مولانا عزیزالحسن صدیقی اور جمیعت بلڈنگ

معصوم مرادآبادی

ممتاز ملی رہنما اور عالم دین مولانا عزیزالحسن صدیقی گزشتہ 13/جولائی 2025 کو بنارس کے ایک اسپتال میں طویل علالت کے بعد انتقال فرماگئے۔ انتقال کے وقت ان کی عمر 93 برس تھی۔ انھوں نے اپنی عمر عزیز کا بیشترحصہ ملی سرگرمیوں میں گزارا اور علم وادب کی بھی خدمت میں کی۔ وہ جہاں بھی رہے خلوص اور للہیت کے جذبے کے ساتھ سرگرم عمل رہے اور کبھی ذاتی مفاد کے لیے کام نہیں کیا۔ ان کے نزدیک اجتماعی مفاد اور فلاح ہی سب سے اوّل تھا۔ وہ بنیادی طورپر ایک بے نیاز اور بے لوث انسان اور قدیم روایات واقدار کے امین اور ملی غیرت وحمیت کااعلیٰ نمونہ تھے۔ ان کی تربیت جن اکابرعلماء اور صلحاء کے ہاتھوں میں ہوئی تھی، انھوں نے ان کے اندر بعض ایسی خوبیاں جاگزیں گردی تھیں جو موجودہ دور کے علماء میں کم ہی نظر آتی ہیں۔ اپنی تاریخ اور تہذیب کے ساتھ انھیں جو والہانہ لگاؤ تھا، اس کی مثال بھی اس دور ابتلاء میں مشکل ہی سے ملے گی۔وہ آخری عمر تک علمی سرگرمیوں میں مصروف رہے اور اس معاملے میں صحت کی خرابی بھی مانع نہیں ہوئی۔

مولانا عزیزالحسن صدیقی اور جمیعت بلڈنگ
مولانا عزیزالحسن صدیقی اور جمیعت بلڈنگ

ذہن پر زور ڈالتا ہوں تو یاد آتا ہے کہ میری ان سے پہلی ملاقات اب سے تقریباً چاردہائیوں قبل ایک ایسی عمارت میں ہوئی تھی جو دہلی میں ملی سرگرمیوں اور ملی مسائل کو حل کرنے کا ایک بڑا مرکز سمجھی جاتی تھی۔ جی ہاں میں بات کررہا ہوں پرانی دہلی کی گلی قاسم جان میں واقع جمعیۃ بلڈنگ کی، جہاں وہ مولانا سیداحمد ہاشمی کی کٹیا میں آکر ٹھہرتے تھے۔مولانا سید احمد ہاشمی ان کے ہم وطن ہی نہیں بلکہ ان کے ہم مزاج اور ہمدم ودمساز بھی تھے۔ دونوں میں گہری چھنتی تھی اور دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم تھے۔ دونوں ایک دوسرے کے قدردان اور مخلص ومہربان بھی تھے۔ میری خوش قسمتی یہ ہے کہ میں نے دونوں ہی کو قریب سے دیکھا اوراکتساب فیض بھی کیا۔

مولانا عزیز الحسن صدیقی سے میری بیشتر ملاقاتیں گلی قاسم جان میں واقع جمعیۃ بلڈنگ ہی میں ہوئیں، جہاں میں اکثر وبیشتر مولانا سیداحمد ہاشمی سے استفادہ کرنے جایا کرتا تھا۔یہ جمعیۃ بلڈنگ کیا تھی، ایک پوری تاریخ تھی اور اس سے بڑھ کر تاریخ اس گلی قاسم جان کی تھی جس کے تقریباً آخری سرے پر یہ واقع تھی۔ آگے بڑھنے سے پہلے میں ایک نظر گلی قاسم جان پر ڈالنا چاہوں گا، جسے ہماری ملی اور ادبی زندگی میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔

گلی قاسم جان یوں تو غالب کی حویلی کی وجہ سے چہاردانگ عالم میں مشہور ہے، جہاں پہلے لکڑی کی ٹال ہوا کرتی تھی۔ غالب کے پرستاروں نے حکومت کو غیرت دلائی توحکومت نے یہاں سے لکڑیاں ہٹاکر غالب کی یادگار بنادی اور درودیوارپر غالب کے اشعار آویزاں کردئیے۔

اگ رہا ہے درودیوار پہ سبزہ غالب

ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے

یہ وہی حویلی ہے جہاں سے غالب قمار بازی میں پکڑے بھی گئے تھے۔غالب کی اس حویلی کے روبرو حکیم اجمل خاں کا قائم کردہ ہندوستانی دواخانہ ہے۔ خود حکیم اجمل خاں بھی اسی علاقہ کے مکین تھے۔ اسی گلی قاسم جان میں ایک ایسی بلڈنگ بھی ہے جہاں آزادی کے بعدمصیبت کے مارے مسلمانوں کے مسائل کا مداوا ہوتا تھااور دوردراز سے مسلمان اپنے مسائل لے کر یہاں آتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب یہاں جب مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی رہا کرتے تھے۔ جنھوں نے تقسیم ہند کے بعد لٹے پٹے اور بدحال مسلمانوں کی سب سے زیادہ داد رسی کی اور انھیں گلے لگایا۔ اسی جمعیۃ بلڈنگ میں روزنامہ ’الجمعیۃ‘ کا دفتر بھی تھا جہاں بیٹھ کر اس کے ایڈیٹر مولانا عثمان فارقلیط اور ناز انصاری جیسے بلندپایہ صحافیوں نے اداریہ نویسی کی۔ اسی جمعیۃ بلڈنگ کے ایک کمرے میں مولانا وحیدالدین خاں بھی رہتے تھے اور وہ بھی ’الجمعیۃ‘ سے وابستہ تھے اور یہیں سید احمد رامپوری جیسے اعلیٰ پایہ کے خطاط کی نشست تھی۔

 یہ جمعیۃ بلڈنگ جو آج اپنی شناخت کھوچکی ہے کسی زمانے میں اپنے زمانے کی نابغہ روزگار شخصیت کا مرکز ہوا کرتی تھی۔اسی جمعیۃ بلڈنگ تک میری رسائی کا وسیلہ بنے تھے سابق ممبر پارلیمنٹ اور جمعیۃ علماء کے ناظم عمومی مولانا سیداحمد ہاشمی، جو یہاں ایک مختصر مکان میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ رہا کرتے تھے اور اسی مختصر رہائش گاہ سے متصل ان کا وہ دفتر تھا جہاں دنیا جہان کے ضرورت مند مولانا ہاشمی اپنے لیٹر ہیڈ پر مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کی طرح سفارشیں کیا کرتے تھے۔ یہ سفارشیں اکثر فون پر بھی ہوتی تھیں۔

 مولانا سیداحمدہاشمی کا وطنی تعلق اترپردیش کے مردم خیز خطہ غازی پور سے تھا جو مولانا عزیز الحسن صدیقی کی جنم بھومی اور کرم بھومی دونوں تھی۔کافی دنوں تک مولانا عزیزالحسن صدیقی نے ملی امور میں مولانا سیداحمد ہاشمی کے معاون ومددگار کے طورپر خدمات بھی انجام دیں۔ یہ مولانا ہاشمی کی تربیت اور صحبت ہی کا نتیجہ تھا کہ مولانا عزیز الحسن کے دل میں مظلوم ملت کا درد پیدا ہوا اور وہ تمام عمر اس کا مداوا کرتے رہے۔ مجھے یاد ہے کہ برسوں پہلے میں نے مسلمانوں میں جہیز کی وبا کے خلاف ایک مضمون روزنامہ ’قومی آواز‘ میں لکھا تھا۔ یہ دہلی کے ایک واقعہ سے متعلق تھا۔ ایک شخص نام ونمود کی خاطر اپنے بیٹے کی بارات ہیلی کاپٹر میں لے کر گیا تھا، لیکن ہیلی کاپٹر اپنی منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکا۔ بعد کو انکم ٹیکس محکمے نے اس شخص کی خوب تواضع کی۔ مولانا عزیز الحسن صدیقی نے نہ صرف اس مضمون کو اپنے رسالے ”تذکیر“ میں نمایاں طورپر شائع کیا بلکہ اپنے ادارے مجلس صیا نتہ العلوم کی طرف سے اسے ایک کتابچہ کی صورت میں شائع کروایا اور بڑی تعداد میں تقسیم کیا۔

اس سرگرمی کا مقصد مسلم معاشرے میں سرایت کرگئی جہیز کی لعنت کے خلاف عوامی بیداری پیدا کرنا تھا۔مولانا عزیز الحسن صدیقی جہاں ایک طرف ملی سرگرمیوں میں مصروف رہتے تھے وہیں ان کی سرگرمیوں کا ایک خاص محور مسلم معاشرے کی اصلاح اور تربیت بھی تھا۔خاص بات یہ ہے کہ ان کی خدمات کا دائرہ کسی ایک شعبہ تک محدود نہیں تھا بلکہ انھوں نے ہمہ جہت طورپر علمی، ادبی، دینی اور ملی خدمات بڑے بے لوث طریقہ سے انجام دیں اور تعلیم وتربیت، سیاست وصحافت، تصنیف وتالیف، ادارت وقیادت جیسے شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کے گہرے نقوش چھوڑے۔ اتنا ہی نہیں انھوں نے انسانی خدمت اور رفاہ عام کے کاموں میں بھی گہری دلچسپی لی۔

سرزمین غازی پور ان کی عملی سرگرمیوں کا بنیادی مرکز تھا۔ وہ اپنے رفقاء کے ساتھ ”کاروان تعلیم وتذکیر“ کے ذریعہ ضلع غازی پور کے چپہ چپہ کا سفر کرکے مسلمانوں کو حرکت وعمل پر آمادہ کرتے تھے۔ ہمارا ایک مسئلہ یہ بھی ہے ہمارے بیشتر قائدین قومی سطح کے ہوتے ہیں اور خود ان کے اپنے علاقہ میں ان کی ’قیادت‘ کے کوئی نقوش نہیں ہوتے جبکہ قائد کی اصل پہچان اس کے اپنے علاقہ میں اس کی کارکردگی ہی ہوتیہے۔ اس معاملے میں بھی مولانا عزیز الحسن صدیقی طاق تھے۔ انھوں نے اپنی انتھک کوششوں کے ذریعہ غازی پور کے روشن ماضی پر پڑی ہوئی دھند کو صاف کیا اور تاعمر اس کے باقیات میں مدفون علم وادب کے موتی تلاش کرتے رہے اور اہل ذوق کی توجہ اس خزانے کی طرف مبذول کرانے میں کامیاب رہے۔

مولانا عزیز الحسن صدیقی 14/ستمبر1932کو غازی پور میں ایک ذی علم اور باوقار خانوادے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد بزرگوارمولانا ابوالحسن صدیقی مدرسہ دینیہ غازی پور کے بانی اور علاقہ کی معروف ومعزز شخصیت اور معروف شاعر تھے۔تعلیم کا آغاز مدرسہ دینیہ سے ہوا، جہاں انھیں مولانا عمر فاروق، مولانا ابوالحسن صدیقی،مولانا اسماعیل ذبیح اور مولانا اسلم فاروقی جیسے علماء سے کسب فیض کا موقع ملا۔اسی دوران انھوں نے مولانا سیداحمد ہاشمی کے برادربزرگ حافظ سید محمدہاشمی سے انگریزی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ بعد کو ماسٹر رامائن پرشاد سے انگریزی کی اچھی استعداد حاصل کی۔انھیں علمی، ادبی، سماجی وسیاسی خدمات کا جذبہ اپنے بزرگوں سے وراثت میں ملا تھا۔اس لیے شعور کی زندگی میں قدم رکھتے ہی بزرگوں کے کاموں کی تکمیل اور قومی وملی تحریکوں میں شامل ہوگئے۔اس کے ساتھ ہی مدرسہ دینیہ کو بام عروج تک پہنچا کر اسے رفاہی خدمت کا ایک اہم مرکز بنایا۔ ضلع غازی پور اور دیگر پڑوسی اضلاع میں مدرسہ دینیہ کے ذیلی مکاتب قائم کئے اور لاتعداد رفاہی اداروں کی داغ بیل ڈال کر انھیں پروان چڑھایا۔

انتظامی طورپر وہ جن ملی اور علمی اداروں سے وابستہ رہے، ان میں مدرسہ دینیہ کے اہتمام کے علاوہ اترپردیش جمعیۃ علماء کی مجلس عاملہ کے رکن اور بعد میں ناظم اعلیٰ اور نائب صدر بھی رہے۔ بعد کو جب مرکزی جمعیۃ علماء وجود میں آئی تو اس کی مجلس عاملہ کے مدعو خصوصی اور شعبہ نشر واشاعت کے ناظم مقرر ہوئے۔1988میں آپ کو ملی جمعیۃ علماء کی یوپی شاخ کا ناظم اعلیٰ مقرر کیا گیا۔1991 میں آپ نے غازی پور سے ایک علمی مجلہ”تذکیر“ جاری کیا۔ 1997میں ندوۃ العلماء کی مجلس منتظمہ اور2000میں آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے رکن بنے۔آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے کئی اجلاس میں بطورمدعو خصوصی شرکت کی اور اس کی اصلاح معاشرہ کمیٹی برائے حلقہ مشرقی یوپی کے کنوینر بھی رہے۔اترپردیش اردواکادمی اور آل انڈیا اردو ایڈیٹر س کانفرنس کے بھی رکن رہے۔دینی تعلیمی کونسل کی یوپی شاخ کے نائب صدر کے طورپر بھی خدمات انجام دیں۔آپ کی اہم تصانیف میں ’تذکرہ مشاہیر غازیپور‘، ’رشحات قلم‘، ’کاروان فکر‘،’سرمایہ ملت کے نگہباں‘، شمع آزادی کے پروانے‘،’ہماں خاکم کہ ہستم‘(خودنوشت)’حوّ ا کی بیٹیاں‘، ’جنگ آزادی اور مسلمان‘،’تاریخ آزادی ہند کا سرسری جائزہ‘وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare