’سرسید ڈے‘ میں سرسید کی شرکت
معصوم مرادآبادی
میں اس مرتبہ سرسید ڈے کی تقریبات میں شرکت کے لیے ایک دن پہلے ہی علی گڑھ پہنچ گیا تھا۔ اچانک دیکھتا ہوں کہ سرسید اسٹریچی ہال کے قریب اجنبیوں کی طرح ٹہل رہے ہیں۔ میں نے سلام عرض کیا اور پوچھا کہ’’آپ ایک روز قبل ہی یہاں کیوں تشریف لے آئے تو کہنے لگے کہ ”دیکھنے آیا ہوں کہ یہاں کیا ہورہا ہے۔“جب میں نے انھیں بتایا کہ یہاں ”سرسید ڈے“کی تیاریاں زوروں پرہیں اور سبھی اس میں مصروف ہیں تو بولے یہ ”سرسید ڈے“ کیا ہوتا ہے۔ اس پر میں نے انھیں بتایا کہ یہ آپ کا یوم پیدائش 17/اکتوبر ہے اورجہاں جہاں بھی فرزند ان علی گڑھ موجود ہیں وہ آپ کا یوم پیدائش بڑی شان وشوکت کے ساتھ مناتے ہیں۔یونیورسٹی کی جامع مسجد کے احاطہ میں واقع آپ کی آخری آرام گاہ پر پھول چڑھائے جاتے ہیں اور فاتحہ خوانی بھی ہوتی ہے۔جب میں نے انھیں بتایا کہ اس پروگرام کا سب سے اہم حصہ سرسید ڈنر ہے جس میں فرزندان علی گڑھ بڑے ذوق وشوق سے شریک ہوتے ہیں اور وقت سے پہلے ہی کام تمام کردیتے ہیں۔اس پر وہ کسی قدر رنجیدہ ہوئے اور کہنے لگے کہ میں نے ایم اے او کالج کی بنیاد اس لیے تو نہیں ڈالی تھی کہ لوگ میرے یوم ولادت کو ناؤ نوش کی نذر کردیں۔ اگر انھیں کچھ کرنا ہی ہے تو میرے مشن کو زندہ کریں اور جو کام میں نے ادھورے چھوڑے ہیں، انھیں پورا کریں۔نئے نئے تعلیمی ادارے بناکر قوم کی زبوں حالی دور کریں۔ اس پر میں نے کہا کہ یہ کا م ذرا مشکل ہے اس لیے لوگوں نے کھانے پینے کی آسان راہ اختیار کررکھی ہے۔ یوں بھی کھانا پینا ہی اب ہماری قوم کی زندگی کا بنیادی مقصد بن گیا ہے۔لوگ سال میں ایک بار آپ کو یاد کرکے باقی 364 دن زندگی کے دوسرے کاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ کہنے لگے "افسوس ہے اس قوم پر جو ایک بڑے مقصد اور مشن کے لیے پیدا کی گئی تھی مگر اس نے شکم پروری کو زندگی کا محور بنالیا۔”۔

وہ جب زیادہ سنجیدہ ہوئے تو میں نے کہا کہ آئیے آپ کو یونیورسٹی کی سیر کرادوں۔ سب سے پہلے میں انھیں مولانا آزاد لائبریری لے گیا جو یونیورسٹی میں میری سب سے زیادہ پسندیدہ جگہ ہے۔ میں نے سب سے پہلے انھیں لائبریری کی پہلی منزل پر واقع سرسید سیکشن دکھایا جہاں ان کے اخبار’علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ‘ اور ’تہذیب الاخلاق‘ کی فائلوں کے علاوہ ان کی لکھی ہوئی تمام کتابیں رکھی ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ ان پر لکھی گئی ایک ہزار سے زیادہ اردو اور انگریزی کتابوں کا ذخیرہ ہے۔ وہ اس سیکشن کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اورکہنے لگے کہ شکر ہے کہ کچھ لوگ تو مجھے یوں یاد رکھتے ہیں۔ انھوں نے پوچھا کہ میرے جاننے والوں میں اب کون لوگ زندہ ہیں تو میں نے پہلے پروفیسر شان محمد،پروفیسر افتخارعالم خاں کا نام لیا اور پھرپروفیسر شافع قدوائی کا۔ انھوں نے ان لوگوں سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تو معلوم ہوا کہ پروفیسر شان محمد اور افتخارعالم خاں بیمار ہیں البتہ پروفیسر شافع قدوائی سرسید اکیڈمی میں موجود ہیں۔ میں انھیں سرسید اکیڈمی لے گیا جس کا دفتر ان کے مکان سرسید ہاؤس کے ایک حصہ میں واقع ہے۔ یہ اکیڈمی سرسید شناسی پر کافی کام کررہی ہے۔ وہیں مجھے راحت ابرار بھی نظر آئے جو سرسید سے ملنے کے خواہش مند تھے، لیکن میں نے دیکھا کہ سرسید کچھ تھکے ہوئے تھے اور انھوں نے سرسید ہاؤس میں کچھ دیر آرام کرنے کے لیے اپنا بستر تلاش کیا، مگر وہ اب ایک میوزیم کا حصہ بن چکا تھا، اس لیے ان کی خواہش پوری نہیں ہوئی۔ سرسید اکیڈمی سے نکل کر جب ہم باہر آئے تو کچھ فاصلے پر بعض نوجوان ترانے کی ریہرسل کررہے تھے۔ انھوں نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ میں نے کہا کہ یہ ترانہ ٹیم ہے جو ہرسال سرسید ڈے کے موقع پر یونیورسٹی کا ترانہ گاتی ہے۔انھوں نے ترانے کے بارے میں جاننا چاہا تو میں نے بتایا کہ یہ اسی دانش گاہ کے ایک فرزند اسرارالحق مجاز نے لکھا تھا اور اسے اس خوبصورت دھن کے ساتھ گایا جاتا ہے کہ لوگ سردھننے لگتے ہیں۔ ترانہ ٹیم کے ارکان کالی شیروانی اور سفید پاجامے میں ملبوس تھے۔ اس لباس کے بارے میں انھوں نے پوچھا تو میں نے بتایا کہ اب علی گیرین ہونے کی اکلوتی پہچان یہی کالی شیروانی اور پاجامہ ہے۔ اس پر انھوں نے کہا کہ ”میرے زمانے میں تو اس کا کوئی وجود نہیں تھا، نہ میں نے کبھی شیروانی پہنی۔“ اس پر میں نے کہا کہ یہ آپ کے جانے کے بعد ایجاد ہوئی ہے اور یہاں علی گڑھ میں شیروانی کے بڑے ماہر درزی موجود ہیں۔شیروانی کے نیچے جو پاجا مہ پہنا جاتا ہے، اسے ’علی گڑھی پاجامہ‘ کہتے ہیں، جسے علی گڑھ کے باہر بھی لوگ اسی نام کے ساتھ پہنتے ہیں۔’سرسید ڈنر‘ کے بعد انھوں نے جس چیز پر سب سے زیادہ ناک بھوں چڑھائی وہ یہی’علی گڑھی پاجامہ‘ تھا۔ کہنے لگے افسوس میری قوم کن خرافات میں کھوگئی۔ اب میں نے دیکھا کہ سرسید کے چہرے پر تھکن کے آثار نمایاں ہونے لگے تھے۔ میں انھیں یونیورسٹی گیسٹ ہاؤس لے گیا تاکہ کسی کمرے میں آرام کراسکوں۔مگر کہیں کوئی کمرہ خالی نہیں تھا۔ سبھی نے کہا کہ سرسید ڈے کی وجہ سے مہمان بہت آئے ہوئے ہیں اور سبھی کمرے بک ہیں۔آپ سترہ اکتوبر کے بعد آئیے گا۔ مجبور ہوکر میں انھیں یونیورسٹی کیمپس کے باہر ایک ہوٹل میں لے گیا۔ وہاں کمرہ دستیاب تھا۔ ہوٹل کے منیجر نے کمرے بک کرنے سے پہلے سرسید کا شناختی کارڈ یا آدھار کارڈ مانگا۔ یہ دونوں چیزیں ہی ان کے پاس نہیں تھیں۔ منیجر نے کمرہ دینے سے انکار کردیا۔ میں پریشان ہوا اور پیچھے مڑکر دیکھا تو سرسید اپنے بھاری بھرکم وجود کے ساتھ غائب ہوچکے تھے اور میں بھی نیند سے بیدار ہوگیا تھا۔ کاش سرسید کے دیوانے بھی گہری نیند سے بیدار ہوکر خود کو ان کاموں پر لگاسکیں جو سرسید نے نامکمل چھوڑے ہیں۔