پروفیسر خالد محمود: ’خطرناک میزبان‘
معصوم مرادآبادی
مضمون شروع کرنے سے پہلے اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یہ سرخی میری نہیں ہے بلکہ یہ میں نے ممبئی کے مشہور مزاح نگارفیاض احمد فیضی سے مستعار لی ہے۔ ہوا یوں کہ پچھلے دنوں دہلی میں ان کی ایک کتاب کا اجراء تھا۔میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کہاں ٹھہرے ہوئے ہیں تو انھوں پروفیسر خالد محمود کے مکان کا پتہ بتایا اور ساتھ ہی ان کی حددرجہ مہمان نوازی سے پریشان ہوکر کہا کہ”یہ بڑے خطرناک قسم کے میزبان ہیں۔“

اکثر یہی ہوتاہے کہ جب کوئی بڑا یا چھوٹا ادیب بھوپال، بمبئی، لکھنؤ یا کہیں اور سے دہلی آتا ہے تو وہ پروفیسرخالد محمود ہی کا مہمان ہوتا ہے۔ ہر مہمان سے بار بار ان کے مکان کا نام سن کر میں نے سوچا کہ شاید انھوں نے کوئی گیسٹ ہاؤس کھول رکھا ہوگا اور دہلی آنے والے ادیبوں اور شاعروں کو وہ رعائتی قیمت پر کمرے مہیا کراتے ہوں گے، مگر میراخیال اس وقت غلط ثابت ہوا جب میں ایک بار جسولا ہائٹس کی پانچویں منزل پر واقع ان کے فلیٹ پر پہنچا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے مکان پر کوئی نیم پلیٹ نہیں ہے، مگر لوگ پھر بھی وہاں پہنچ ہی جاتے ہیں۔ اس فلیٹ میں تین کمرے ہیں اور ایک اسٹڈی۔ یہاں ہر کمرے میں مختلف اور متنوع قسم کی اردو کتابوں کا قیام ہے۔ کتابوں کا ہجوم دیکھ کرمیں نے پوچھا کہ آپ کہاں سوتے ہیں تو انھوں نے ایک بستر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ”یہاں“ مگر یہاں بھی بستر سے زیادہ کتابوں کا ڈیرہ تھا، مگر مکان کی ترتیب وتہذیب میں بلا کا جو سلیقہ تھا وہ ان کی اہلیہ کی خوش سلیقگی کا نتیجہ معلوم ہوتا تھا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ان کی اہلیہ کوئی خاتون خانہ ہوں گی جو صبح سے شام تک گھر کو سنوارتی اور سجاتی رہتی ہوں گی یا پھر مہمانوں کی آؤ بھگت میں لگی رہتی ہوں گی۔مگر یہ سوچ غلط ہے کہ کیونکہ پروفیسر خالد محمود کی طرح ان کی اہلیہ بھی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسررہ چکی ہیں اور اس درجہ کی پروفیسر رہیں کہ انھیں یونیورسٹی کی گارگزار پرووائس چانسلربھی بنایا گیا، مگروہ بھی پروفیسر خالد محمود کی طرح بلا کی مہمان نواز ہیں۔
ایک روز میں اپنی اہلیہ کے ساتھ کسی کام سے اوکھلا گیا ہوا تھا۔ درمیان میں خالد محمود صاحب کی یاد آئی تو میں نے ان سے حاضری کی اجازت چاہی۔ انھوں نے مجھے تقریباً ڈانٹتے ہوئے کہا کہ ”لگتا ہے تم بھی بڑے آدمی ہوگئے ہو۔ میرے گھر آنے کے لیے کسی کو اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی اور تمہارا تو یہ اپنا گھر ہے۔“میں ڈرتا ڈرتا ان کے گھر پہنچا تو ان کی اہلیہ گھر پر نہیں تھیں۔ میں نے ان کے بارے میں پوچھا تو بتایا کہ تمہارے لیے کچھ کھانے پینے کا سامان لینے گئی ہیں۔ کچھ دیر بعد وہ گھر میں داخل ہوئیں تو ان کے دونوں ہاتھ انواع واقسام کی چیزوں سے بھرے ہوئے تھے۔ تازہ سموسے،تازہ جلیبیاں اور یہ تازہ پکوڑے۔ساتھ ہی کچھ تازہ فروٹ بھی تھے۔ حالانکہ ان کے گھر میں کھلانے کو بہت کچھ تھا مگر وہ مہمان کی تواضع تازہ چیزوں سے کرنا چاہتی تھیں۔ میں ان کی اس مہمان نوازی سے بہت متاثر ہوا اور اس سے زیادہ پروفیسر خالد محمود کی تواضع کے انداز سے۔
پروفیسر خالد محمود کی ایک بڑی خوبی یا خامی یہ ہے کہ وہ بولتے بہت ہیں اور اپنے مہمان کو بولنے کا موقع نہیں دیتے۔ ان کی اہلیہ کاکہنا ہے کہ ”انھیں چپ رہنا بالکل پسند نہیں ہے، باتیں سننے سے زیادہ بولنا پسند کرتے ہیں۔“ یہ حقیقت بھی ہے۔ جب بھی ان کے پاس جائیے تو وہ سینٹر ٹیبل پر انواع واقسام کی اشیاء سجادیتے ہیں۔ ایک ختم نہیں ہوتی تو دوسری ہاتھ میں تھمادیتے ہیں اور اس طرح مہان کا منہ کھانے میں مصروف رہتا ہے اور خالد صاحب مسلسل بولتے رہتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ انھوں نے کھلانے پلانے کا یہ سلسلہ یوں ایجاد کیا ہوکہ مہمان کا منہ مسلسل مصروف رہے اور اسے بولنے کا موقعہ ہی نہ ملے۔وہ خود ہی بولتے چلے جائیں۔ مگر ان کا بولنا یوں بھی اچھا لگتا ہے کہ وہ بڑی علمی گفتگو کرتے ہیں اور مہمان کو بور نہیں ہونے دیتے۔جہاں تک ان کی مہمان نوازی کے فن کا تعلق ہے تو ان تمام فنون سے بڑھ کرہے جن کی تعلیم وتدریس میں انھوں نے زندگی بسر کی ہے۔ انھوں نے ایک روز مجھے بتایا کہ ان کے والد بھی اسی درجے کے مہمان نواز تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ دراصل ہم جو کچھ اچھی چیزیں کھاتے ہیں وہ دراصل ہمیں مہمان ہی کھلاتا ہے۔ ورنہ گھر میں تو یہ ہوتا ہے کہ ہم اکثر بچا ہوا سالن ہی کھاتے ہیں۔ مہمان کے طفیل ہمیں بھی انواع واقسام کی چیزیں کھانے کو مل جاتی ہیں۔
پروفیسر خالد محمود دل کے مریض ہیں۔ بہت پہلے ان کی بائی پاس سرجری ہوچکی ہے۔وہ اس سرجری کی سلور جوبلی منانے کی تیاری کررہے تھے کہ اچانک انھیں دل کی تکلیف لاحق ہوگئی اور وہ دوبارہ اسپتال میں داخل ہوئے۔انھیں پیس میکر لگایا گیا ہے۔ میں اس دوران برابر پروفیسر اخترالواسع سے جو ان کے سمدھی ہیں ان کی خیریت معلوم کرتا رہا اور جب وہ گھر آگئے تو ان کی مزاج پرسی کے لیے ان کے گھر گیا۔ میں نے سوچا تھا کہ اب طبیعت نا ساز ہونے کی وجہ سے وہ آرام کررہے ہوں گے۔ مگر کہاں کا آرام اور کیسی تکلیف۔ ان کی گفتگو میں وہی تازگی اور شوخی تھی جو ان کا خاصہ ہے، مگر اس بار بھی انھوں نے ہمیشہ کی طرح مجھے بولنے نہیں دیا اور سارا وقت دل کا حال سنانے میں گزاردیا۔ اس کے ساتھ ہی نئی نئی اشیاء سینٹر ٹیبل پر سجتی رہیں۔”دیکھو یہ شکرقندی کی کھیر ہے۔ یہ گجک ہے۔ یہ ڈرائی فروٹ ہیں۔ یہ جوس ہے۔ یہ مٹھائی ہے اور چائے بس آنے ہی والی ہے۔“میں نے عرض کیا کہ میں شوگر کا مریض ہوں اور یہ سب چیزیں میرے لیے ممنوع ہیں۔ اس پر وہ نارا ض ہوگئے۔کہنے لگے پرہیز کرنے والوں کا بھی انجام وہی ہوتا ہے جو بدپرہیزی کر نے والوں کا ہوتا ہے۔ اس لیے پرہیز نہ کیا کرو اور کھاتے پیتے رہا کرو۔ اسی کا نام زندگی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک روز شدید گرمی کے موسم میں ان کے گھر گیا تو وہاں امبیا کا ایسا لذیذ شربت پینے کو ملا کہ میں آج تک اس کی لذت نہیں بھول پایا ہوں۔ اس شربت کی کئی بوتلیں ان کے فرج میں محفوظ تھیں اور ان کا اصرار یہ تھا کہ میں ایک بوتل ساتھ لے جاؤں۔امبیا کا یہ شربت بڑی مشکل سے تیار ہوتا ہے۔ مگر گرمی میں جب بھی آپ ان کے گھر جائیے تو یہ تیار ملتا ہے۔
پروفیسر خالد محمود کی اہلیہ ایک سائنس داں ہیں اور ان کی عمر کا بیشتر حصہ سائنسی تعلیم میں گزرا ہے۔ وہ جامعہ میں سائنس کی پروفیسر رہی ہیں، لیکن حیرت انگیزبات یہ ہے کہ ان میں نہ تو پروفیسروں جیسی نرگسیت ہے اور نہ ہی کسی قسم کا تصنع۔ وہ دیکھنے میں بالکل خاتون خانہ نظر آتی ہیں۔ ان کا تعلق تہذیب وشائستگی کی سرزمین لکھنؤ سے ہے اور ان کے برتاؤ میں لکھنوی تہذیب اور شائستگی کی جھلک ہے۔حیرت اس بات پر ہے کہ اردو اور سائنس کی اس جوڑی میں بلا کا ارتباط ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اردو اور سائنس میں کوئی ارتباط نہیں ہے۔
پروفیسر خالد محمود کا تعلق مدھیہ پردیش کے شہر سرونج سے ہے، جہاں وہ 15/جنوری 1948کو پیدا ہوئے۔بھوپال کے مشہور حمیدیہ کالج سے گریجویشن اور سیفیہ کالج سے بی ایڈ اور ایم اے کرنے کے بعدتقریباً دس سال وہیں تدریسی خدمات انجام دیں اور پھر دہلی آگئے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردو سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد وہ اسی شعبے سے وابستہ ہوگئے اور یہیں چالیس سال شان سے تدریسی خدمات انجام دیں۔ اس دوران جب انھیں مکتبہ جامعہ کی ذمہ داری سونپی گئی تو انھوں نے اس میں نئی جان ڈالنے کی کوشش کی۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے قومی اردو کونسل کے اشتراک سے مکتبہ جامعہ کی سیکڑوں کتابیں شائع کرائیں جو عرصے سے نایاب تھیں۔بھوپال اور دہلی میں ان کی تدریسی خدمات نصف صدی کو محیط ہیں۔وہ دہلی اردو اکیڈمی کے وائس چیئرمین، دارالمصنفین جیسے علمی ادارے کے ممبر، شعبہ اردو کے صدر اور مکتبہ جامعہ کے منیجنگ ڈائریکٹر رہ چکے ہیں۔ انھیں ساہتیہ اکیڈمی، مدھیہ پردیش اردو اکیڈمی، دہلی اردو اکیڈمی اور غالب انسٹی ٹیوٹ جیسے اداروں نے انعام واکرام سے نوازا ہے۔ ان کی تصنیفات کی تعداد پچیس سے زائد ہے۔وہ یوروپ وامریکہ اور مشرق وسطیٰ کے متعدد شہروں کا سفر کرچکے ہیں۔ انھوں نے چار مرتبہ حج وعمرہ کی سعادت حاصل کی ہے مگر ابھی تک کلین شیو ہیں اور داڑھی رکھنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، جوعام طورپر لوگ حج کرنے کے بعد رکھ لیا کرتے ہیں۔ پروفیسر خالد محمود کی علمی وادبی خدمات پر سیفی سرونجی اور ستوتی اگروال نے پانچ سو سے زائد صفحات کی ایک ضخیم کتاب ترتیب دی ہے جو ان کی شخصیت ، نثری ، شعری خدمات کے علاوہ پچاس سالہ تدریسی خدمات کا بھی احاطہ کرتی ہے ۔ یہ تصویر اسی کی ہے۔









