ابو المحاسن کے تدریسی اور تعلیمی امتیازات

بقلم: ڈاکٹر مفتی اشتیاق احمد قاسمی

حضرت مولانا ابو المحاسن سجاد رحمۃ اللہ علیہ کے اندر امتیازات و خصائص بے شمار تھے۔ وہ بیک وقت فقیہ، معقولی، مصنف، حاضر دماغ عالمِ دین تھے۔ اسلامی انقلاب کے ساتھ ساتھ تعلیمی انقلاب کے داعی، اور ایک ممتاز و مثالی مدرس تھے۔ تلامذہ ان کے عاشقِ زار تھے۔ دیارِ کفر میں بھی اسلامی شیرازہ بندی کے ذریعے مسلمانوں کو ایک منظم نظام کے تحت مربوط دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کی حاضر دماغی ضرب المثل تھی، اپنے زمانے میں ان کا کوئی ہم پلہ نظر نہیں آتا تھا۔

ابو المحاسن کے تدریسی اور تعلیمی امتیازات
ابو المحاسن کے تدریسی اور تعلیمی امتیازات

حضرت مولانا وحید الحق استھانوی اور مولانا عبدالکافی رحمۃ اللہ علیہما ان کے اساتذہ میں سے تھے۔ اول الذکر سے انہوں نے مدرسہ اسلامیہ بہار شریف میں فیض حاصل کیا تھا، اور آخر الذکر سے مدرسہ سبحانیہ الہ آباد میں علوم و فنون کی تکمیل کی۔ علومِ عالیہ کے حصول کے لیے دارالعلوم دیوبند تشریف لائے، مگر سوء اتفاق سے ایک تبتی طالب علم سے نزاع پیش آ گیا، جس کے نتیجے میں چند طلبہ کے ساتھ حضرت مولانا ابو المحاسن سجاد رحمۃ اللہ علیہ کو بھی دیوبند چھوڑنا پڑا۔ اس کے باوجود دیوبند اور اکابرِ دیوبند کی عظمت و محبت ہمیشہ ان کے دل میں رچی بسی رہی، اور وہ اپنی مجلسوں میں اس کا ذکر کیا کرتے تھے۔

بعد ازاں آپ تحریکِ شیخ الہندؒ سے وابستہ ہو گئے اور جمعیۃ علماء ہند اور امارتِ شرعیہ کی تاسیس کے اولین دن سے لے کر دمِ واپسیں تک پوری جانفشانی کے ساتھ خدمات انجام دیتے رہے۔

معقولات میں مہارت کی شہرت:

مولانا ابو المحاسن سجاد رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں معقولات کا غلبہ تھا اور حضرت کو بھی اس فن میں نمایاں عبور حاصل تھا، اسی وجہ سے عام طلبہ انہیں “معقولی” سمجھتے تھے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ منطق و فلسفہ سے زیادہ انہیں فقہ میں رسوخ حاصل تھا، اور تفسیر و حدیث سے بھی گہری مناسبت تھی۔ علمِ بلاغت اور علمِ عروض میں بھی انہیں اچھی خاصی دسترس حاصل تھی۔ عربی زبان میں فوری طور پر قصیدہ منظوم کر لینے پر بھی حیرت انگیز قدرت رکھتے تھے۔

اس سلسلے میں مولانا عبدالحکیم صاحب اوکانوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

> "یوں تو مولانا جامع العلوم تھے مگر جن علوم میں کافی بلکہ کافی سے زیادہ دستگاہ رکھتے تھے وہ منطق فلسفہ بلاغت اور علم ادب تھا کانپور میں کوئی عالم آپ کے پایا کا نہ تھا اور الہ اباد میں بھی بجز مولانا منیر الدین مرحوم الہ ابادی کے کوئی مدرس عالم اپ کا ہمسر نظر نہ ایا۔”

(محاسن سجاد، ص 5)

علمِ تفسیر سے مناسبت:

مولانا ابو المحاسن سجاد رحمۃ اللہ علیہ کو قرآنِ مجید سے فطری اور ذوقی مناسبت حاصل تھی۔ ان کے شاگردِ رشید مولانا عبدالصمد رحمانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت کو نہایت خوبصورتی سے بیان کیا ہے:

> "قرآن مجید کا مولانا کو طبعی ذوق تھا وہ مجھ سے اکثر فرمایا کرتے تھے کہ میں جب قرآن مجید تلاوت کرنے بیٹھتا ہوں تو مشکل گھنٹہ آدھ گھنٹہ میں ایک صفحہ کی تلاوت کر پاتا ہوں قرآن کی بلاغت اس کا عمق پھر اس کے احکام پھر احکام کی روح اور اس کا مناط تو پھر اس کے ماتحت اس کے فروع پھر فروع کے تنوعات پھر ان میں باہم تفاوت کی بو قلمونی اس طرح ایک ساتھ سامنے آنے لگتی ہیں کہ میں اس میں کھو جاتا ہوں اور اکثر ایک ہی دو آیت میں وقت ختم ہو جاتا ہے اور تھک کر تلاوت ختم کر دیتا ہوں”

(حضرت استاد کی یاد، ص 31)

علمِ حدیث سے مناسبت:

علمِ حدیث کے بارے میں مولانا ابو المحاسن سجاد رحمۃ اللہ علیہ کا نقطۂ نظر نہایت بلند اور تحقیقی تھا۔ اس بارے میں مولانا عبدالصمد رحمانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

> "احادیث کے متعلق مولانا کا نظریہ بہت بلند تھا مولانا فرماتے تھے کہ ہر حدیث قرآن مجید کی کسی نہ کسی آیت کی تفسیر ہے نیز یہ کہ ہر حدیث مشکاتِ نبوت کی ہی تنویر کی روشنی میں جو ‘بما اراک اللہ’ کے ماتحت اپ کو حاصل تھی اس امر پر زبردست دلیل ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تشریح و تبیین آیات قرآن کی فرمائی ہے سب کے لیے آپ نے قرآن کے الفاظ میں اشارات پائے ہیں ،جس طرح مجتہدین آیاتِ منصوصہ میں مدار حکم کے اشارات پاتے ہیں پھر اس پر قیاسات کی بنیاد رکھتے ہیں اور فروعی احکامات کا استخراج کرتے ہیں۔

اس لیے مولانا کی رائے تھی کہ ہر حدیث کا تعلق قرآن سے بتانا چاہیے اور ہر نوع کے مسائل کے متعلق سب سے پہلے قرآن کریم سے جو کچھ ثابت ہے، اس کو زیر بحث لانا چاہیے، اس کے بعد احادیث سے جو کچھ سمجھا ہے، اس کو بتانا چاہیے اس کے بعد طلبہ کو اس طرف رہنمائی کرنی چاہیے کہ مسئلہ کے اس خاص نوع میں مجتہدین کی کیا خدمات ہیں ؟اور کیوں کر ہیں ؟اور ان کا مدار کیا ہے؟”

علمِ فقہ سے مناسبت:

فقہی بصیرت کے حوالے سے مولانا عبدالصمد رحمانی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:

> "مولانا جس طرح اختلافات احادیث کے باب میں جمع و تطبیق سے کام لیتے تھے اور اختلاف احوال اور مقتضائے ماحول پر اس کو محمول فرماتے تھے یا اختلاف مدارج یعنی اباحت، رخصت، عزیمت کو سبب قرار دیتے تھے، اسی طرح فقہاء کے مختلف اقوال میں جمع و تطبیق سے کام لیتے تھے اور امام صاحب اور صاحبین کے اختلاف کو نیز دوسرے ائمہ یعنی امام شافعی وغیرہ کے اختلاف کو خصوصاً معاملات میں مقتضائے ماحول اور اسی طرح کے دوسرے اسباب پر محمول فرماتے تھے اور کہتے تھے کہ مختلف جہات کی بنا پر مختلف احکام ہیں ان میں واقعیت کے اعتبار سے کوئی اختلاف ہی نہیں ہے۔”

آگے لکھتے ہیں:

> "یہی وہ خصوصیات تھیں جن کی بنا پر مولانا ان مسائل میں جو ارتقائی اسباب کی بنا پر آئے دن نئی نئی صورتوں میں رونما ہوا کرتے ہیں، بلا تکلف صائب رائے دیتے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ اس کو پہلے سے سوچے بیٹھے ہیں اور اس کے شواہد اور نظیر پر غور و فکر کے تمام مراحل کو طے فرما چکے ہیں۔۔۔۔۔۔ میرے خیال میں مولانا کی اصلی خصوصیت ‘تفقه فی الدین’ کی خداداد دولت تھی، جس میں وہ فقیہ اور یگانہ تھے”۔

(حضرت استاد کی یاد، ص 37)

تدریسی ادارے:

1- فراغت کے بعد سب سے پہلے ‘مدرسہ سبحانیہ الہ آباد’ میں تدریس کا آغاز فرمایا، مگر ادارے کے سرکاری ہونے کے بعد اسے چھوڑ دیا۔

2- پھر ‘مدرسہ اسلامیہ بہار شریف’ تشریف لائے، مگر مولانا عبدالکافیؒ کے اصرار پر دوبارہ الہ آباد گئے اور ‘نائب مدرسِ اول’ کی حیثیت سے تدریس کی۔

3- آخرکار ‘گیا’ تشریف لا کر ‘مدرسہ انوار العلوم ‘کی بنیاد رکھی، جو ان کے فیوض کا مرکز بنا۔

(محاسن سجاد، ص 12–13)

تدریس کا آغاز:

حضرت مولانا ابو المحاسن سجاد رحمۃ اللہ علیہ نے جب اپنی مادرِ علمی میں درس و تدریس کا آغاز فرمایا تو بہت جلد مدرسہ کی علمی فضا بدل گئی۔ آپ غیر معمولی محنت اور جانفشانی کے ساتھ اسباق پڑھاتے تھے۔ مزاج کی نرمی، عفو و درگزر کی خو، اور طلبہ کے ساتھ بے لوث ہمدردی نے آپ کی مقبولیت کو دو چند کر دیا۔ مدرسہ کے تعلیمی قالب میں ایک نئی روح پھونک دی گئی۔ متوسطات کے ساتھ ساتھ اعلیٰ درجے کی کتابیں بھی پڑھائی جانے لگیں، جس سے مدرسہ کا علمی معیار نمایاں طور پر بلند ہو گیا۔

آپ کے شاگردِ رشید حضرت مولانا محمد اصغر حسین، نائب پرنسپل مدرسہ شمس الہدیٰ پٹنہ، اس کیفیت کو یوں بیان کرتے ہیں:

> "مدرسہ اسلامیہ تشریف لے آئے اور درس جاری فرمایا مزاج کی نرمی عفو و درگزر کی طینت اور طلبہ کی ہمدردی کے ساتھ جو اپنی طباعی اور انہما کی شان سے شب و روز درس و تدریس کی مہم شروع کی تو تھوڑے ہی عرصہ میں مدرسہ کے تعلیمی قالب میں نئی روح پھونک دی ایک مدت سے مدرسہ قائم تھا، لیکن ‘شرح وقایہ ،جلالین، قطبی اور میر قطبی ‘وغیرہ سے اوپر پڑھنے والے طلبہ کبھی نہ رہے، مگر حضرت ابو المحاسن کے پُر محبت درس نے ایسی سحرکاری کی کہ اب طلبہ مدرسہ میں جمنے لگے ،چنانچہ مدرسہ میر زاہد رسالہ اور ترمذی شریف تک پہنچ گیا۔”

(محاسن سجاد، ص 20)

تدریس کی تیاری اور تفہیم پر محنت:

حضرت مولانا ابو المحاسن سجاد رحمۃ اللہ علیہ کے امتیازات میں سب سے نمایاں وصف ان کی تدریس اور تفہیم پر غیر معمولی توجہ ہے۔ زبان میں فطری لکنت کے باوجود اتنی کامیاب اور مؤثر مدرسی کی مثال تاریخِ تعلیم میں کم ہی ملتی ہے۔ آپ نہایت محنت سے سبق کی تیاری فرماتے، تفہیم کے لیے آسان اور قابلِ فہم انداز اختیار کرتے، اور اس طرح مضمون کو طلبہ کے ذہن و دماغ میں اس خوبی سے بٹھا دیتے کہ ان کے دلوں سے بے ساختہ صدائے تحسین بلند ہو جاتی۔

آپ کا طرزِ تدریس اس قدر مقبول تھا کہ طلبہ کو مدرسہ کے رسمی اوقات کے علاوہ بھی وقت دیا کرتے تھے۔ اگر کسی وجہ سے مدرسہ میں تعطیل ہو جاتی تو اپنے مکان پر طلبہ کو بلا کر درس جاری رکھتے، بلکہ کھانے پینے کا انتظام بھی خود فرماتے تھے۔

حضرت مولانا عبدالحکیم اوکانوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

> ” مولانا کے درس و تدریس کا یہ حال تھا کہ بڑی محنت اور کاوش سے پڑھاتے تھے اور کتاب کے مطالب مع مالہ وما علیہ اس آسانی سے طلبہ کے دماغ میں اتار دیتے تھے کہ دماغ چمک اٹھتا تھا مولانا کے طرز تدریس کی بڑی شہرت اور دھوم رہی بہت سے تشنہ کامانِ علم اس چشمہ سے سیراب ہوئے اور اپنی پیاس بجھائی ۔ "

(محاسن سجاد، ص 5)

اسی طرح حضرت مولانا محمد اصغر حسین، نائب پرنسپل مدرسہ شمس الہدیٰ پٹنہ، تحریر فرماتے ہیں:

> "درس و تدریس میں جن امور کی رعایت سے طلبہ کو پوری تشفی ہو سکتی ہے مولانا اس میں کسی طرح کی کمی جائز نہ رکھتے تھے مطالب کتاب کو خوب کھول کر سامنے رکھنے کی سعی فرماتے ظاہر ہے کہ اس کے لیے کس قدر گہرے مطالعے اور توسیع معلومات کی محنت برداشت کرنے کی ضرورت ہے ۔ (اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے).”

آگے لکھتے ہیں:

> "پھر ایک بار کی تقریر سے تشفی نہ ہوتی تو دوبارہ سے تقریر کرنے میں چین بہ جبیں نہ ہوتے اور اگر اوقات مدرسہ میں آسودگی نہ ہوتی تو خارج وقت دینے میں کوئی دریغ نہ فرماتے حتی کہ شروح و حواشی دکھلا کر تشفی فرمانے کی زحمت گوارا کرتے، بلکہ کتاب کے مشکل مقامات کو اہل فضل کے سامنے رکھ کر تشفی کرانے میں بھی بے نفسی کا ثبوت دیتے ، اگر مدرسہ ہفتہ دو ہفتہ کے لیے بند ہو جاتا تو 15 ، 20 طلبہ کو اپنے مکان لے جاتے اور سب کے ناشتے کھانے کے خود کفیل ہو کر مکان ہی پر درس میں مشغول ہوتے۔ "

(محاسن سجاد، ص 13)

مولانا ابو المحاسن سجادؒ کے پڑھانے کا انداز:

حضرت مولانا ابو المحاسن سجاد رحمۃ اللہ علیہ کے طریقۂ تعلیم و تدریس کو ان کے شاگردِ رشید حضرت مولانا عبدالصمد رحمانی رحمۃ اللہ علیہ نے نہایت عمدہ اور جامع انداز میں بیان کیا ہے۔ اس بیان کا حاصل یہ ہے کہ حضرت طلبہ سے محض سبق نہیں سنتے تھے ، بلکہ انہیں کتاب حل کراتے تھے، ان کی قوتِ مطالعہ کی پختگی پر خاص توجہ دیتے، اور اس حد تک محنت کراتے کہ طلبہ کو کتاب سے حقیقی مناسبت پیدا ہو جاتی۔

وہ فرمایا کرتے تھے:

> "پڑھنے والے کے سامنے دو باتیں رہنی ضروری ہیں:

1- ایک تو یہ کہ جس مسئلے کو تم کتاب میں پڑھ رہے ہو پہلے اس کو کتاب سے سمجھو کہ صاحبِ کتاب اس مسئلہ کے متعلق کیا کہہ رہا ہے؟ اور اس کے سمجھنے میں جو کچھ سمجھو اس عبارت سے سمجھو اور کسی خیال کو اپنی طرف سے زبردستی اس میں نہ ٹھونسو!

2- دوسری چیز یہ ہے کہ یہ سمجھو کہ اصل مسئلہ کی حقیقت کیا ہے؟ اور جب اصل مسئلہ کی حقیقت سمجھ لو تو اس کے بعد یہ بھی دیکھو کہ صاحب کتاب سے اس حقیقت کے سمجھنے میں چوک تو نہیں ہوئی ہے؟”

مولانا عبدالصمد رحمانی آگے لکھتے ہیں:

> "پس حضرت استاد سبق میں پہلے کتاب کو سمجھاتے پھر نفس مسئلہ کی طرف رہنمائی فرماتے اس طرح پڑھنے والے میں تحقیق تلاش محنت مطالعے کی فکر کا جذبہ پیدا کر دیتے اور پڑھنے والے کے دماغ کی تربیت فرما دیتے”۔

معاصر طرزِ تدریس میں مولانا ابو المحاسن سجادؒ کا امتیاز:

حضرت مولانا عبدالصمد رحمانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے استادِ محترم کے طرزِ تدریس کو واضح کرنے سے پہلے اپنے زمانے کے دو رائج طریقوں کا تجزیہ کیا ہے اور ان کے افراط و تفریط کی نشان دہی فرمائی ہے، جس کا خلاصہ درج ذیل ہے۔

1- ایک طریقہ یہ تھا کہ طالب علم پورے سبق کی عبارت ایک ہی انداز میں پڑھ لیتا، پھر مدرس پورے سبق پر تقریر کرتا، مطالب، اعتراضات و جوابات بیان کرتا، آخر میں طالب علم ترجمہ کرتا اور سبق ختم ہو جاتا۔

اس طریقے پر نقد کرتے ہوئے مولانا رحمانی لکھتے ہیں کہ اس سے طالب علم میں رواں تقریر کی صلاحیت تو پیدا ہو جاتی تھی، مگر کتاب سے حقیقی مناسبت نہیں ہو پاتی تھی، قوتِ مطالعہ کمزور رہتی تھی، اور اگر دورانِ تقریر کوئی اعتراض کر دیا جاتا تو پوری تقریر بکھر جاتی تھی۔

2- دوسرا طریقہ یہ تھا کہ طالب علم ایک دو سطر عبارت پڑھتا، استاد اس کا مطلب بیان کرتے، اعتراض و جواب ذکر کرتے، پھر طالب علم آگے بڑھتا، اور اسی طرح سبق مکمل ہو جاتا۔ اس طریقے میں کتاب سے مناسبت اور تفہیم کی صلاحیت تو بڑھتی تھی، مگر طالب علم کے ذہن میں مسئلے کی مجموعی تصویر واضح نہیں ہو پاتی تھی اور نہ وہ کتاب سے الگ ہو کر مربوط تقریر کرنے پر قادر ہوتا تھا۔

مولانا رحمانی لکھتے ہیں کہ انہی دونوں طریقوں کے نقائص کو سامنے رکھتے ہوئے حضرت مولانا ابو المحاسن سجاد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے طرزِ تدریس کو معتدل بنایا، زمانے کے رائج اسلوب میں حکیمانہ تبدیلی کی، اور یوں ایک ایسا منفرد اسلوب قائم کیا جس نے انہیں اپنے تمام معاصرین میں ممتاز کر دیا۔

(تفصیل کے لیے دیکھیے: حضرت استاد کی یاد)

تدریس کی مقبولیت:

زبان میں لکنت کے باوجود حضرت مولانا ابو المحاسنؒ کے تدریسی اسلوب کی مقبولیت عام تھی۔ دور دور سے طلبہ مولانا کے پاس آتے اور علوم و فنون کی تشنگی دور کرتے۔ مولانا کے عاشقِ زار شاگردِ رشید جناب مولانا محمد یوسف خان—جن کو اس بات پر ناز تھا کہ انہوں نے ساری کتابیں مولانا ہی سے پڑھی ہیں—اس سلسلے میں رقم طراز ہیں:

> “الہ آباد میں ایک شیعہ رئیس زادہ مولانا سے ریاضی پڑھنے آتا تھا۔ وہ سارے ہندوستان کی خاک چھان چکا تھا، لیکن کہیں اس کو تشفی نہیں ہوئی۔ آخر میں وہ مولانا کے طرزِ تعلیم پر فریفتہ ہو گیا، اور باوجود رئیس زادہ ہونے کے برابر مولانا ہی کی خدمت میں قیام گاہ پر جا کر تعلیم حاصل کرتا تھا، اور اس کے والدین مولانا کو 25 روپے دیا کرتے تھے۔ مولانا اس سے روپے لے کر طلبہ کی ذات میں کل کا کل خرچ کر دیا کرتے تھے، اور اپنے لیے ایک پیسہ بھی نہیں رکھتے تھے۔”

(محاسنِ سجاد، ص 32)

امتحان میں طلبہ کے شاندار مظاہرے سے تدریس کا اندازہ:

درخت اپنے پھل سے اور استاد اپنے شاگرد سے پہچانا جاتا ہے۔ حضرت ابو المحاسنؒ کی شب و روز کی محنت اور مادرِ علمی کے لیے جاں فشانی نے طلبہ کے اندر حیرت انگیز استعداد پیدا کر دی تھی۔ سارے طلبہ کو ساری کتابیں نوکِ زبان رہتی تھیں۔ اس حقیقت کا اندازہ سالانہ امتحان میں طلبہ کے شاندار مظاہرے سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔

اس مضمون کو مولانا محمد اصغر حسین صاحب نے اس طرح بیان کیا ہے:

> “ممتحن اور طلبہ کے گردا گرد دوسرے حضرات اہلِ علم امتحان کی کیفیت کا تماشہ دیکھنے کو بیٹھ جاتے، تو اس وقت کی تعلیمی نمائش کا قابلِ دید منظر ہوتا تھا۔ مولانا محمد احسن استھانوی …… امتحان کے لیے تشریف لائے، اور میر زاہد رسالہ مع حاشیہ غلام یحییٰ بہاری کے امتحان کے سلسلے میں، میں اور مولانا عبدالرحمن جونپوری پیش کیے گئے، تو انہوں نے فرمایا کہ آج ایک عجیب منظر دیکھنے میں آ رہا ہے کہ بہار شریف میں ان کتابوں کے پڑھنے والے طلبہ موجود ہیں۔ پھر جو انہوں نے اپنی منطقیانہ شان سے امتحان لینے کے دوران سوالات شروع کیے، اور ہم دونوں جوابات دینے لگے، تو اس دن کے اس منظر کی لذت آج بھی اہلِ علم بزرگوں کے کام و دہن میں باقی ہے۔”

آگے لکھتے ہیں:

> “مولانا سید شاہ اسماعیل (مدرسِ فقہ، مدرسہ عالیہ کلکتہ) سے جب ملنے کا اتفاق ہوتا، تو اس امتحانی مظاہرہ کا تذکرہ مزہ لے لے کر فرمایا کرتے تھے۔”

حضرت مولانا ابو المحاسنؒ کی محنت کا یہ نتیجہ تھا کہ جس مدرسہ میں بڑی مشکل سے متوسطات تک کے طلبہ ٹھہر پاتے تھے، وہاں تعلیمی ترقی اتنی ہوئی کہ وہاں سے طلبہ فضیلت کی سند بھی حاصل کرنے لگے۔

(محاسنِ سجاد، ص 20، 21)

مولانا ابو المحاسن سجادؒ کے باکمال شاگردان:

حضرت مولانا ابو المحاسن سجادؒ کے شاگردوں کی ایک طویل فہرست ہے، مگر افسوس کہ اس کی مکمل تفصیل سوانح نگاروں نے محفوظ نہیں کی۔ اگر زندگی ہی میں یا وفات کے فوراً بعد منظم طور پر سوانحی تحریریں تیار کی جاتیں، تو یہ فہرست آج ہمارے لیے زیادہ مکمل صورت میں دستیاب ہوتی اور علمی رہنمائی کا ذریعہ بنتی۔

بہرحال، جن شاگردوں کا تذکرہ بعض خاکہ نگاروں نے کیا ہے، وہ درج ذیل ہیں:

1. حضرت مولانا عبدالصمد الرحمنؒ — امیرِ شریعت، امارتِ شرعیہ پٹنہ

2. حضرت مولانا عبدالحکیم اوگانویؒ — مہتمم، مدرسہ انوار العلوم، گیا

3. حضرت مولانا محمد اصغر حسینؒ — نائب پرنسپل، مدرسہ شمس الہدیٰ، پٹنہ

4. حضرت مولانا عبدالرحمن بادشاہ پوری جونپوریؒ — سابق صدر مدرس، مدرسہ امدادیہ، دربھنگہ، بہار

5. حضرت مولانا محمد شرافت کریمؒ — فرزندِ مولانا مبارک کریم صاحب

6. حضرت مولانا محمد یعقوبؒ — ساکن کڑا، ضلع گیا، بہار

7. حضرت مولانا فرخند علی سہسرامیؒ — بانی و مہتمم، مدرسہ خیریہ، سہسرام

8. حضرت مولانا محمد یوسف خانؒ بن مولانا الٰہی بخش خان — بہار شریف

9. حضرت مولانا احمد اللہ آپگلویؒ — محقق، دائرۃ المعارف، حیدرآباد دکن

تعلیم کے سلسلے میں انقلابی نظریہ:

حضرت مولانا ابو المحاسن سجادؒ کی علمی گہرائی، سیاسی سوجھ بوجھ، ملی بصیرت اور تصنیفی خدمات سے تو اکثر اہلِ علم واقف ہیں، مگر بہت کم لوگوں کو ان کے انقلابی تعلیمی نظریے سے واقفیت حاصل ہے۔ غیر مسلم اکثریتی ملک میں ‘امارتِ شرعیہ اور جمعیت علمائے ہند’ کے ذریعے ہندی مسلمانوں کو اسلام اور شعائرِ اسلام کے بقا و تحفظ کی جو نعمت نصیب ہوئی ہے، وہ درحقیقت انہی دور رس نگاہ رکھنے والے بزرگانِ دین کی بے لوث جدوجہد کا ثمرہ ہے۔

غرض یہ کہ حضرت مولانا ابو المحاسن سجادؒ کے انقلابی افکار میں ان کا تعلیمی نظریہ غیر معمولی اہمیت کا حامل تھا۔ کاش اس نظریے کی عملی تنفیذ کا انہیں پورا موقع نصیب ہو جاتا، تو آج ہندوستان کے مدارسِ اسلامیہ کی وہ حالت نہ ہوتی جو اس وقت دیکھنے میں آ رہی ہے۔ اس دور میں مدارس کا تعلیمی معیار آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ بلند تھا، اس کے باوجود حضرت ابو المحاسنؒ بے چین رہتے تھے، کیونکہ ان کے پیشِ نظر ایک ہمہ گیر اور منظم تعلیمی انقلاب تھا۔

حضرت مولانا ابو المحاسن سجادؒ یہ چاہتے تھے کہ:

1. تمام مدارسِ اسلامیہ کے لیے ایک مرکزی ادارہ قائم کیا جائے۔

2. نصابِ تعلیم کو مزید مضبوط، مفید اور مؤثر بنایا جائے۔

3. تمام مدارس کا نصابِ تعلیم یکساں ہو۔

4. ہر قابلِ اعتناء مدرسہ کے ذمہ کسی ایک مخصوص فن کی ذمہ داری ہو، اور اسی فن کی تکمیل وہاں کی جائے، نیز ابتداء ہی سے ہر درجے میں اس اختصاص کو ملحوظ رکھا جائے؛ مثلاً کسی مدرسہ میں تفسیر کا اختصاص ہو، کسی میں حدیث کا، اور کسی میں فقہِ اسلامی کا۔

5. امتحانات کے لیے تمام مدارس کے جید اور لائق علماء پر مشتمل ایک مجلسِ ممتحنہ قائم کی جائے، جو سوالات مرتب کرے اور نتائج شائع کرے۔

اسی خاکے میں رنگ بھرنے اور اس تعلیمی انقلاب کی عملی بنیاد رکھنے کے لیے حضرت مولانا ابو المحاسن سجادؒ نے الہ آباد چھوڑ کر انوار العلوم، گیا کی بنیاد رکھی، اور وہیں سے اس تحریک کا آغاز کیا۔ تاہم وسائل کی کمی اور عملی مشکلات کے باعث یہ عظیم خواب پوری طرح شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔

خلاصہ: حضرت مولانا ابو المحاسن سجاد رحمۃ اللہ علیہ ہندوستان کی انقلابی شخصیات میں سے ہیں ، ان کی زندگی میں بہت سی خوبیاں تھیں سارے علوم شرعیہ میں قابل رشک مہارت رکھتے تھے ‘مدرسہ سبحانیہ الہ آباد ،مدرسہ اسلامیہ بہار شریف اور مدرسہ انوار العلوم گیا ‘ کے ذریعے اپنے فیوض پھیلائے، تدریس کا انداز نرالا تھا ،اس وصف کی وجہ سے اپنے ہم عصروں میں ممتاز تھے ، اسلامی تعلیم کے سلسلے میں نہایت ہی معتدل انقلابی نظریہ رکھتے تھے ۔

ابو المحاسن کی ظاہری شکل و صورت کو دیکھ کر کوئی متاثر نہ ہوتا تھا ،مگر گفتگو کے بعد مرعوب اور گرویدہ ہو جاتا تھا، زبان میں لکنت کے باوجود تقریر ایسی کرتے کہ اہلِ علم سامعین صدائے آفریں بلند کیے بغیر نہ رہتے ، موصوف کی بے لوث تعلیمی، تدریسی، تصنیفی اور ملی خدمات تاریخِ ہند کے صفحات پر آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ اگر موصوف کے انقلابی تعلیمی نظریہ پر ٹھیک ٹھیک عمل ہوتا تو آج مدارس اسلامیہ کی زبوں حالی دیکھنے کو نہ ملتی ۔

مصادر و مراجع:

1. محاسنِ سجاد — الهلال بک ایجنسی

2. حضرت استاذ کی یاد — مولانا عبدالصمد رحمانی ۔

Leave a Reply