے پلیٹ فارم کےدرمیان ہے،کل اسباب بڑی لائن سے چهوٹی لائن پر بهجوایا ،کرایہ ریل بختیارپور سےبہار تک چار پیسے) فی ٹکٹ درجہ سویم) ہے،اسٹیشن پر حلوائی کی دکانیں ہیں، دودھ, مٹهائی وغیرہ ملتی ہے،پیڑا اورماوہ کے لڈو عمدہ ملتے ہیں،سوا نو بجے شب کے چهوٹی لائن پر گاڑی روانہ ہوئی اورسوا گیارہ بجے شب کے بہار پہنچے۔یہ گاڑیاں اگرچہ چهوٹی ہیں مگر آسایش دینے والی ہیں،ایسی ہی گاڑیاں اورایسی ہی لائن ہے جیسی کہ سہارنپور سے رامپور ہوتی ہوئی سہارنپور سے شاہدرہ تک جاتی ہے۔

بہار کے اسٹیشن کے سامنے دس قدم پر دهرم شالہ مارواڑیوں کی ہے،لائن سے دوسری طرف ہے ،کچھ فاصلہ نہیں ہے،ایک پیسہ فی عدد میں اسباب لائن سے دهرم شالہ تک پہنچ جاتا ہے،نہایت وسیع کمرہ اور کوٹهریاں بنی ہوئی ہیں،صحن بہت وسیع ہے،اندر کنواں ہے، مگر اس میں پانی بہت کم ہے، چند کنویں دهرم شالہ سے باہر آس پاس ہیں، اس میں سے بهی پانی منگوایا جاتا ہے، کچھ وقت اور اجرت صرف نہیں ہوتی. اس دهرم شالہ میں ہم سب آدمی اس وقت پہنچے، محافظ اس کے نہایت مستعد اور خدمت گذار ہیں، مکانات کھول دئے،شب بهر آرام کیا،دهرم شالہ سے باہر ایک چهوٹا باغچہ اور وسیع میدان پڑا ہوا ہے،کسی بات کی تکلیف نہیں ہوسکتی. علی الصباح اٹھ کر نہا دهو کر مندروں کے درشن اور شہر کی سیر کو گئے۔ اسٹیشن سے ملا ہوا شہر بہار ہے،یہاں سے آبادی شہر کی شروع ہوجاتی ہے،بہت پرانا شہر ہے مگر آبادی اب زیادہ نہیں ہے نہ رونق زیادہ ہے،مکانات کهپریل پوش ہیں،بازار کسی قدر لمبا ہے زیادہ چوڑا نہیں ہے،معمولی چیزیں سب ملتی ہیں،شامگری بہت اچهی ملتی ہے،نرخ معمولی ہے، چاول بہت عمدہ ملتا ہے،ساگ بهاجی سب قسم اور کثرت سے ملتی ہے،چاول زیادہ تر سیلے کے ملتے ہیں(سیلہ اس کو کہتے ہیں کہ دهان کو پانی میں ابال کر کوٹتے ہیں) بہار میں تین وزن ہیں ایک سیر 48 روپیہ بھر ،دوسرا سیر 57 روپیہ بھر،تیسرا سیر 80 روپئے بھر ،اس واسطے سودے کا بھاؤ طے کرنے میں تول بھی طے کرلینی چاہئے۔

 اسٹیشن سے قریب دو سو قدم کے فاصلہ پر ایک مندر دگامبرجین کا ہے،اس کا اہتمام تیرتھ چھیتر کمیٹی کے ہاتھ میں ہے،جس کے سکریٹری سیٹھ مانک چند ہیرا بمبئی والے ہیں،اس مندر میں ایک گماشتہ راتی رام رہتا ہے،وہی پوجا کرتا ہے،مندرجی کی عمارت بہت وسیع نہیں ہے،ایک چبوترہ پر ایک سکھر ہے اسی میں سری مہابیر سوامی کے پرتما جی براجمان ہیں،مگر نشان پرتما جی اچھی طرح نظر نہیں آتا، معلوم ہوا کہ یہ پرتما جی تین سوبرس ہوئے پرتشٹھت ہوئے تھے۔مندر بھی بہت پرانا معلوم ہوا،اس وقت اسی احاطہ میں ایک دھرم شالہ بن رہی ہے، نصف اونچائی تک دیوار یں تیار ہوگئی ہیں،مدد جاری ہے،یہاں پربھی چٹھ کی بہی موجود ہے،چٹھ دیا گیا۔اس مندر جی سے قریباَََایک فرلانگ یا کچھ زیادہ بازار میں ایک دوسرا مندر ہےاس میں دو سکھر ہیں، ایک سکھر میں سوتیامبری پرتماجی براجمان ہیں اور دوسری سکھر میں دگامبری پرتما جی براجمان ہیں۔صحن مندر جی کا جس میں یہ دونوں سکھر ہیں ایک ہی ہے،ایک ہی برہمن ہے جو دونوں مندروں میں پوجا کرتا ہے،جس جگہ پوجا کرتا ہے اسی کے منتر اور استوتر پڑھتا ہے،وہ صرف دیو پوجادگامبری مندرمیں کرتا ہے،اس سے زیادہ پڑھا ہوا بھی نہیں معلو م ہوتا۔اس نواح میں اکثر یہ دیکھا گیا کہ پرتما جی کی پرکشال خس کی کونچی سے کرتے ہیں،اس مندر میں بھی بہی چٹھ کی دیکھی اورچٹھ دیا گیا،اور تحقیق کرنے سے اطمینان ہوا کہ روپیہ تغلب نہیں ہوتا، کیوں کہ بہی دیکھنے سے معلوم ہواکہ 1955سمتمیں لالہ دیا چند رئیس نکوڑ کی والدہ نے اور ان کے ہمراہیان نے ایک سو پانچ روپئے واسطے دھرم شالہ کے دئے تھے ،پجاری نے نشان دیا کہ مندر کے باہر جو احاطہ دھرم شالہ کا ہے اس میں ایک مکان جو نیا تعمیر کیا ہوا معلوم ہوتا تھا وہ اسی روپیہ سے بنایا گیا ہے،یہ دھرم شالہ کھپریل پوش ہے،صحن میں چھوٹا سا باغچہ لگا ہوا ہے،کنواں بنا ہوا ہے،یہاں بھی آرام مل سکتا ہے،یہ مقام اسٹیشن سے تین فرلانگ کے قریب ہوگا، مگر رات کے وقت اس قدر دور آنے میں بھی تکلیف ہوتی ہے،اس لئے اسٹیشن کے قریب کی دھرم شالہ میں ٹھہرنا زیادہ آرام دینے والا ہے،مندر جی کے درشنوں اور بازار کی سیر اور خریداری شامگری وغیرہ کرکے دھرم شالہ میں واپس آئے ،رسوئی تیار تھی،کھانا کھایا،اسباب بندھوایا،بارہ بج گئے،یہاں سے بیل گاڑی جو بہ شکل چھکڑے کے ہوتی ہیں آٹھ روپئے فی گاڑی چھ روز کے واسطے بالمقطع بلا گھاس دانہ اور خوراک گاڑی بان کے کرایہ کی،اور یہ بھی وعدہ ٹھہرا کہ اگر چھ روز سے زیادہ عرصہ صرف ہوگا تو یومیہ گھاس ،دانہ اور گاڑی بان کی خوراک دی جائے گی،نقد کچھ نہیں دیا جائے گا۔

 یہاں پر نرخ کرایہ کے پانچ سے چھ روز کے لئے ہے،مگر کبھی کبھی جاتریوں کی کثرت کی وجہ سے24تک کی نوبت پہنچ جاتی ہے،اور وعدہ یہ ہوتا ہے کہ کنڈل پور،راج گرہی [راجگیرٖ]پاواں پور[پاواپوری]،گناوا ہوکر نوادہ کے اسٹیشن تک پہنچا دے،ہر ایک گاڑی میں نیچے اسباب لگایا گیا،اوپر پانچ پانچ،چھ چھ سواریاں بٹھلائی گئیں،فی سواری گیارہ پیسہ خرچ میں آیا۔

 بہار سے کنڈل پور تک ایک یکہ کھلا ہوا دو سواریوں کے لئے میں نے کرایہ کیا،ایک یکہ پھر کنڈل پور سے نوادہ تک کے لئےآٹھ اور خوارک یکہ والے میں کرایہ کیا گیا،تین سواری بٹھلانے کا اقرار تھا ،یہ بھی ممکن تھا کہ بہار سے نوادہ تک آٹھ تک ایک یکہ تین سواریوں کے لئے چھ روز کے واسطے کرایہ پر مل جاتا ہے۔

 اڑھائی بجے دن کے گاڑیاں بہار سے روانہ ہوئیں،بہار سے کنڈل پور چھ میل ہے،سڑک خام مگر نہایت صاف بلا نشیب وفراز کے مثل پختہ سڑک کے ہے۔بہار سے چار میل پر دیپ نگر ایک گاؤں ہے، اسی کے بیچ سے سڑک نکل گئی ہے،اور گاؤں سے باہر اس کی دو شاخیں ہوگئی ہیں،ایک سیدھی شاخ راجگیرکو چلی جاتی ہے،اور دوسری شاخ دہنے ہاتھ کی طرف کنڈل پور کو چلی جاتی ہے،اس نواح میں کنڈل پور کو بڑگاؤں کہتے ہیں۔ساڑھے چار بجے شام کے قریب دیپ نگر پہنچے ،یہاں سے قریب نصف میل کے ایک گاؤں لب سڑک ہے ،دن چھپنے کےقریب تھا،لب سڑک کو مَین موجود تھے ،گاڑیاں ٹھہرائیں ،کھانا کھایا،سب لوگ گاڑیوں سے اتر کر اپنے اپنے بستر بچھا کر بیٹھے،اپنا اپنا کھانا سامنے رکھا،ایک دوسرے کے ساتھ تقسیم کرکے کھانا کھایا،عجیب لطف تھا ،ایسے موقعے آپس میں میل ملاپ کے بہت کم ملتے ہیں،نصف گھنٹہ ٹھہرکر کھانا کھا کر روانہ ہوئے۔ٹھیک چھ بجے شام کے گاڑیاں بہ مقام کنڈل پورپہنچیں،یعنی ایک میل آدھ گھنٹہ میں چلتی ہیں،یکہ دیڑھ گھنٹہ میں پہنچا،یکہ ساڑھے تین بجے روانہ ہوااور نصف گھنٹہ راستہ میں ٹھہر کر ساڑھے پانچ بجے کنڈل پور پہنچ گیا۔یہ گاؤں چھوٹا سا ہے ،زراعت پیشہ لوگ رہتے ہیں،جینیوں کے مندرجی کااحاطہ بہت وسیع ہے،دروازہ احاطہ کامثل کھڑکی چھوٹاہے،اس میں چھوٹاسا باغچہ اورایک کنواں ہے،اس میں ایک مندر مہابیر سوامی کا ہے جس میں ایک سکھر بنا ہوا ہے اس کا دروازہ قریباََ چار فٹ اونچااور تین فٹ چوڑا ہے،آدمی بہ مشکل اندر جاسکتا ہےاور نکل سکتا ہے،اس میں سامنے صدر مقام پر سوتیامبری پرتما براجمان ہیں،ا ندر مشکل سے دس فٹ لمبی اور دس فٹ چوڑی جگہ ہوگی۔ایک طرف تین پرتما جی تیرہ پینتھی براجمان ہیں ،اور دوسری طرف طاق میں ایک پرتما جی بیس پینتھ آمنائی کے براجمان ہیں ۔چند سال ہوئے اس سکھر کے سامنے ایک وارنڈہ اور اس کے دوسری منزل پر ایک کوٹھری ایک سوتیامبری ساکن بمبئی نے بنوائی تھی ،مگر ابھی تک اس میں پرتما براجمان نہیں ہوئے۔اسی احاطہ میں ایک مندر اورہے ،اس میں تین جگہ صرف چرن بنے ہوئے ہیں مگر یہ نہیں معلوم کس کے چرن اور کب بنائے گئے،اسی احاطہ میں ایک دھرشالہ بنی ہوئی ہے،نہایت صاف اور ستھری کوٹھری ،سہ دری ،کمرہ سب مکانات موجود ہیں ،کونچی ہوئی ہے ،صفائی نہایت عمدہ ہے۔رات کو دھرم شالہ میں آرام کیا ،دھرم شالہ سے باہر بہت میدان پڑا ہواہے۔

 30 دسمبر1908ء

آج صبح اٹھ کر نہا دھو کر مندرجی میں پوجا کی ،یہ وہ مقام ہے جہاں کہ شری مہابیر جی کا جنم ہوا ہے۔نو بجے تک پوجن سے فارغ ہوکر رسوئی کھائی،،بارہ بجے تک سب کاموں سے فارغ ہوکر اور شام کے واسطے کھانا بنواکر بارہ بجے روانہ ہوئے۔یہاں مندر جی میں پوجن کے برتن بہت کم ہیں ،پٹ پوجا کرنے کا نہیں ہے چوکی نیچے اوپر رکھ کر پوجا کی گئی ،معلوم ہوا کہ یہاں پر جو جاتری آتے ہیں شاید ہی کوئی شب کو ٹھہرتا ہواورپوجا کرتاہو،ورنہ عام طور پر درشن کرکےآگے روانہ ہوجاتے ہیں،اسی لئے سامان کم ہے۔دس روپئے پٹ بنوانے کے واسطے مندر میں جمع کئے گئے،اور بہی چٹھ کے روپیہ مندر میں جمع کئے،یہاں پر دودھ نہیں ملتا،معمولی آٹا اور گڑ ملتا ہے،شامگری بھی نہیں ملتی ،ساگ بھاجی کچھ نہیں ملتا ،یہاں پر ایک منیب ،ایک پجاری ،دوچپراسی ،ایک مالی ،ایک خاکروب رہتا ہے،سب لوگ بہت خدمت کرتے ہیں اور ہر طرح کی آسائش ہے۔یہاں پر دوجذامی ،ایک نابینا فقیر اور چار فقیر ملے۔اس گاؤں میں ایک مندر بہت بڑا ویشنو مت کا ہے،اس میں سال بھر میں دومرتبہ میلہ ہوتا ہے،چیت سودی چھٹھ اور کاتک سودی چھٹھ کو،اس مندر میں سورج کی مورتی ہے،بہت سے آدمی یہاں پر اس کی قبولیت مانتے ہیں۔جینیوں کے مندر کا اہتمام بابو پربھو لال پسر سیٹھ گوبند چندرسوتیامبری ساکن بہار کے ہاتھ میں ہے۔یہاں پر گرمی ہے سردی زیادہ نہیں ہے،صرف پتلی رضائی شب کو کافی ہے۔کنڈل پور سے راج گرہی جس کو پنج پہاڑی کہتے ہیں آٹھ میل ہے،گاؤں کا نام تو راج گرہی ہے مگر پانچ پہاڑی ہونے کی وجہ سے پنج پہاڑی کہتے ہیں، راجگیر میں بھگوان داس کے سموسرن بارم بار آئے ہیں،اور ایک پستک سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض آچارجوں کے نزدیک سری سمت ناتھ سوامی کاجنم کلیانک اس جگہ ہوا ہے۔

  بہارسے راج گیر سیدھے راستہ چودہ میل ہے ،اور رکنڈل پورسےآٹھ میل ہے،اس حساب سے کنڈل پور کے راستہ میں بھی چودہ میل ہوا۔

راجگیر:

آج ہی دن کے 12 بجے کنڈل پور سے روانہ ہو کر4؍ بجے شام کے راجگیر پہنچے،یکّہ دو گھنٹہ میں پہنچا،سڑک کچی ہے مگر بہت صاف اور عمدہ بنی ہوئی ہے۔

سیلاؤ:

راستہ میں ایک شہر سیلاؤ ہے جو کنڈل پور سے پانچ میل ہے،اسی کے بازار میں سے ہوکر راستہ نکلتا ہے،اس میں حلوائی ،بزاز،درزی،آڑہتی،سبزی فروش،بساطی وغیرہ کے صدہا دکانات ہیں،چھوٹا شہر ہے،کھانڈ کوری اور صاف بنتی ہوئی نہایت عمدہ ملی، معلوم ہوا کہ یہاں سے دھام پور رکوبھی کھانڈ جاتی ہے۔

راجگیر میں صرف ایک وسیع دھرم شالہ ہے اس میں چاروں طرف مکانات بنے ہوئے ہیں ، بیچ میں ایک بنگلہ نما مکان ہے،صحن میں باغچہ لگا ہوا ہے،ایک کنواں ہے مگر اس میں پانی بہت کم تھا،احاطہ سے باہر ایک کنواں ہے وہ بہت گہرا ہے ،صدہا ہاتھ لمبی ڈوری جاتی ہے،جاتریوں کی اس جگہ کثرت تھی،بہت سے آدمی ہم سے پہلے ٹھہرے ہوئے تھے،بہت سی گاڑیا ں ہمارے پہنچنے کے آد ھ گھنٹہ بعدآئیں ،ہم کو بہ مشکل تمام ایک سہ دری اور چار کوٹھہری ملی،یہ گاؤں مثل ایک قصبہ کے ہے،دودھ یہاں پر ایک پیسہ سیر ،روغن زرد فی روپیہ نصف ثار تازہ اور عمدہ ملا،حلوائی،لوہار،سنار بزاز سبزی فروش وغیرہ سب قسم کی دکانات ہیں ،ساگ بھاجی بھی اچھی ملتی ہے،شامگری کاسامان عمدہ ملتا ہے، دھرم شالہ میں دھوبی بھی آتا ہے مگرکپڑے اچھے نہیں دھوتا،اسی روز دھو کر واپس لے آتا ہے،یہاں کا انتظام رائے بہادر لالہ بدری داس جوہری کلکتہ کے والے کے ہاتھ میں ہے،ان کی طرف سے ایک منیب ہے جن کا نام امرت لال او سوال ساکن پٹنہ ہے،تنخواہ اس کی دس روپئے ماہوراری ہے، بہت قابو یافتہ ہے،جاتریوں کی خدمت کے لئے شبانہ روز موجود ہے،رات کے تین بجے ڈولیوں کے انتظام کے لئے موجود تھا،اور چپراسی وغیرہ بھی یہاں پر رہتے ہیں،بعض جاتری اس کی بھی شکایت کرتے ہیں،ممکن ہے کوئی بات کسی جاتری کی طبیعت کے خلاف ہو،یہ شخص بدمزا ج ضرور ہے،اور کسی قدر دگامبریوں سے کشائی بھی رکھتا ہے۔ اس موضع کا زمیندار ایک مسلمان رئیس ساکن حسین آباد ہے ،حسین آباد ایک قصبہ متصل لکھی سرائے ہے،اور ضلع بہار میں ہے،آمدنی اس گاؤں سے زمیندار کو بہت کثیر ہے،سردی یہاں بھی زیادہ نہیں ہے بلکہ اس قدر ہے کہ صرف رات کو ایک رضائی کافی ہے،دن کو سفید کرتا کافی ہے اور سخت گرمی تھی۔

 اسی دھرم شالہ سے پچیس قدم کے فاصلہ پر ایک مندر ہے جس میں علاحدہ علاحدہ سکھر ہیں، دو سکھرمیں پرتماسوتیامبری ہیں اور ایک سکھر میں دگامبری ہے۔دوسری منزل پر بھی پرتما دگامبری براجمان ہیں ،پجاری یہاں پر بھی برہمن ہے،دھرم شالہ سے باہر صدہا بیگہہ کھیت اور میدان پڑا ہوا ہے،یہاں پر اسپتال بھی ہے،راجگیر میں بھی کوئی گھر جینیوں کا نہیں ہے۔پہاڑوں کی حالت اس طرح پر ہے۔

پہاڑ نمبر 1 بپلاچل پہاڑ نمبر 2 رتناگر پہاڑ نمبر 3 اودیاگر پہاڑ نمبر 4سوناگر پہاڑ نمبر 5بیوہارگر

31دسمبر1908 ۔

  صبح اٹھے ،نہا دھوکر پہاڑ کے لئے تیار ہوئے،جولوگ پیدل جانا چاہتے تھے وہ پیدل روانہ ہوئے،جو ڈولی پرجانا چاہتے تھے انہوں نے ڈولی منگوائی،ڈولی کا کرایہ یہاں پر معین ہے، نو پیسے فی ڈولی جس کو یہاں آدمی اٹھاتے ہیں،پیشتر یہاں پر دستور تھا کہ ایک ایک ڈولی کے ساتھ بہت سے آدمی ہوجاتے تھے،اور ہاتھ لگاتے جاتے تھے،مگر اس مرتبہ زیادہ آدمی نہیں ملے،حقیقت میں یہ قاعدہ ہے کہ فی پہاڑآٹھ پیسے ڈولی کا کرایہ مقرر ہے،اور فی پہاڑ دوپیسے بچے کے گود لینے والے آدمی کی اجرت مقرر ہے،بچوں کو گود لینے کے لئے بہت آدمی ملتے ہیں۔

 ڈولی کرایہ کرنے کو یہ پابندی نہیں ہےکہ وہ پانچوں پہاڑوں پر بھی جاوے،جتنے پہاڑ پر جاوے اس قدر مزدوری دے دے،لیکن اکثر ڈولی کرایہ کرنے والے پانچوں پہاڑ پر جاتے ہیں۔دھرم شالہ سے چل کرقریباَََسوا میل تک میدان اور سیدھا راستہ ہے،پھر وہاں سے چڑھائی شروع ہوتی ہے،اس جگہ دامن کوہ میں چند جگہ پانی کا چشمہ نکلتا ہے ،ہر ایک سوت پر ایک تالاب پختہ بنا ہوا ہے،وہ تالاب پانی سے بھرا ہوا ہے،پہاڑ سے گرم پانی نکلتا ہے،اسی جگہ اکثر جاتری شامگری دھوتے ہیں،جس کا جی چاہے نہا بھی لے،اسی کے پاس ویشنو مت کے مندر ہیں،اسی جگہ تالاب میں دو موری پانی کی ہیں ،ایک سے ٹھنڈا پانی آتا ہےدوسرے سے گرم پانی آتا ہے،اس تالاب کو برہم کنڈ کہتے ہیں،چڑھائی شروع ہوکر پون میل کے فاصلہ پر ایک مندر چھوٹا سا ہے ،اس میں ایک مورتی کھڑی جوگ پہاڑ میں تراشی ہوئی ہے،پھر چڑھائی شروع ہوتی ہے،اوپر چوٹی پر چار مندر بنے ہوئے ہیں،ایک مندر میں پرتما مہابیر سوامی جی کی ہے،باقی تین مندروں میں صرف چرن بنے ہوئے ہیں ،یہ پہلا پہاڑ ہے جس کا نام بپلا چل ہے۔اس پہاڑ سے اتر کر پھر دوسرا پہاڑ چند قدم کے فاصلہ پر شروع ہوتا ہے۔دوسرے پہاڑ پر دومندر ہیں اس میں بھی چرن بنے ہوئے ہیں ،اس پہاڑ کانام رتناگر ہے،اس پہاڑ سے اتر کر دومیل میدان چلا جاتا ہے،پھر تیسرا پہاڑ شروع ہوتا ہے،اول پہاڑ پر چڑھنے کا راستہ اچھا ہے مگر اترنے کاراستہ زیادہ پتھریلا ہے،اس طرح دوسرے پہاڑ کی چڑھائی کا راستہ بھی اچھا ہے مگر اترنے کا راستہ پتھریلا ہے،اور ہموار نہیں ہے،کنکریاں ہیں ،یہ بھی مناسب ہے کہ جو لوگ پیدل جاویں وہ کسی راستہ بتلانے والے کو ساتھ رکھیں،ورنہ راستہ بھول جانے کاخوف ہے۔میں نے آج دونوں پہاڑوں کی جاترا پیدال کی مگر تین پہاڑوں کی جاترا بہت آسانی سے پیدل ہوسکتی تھی،بعض ہمت والوں نے پانچوں پہاڑکی جاتر پیدل کی۔صبح کے چھ بجے چل کر شام کے دو بجے ،بعض چار بجے ،بعض پانچ تک واپس آئے ، ڈولی کی سواری والے بارہ ایک بجے تک پانچوں پہاڑوں کی بندنا کرکے واپس آگئے۔

یکم جنوری 1909

آج میں نے بقیہ تین پہاڑ کی بندنا ڈولی میں کی ،ڈولی مین چارکہار لے گئے کیوں کہ دوکہاروں نے انکار کیا،ان کا کرایہ دوچند ہوگیا،پیشتر سے یہ معمول تھا کہ چاہے جتنے کہار ڈولی اٹھاویں، فی پہاڑ آٹھ دیا جاتا تھا مگر امسال آدمیوں کی دقت کی وجہ سے مزدوری زیادہ دینا پڑی۔

آج دھرم شالہ سے ساڑھے پانچ بجے صبح کے چلے،راستہ میں آدھ گھنٹہ کہاروں کے انتظارمیں لگا ،سات بجے چوتھے پہاڑ کی چوٹی پر پہنچا،یہ چڑھائی سیدھی اور کڑی ہے،اسی راستہ سے پھر واپس آنا پڑا،پھر میدان درمیان کا طے کرکے تیسرے پہاڑ کی چوٹی پر پہنچا پھر اسی راستہ سے واپس آیا ،پھر میدان طے کرکے پانچویں پہاڑ کی چوٹی پرپہنچا اور مندروں کے درشن کرکے نیچے اتر آیا ،دوچار جگہ جہاں سخت چڑھائی تھی اترنا پڑا،کیوں کہ ڈولی مین نہیں جاسکتے تھے ،عام کیفیت مسافت اور وقت اور مندروں کی یہ ہے،دھرم شالہ سے دامن کوہ قریب سومیل ہے ،وقت مسافت آدھ گھنٹہ۔چھ بجے سے ساڑھے چھ بجے تک ،چڑھائی اول پہاڑ کی قریب دیڑھ میل ،وقت مسافت ایک گھنٹہ ،ساڑھے چھ بجے سے ساڑھے سات بجے تک،درشن کرنے میں چند منٹ صرف ہوئے۔اوترائی اول پہاڑ کی قریب دیڑھ میل کے ،وقت آدھ گھنٹہ ،آٹھ بج کر بیس منٹ پر نیچے اترا،دوسرے پہاڑ کی چڑھائی قریباََدیڑھ میل کے، وقت پچاس منٹ ،نو بج کے دس منٹ پر پہنچا،درشن وقیام دوسرے پہاڑ پر قریباََ آدھ گھنٹہ ۔دوسرے پہاڑ سے اترائی قریباََ دیڑھ میل ،وقت ایک گھنٹہ،قریب گیارہ بجے کے نیچے اترا،میدان کی مسافت دھرم شالہ تک قریباَََ تین میل میں ہوگی یا کچھ کم،دیڑھ گھنٹہ صرف ہوا،یہ راستہ بھی ناہموار اور کنکریلا ہے ،بعض جگہ کانٹے ہیں ۔دوسرے روز دھرم شالہ سے وہ میدان جو چوتھے پہاڑ کے نیچے تک ہی قریباتین میل ہے 45 منٹ میں طے کیا اور سات بجے پہاڑ پر پہنچا،چڑھائی چوتھے پہاڑ کی قریباََ دیڑھ میل ہے،وقت پون گھنٹہ ،ساڑھے سات بجے پہاڑ پر پہنچا،اترائی چوتھے پہاڑ سے تقریباً دیڑھ میل ہے،وقت آدھ گھنٹہ،ساڑھے آٹھ بجے نیچے اترآیا۔چوتھے پہاڑ کے نیچے سے تیسرے پہاڑ کے نیچے تک مسافت میدان کی قریباََ دیڑھ میل ہے،30 منٹ صرف ہوئے۔تیسرے پہاڑ کی چڑھائی سیدھی ہے،اوپر کے حصہ پر پیدل چڑھناپڑتا ہے،قریباََ ایک میل ہے،نصف گھنٹہ لگتا ہے۔ اسی راستہ سے پھر اترنا پڑتاہے،قریب دس بجے تیسرے پہاڑ سے نیچے اترآیا، اس جگہ سے پانچویں پہاڑ کے نیچے تک میدان کا راستہ قریباََ دس میل ہوگا،پون گھنٹہ صرف ہوا،پونے گیارہ بجے کے قریب پانچویں پہاڑ کے نیچے پہنچا،اور پانچویں پہاڑ پر چڑھائی شروع ہوئی،ایک میل سے کچھ کم چڑھائی ہے، قریباً 25 منٹ میں اول مندر پر پہنچا، یہاں سے قریباً ایک سو قدم کے فاصلہ پر چارمندر اور ہیں ،اس جگہ سے پون میل کے فاصلہ پر ایک مٹھ گوتم سوامی کا ہے ،اس میں چرن بنے ہوئے ہیں،اور پرتما جی بھی موجود ہیں ،20 منٹ میں یہ راستہ طے ہوا ،اس جگہ بارہ بج گئے۔اس جگہ سے واپس آیا،درمیان میں ایک جگہ سے راستہ کی ایک شاخ نیچے کی طرف اترتی ہے ،وہاں پر ایک مٹھ سا بنا ہوا ہے،اس میں دو مورتی ہیں جو جین مت کی نہیں ہیں، ڈولی والوں نے بیان کیا کہ یہ مورتی سال اور بھدرا کی ہیں ،اس جگہ سے پھر اسی راستہ سے جہاں کہ اس پہاڑ پر پہلا مندر تھا واپس ہوتا ہوا پہاڑ سے نیچے اتر آیا ، ایک گھنٹہ واپسی میں صرف ہوا ،سوابجے کے قریب نیچے اترا،یہاں سے دھرم شالہ تک آنے میں نصف گھنٹہ صرف ہوا،میرایہ کل سفر ڈولی میں ہوا،اول پہاڑ پر چھ مندر ہیں ،دوسرے اور تیسرےاور چوتھے پہاڑ پر دو دو مندر ہیں،پانچویں پہاڑ پر سات مندر ہیں ،اس طرح کل انیس مندر ہیں۔ بعض مندروں میں محض چرن بنے ہوئے ہیں ،اور بعض میں پرتما جی ہیں، بعض میں پرتما جی بھی ہیں اور چرن بنے ہوئے ہیں لیکن کوئی یہ نہیں بتلاتا کہ چرن کن کے ہیں۔ بعض پرتما جی کھنڈ بھی معلوم ہوتے ہیں،بعض پرتما جی ایسے ہیں کہ جن کے درشن سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عر صہ تک زمین (میں)رہے ہوں ،بعض پرتما جی پر چنھ یعنی نشان بھی نہیں معلوم ہوتاجس سے معلوم ہوتا کہ کن تیرتھنکر کے پرتما جی ہیں،چوتھے پہاڑپر ایک پرتما جی ہیں جس میں پھاگن سم 1004 پڑھا جاتا ہے،پانچوں پہاڑ ایک حلقہ کی شکل میں ہیں۔اول پہاڑ پر اگر کوئی جاوےا ور وہیں سے دھرم شالہ کو واپس آنا چاہے تو اسی راستہ سے واپس آئے گا جس سے چڑھا تھا،یا اول پہاڑ سے دوسرے پر جاکر اور دوسرے پہاڑ سے اتر کر میدان میں ہو کر دھرم شالہ کو واپس آئے گا ۔ تیسرے پہاڑ پر چڑھنے کا راستہ دوسرے پہاڑ سے اتر کر بھی ہے اور دھرم شالہ سے سیدھا راستہ بھی جاتا ہے،اور یہ میدان دھرم شالہ سے تیسرے پہاڑ کے نیچے تک قریب تین میل ہے ،تیسرے پہاڑ پر چڑھنے اوراترنےکا صرف ایک ہی راستہ ہے،چوتھے پہاڑکے دو راستہ ہیں ،ایک دھرم شالہ سے سیدھا جاتا ہے،جس سے چڑھتے ہیں، اور دوسرے راستہ سے اترتے ہیں،تیسرے پہاڑ کے میدان کی طرف چلاجاتا ہے،یا جس راستہ سے اسی راستہ سےا تر کرپانچویں پہاڑ پر چڑھ جاتے ہیں،پہلے پہاڑ پر چڑھنے کا راستہ اور پانچویں پہاڑ پر چڑھنے کا راستہ ایک دوسرے کے سامنے ہیں ،دونوں کے بیچ میں ایک فرلانگ کا فرق ہوگا،پانچویں پہاڑ پر جس راستہ سے چڑھتے ہیں اسی راستہ سے اترتے ہیں،پانچویں پہاڑ کی چڑھائی جس جگہ شروع ہوتی ہے وہاں پر تھوڑی دور تک ایک پختہ زینہ بنا ہوا ہے،اور ایک بہت بڑا تالاب ہے،وہ بہت گہرا اور پختہ بناہوا ہے،اس میں چند دہانوں سےپہاڑ سے گرم پانی گرتا ہے اور دوسری طرف نکل جاتا ہے،اس میں نہانے سے نہایت فرحت ہوتی ہے ، تکان اترجاتاہے ،بدن صاف ہوجاتا ہے۔

  یہاں پر وشنو مت کے مہادیو کا مندر ہے ،برہمن مانگنے والے بہت ہیں مگر جینیوں کو زیادہ تنگ نہیں کرتے ،دوچار آنہ لے کر سب آپس میں تقسیم کرلیتے ہیں،گھاٹ اور چہار دیواری اور زینہ چڑھنے اترنے کے لئے سب پختہ بنے ہوئے ہیں،جو کنڈ یہاں پر بنے ہیں ان میں سے ایک کام نام برہم کنڈ اور دوسرے کانام سورج کنڈ ہے۔ایک جگہ ایک احاطہ بناہوا ہے جس میں مسلمانوں کے ایک پیر کی قبر ہے،ایک انگریز اس پہارڑکو جو ان پہاڑوں کے بیچ میں ہے کھودرہا ہے،اور گمان ہے کہ سونے کی کان نکلے گی ،یہ بھی معلوم ہوا کہ پیشتر کچھ سونا کسی جگہ سے نکل بھی چکا ہے۔

 راجگیر اور ان پہاڑوں کے متعلق اور ان کی پوترتا کے متعلق اور ہندؤوں کی جائے پرستش ہونے کی نسبت مہابھارت کے حوالہ سےماڈرن ریویو(modern revive) میں جو ایک ماہواری رسالہ انگریزی میں نکلتا ہے بہت کچھ لکھا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے (ملاحظہ ہوجلد 3 1907صفحہ 266 سے صفحہ 269 و صفحہ 351 سے 356 تک(۔

  راجگیر مگدھ دیش میں ایک بڑا پرانا شہر تھا،اسی کانام مہابھارت میں گری براج پور لکھا ہے،گری براج پور کے لفظی معنی پہاڑوں سے گھیرے ہوئے شہر کے ہیں،اور بلحاظ اپنی جگہ کے یہ نام بہت ہی مناسب ہے،یہ پہاڑیاں شہر گیا سے 36 میل تک ایک دوسرے کے آمنے سامنے دریائے پنچانا تک چلی جاتی ہیں،اورگریگ گاؤں آگے تک گئی ہیں،(یہی گاؤں اب گریا کہلاتا ہے) "راج گرہی مہاتم” میں (جو والیو پران سے بنایا گیا ہے ) پانچ پہاڑوں کے نام اس طرح لکھے ہیں، 1بیوہار ۔2 ایپل ۔3رتن کوٹ ۔ 4 گری برج ۔ 5 رتناچل۔اور پالی کی کتابوں میں انہیں کے نام گجی کوٹ ،اسیگلئی ،بیوہارو،بیپلو ،پانڈہیں،اور اب ان کے نام بیوہار گر بیپل گر ،رتنا گری اودیا گر اور سوناگر ہیں۔(اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نام قریب قریب وہی ہیں جو مہابھارت میں لکھے ہیں،)مہابھارت میں گری براج پور کو ایک شہر لکھا ہے، اور راج گرہی مہاتم میں اس کو ایک پہاڑی لکھا ہے۔گری برج پور کا اول ذکر ہم رامائن اور مہابھارت میں برہ ورتی کے خاندان کے متعلق پاتے ہیں ،برہ ورتی جراسندھو کا باپ تھا،اور جراسندھو غالباسال عیسوی سے پہلے 1600 سے 1500 برس کے درمیان تھا۔ مہابھارت میں ذکر ہے کہ جب یڈھشٹر نے اشومیدھ جگ کرنا چاہا تو سری کرشن جی نے کہا تھا کہ جراسندھو سے جیتنا مشکل ہے تم اس سے اکیلے لڑو،تب وہ پانڈوں کے ساتھ جرسندھو کے پاس گیا،مہابھارت سبھا پرب ادھیائے 21 اشلوک 34 میں ایسا لکھا ہے۔”یگیا کارے استھاپتوا ،راجا راج گرہم کہتہ ” جس کا ترجمہ یہ ہے( یگ شالہ میں استھاپ کر راجا راج گرہ کو گیا) (یگ شالہ ہوم کرنے کی جگہ ہے)جراسندھو کا لڑکا سہدیو اور سہدیو کالڑکا سوپانی۔سوپانی کے بعد مگدھ کا آخرراجہ راج گرہی کا برہ ورتی کےخاندان میں رپن جی ہوا۔ مسٹر دت نے اس کا زمانہ 797 سال قبل پیدائش عیسیٰ بتایا ہے۔اس کے بعد راجہ پراڈیت جو سونک کے خاندان کا تھا مگدھ کا راجہ ہوا،ویشنو پران کے بموجب سونک خاندان کے پانچ راجاؤں نے ایک سو اڑتیس سال تک مگدھ میں راج کیا۔سونک کے بعد بدیپہ خاندان کا راج ہوا جس کا پہلا راجہ "شیسوناگ "تھا ،اور جس نے راج گر کا راج چھین لیا تھا، ویشنو بھاگوت متی اور برہمانڈ پرانوں کے بموجب مگدھ میں اس خاندان کا راج تین سو باسٹھ سال رہا ،شیسوناگ سے چوتھا راجا بھائیا ہوا، اس کے زمانہ میں کپل بستو میں 558 برس قبل پیدائش عیسیٰ سالیہ سنگھ جس کا نام بعد میں گوتم بدھ ہوگیا پیدا ہوا تھا،اور اس کے پانچ سال بعد راجگیر کے محل میں بھائیا کے ایک لڑکا بمبسار پیدا ہوا جس نے نیا شہر راج گیر بسایا ۔ مہابھارت کے اکیسویں ادھیائے میں سری کرشن جی گری براج پو ر میں گوتم منی کا استھان ہونا بیان کرتے ہیں ،اور کہتے ہیں کہ یہاں ہی گوتم منی کے لڑکے پیدا ہوئے ہیں جن میں پہلے کا نام ککشی دان تھا۔راج گرہی مہاتم میں اکثر راجگرہی کو راج گرہ بن لکھا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب نیا شہر راج گرہی مگدھ کی راجدھانی ہوئی تو پرانا شہر چھوٹ گیااور چھوٹ جانے کی وجہ سے پھرجنگل ہوگیا ۔گری براج پور شہر وہاں تک پھیلا ہوا تھا جہاں کہ اب گریک گاؤں ہے۔(یہ موجودہ راجگیر کی آبادی سے 8 میل ہے)گریک کے سامنے جو پہاڑ نظر آتا ہے اس پر اینٹوں کا ڈھیر اب تک جراسندھو کی بیٹھک کے نام سے مشہور ہے۔گری براج پور میں مکانات بہت قریب قریب ہونے کی وجہ سے اکثر آگ لگ جایا کرتی تھی جس سے رعایا کا بہت نقصان ہوتا تھا۔جب رعایا نے راجا سے اس کی کوئی تدبیر کرنے کے لئے درخواست کی تو اس نے اپنے مشیروں کی رائے سے یہ حکم دیا کہ اب سے جس کا گھر پہلے جلے اس کو سیتا بن کر نکال دیا جائے ،راجا کا محل سب سے پہلے جلا ،راجہ نے آپ باہر نکل جانا پسند کیا اور چونکہ سب سے پہلے راجہ کا محل بنااس واسطے شہر کانام راج گرہی ہوا۔(آج کل چھوٹا گاؤں راجگیر اس شہر کی جگہ پر بسا ہوا ہے اور پہاڑیوں کو راجگیر کی پہاڑیاں کہتے ہیں۔بعد کو چندرگپت نے یہ شہر چھوڑدیا اور اپنے راجدھانی پاٹلی پترقرار دی ۔اگرچہ راجگیر اب کوئی مشہور شہر نہیں رہا مگر بودھ لوگ اکثر تیرتھ کے لئے یہاں آتے رہتے ہیں،کیوں کہ گوتم بدھ نے راجگیر کی پہاڑیوں میں اکثر چوماسی باس کئے تھے۔پال خاندان کے راج میں بہت سے جاتری یہاں آیا کرکرتے تھے،اور تانترک بدھ کی بہت سی مورتیاں راجگیر پران راجاؤں کی بنوائی ہوئی ہیں جن میں کچھ اب تک ویبوہارا پہاڑی پر موجود ہیں۔راج گیر میں جینیوں کا آغاز بمبسارکے زمانہ سے ہوا،شری مہابیرسوامی بہت زمانہ تک بیپل گری میں رہے ،اور بمبسار جس کو سر بنک بمبسار بھی کہتے ہیں کوتعلیم دی۔ جین پرانوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بمبسار سری مہابیرسوامی کاچیلہ تھا،اس کے زمانہ میں بہت لوگ جینی ہوئے تھے ۔بیپل گری کے علاوہ جہاں مہابیر سوامی رہے سوناچل ،ذوہار اور اودیاگر پر بھی جینیوں کی پرانی عمارتوں کے نشانات پائے جاتے ہیں۔سری پاس ناتھ سوامورتی نیچے جو سیلا پر لیکھ ہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ آٹھویں اور نویں صدی میں جینی وہاں جایا کرتے تھے،اس کے بعد دسویں صدی سے سترہویں صدی تک برہمنوںاورمسلمانوں کے زور کی وجہ سے جینیوں کے نشانا ت وہاں نہیں پائے جاتے۔

اٹھاوہویں صدی میں جب مسلمانوں کا راج جانے لگا تو جینیوں نے پھر یہاں آنا شروع کیا ،نئے مندر بنوائے،پرانی مندروں کی مرمت کروائی ،اس طرح چوبیس تیر تھنکروں کی مورتیاں اور چرن پادگاہ بن گئی ،ا ب جو کچھ عمارتیں وہاں موجود ہیں وہ سب اٹھارہویں اورانیسویں صدیوں کی ہیں ( دیکھو ماڈرن ریویو جلد 3 صفحہ 266 تا 269 و 351 لغایۃ 356 )

آج ہی یعنی یکم جنوری کوتین بجے شام کے ہم سب لوگ راجگیر سے روانہ ہوئے ،شام کے لئے کھانا بنویا ،صبح کو رسوئی کچی کھائی تھی،ہمارا یکہ ساڑھے چار بجے موضع گریک میں پہنچا۔

اس موضع کے پاس ایک ندی بہتی ہے جس کا نام پنچانی ہے ،اس کے کنارے پر بیٹھ کر کھانا کھایا،ندی کا پانی نہایت خوش ذائقہ اور سرد تھا۔رجگیر سے پنج پہاڑی کا سلسلہ اس ندی تک برابر چلا آیا ہے،بلکہ اس ندی کے بہت قریب پہاڑ ہے۔معلوم ہوا کہ صاحب گنج تک یہ سلسلہ چلا جاتا ہے ،گریک موضع میں کھڑے ہوئے اس پہاڑ پر ایک مٹھ سانظر آیا،دریافت کرنے سے معلوم ہوا کہ یہ راجہ جراسندھو کا اکھاڑہ یعنی بیٹھک ہے۔تالاب اور محل پیشتر تھے، اب ان کے نشانات معلوم ہوتے ہیں،اس مقام سے پہاڑ در پہاڑ پنج پہاڑی تک چلے جاتے ہیں،اس پہاڑ پر ایک مندر ویشنو مت کا ہے جس میں ایک فقیر رہتا ہے،راجہ جراسندھو ایک مشہو رراجہ مگدھ دیش کا تھا ،اب اسی علاقہ کو بہار کہتے ہیں ،راجگیر سےآٹھ میل گریک ہے اور گریک سے چھ میل پاواپوری ہے۔راجگیر سے گریک تک سڑک خام ہے مگر نہایت عمدہ اور صاف اور گریک سے پاواپوری تک سڑک پختہ ہے۔

شب کو ساڑھے آٹھ بجے پاواپور ی پہنچ گئے ،یہاں پر بھی سردی زیادہ نہیں ہے، صرف پتلی رضائی کافی ہے، پختہ سڑک ہے ،قریباََ پون میل کے فاصلہ پر موکش استھان ہے ،جہاں کہ تالاب کے بیچ میں ایک مندر نہایت خوبصورت اور منو گئی بناہوا ہے۔اس وقت تالاب خشک تھا،تالاب میں اترنے کازینہ ایک طرف ہے ،اس طرف کسی قدر پانی تھا،اس میں سانپ اور مچھلی بہت تھی ،سانپ زینہ پر بھی پڑے رہتے ہیں مگر کسی کو تکلیف نہیں دیتے۔تالاب کے کنارہ پر سڑک سے ملا ہوا ایک بڑادروازہ دو منزلہ ہے اس کے اندر پختہ سڑک پتھر کی قریب چار فٹ چوڑی کٹھری دار ہے جس کی لمبائی مندر جی دروازہ تک ایک فرلانگ ہے ،پھر مندر جی کا دروازہ ہے۔ نمبر 3 احاطہ مندر جی کا ہے۔نمبر 2 دوسرا احاطہ ہے جو نمبر 3 کی زمین سے پانچ فٹ اونچا ہے۔

نمبر 1 خاص مندر جی کا سیکھر ہے،اس کے چاروں طرف برآمدہ ہے، سیکھر زیادہ اونچا نہیں ہے، مندر جی میں تین جگہ چرن ہیں، نہایت رمینک جگہ ہے ، مندر اندر سے قریباً بارہ فٹ لمبا اور بارہ فٹ چوڑا ہو گا ۔ تمام فرش اورزینہ احاطہ نمبر 1 و 2 کا سنگ مرمر کا بنا ہو اہے۔

 دروازہ میں ایک طرف روغن کی ہوئی پختہ اینٹیں پھول دار نہایت خوشنما لگی ہو ئی ہیں ، مندر جی کا دروازہ بہت چھوٹا ہے، آدمی جھک کر جا سکتا ہے ۔

حقیقت میں چھیتر کی اتسے ایسی ہے کہ وہاں سے اٹھنے کو اور نکلنے کو جی نہیں چاہتا، میرے اوپر جو حالت گذری وہ اگر لکھوں تومبالغہ سمجھا جائے گا ،جو لوگ درشن کو جاویں اور اپنے پرنام درست کرکے دل میں دھیان کریں پھر کیفیت معلوم ہو۔

  پرناموں میں بشد ہتا پیدا ہو جاتی ہے اور ساکشات موکش کا دھیان وہاں پر پیدا ہو جا تا اور مہاویر سوامی کا موکش کلینا نک اور سمو سرن ذرا دھیان کرنے سے صاف معلوم ہو تا ہے ، اس مند جی کو جل مندر کہتے ہیں۔

اس کے سامنے ہی سوتیا مبریوں کا مندر اور دہرم شالہ ہے ۔

   سڑک کے دروازے سے ایک یا دیڑھ فر لانگ پر ایک مندر دگامبری جنیوں کا ہے جو سولہ سال ہوئے ایک شولا پور والے سیٹھ نے بنوایا ہے، مندر دو منزلہ ہے دوسری منزل پر بھی پرتماجی براجمان ہیں ۔ نیچے تین طرف پرتماجی برا جمان ہیں ، سامان پو جا جی کا برتن اور پستک اور پٹ وغیرہ سب ہیں ، مگر جل مندر میں پٹ نہیں تھا ، اسی احاطہ میں مندر جی سے باہر ایک بڑی دہرم شالا لالہ ہر مکہ رائے پھول چندر ئیس خورجہ کے بنوائے ہو ئے ہیں جن کو رانی والے کہتے ہیں ۔ اس میں پچیس کوٹھریاں بہت بڑی بڑی ہیں ،باہر دروازہ ہے ، رسوئی کے مکانات علاحدہ ہیں ، بارہ سال ہو ئے یہ دہرم شالہ بنائی گئی تھی۔

احاطہ میں ایک کنواں ہے ، دوسرا کنواں باہر ہے ، باہر بہت وسیع میدان پڑا ہوا ہے ، مندر جی کے متعلق ایک منیب، چار سپاہی، ایک پانی والا ، ایک مہتر، ایک مالی رہتا ہے ۔ مُنیب نے بہت خاطر کی ۔ مزدور اسباب اٹھانے کے لئے مزدوری پر موجود تھے ،انتظام بہت اچھا ہے ۔ سب مکانات پر کونچی ہو ئی صفائی بہت اچھی ہے ۔ (مگر بعد میں عزیز مہابیر پرشاد گئے تو انہوں نے منیب کی بے پراوہی کی بہت شکایت کی کہ اس نے برتن وغیرہ پو جا کے لئے نہیں دئیے، اور نہایت بد مزاجی سے پیش آیا، تیرتھ چھیتر کمیٹی کو اس طرف دھیان کرنا چاہیئے۔

مندر جی کے احاطہ سے باہر ایک بنیہ کی دوکان ہے جس پر معمولی غلہ آٹا دال وغیرہ ملتا ہے، ایک دوسری دوکان ہے ،اس پر شامگری بھی ملتی ہے مگر اچھی نہیں ملتی۔

مندر جی سے قریباً پاؤمیل پر موضع پاوا پوری ہے ، وہاں بھی ایک مندر ہے جس میں سوتیا مبری اور دگامبری دونوں پرتما برا جمان ہیں اور دھرم شالہ بھی، بہت چھوٹا گاؤں ہے ،دو وھ بھی وہاں پر نہیں ملتا ،شام سے کوئی انتظام کرے تو شائد مل جاوے۔

میرے پاس اس قدر وقت نہیں تھا کہ جو میں موضع کےمندر کے درشن کو جاتا ۔

کاتک بدی اماوس کو جو مہابیر سوامی کا موکش کلیانک کے تہتے ہے بڑا ہجوم ہو تا ہے ، سنا ہے کہ دو دو ہزار آدمی جمع ہو جاتے ہیں۔

  بہت سویرے اٹھ کر اشنان کر کے مندر جی میں شامگری بنوائی، مندر میں برتن وغیرہ کافی تھے ، دھوتی دوپٹہ بھی کافی تھے ، پجاری وہی ہے جو منیب تھا وہ شامگری بنا دیتا ہے، اول مندر جی میں نیت نیم کی پو جا کی گئی۔اس مندر جی میں مہابیر سوامی کے پرتما جی بہت منو گے ،بڑے استھول کے براجمان ہیں جن کی پر سستٹا 1950سم میں ہو ئی ۔

 پھر یہاں سے جل مندر میں مہابیر سوامی کے چرنوں کی پو جا کی، سب ہمراہی مرد اور عورت موجود تھے ۔ پو جا کے وقت جو دھیان لگا اور سمان بندھا وہ کہنے اور لکھنے قابل نہیں ہے۔ نو بجے تک پو جا سے فارغ ہو کر دھرم شالہ میں آئے ،رسوئی کھائی ، شام کے لئے کھانا بھی تڑکے میں بنوا لیا تھا ۔

راجگیر میں بہت فقیر ہیں، ان میں محتاج ،لنگڑے ، لولے، جذامی بھی ہیں ،مگر یہاں پر بھی پانچ سو سے زیادہ مانگنے والے اکھٹے ہو جاتے ہیں ۔ ان میں زیادہ آدمی تندرست اور مزدوری پیشہ ہیں، البتہ ایک سو آدمی کے قریب اپاہج ،لنگڑے لولے اندھے ہو گئے ، دونوں جگہ اگر گاڑھے کی چادر یاد ھو تی تقسیم کی جاوے یا دوہرے تقسیم کی جاوے تو زیادہ کار آمد ہوسکتی ہے ۔ یہاں پر بھی بہیات چٹھ کے واسطے رکھے ہو ئے ہیں ،بہیات میں یہ کھاتہ پڑے ہوئے ہیں ،اور بعد میں معلوم ہوا کہ ہر ایک جگہ یہی کھاتہ ڈال رکھے تھے ۔

نمبر 1 : بھنڈار کہاتہ

نمبر2: شامگری کھاتہ

نمبر 3: سادھارن کھاتہ جس میں برتن وغیرہ یا اسباب خریدا جاتا ہے

نمبر 4:جیو دیا کھاتہ جس سے محتاجوں کو خیرات دی جاتی ہے۔

نمبر5: مرمت مکانات و دھرم شالہ۔

یہاں بھی چٹھ دبا گیا۔

بہار سے پاواپور ی آٹھ میل ہے، سڑک پختہ ہے اور پاواپوری سےنوادہ کا اسٹیشن 14 میل ہے ،پاواپور ی سے نوادہ کے اسٹیشن تک لب سڑک دو دو میل کے فاصلہ پر گاؤں ہیں، کنواں ہیں ،بعض جگہ حلوائی اور بنیہ کی دوکانات بھی ہیں۔بیسویں میل کے قریب سڑک سے اتر کی طرف قریباً دو فرلانگ پر مندر سری گوتم سوامی کا ہے جو مہابیر سوامی کے گندھر تھی، یہ مندر رقبہ موضع گناوا میں ہے،موضع گناوا سڑک سے جانب دکھن قریباً دو فرلانگ ہے،مندر سے ملی ہوئی دھرم شالہ بہت وسیع ہے ،اس میں کنواں ہے، چھوٹا سا باغچہ ہے۔پختہ سڑک چل کر خام سڑک پرہو کردھرم شالہ میں پہنچے،دھرم شالہ کا دروازہ ایک پختہ سڑک پر کھلتا ہے،جو در حقیقت تالاب میں ویساہی پل سو ا سو قدم لمبا بنا ہوا ہے، جیسا کہ پاواپوری میں تھا ،پل کے دوسرے کنارے پر مندر گوتم سوامی جی کاہے،یہ اشتھان گوتم سوامی کے موکش کا ہے۔

 مندر میں گیارہ چرن ایک طرف اور گیارہ چرن دوسری طرف ہیں، اور چاروں گوشوں کی کوٹھریوں میں ایک ایک چرن ہیں، کل 26 چرن ہیں، بیچ میں ایک چھوٹی سی بیدی بنی ہوئی ہے ،اس میں ایک پرتما جی براجمان ہیں،ایک طرف سوتیامبری پرتما ہیں ،یہاں ایک پجاری اور مالی رہتا ہے، اور یہاں پر بھی صفائی بہت اچھی ہے ، کونچی ہوئی تھی۔ یہاں پر بھی چٹھ کی بہی رکھی ہوئی ہے، اس مندر میں تو ضرور چٹھ دینا چاہئے، کیوں کہ آس پاس کے گاؤں میں بھی کسی جینی کا گھر نہیں معلوم ہوتا،جو مندر کی نگرانی کرتا ہو، یا خرچ کرے،یہاں کا انتظام بھی گوبند چندر سوچیتی ساکن بہار کے ہاتھ میں ہے، یہ جگہ بہت پر فضا ہے۔ ساڑھے تین بجے ہم لوگ گناوا کے مندر جی میں پہنچے، پندرہ منٹ ٹھیر کر اور درشن کرکے روانہ ہوئے، گناوا سے ایک میل سے بھی کم نوادہ کا اسٹیشن ہے۔

30 دسمبر 1208ء کوکنڈل پور سے بنام اسٹیشن ماسٹر گیا جی کے تار دیا گیا تھا کہ 2جنوری کو شام کے وقت ایک گاڑی پاس کی مل جائے ،نوادہ کے اسٹیشن پر اسٹیشن ماسٹر سے معلوم ہوا کہ گاڑی صبح آئی تھی مگرمیں نے واپس کردی کیوں کہ مجھے کوئی اطلاع نہیں دی،ریل کے قواعدمیں یہ لکھاتھا کہ بہ مقام گیا اطلاع دینی چاہئے، اس لئے بہ مقام گیا اطلاع دی گئی، لیکن قاعدہ کچھ بھی ہو تجربہ میں یہ آیا ہے کہ جس اسٹیشن پر گاڑی درکار ہو اسی اسٹیشن ماسٹر کو اطلاع دینی چاہئے،و ہ انتظام خود کرلیتے ہیں، جس افسر کوضرورت ہوتی ہے تار یا چٹھی روانہ کرنے میں انتظام ہوجاتا ہے،بوجہ پاس نہ ہونے کے کیول کے اسٹیشن پر گاڑی بدلنے میں اور اسباب اتارنے چڑھانے میں سخت تکلیف ہوئی، جس کاذکر آئندہ آئے گا۔ پارسل بابو نے اسباب بریگ میں نہ لیا نہ وزن کیا،کل اسباب ساتھ رہا، بھاگل پور کا ٹکٹ لیا گیا۔ کرایہ بھاگل پور درجہ سویم نوادہ سے چھ(آنہ) ہے۔

 نوادہ اچھا موضع ہے ، ڈاک بنگلہ ،اسکول ، ڈاک خانہ ،تار گھر ہے ،بازار ہے ، جس میں ہر پیشہ کی دکانات ہیں ، میرے نزدیک بہار ،سیلاؤ ،پاوا پوری ،راجگیر ،نوادہ میں آٹا ،دال ،چاول ،گھی، ساگ بھاجی ،دودھ،مٹھائی ،شامگری پوجا کی سب چیز ملتی ہے۔ سب چیزیں قابل استعمال ہوتی ہیں، کہیں اول درجہ کی ہے ، کہیں سویم درجہ کی ،پانی البتہ بہت دور ہے ،کنویں گہرے ہیں، پانی کم ہے ،چند گھڑے بھرنے میں گارہ نکل آتا ہے، زیادہ بوجہ رسد وغیرہ باندھنے کے چنداں ضرورت نہیں ہے ، بہار وغیرہ ، راجگیر، پاواپوری ،نوادہ ،کیول، اور بھاگل پور میں پوربی زبان بولتے ہیں، مگر اردو زبان اچھی طرح سمجھ لیتے ہیں ، عدالت کی زبان اردو ہے،مگر حروف کیتھی لکھتے ہیں جو ایک قسم کی ہندی ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare