صدائے نسواں

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

سعیدہ سراج مفلحاتی اور عائشہ سراج مفلحاتی میری نواسیاں ہیں، انہوں نے طالبات کی انجمن ، مدرسہ کے مختلف پروگرام اور موقعوں سے جو تقریریں کیں اور جن تقریروں پر ان کی حوصلہ افزائی کی گئی، انعام و اکرام سے نوازا گیا ، انہیں ” صدائے نسواں ” کے نام سے مرتب کر دیا ہے، یہ پچیس (25) مختصر تقریریں ہیں، جو موقع کی مناسبت سے کی گئیں ، ان کے موضوعات متنوع ہیں، ان کا اسلوب خطیبانہ اور مواد جامع ہے، البتہ اگر آپ ان تقریروں کے شروع اور بیچ سے ” دینی بہنوں ” کے تخاطب کو ہٹا دیں ، تو یہ تقریریں مدارس کے طلبہ کے لیے بھی اتنی ہی مفید اور کارآمد ہیں ۔ جتنی طالبات کے لیے۔

صدائے نسواں - مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
صدائے نسواں

سب سے مشکل کام مختصر ترین تقریریں کرنا ہے، لمبی تقریروں میں ڈائیورسن لے کر اور لطائف وغیرہ سنا کر ٹائم پاس کر لینا ہوتا ہے، جو چنداں مشکل نہیں، لیکن مختصر تقریروں میں مواد، پیش کش تعبیرات و اسلوب، اعضاء و جوارح کی حرکات و سکنات ( باڈی لنگویج ) کا تقریر کو مؤثر بنانے میں بڑا رول ہوا کرتا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم جوامع الکلم تھے، اس لیے آپ کے خطابات مختصر ہوا کرتے تھے، گھنٹے دو گھنٹے کی کوئی تقریر میرے علم کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجود نہیں ہے، سب سے بڑا خطاب خطبہ حجۃ الوداع ہے، ساری روایتوں کو یک جا کرنے کے باوجود اسناد کو چھوڑ دیا جائے تو بخاری شریف کے تقریباً ایک صفحہ کو بھی نہیں پہونچتا، دوسری تقریر آپ نے اس موقع سے فرمائی، جب غزوہ حنین کے بعد مال غنیمت کی تقسیم سے بعض حضرات بدگمانی میں مبتلا ہو گیے تھے، اس تقریر میں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لب ولہجہ ہے اس میں جوش بھی ہے، مواد بھی ہے اور کلائمکس یعنی اختتامیہ تو اس قدر مؤثر ہے کہ سر دھننےکو جی چاہتا ہے کیا منظر رہا ہوگا جب آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کہی ہوگی کہ کیا تم اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ مکہ والے مال لیں اور تم اپنے ساتھ محمد رسول اللہ کو لے جاؤ صحابہ کرام بے اختیار کہ پڑے کہ اللہ کے رسول ہم اس فیصلے پر راضی ہیں ، مختصر ترین تقریر پر ، شکوہ جذبات سے بھرے الفاظ اور مکمل اثر آفرینی ، اب آقا کی طرح دوسرا کوئی جوامع الکلم تو نہیں ہوسکتا، لیکن اپنی تقریروں میں اس اسوہ کی نقل کی کوشش تو کر ہی سکتا ہے، ہمارے یہاں مقررین دو دو گھنٹے تقریر کرتے ہیں، نہ اس میں مواد ہوتا ہے اور نہ سامعین کے لیے کوئی پیغام، مقرراچھلتا رہتا ہے ،میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ تقریر کا یہ انداز کسی درجہ میں بھی اسوۂ نبوی سے میل کھاتا ہے؟

میں نے ان بچیوں کی تقریر کے الفاظ پڑھے ہیں، پیش کش انداز اور باڈی لنگویج حرکات و سکنات تو سامعین ہی دیکھتے اور متأثر ہوتے ہیں، لیکن ان بچیوں کی ان تقریروں کے کرنے پر جو حوصلہ افزائی ہوئی اور جو انعامات ان بچیوں نے حاصل کیے، ان سے تو یہی اندازہ ہوا کہ پیش کش بھی اچھی اور مؤثر رہی ہوگی۔

ظاہر ہے اس تقریر کی تیاری میں ان کے والدین ، مفسر قرآن عزیزم مولانا مفتی محمد سراج الہدی ندوی از ہری اور حافظہ رضیہ عشرت کی تربیت کا بھی بڑا عمل دخل رہا ہے؟ اس لیے ان بچیوں کے ساتھ، یہ دونوں بھی بہترین تربیت کے لیے مبارک باد کے مستحق ہیں۔

ان بچیوں کی تقریر کی طباعت کوئی معمولی اور عام سا واقعہ نہیں ہے، دراصل یہ ان بچیوں کے ذریعہ "خانوادہ ہدی” کی علمی روایات کو آگے بڑھانے کا نقطۂ آغاز ہے، وہ روایت جس کی داغ بیل میرے دادا منشی علی حسن نے ڈالی اور جس کو وہ پروان چڑھانے میں میرے والد محترم ماسٹر محمد نور الہدی رحمانی ، میرے بڑے بھائی اور ان بچیوں کے دادا ماسٹر محمد ضیاء الہدی ضیاء رحمہم اللہ نے پوری زندگی وقف کر دی ان حضرات کے بعد مولا نا محمد سراج الہدی ندوی از ہری اس” خانوادہ ھدی ” کے سراج ( چراغ ) اور حقیقتاً میرے علمی وارث ہیں، اور ان کی علمی صلاحیت اور تقوی وطہارت سے ایک بڑا علاقہ اور کئی علمی ادارے مستفیض ہورہے ہیں، اللہ تعالیٰ تا قیامت اس سلسلے کو باقی رکھے اور ان حضرات کی خدمات کو پہلے گزر جانے والے لوگوں کے لیے صدقہ جاریہ بنائے ، آمین یا رب العالمین صلی اللہ علی النبی الکریم ، وعلی آلہ وصحبہ اجمعین ۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare