انس جمال محمود الشریف
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
غزہ میں اسرائیلی دہشت گردی کے واقعات اور تصاویر کو الجزیرہ ٹی وی کے ذریعہ پوری دنیا میں پہونچانے والے مشہور صحافی انس جمال محمودالشریف 10/اگست2025ء کو اسرائیلی فوج نے شہید کر دیا ، ان کے ساتھ ان کے چار ساتھی محمد قریقہ ،ابراہیم زاہر ، محمد نوفل ، مومن علیوا اور دو شہری بھی شہید ہوئے ، اس طرح حق و صداقت پر مبنی سچی تصویر کشی کرنے والے انس شہید اپنے مطلوب کو پہونچ گیے ،شہادت کے وقت وہ غزہ میں الشفا اسپتال کے قریب اپنے خیمہ میں تھے، ان کے پس ماندگان میں اہلیہ ام صلاح ( بیان ) ، ایک بیٹا صلاح انور اور ایک بیٹی شم ہے۔

انس شریف غزہ، فلسطین کے جبالیا در نوار فوجی کیمپ میں 3/دسمبر 1996ء میں پیدا ہوئے ، ان کے خاندان 1996ء میں نقل مکانی کر کے المجدل آگیا تھا، جو ان دنوں اسرائیل کا شہر ہے اور عسقلان کے نام سے جانا جاتا ہے،اسرائیل کے قبضے کے بعد ان کے والد غزہ کی پناہ گاہ جبالیا منتقل ہو گیے تھے،
ان کے والد کا نام جمال شریف تھا، انہوں نے مختلف صحافتی اداروں میں تعلیم وتر بیت پانے کے بعد الاقصیٰ یونیورسٹی سے صحافت گریجویشن کیا،صحافت میں ان کی دلچسپی کے موضوعات انسانی حقوق اور جنگ کے حالات تھے،یہ ایک جوکھم بھرا کام تھا، سارے صحافی جب غزہ کو خیر باد کہہ گیے ، جو تنہا رہ گیے تھے ان میں دوسو کے قریب اسرائیلی حملے میں شہید ہو گیے تو بھی وہ الجزیرہ ٹی وی کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر لے کر رپورٹنگ کرتے رہے، انہوں نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز رضا کارانہ طور پر الشمال میڈیا نیٹ ورک سے کیا ، غزہ کے حالیہ جنگ سے پہلے وہ CNN اور BBC کے لیے حماس کے میڈیا ٹیم کے ساتھ کام کرتے رہے، بعد میں وہ الجزیرہ ٹی وی کے لیے غزہ اور فلسطینی حالات کی خبر اور تصویر بھیجنے کا کام کرتے رہے اور آخری دم تک اس کام میں لگے رہے،انہیں اسرائیلی افواج کی طرف سے 2023ء سے دھمکیاں مل رہی تھیں، لیکن انہوں نے اس کی کبھی پرواہ نہیں کی ، نومبر 2023ء میں ان کے والد کو بھی ہوائی حملے میں شہید کر دیا گیا ، یہ اس جمال کے لیے بڑی آزمائش کا وقت تھا، لیکن انہوں نے اپنی ہمت و جرات سے غم کی اس گھڑی کو بھی گزار لیا اور وہ نئی عزیمت کے ساتھ اپنے کام میں جٹ گئے ، انہیں حقوق انسانی اظہار رائے کی آزادی اور حق کی ترجمانی کے لیے چھوٹی عمر میں ہی کئی ایوارڈ ملے ، ان میں اسرائیل حماس جنگ کی کوریج پر پلیزر پرائز خصوصیت سے قابل ذکر ہے۔
انس کی شادی بیان نامی خاتون سے ہوئی تھی، جو اپنے بیٹے کے نام سے ام صلاح سے مشہور ہیں، وہ بہت مضبوط عزم وارادہ کی مالک ہیں، انہوں نے ۔ انس کے غائبانہ میں پورے خاندان کو سنبھال کر رکھا ، انس غزہ کی آواز تھے، انہوں نے شمالی غزہ سے جنگ کی ہولناکیوں کو نشر کیا ، بھوک ، بم باری کی تصاویر کے ذریعہ انہوں نے فلسطینیوں کی حالت زار سے دنیا کو آگاہ کیا، بھوک سے مرنے والے بچوں کی کہانیاں نشر کیں، جس سے لوگ کافی متاثر ہوئے ۔
انس نے اپنی شہادت سے قبل جو وصیت نامہ تحریر کیا تھا، اس کے اقتباسات ان کی ذہنی رو، فلسطین کے تئیں ان کی وفاداری، خاندان سے متعلق ان کی فکرمندی کو واضح کرتے ہیں، میں اس مضمون کا اختتام ان کے اقتباسات پر کرتا ہوں ۔ جس میں انہوں نے دنیا کو فلسطین کا پیغام دیتے ہوئے پکارا : ” غزہ کو مت بھولنا” ۔
یہ پیغام ان کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر بمباری کے بعد شیئر کیا گیا ، جس کا آغاز ان الفاظ سے ہوا” یہ میری وصیت اور میرا آخری پیغام ہے۔ اگر یہ الفاظ آپ تک پہنچیں تو سمجھ لیں کہ اسرائیل مجھے قتل کرنے اور میری آواز خاموش کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ سب سے پہلے ، آپ پر اللہ کا سلام اور رحمت ہو ۔“
انس الشریف نے لکھا: ”اللہ جانتا ہے کہ میں نے اپنی پوری طاقت اور کوشش اپنی قوم کا سہارا اور آواز بننے میں لگا دی، جب سے میں نے جبالیا کیمپ کی گلیوں میں آنکھ کھولی ۔ میری خواہش تھی کہ اللہ مجھے زندگی دے تا کہ میں اپنے خاندان کے ساتھ اپنے اصل شہر ، مقبوضہ عسقلان (المجدل ) واپس جا سکوں، مگر اللہ کی مرضی سب پر غالب ہے ۔”
انہوں نے اپنے کرب و جد و جہد کا ذکر کرتے ہوئے کہا ” میں نے درد کو ہر صورت میں جیا، کئی بار دکھ اور نقصان کا ذائقہ چکھا، مگر کبھی بھی سچ کو بگاڑ نے یا چھپانے سے گریز نہیں کیا تا کہ اللہ ان پر گواہ ہو جو خاموش رہے، جو ہمارے قتل پر راضی ہوئے اور جن کے دل ہمارے بچوں اور عورتوں کے کٹے پھٹے جسم دیکھ کر بھی نہ پسیجے۔“ اپنے پیغام میں انہوں نے دنیا کو وصیت کی ” میں آپ کے سپر د کرتا ہوں فلسطین کو جو عالم اسلام کا تاج ہے، ہر آزاد انسان کی دھڑکن ہے۔ میں آپ کے سپرد کرتا ہوں اس کی معصوم اور مظلوم اولاد کو، جو بھی خواب نہ دیکھ سکی اور نہ سکون وامن میں جی سکی ۔ زنجیروں کو اپنی آواز خاموش نہ کرنے دیں، سرحدوں کو آپ کو روکنے نہ دیں ۔ اس سرزمین اور اس کے عوام کی آزادی تک پل بنے رہیں "۔
انس الشریف نے اپنے بچوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا: "میں آپ کے سپرد کرتا ہوں اپنی بیٹی شم کو، جو میری آنکھوں کا نور ہے، مگر میں اسے ویسا بڑا ہوتا نہ دیکھ سکا جیسا خواب تھا۔ میں آپ کے سپرد کرتا ہوں اپنے بیٹے صلاح کو، جس کے ساتھ زندگی کا سفر کرنے اور سہارا دینے کی خواہش ادھوری رہ گئی ۔“
انہوں نے اپنی والدہ، اہلیہ اور خاندان کا ذکر کرتے ہوئے کہا ” میں آپ کے سپرد کرتا ہوں اپنی ماں کو، جن کی دعاؤں نے مجھے اس مقام تک پہنچایا اور اپنی شریک حیات ، اُم صلاح ( بیان ) کو، جن سے جنگ نے مجھے طویل دنوں اور مہینوں کے لیے جدا رکھا ۔“
اپنے آخری الفاظ میں انس الشریف نے کہا” اگر میں مروں تو اپنے اصولوں پر ثابت قدم رہتے ہوئے مروں ۔ میں اللہ کے سامنے گواہی دیتا ہوں کہ میں اس کے فیصلے پر راضی ہوں، اس سے ملاقات کا یقین رکھتا ہوں اور جانتا ہوں کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے، وہ سب سے بہتر اور دائمی ہے ۔“
انہوں نے اپنے پیغام کا اختتام ان الفاظ سے کیا” غزہ کو مت بھولنا … اور مجھے اپنی مخلص دعاؤں میں یاد رکھنا ۔“