عصرِ حاضر میں مکاتب کی اہمیت
بقلم: ڈاکٹر مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی
ہم مسلمان ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس دنیا میں پیدا فرما کر ایک کامل و جامع نظامِ حیات عطا فرمایا، جس کا مرکز و محور قرآنِ کریم اور سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ ہماری بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اپنے ایمان و عقائد کی حفاظت کریں، کیونکہ جنت میں داخلہ صحیح ایمان کے بغیر ممکن نہیں، اور جنت میں درجات کی بلندی نیک و صالح اعمال پر موقوف ہے۔

ایمان کے بنیادی اجزاء سات ہیں، جنہیں ایمانِ مفصل میں بیان کیا گیا ہے:
"آمَنتُ بِاللّٰہِ وَمَلَائِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَالْقَدَرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ مِنَ اللّٰہِ تَعَالٰی وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْت”
ترجمہ: میں ایمان لایا اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے پیغمبروں پر، روزِ آخرت پر، تقدیر کے اچھے اور برے ہونے پر کہ وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے پر۔
ایمان کی حفاظت سب سے مقدم ہے۔ انسان اپنی جان، مال اور اولاد سے زیادہ ایمان کو عزیز رکھتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی ایمان کی حفاظت کا اہتمام فرماتے تھے اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اس کی خصوصی تلقین فرماتے تھے۔
تعلیمِ دین کا اولین نظام:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ معظمہ میں دارِ ارقم کو تعلیمِ ایمان کا مرکز بنایا۔ مدینہ منورہ میں حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو نو مسلموں کی تعلیم پر مامور فرمایا۔ ہجرت کے بعد مسجد نبوی کے ساتھ صفہ کا چبوترہ قائم کیا گیا، جہاں صحابۂ کرام قرآنِ کریم اور سنتِ نبوی کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔
صفہ کے یہ طلبہ — جن کی تعداد مختلف روایات کے مطابق سیکڑوں تک پہنچتی ہے — قرآن کی آیات یاد کرتے، احادیث سنتے، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف و اعمال ایک دوسرے کو منتقل کرتے تھے۔ ان کے کھانے اور دیگر ضروریات کا اہتمام صحابۂ کرام کیا کرتے تھے۔
یہی تعلیم کا سلسلہ دوسری مساجد میں بھی قائم تھا۔ اس دور میں معلمین کا تنخواہ نہ لینا رائج تھا۔ بعد میں جب اسلام کا دائرہ وسیع ہوا اور اسلامی حکومتیں قائم ہوئیں تو بیت المال سے معلمین کے وظائف مقرر ہوئے۔ پھر جب سیاسی صورتِ حال بدل گئی تو اہلِ علم نے اپنی محنت اور مسلمانوں کے تعاون سے مدارس و مکاتب کا نظام قائم رکھا، جس کے ذریعے قرآن و سنت کی اشاعت اور ایمان کی حفاظت کا سلسلہ مسلسل جاری رہا.
مدارس و مکاتب: اسلام کے مضبوط قلعے:
مدارس اور مکاتب درحقیقت اسلام کے قلعے ہیں۔ انہی کے ذریعہ قرآن پڑھایا جاتا ہے، حدیث کی تعلیم ہوتی ہے، اور دین کی بنیادیں نسل در نسل منتقل ہوتی ہیں۔
اسلام کی اشاعت کی اصل فکر علماء کے دلوں میں رہتی ہے، اور امت کے درد مند افراد بھی اس کارِ خیر میں مال و تعاون کے ذریعے شریک رہتے ہیں۔
مدارس کے اساتذہ بڑی سادگی، محنت اور صبر کے ساتھ— قلیل وسائل کے باوجود — دین کی شمعیں روشن کرتے ہیں۔
عصر حاضر میں مکاتب کی اہمیت:
آج کی دنیا میں مکاتب کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں ارتداد کی کوششیں منظم شکل میں نہیں تھیں؛ لیکن آج افسوس کہ بعض عناصر کی پشت پناہی کے ساتھ اس پر منظم کام ہو رہا ہے۔ مسلم بچوں اور بچیوں کو گمراہ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
وہی بچے ان سازشوں کا شکار ہوتے ہیں جنہیں عقیدۂ توحید، قرآنِ کریم کی تعلیم، کلمہ کی حقیقت اور سنت کا بنیادی شعور نہیں ہوتا۔
مکاتب میں یہی بنیادی تعلیمات فراہم کی جاتی ہیں۔ اگر علاقائی اور ملکی سطح پر مکاتب مضبوط رہے اور ہر مسجد میں بچوں کے لیے تعلیمِ دین کا نظام فعال رہا تو ان شاء اللہ ہماری نسلیں ایمان پر قائم رہیں گی۔
صبح و شام کی کلاسیں:
یہ وقت کا تقاضا ہے کہ مساجد میں صباحی اور مسائی دونوں اوقات میں مکاتب کا نظام قائم ہو۔
وہ بچے جو اسکول میں پڑھتے ہیں اور صبح و شام مختصر وقت رکھتے ہیں، اُن کے لیے یہ کلاسیں نہایت مفید ہیں۔ اس طرح وہ مستقل مسجد اور تعلیمِ دین سے وابستہ رہتے ہیں اور بیرونی فتنوں سے محفوظ رہتے ہیں۔
مکاتب کا نصاب:
مکاتب میں عموماً درج ذیل مضامین پڑھائے جاتے ہیں:
1- بنیادی عقائد
2-قرآنِ کریم (ناظرہ اور حفظ)
3-سنتِ نبوی
4- نماز، طہارت اور بنیادی عبادات کے مسائل
5-صبح و شام کی دعائیں
6- اسلامی آداب
7-عصری مضامین: زبان، حساب، جغرافیہ، ابتدائی سائنس
بعض علاقوں میں بچوں کے لیے کھانے پینے اور اخلاقی تربیت کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔
مکاتب کے فوائد:
1- خواندگی کی شرح میں اضافہ
2-سماجی زندگی میں نظم و تہذیب کی تربیت
3-ملکی و ثقافتی اقدار کی حفاظت
4- ایمان و عقیدہ کی پختگی
5-معاشرے میں دینی ماحول کی بقا.
مقاصدِ رسالت کی تکمیل:
مکاتب کے ذریعے چار بنیادی مقاصدِ نبوت پورے ہوتے ہیں:
1. تلاوتِ قرآن
2. تعلیمِ کتاب اللہ
3. تعلیمِ حکمت و سنت
4. تزکیۂ نفس
یہی چار مقاصد سورۂ جمعہ کی آیت میں مذکور ہیں:
ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیِّیۡنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ… (جمعہ: 2)
ترجمہ: وہی ہے جس نے ان پڑھوں میں ایک رسول انہیں میں سے مبعوث فرمایا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے اور بیشک وہ اس سے پہلے صریح گمراہی میں تھے۔
الحمدللہ مدارس و مکاتب میں یہی چاروں چیزیں تعلیم و تربیت کی بنیاد ہیں، اور انہی مقاصد کی تکمیل کے لیے شب و روز محنت کی جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے ایمان و اعمال کی حفاظت فرمائے، ہماری نسلوں کو ارتداد کے فتنے سے محفوظ رکھے، اور باطل کے منصوبے کبھی کامیاب نہ ہونے دے!
آمین یا رب العالمین۔






