ڈاکٹر قاسم خورشید – در ودیوار سے اُگتی ہوئی تنہائیاں چپ ہیں

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

معروف ادیب، شاعر، ناقد، افسانہ، ڈرامہ، فکشن نگار، ماہر تعلیم، امارت شرعیہ نصابی کمیٹی کے رکن، ادبی اور صحافتی گروپ بندیوں سے دور، خوش اخلاق، ملنسار، بات بات پر قہقہہ لگانے والے ڈاکٹر قاسم خورشید اب ہمارے درمیاں نہیں رہے، انہوں نے 30 ستمبر 2025ء مطابق7ربیع الثانی 1447ھ بروز منگل بوقت صبح ساڑھے آٹھ بجے اپنی رہائش گاہ واقع سلطان گنج نوگھروا، پٹنہ میں دل کا دورہ پڑنے سے انسانوں کے اعتبار سے اچانک دنیا کو الوداع کہا، جنازہ دوسرے روز دس بجے شاہ ارزاں میں مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ، پٹنہ کے پرنسپل مولانا مشہود احمد قادری امانی ندوی نے پڑھائی اور شاہ گنج قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، جنازہ میں چھ سو سے زائد لوگوں نے شرکت کی، جن میں ادباء، شعراء، علماء، صحافی حضرات کے ساتھ عام مسلمانوں کی بھی بڑی تعداد تھی، قاسم خورشید صاحب لاولد تھے، پس ماندگان میں اہلیہ شاہدہ وارثی بنت غلام وارثی ہرگانواں شیخ پورہ ہیں، جو آکاشوانی پٹنہ کی اردو سروس میں اناؤنسرتھیں اور اب سبکدوش ہوچکی ہیں، یہ دونوں 1984 میں رشتہئ ازدواج سے منسلک ہوئے تھے۔

ڈاکٹر قاسم خورشید - در ودیوار سے اُگتی ہوئی تنہائیاں چپ ہیں 
ڈاکٹر قاسم خورشید

ڈاکٹر قاسم خورشید بن مرحوم سید غلام ربانی ساکن کاکو ضلع جہان آباد بہار کے گھر 2 جولائی 1957 کو پیدا ہوئے، والد کا سایہ صرف چار سال کی عمر میں ہی سر سے اٹھ گیا، تعلیم وتربیت، پرورش وپرداخت کا بوجھ والدہ اور ان کے ماموں جاوید احمد نے اٹھایا، زمینداری کے خاتمہ کے بعد گھر میں مفلسی اور پریشان حالی کا دار دورہ تھا، بقول ان کے ”بیوہ ماں کی افسردگی، دو چھوٹے بھائیوں کا بھی ٹوٹا، بکھرا بچپن مفلسی کا دور تک پھیلا ہوا مکڑ جال“ ایسے میں قاسم خورشید ”محض اپنے خواب میں ہی بچپن کو جیتے ر ہے، مگر طوفان کی زد میں آکر جن حادثوں سے لوگ مرجاتے ہیں، ان حادثوں نے ہی انہیں زندہ رکھا“، اس بے سروسامانی میں انہوں نے تعلیم جاری رکھی، پٹنہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا، پریم چندر کے ناول گؤدان کے ادبی احتساب پر تحقیقی مقالہ لکھا اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری پائی، بہار پبلک سروس کمیشن کا امتحان دے کر کلاس ون افسر بنے، صدر شعبہئ لسانیات کی حیثیت محکمہ فروغ انسانی وسائل (ایجوکیشنل ڈپارٹمنٹ) میں خدمات انجام دیں، تین دہائیوں سے زیادہ ان کی تخلیقات اردو، ہندی اور انگریزی زبانوں میں ملک وبیرون ملک کے رسائل میں شائع ہوتی رہیں، انہوں نے کہانی کار، ڈرامہ وافسانہ نگار شاعر اور نقاد کی حیثیت سے ملک اور بیرون ملک میں اپنی شناخت بنائی، بہار میں ڈراما کی مشہور تنظیم IPTA کو از سر نور زندگی بخشی اور پچاس سے زائد ڈرامے اسٹیج کیے، انہوں نے بہار اور دوسرے صوبوں کے ریڈیو اور دوردرشن کے لیے ڈرامے لکھے، دستاویزی فلمیں اور فیچر بنائیں اور انہیں اسٹیج کیا، وہ ایک ماہر تعلیم تھے، انہوں نے اول درجہ سے بارہویں تک کے طلبہ وطالبات کے نو زبانوں میں کتابیں تیار کرائیں، ان کے مساعد خصوصی ڈاکٹر نثار احمد صاحب ہوا کرتے تھے، بعض پروجیکٹ میں میرے چھوٹے بھائی ڈاکٹر محمد صباء الہدیٰ صبا استاذ بی این کالجیٹ پٹنہ بھی شریک رہے، انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی، پٹنہ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی اکسپرٹ کی حیثیت سے متعدد لکچردیے جو مقبول ہوئے، موجودہ امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم نے جب امارت پبلک اسکول کے لیے نصابی کمیٹی تشکیل دی، تو خصوصیت سے انہیں اس کمیٹی کا رکن بنایا، دو مٹنگوں میں ان کی شرکت بھی ہوئی تھی، وہ آل انڈیا ریڈیو پٹنہ میں عارضی اناؤنسر، محکمہ راج بھاشا میں معاون مترجم، بہار ایجوکیشنل، ٹیلی ویژن میں اسکرپٹ رائٹر، ڈپٹی پروڈکشن انچارج رہے۔

ڈاکٹر قاسم خورشید کا بچپن محرومیوں میں گذرا، لیکن ان کے حوصلوں کی اڑان نے انہیں ہر طبقہ میں غیر معمولی مقبولیت عطا کی، ان کے اندر ادبی ذوق اور شاعری کا شوق بچپن ہی سے تھا، شاعری کی شروعات انہوں نے ہندی سے کی ان کی دو غزلیں اس وقت کے مشہور رسالہ ”پرگتی شیل سماج“ میں شائع ہوئیں، پھر انہوں نے دوسرے اصناف نثر ونظم میں طبع آزمائی کی، ابتداء میں وہ جعفر اور کیوکے جعفر کے نام سے شاعری کرتے تھے، لیکن جلدی وہ خورشید کی طرف لوٹ آئے اور وہی ان کا تخلص قرار پایا، ان کا پہلا افسانہ 1977 میں ”روک دو“ کے عنوان سے زبان وادب میں شائع ہوا تھا، اس کے بعد پھر انہوں نے مڑ کر نہیں دیکھا، ان کے تین افسانوی مجموعے پوسٹر، کینوس پر چہرے اور ریت پر ٹھہری ہوئی شام، شائع ہو کر مقبول ہوئے، کینوس پر چہرے، دل کی کتاب اور ریت پر ٹھہری ہوئی شام کے شروع میں انہوں نے اپنی زندگی اور فکر وفن پر بہت پرلطف انداز میں روشنی ڈالی ہے، ڈرامہ کا ایک مجموعہ تماشہ، تنقیدی مضامین کا مجموعہ متن اور مکالمہ، ادبی منظر پر گؤدان (تحقیقی مقالہ) دل کی کتاب (شعری مجموعہ) تھکن بولتی ہے، دل تو ہے بیچارہ (ہندی شعری مجموعہ) جیون بچا ہے ابھی (نکر ڈراما) اڑان (بچوں کی مکالماتی کہانیاں) مطبوع اور مقبول ہوئیں، ان کی مجموعی علمی، ادبی اور ثقافتی خدمات کے لیے سَکّم اور بہار کے گورنر نے انہیں ایوارڈ سے نوازا، انہیں شاد عظیم آبادی اور کلاشری ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔

میں ادبی محفلوں میں یوں بھی کم شریک ہوتا ہوں اور کچھ ادبی لوگ مولویوں کو اس لیے نظر انداز بھی کرتے ہیں، 25-28 ستمبر کو ساہتیہ اکاڈمی کے عالمی جشن میں مدعو نہیں تھا، اس لیے ان کے آخری پروگرام جس میں ان کی پوری زندہ دلی کے ساتھ شرکت ہوئی تھی اس میں ان کو دیکھنے، ملنے اور ملاقات سے محروم رہا، کچھ جسمانی عوارض بھی تھے، ورنہ سامعین میں تو بہت کرسیاں خالی رہتی ہیں، جا بیٹھتا، ایک ماہ سے میں ممبئی میں زیر علاج تھا اس لیے ملاقات مہینوں سے نہیں ہوئی تھی، لیکن وہ جب بھی پھلواری شریف آتے، امارت کی دعوت پر ہو یاکسی اور موقع سے، وہ میرے دفتر میں آکر آدھ پون گھنٹہ بیٹھتے، مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے، ادب اور تعلیم کے حوالہ سے میں ان کی غیرمعمولی صلاحیت اور علمی رسوخ کا ہمیشہ قائل رہا، ان کی شخصیت ادبی حلقوں میں سدا بہار سمجھی جاتی تھی، خزاں اور باد صرصر کے ظاہری اثرات میں نے ان کے چہرے پر کبھی نہیں دیکھے، وہ میری تحریروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور موقع بموقع اس کی تعریف بھی کیا کرتے تھے، انہوں نے میری کتاب ”آدھی ملاقات“ پر وقیع مقدمہ لکھا تھا، جس کا عنوان انہوں نے آدھی ملاقات کے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی“ رکھا تھا۔

ایسی ادبی، تعلیمی شخصیت کے یک بیک جدا ہونے کا اثر دل ودماغ پر بہت پڑا، یک بیک کا لفظ انسانوں کے اعتبار سے ہے، اللہ کے نزدیک ہر کام وقت پر ہی ہوتا ہے، اس لیے اچانک، اتفاقاً یکایک، ناگہانی جیسے الفاظ اللہ کے یہاں کوئی معنیٰ نہیں رکھتے، قاسم خورشید صاحب کا وقت مقرر آگیا تھا، اس لیے وہ چھوڑ کر چلے گیے، اللہ رب العزت مرحوم کی مغفرت فرمائے اور اہلیہ نیز دوسرے متعلقین کو صبر وثبات کی دولت سے مالامال کرے۔ آمین یارب العٰلمین

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare