یادوں کے چراغ (جلد ششم)

مولانا رضوان احمد ندوی

امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ کے نائب ناظم اور ہفتہ وار جریدہ نقیب” پٹنہ کے مدیر حضرت مولانا مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی کی ہمہ جہت شخصیت علم وادب اور فکر و فن کی دنیا میں محتاج تعارف نہیں، انہوں نے اپنی علمی و فکری اور عملی تحریکات سے ملک میں ایک خاص پہچان بنائی ہے، بلاشبہ ان کی ارتقائی سمت و رفتار قابل رشک ہے، ساتھ ہی امارت شرعیہ کے میدان عمل نے بھی ان کے پوشیدہ جوہر کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، خاص کر ہفتہ وار نقیب کی ادارت نے ان کے قلمی جو ہر کو دو آشتہ کر دیا، جس میں ان کے اداریے، تبصرے و تجزیے برابر شائع ہوتے رہتے ہیں، نقیب کا ایک مستقل کالم ” یادوں کے چراغ” کے عنوان سے ہے، جس میں مختلف شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے اصحاب کا شخصی خاکہ پیش کیا جاتا ہے، زیر تبصرہ کتاب” یادوں کے چراغ “ انہیں سوانحی خاکوں کا چھٹا مجموعہ ہے، جو اسم با مسمی ہے، اس مجموعہ میں انہوں نے عہد حاضر کی بعض ممتاز شخصیتوں کے ساتھ قدرے گمنام اصحاب کے بارے میں اپنے ذاتی تاثرات کا اظہار کیا جن سے وہ خود ملے یا ان کو قریب سے دیکھا ہے، اس فہرست میں ہر گروہ، ہر طبقہ اور ہر مسلک کے لوگ شامل ہیں، اس طرح یہ کتاب 2024ء اور 2025ء کی چند نامور مرحوم شخصیات کا ایک مختصر سا انسائیکلو پیڈیا ہے۔

یادوں کے چراغ (جلد ششم)
یادوں کے چراغ (جلد ششم)

در اصل یہ کتاب چار ابواب و فصول پر مشتمل ہے، باب اول میں 39 علماء و مشائخ اور قراء کے سوانحی خاکے اور ان کی علمی زندگی کی روداد پر مشتمل ہے، باب دوم میں 11/معروف ادباء ونقاد اور دانشوران کی علمی وادبی کاوشوں کا جائزہ لیا گیا ہے، باب سوم میں 4 بھولے بسرے اور گمنام در نایاب کی خدمات اور ان کے کارہائے نمایاں کا تعارف کرایا گیا ہے، تاکہ ان کی زندگی کے مشاہدات سے سبق لیا جائے اور باب چہارم میں دو چند زندہ شخصیات کی سوز زندگی پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے، تاکہ ان کی دعا ئیں ملتی رہیں ، کتاب پر امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ کے نائب امیر شریعت اور دار العلوم وقف دیو بند کے مؤقر استاد حضرت مولانا محمد شمشاد رحمانی

قاسمی صاحب کا بڑا ہی عالمانہ و فاضلانہ گرانقدر مقدمہ” یادوں کا سحر ” کے نام سے شریک اشاعت ہے، جس میں انہوں نے اپنے جن جذبات واحساسات کی ترجمانی کی ہے، اس سے کتاب کے خدو خال نگاہوں کے سامنے آجاتے ہیں، حضرت موصوف نے لکھا کہ زیر نظر کتاب ” یادوں کے چراغ” خاکوں کا دل کش گلدستہ ہے جس میں ہر طرح کے پھول شامل ہیں۔ اس میں جن اکابرین، دانشوران اور بزرگوں کو روشن کیا گیا ہے، ان کو پڑھ کر خیالات اور عملی زندگی میں بہاؤ تیز ہو جاتا ہے، خوشی اور غموں کی زنجیر سے بندھی ان کی یادیں، کارنامے اور زندگی کا جہد مسلسل ہمیں بہت کچھ دیتا ہے، جس زاویے سے پڑھیں گے، رشک و تحسین کا احساس ہوگا اور ہمارے ارادوں اور جذبات کو حوصلہ ملے گا۔ یادوں کی یہ خوبصورتی ذہن پر دستک دے گی اور ہمیشہ نعمت خداوندی کا احساس کراتی رہے گی اور ہم بجھے ہوئے ارادوں کے دیا جلانے پر مجبور ہوں گے۔ یہ کتاب نہ صرف بڑوں کے بڑکپن اور ان کی زندگی سے روبرو کراتی ہے، بلکہ امیدوں اور حسرتوں کی نئی دنیا کی بھی سیر کراتی ہے۔ مفتی صاحب نے یادوں کا جو چراغ روشن کیا ہے، اس کی لو بھی مدھم نہیں ہوگی اور یادوں کے اس سحر میں لوگ کھو جائیں گے، کیونکہ اس میں تجربات اور تاریخ کے ساتھ انوکھا پیغام بھی ہے۔ ہماری زندگی کا ہر دن یادوں کے نقش بناتا ہے، لیکن زندگی کے سفر میں چند ایسی بھی یادیں ہوتی ہیں جو اپنی خاصیت و اعتبار کے لحاظ سے لاثانیت کا درجہ رکھتی ہیں مفتی صاحب نے ایسے پرکھوں کے اقدار، روایات کو زندہ جاوید بنانے کی سعادت حاصل کی ہے، انہوں نے مرحومین کے ساتھ یہ قید حیات کچھ چاند ستاروں کو بھی روشن کیا ہے اور ان کی زندگیوں کو بابرکت بنانے کی بھی دعائیں کی ہیں (ص: 12)

یادوں کے چراغ (جلد ششم)
یادوں کے چراغ (جلد ششم)

 مصنف کتاب نے آغاز کتاب میں کتاب کے اجزا ترکیبی پر بھی روشنی دالی ہے، تذکرے، سوانح نگاری اور خاکہ نگاری کے مشمولات کی بھی وضاحت کر کے قیل و قال کے دروازے بند کر دئے اور وضاحت کر دی کہ ” یہ مضامین اصلاً سوانحی خاکے ہی ہیں اور ان کے اجزاء ترکیبی وہی ہیں جو تذکرے ، سوانح اور خاکوں کے ہوا کرتے ہیں، (ص: 9) اس سوانحی خاکہ میں مصنف نے اپنی ذہانت و طباعی سے کہیں کہیں نئے نئے نکتے بھی پیدا کئے ہیں اور حکمت و دانائی کے ساتھ کسی مصلحت کے بغیر سرجری کا فریضہ بھی انجام دیا ہے، مثلاً مفتی عزیز الرحمن شاہد چمپارنی کے حالات زندگی لکھتے ہوئے ایک جگہ لکھا کہ مولانا نفسیاتی اعتبار سے جواں سالی سے ہی سیمابی کیفیت کا شکار تھے، اس لیے بہت دنوں تک ایک جگہ ٹکنے کا مزاج نہیں تھا، مزاج میں سختی بھی تھی، اس لیے ان کو کم لوگ جھیل پاتے تھے، اپنی مخصوص افتاد طبع کی وجہ سے ان کے ملنے والوں کا حلقہ بھی بڑا مختصر تھا (ص: 67) آپ کو اس طرح کی متعدد مثالیں جا بجا ملیں گی جن سے مفتی صاحب کی نکتہ آفرینی نمایاں ہوتی ہے، ہر کتاب کا سب سے زیادہ دشوار گذار اور صبر آزما مرحلہ اس کی طباعت و اشاعت کا ہوتا ہے، جن کی رسائی دور تک ہوتی ہے۔ ان کے حصہ میں ہی یہ سعادت نصیب ہوتی ۔ ہے اور کھٹا کھٹ کتا بیں منظر عام پر آتی رہتی ہیں ، ما شاء اللہ مفتی صاحب کی اب تک چھوٹی بڑی 54/کتا بیں چھپ چکی ہیں ، جو تقریباً سب اسی قبیل سے تعلق رکھتی ہیں، اس کتاب کی طباعت کیلئے مولا نا محمد نصیر الدین مظاهری ناظم دار القرآن مدرسہ عظمتیہ نواده نے نہ صرف دل کھول کر حصہ لیا بلکہ محبت و مروت کا قرض بھی اتار دیا، جس کیلئے وہ ہماری طرف سے مبارکباد کے مستحق ہیں۔

نقیب کے ان بکھرے مضامین کو دو جواں سال عالم دین اور کمپوزنگ پر فنی مہارت رکھنے والے مولانا راشد العزیری ندوی ( سابق رفیق کار شعبہ کمپیوٹر مرکزی دارالقضاء ) اور مولانا ضیاء الاسلام قاسمی نے خوش سلیقگی سے جمع کر دیا ، پھر مصنف کتاب نے ان مضامین کو تہذیب و تنقیح کے بعد کتابی شکل میں شائع کرا دیا ، کتاب کی طباعت صاف ستھری اور روشن ہے ، 224 صفحات پر مشتمل اس مجموعہ کی قیمت دو سوروپے رکھی گئی ہے، جو کسی قدر مناسب ہے، جن لوگوں کو سوانحی خاکہ کے مطالعہ سے دلچسپی ہو ان کیلئے اس کا مطالعہ مفید ثابت ہوگا، توقع ہے کہ کتاب کی خاطر خواہ پذیرائی ہوگی علم دوست حضرات دوسو روپے نا شر کتاب کے پتہ پر بھیج کر طلب کریں یا براہ راست مصنف کتاب کے موبائل نمبر 9304919720 پر رابطہ کر کے حاصل کر سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare