سیمینار دارالعلوم وقف کی کامیابی، پس منظر کی محنتیں اور نئی مطبوعات کا مختصر تعارف

تحریر: بدرالاسلام قاسمی

دنیا میں سب سے عزیز، مشفق، مخلص اور بے غرض رشتہ اگر کوئی ہے تو وہ والدین اور اولاد کا ہے، ماں باپ اپنی اولاد کے لیے ہمیشہ مخلص اور بلا شرط اس کے خیر خواہ ہوتے ہیں، انھیں کی محبت اور اخلاص کو معیار بنا کر بعض دوسرے رشتے بھی احترام و عزت پاتے ہیں، مثلاً استاذ کو جہاں ایک طرف "روحانی باپ” کا درجہ حاصل ہے، وہیں جس تعلیم گاہ میں آدمی کچھ پڑھ لکھ لے تو اسے اس کی علمی ماں یعنی "مادر علمی” کہا جاتا ہے. چنانچہ جس طرح اپنے والدین کی خدمت انسان کے لیے سرمایۂ نجات اور باعث مسرت ہوتی ہے ویسے ہی اگر مادر علمی کی خدمت کسی فیض یافتہ کے حصہ میں آ جائے تو وہ بھی بلا شبہ اس کے لیے سعادت کی بات ہے.

سیمینار دارالعلوم وقف کی کامیابی، پس منظر کی محنتیں اور نئی مطبوعات کا مختصر تعارف
سیمینار دارالعلوم وقف کی کامیابی، پس منظر کی محنتیں اور نئی مطبوعات کا مختصر تعارف

گزشتہ دنوں امام العصر حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری علیہ الرحمہ کی حیات و افکار اور خدمات سے متعلق جو سیمینار مادر علمی دارالعلوم وقف دیوبند میں منعقد ہوا، جس کی کامیابی کا ہر کوئی تحریری طور پر یا ذاتی مجلسوں میں "طوعا” یا "کرھا” اقرار کر رہا ہے، جس کے نظم و نسق کے حسن انتظام پر ہر کوئی رطب اللسان ہے، اس سیمینار میں جن 12 کتابوں کا اجراء عمل میں آیا ہے ان میں سے گیارہ کی "طباعتی” خدمت راقم کے ذمہ آئی جو یقیناً مادر علمی کے اس ادنیٰ فیض یافتہ کے لیے کسی سعادت سے کم نہیں.

بلا شبہ سیمینار کامیاب رہا، اس کے نتائج بھی ان شاء اللہ بفضل الہی تدریجا ظاہر ہوں گے، لیکن اس کی کامیابی اور حسن انتظام کے پیچھے کی دوڑ بھاگ، انتھک محنت، لگن، جوش و جذبہ اور بلا مبالغہ شبانہ روز کی جد و جہد راقم کے سامنے ہے، جسے بالاختصار آپ کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے.

غالباً ستمبر کے وسط میں مجھے مادر علمی کے روح رواں اور جواں سال نائب مہتمم، جناب ڈاکٹر مولانا محمد شکیب قاسمی نے سیمینار کے انعقاد کے بارے میں بتایا اور کچھ طباعتی امور مالہ و ما علیہ کے ساتھ سپرد کیے، راقم نے اسے اپنی خوش بختی جانا اور اس خدمت کو بسر و چشم قبول کیا، لیکن ان کی گفتگو سے مجھے اس وقت قطعاً یہ اندازہ نہ تھا کہ سردست تین چار کتابوں کی فائنل سیٹنگ اور طباعت کی دی جانے والی ذمہ داری رفتہ رفتہ گیارہ ضخیم کتابوں تک پہنچ جائے گی. تاہم برادرم مولانا شکیب قاسمی کے جذبے، حوصلے، وقت کی حد سے زیادہ پابندی، باریک سے باریک باتوں پر رکھنے والی گہری نظر، موقع بہ موقع کی جانے والی اصلاحات اور دن رات کی لگن نے مجھے بھی ان تین ماہ کے مسلسل کام نے تھکن کا احساس نہیں ہونے دیا.

یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ 1980ء میں منعقد اجلاس صد سالہ دارالعلوم دیوبند میں والد گرامی حضرت مولانا محمد اسلام قاسمی علیہ الرحمہ "طباعتی کمیٹی” کے سرگرم رکن تھے، شاید مجھے بھی ان کے نقش قدم پر مادر علمی کی یہ خدمت میسر آئی. فللہ الحمد

تین ماہ کے اندر جن گیارہ کتابوں کے طباعتی مراحل طے ہوئے ان کے تمام سرورق ڈیزائن، اکثر کی کلی و جزوی سیٹنگ راقم سے متعلق رہی، لیکن رفتہ رفتہ مجھے لگا کہ یہ سارا عمل برائے نام ہی مجھ سے منسوب ہے، کیوں کہ اس دوران مولانا شکیب قاسمی جس طرح مجھ سے پل پل مربوط رہے، ایک ایک چیز پر اتنی گہری نظر رکھی، ڈیزائن کے رنگ، اس کا انداز، کتابت کا طرز، مجلس استقبالیہ، مندوبین خصوصی، مقالہ نگاران اور مندوبین کے بِلّے، چھوٹے بڑے بینر، پمفلٹ کا ڈیزائن، اس میں ترمیم در ترمیم در ترمیم، اکیڈمی کی رپورٹ، خطبۂ صدارت وغیرہ؛ گویا ہر چھوٹی بڑی چیز اتنے سلیقے سے تیار کرائیں کہ واقعی ان سب کا کریڈٹ انھیں کو جاتا ہے.

ڈیزائن کے دوران کئی مرتبہ ایسا بھی ہوتا کہ آپ نے اپنے آرام کے معمولات کو نظر انداز کر کے ڈیزائن فائنل ہونے پر ہی دم لیتے، اس کا اندازہ مجھے تب ہوتا جب میں انھیں ڈیزائن واٹس اپ کرتا اور وہ قیلولے کی نیند بھرے لہجے میں جواب دیتے، لیکن اس وقت بھی ترمیمات و اصلاحات جاری رہتیں. بسا اوقات ان کا جوابی میسج فجر کی اذان کے کچھ دیر بعد کا ہوتا.

وقت کی پابندی اتنی تھی کہ سچ پوچھیں تو مجھے بھی ایک دو مرتبہ کام سے گھبراہٹ ہونے لگی، اگر سات بجے کا وقت کسی کام کے لئے دیا تھا تو ایک دو منٹ پہلے ہی آپ کی کال یا میسج موبائل اسکرین پر اپنی موجودگی درج کرا دیتی. کبھی کبھی تو مجھے یہ بھی لگا کہ شاید کوئی ریمائنڈر سیٹ کر رکھا ہوگا، لیکن تین ماہ کے عرصے میں بیسیوں مرتبہ جب یہی ہوا تو میں اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ ریمائنڈر موبائل کا نہیں بلکہ ذہن کا ہے، جب کسی کام کو ہم اپنے اوپر سوار کر لیں تو یقیناً ہمیں کسی تذکیر یا ریمائنڈر کی حاجت نہیں ہوتی.

سیمینار کی کامیابی اور کتابوں کی اعلی طباعت کے لیے وہ اتنے حساس تھے کہ کتابوں کی ایک گاڑی جب دیوبند پہنچی تو وہ سفر میں تھے، لمبے سفر کی تھکان ہر کسی کو چور کر دیتی ہے، لیکن اس کے باوجود وہ دیوبند پہنچتے ہی سیدھے مدرسے پہنچے اور کتابوں کی طباعت و معیار کا جائزہ لے کر مجھے کچھ اصلاحات کی ہدایت کی.

واضح رہے کہ میں یہاں پر سیمینار سے متعلق فقط انھیں امور کا ذکر کر رہا ہوں جو مجھ سے متعلق رہے، ورنہ اس دورانیہ میں جب بھی میرا اکیڈمی کے دفتر میں آنا جانا ہوا یا کبھی ذاتی طور پر مولانا شکیب صاحب اور ان کے رفقائے کار کے ساتھ بیٹھنا ہوا تو انھیں ہمہ وقت سیمینار سے متعلق چھوٹی بڑی چیز کے مشورے سے مصروف پایا، سیمینار کے بعد مہمانان کرام کے جتنے بھی تاثراتی مضامین آ رہے ہیں اور وہ اس کے نظم و نسق کی جو بھی تعریف کر رہے ہیں اس کی ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز مولانا شکیب صاحب اور ان کی ٹیم کی اسی لگن کا مظہر ہے. حتی کہ ہر مہمان کے قیام کی تفصیل، ان کی آمد و رفت کی تاریخیں، ایئرپورٹ یا ریلوے اسٹیشن سے انھیں لانے اور رخصت کرنے کا نظم، قیام گاہوں کے لیے بیڈ کا انتظام، اس کے سرہانے رکھی جانے والی اشیائے ضرورت کی ایک کِٹ، اس میں رکھا جانے والا ہر سامان، رضاکاران طلبہ کی ٹیم کے جملہ افراد کی تعیین، انھیں دی جانے والی خاص ہدایات اور حوصلہ افزا جملے، سیمینار کی نشستوں کے دوران مہمانوں کو دیا جانے والا ناشتے کا پیکٹ، اس میں رکھا جانے والا ہر سامان، مہمانوں کو رخصت کرتے ہوئے انھیں اعزازی طور دیا جانے والا کتابوں کی شکل میں بیش قیمت ہدیہ، مہمانوں کے لیے مقامی سواری کے طور پر ای رکشہ کا نظم، سیمینار کے لیے باضابطہ اڑیسہ سے آنے والے ترانہ خواں حافظ رضی الاسلام اور ترانہ لکھنے والے مفتی محمد انس بجنوری سے میٹنگ، ترانے کے اشعار کا انتخاب، پھر اس کی ریہرسل، بزرگ مہمانوں کو وہیل چیئر پر لانے کے لیے طلبہ کی مشق و تمرین، مقالہ نگاران کو دی جانے والی فائل، اس میں رکھی ہوئی ہر چیز، حتی کہ قلم کا انتخاب وغیرہ وغیرہ، یہ تمام امور وہ ہیں جن کے لیے میں نے خود مولانا کو اپنی ٹیم کے ساتھ سرگرم پایا، یقیناً اس کے علاوہ بھی درجنوں امور ہوں گے، لیکن زیر تحریر فقط مشاہدات ہیں، تاثرات نہیں. ان سب میں جو خاص بات لگی کہ کسی بھی کام کے لیے جب وہ اپنی ٹیم کے ساتھ ہوتے تو ان سے مشورہ ضرور کرتے، جو بھی مفید رائے سامنے آتی اسے اختیار کرتے، بسا اوقات اپنا نظریہ سامنے والے کے فرد کی رائے پر قربان بھی کر دیتے.

بلاشبہ اس کامیاب سیمینار میں خاص طور پر دارالعلوم وقف دیوبند کے دو اکابر حضرت مولانا محمد سفیان قاسمی دامت برکاتہم اور حضرت مولانا سید احمد خضر شاہ مسعودی دامت برکاتہم کی تجربات سے بھرپور سرپرستی اور دعاؤں کا اہم ترین کردار تھا،

 سیمینار کے روح رواں ڈاکٹر شکیب قاسمی تھے، ان کے علاوہ نہایت مخلص معاونین کی پوری ٹیم کا جذبۂ عمل لائق ستائش تھا، بالخصوص دارالعلوم وقف کے نوجوان اور متحرک استاذ مفتی محمد اظہار الحق قاسمی، مولانا حسنین ارشد قاسمی، مجلس منتظمہ کے دو مؤقر رکن جناب مفتی محمد نوشاد نوری اور جناب مفتی محمد امانت علی قاسمی، ناظم شعبۂ تنظیم و ترقی مولانا احمد فراز قاسمی و مولانا محمد اسماعیل قاسمی، ناظم شعبۂ محاسبی جناب بشارت عثمانی وغیرہم نے جس طرح دن رات لگ کر خدمت کی وہ بھی نہایت قابل تحسین ہے. فجزاھم اللہ خیرا

اس موقع پر جن بارہ کتابوں کا اجراء عمل میں آیا، بعض احباب کے اصرار پر راقم ان کا مختصر تعارف پیش کر رہا ہے :

1. فیض الباری اردو. امام العصر حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری علیہ الرحمہ کے درسی افادات، علمی نکات اور تحقیقی نوادرات کا وہ مجموعہ جسے آپ کے مایہ ناز شاگرد، صاحب ترجمان السنۃ، زبدۃ المحدثین حضرت مولانا بدر عالم میرٹھی نے "فیض الباری علی صحیح البخاری” کے نام سے عربی زبان میں مرتب کیا تھا، یہ اسی کا اردو قالب ہے، یہ خدمت گجرات کی معروف علمی شخصیت، حضرت مولانا شیخ محمد حنیف صاحب لوہاروی مدظلہ (شیخ الحدیث جامعہ قاسمیہ کھروڈ) نے انجام دی ہے، ابھی اس کی دو جلدیں منظر عام پر آئی ہیں، بقیہ جلدوں کا ترجمہ جاری ہے. جلد اول 590 صفحات پر مشتمل ہے، جس میں فیض الباری کے مفصل مقدمے کے بعد، مرتب کتاب کی جانب سے کچھ گزارشات اور پھر صاحب فتح الملھم، شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی علیہ الرحمہ کی تقریظ بھی ہے. یہ جلد باب بدء الوحی سے کتاب العلم تک ہے. دوسری جلد میں 473 صفحات ہیں، جو کتاب الوضوء سے کتاب التیمم تک ہے. یقیناً یہ اس سیمینار کی سب سے بڑی علمی پیشکش ہے. قارئین سے درخواست ہے کہ اس عظیم کتاب کی تکمیل کے لیے دعا فرمائیں.

2. فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند، جلد نہم. 490 صفحات پر مشتمل یہ جلد اس سلسلے کی نویں کڑی ہے جو چند سالوں پہلے ہی شروع ہوا تھا، جس کے تحت ادارے کے دارالافتاء سے جاری کیے جانے والے قدیم و جدید اور مختصر و مفصل فتاویٰ تحقیق و تخریج کے ساتھ شائع کیے جا رہے ہیں. اس کام کو انجام دینے کے لیے باقاعدہ "لجنۃ ترتیب الفتاویٰ” نامی ایک ہفت رکنی کمیٹی ہے جس میں جناب مولانا مفتی محمد احسان قاسمی، جناب مولانا ڈاکٹر محمد شکیب قاسمی، جناب مولانا مفتی امانت علی قاسمی، جناب مولانا مفتی محمد عارف قاسمی، جناب مولانا مفتی محمد عمران گنگوہی، جناب مولانا مفتی محمد اسعد قاسمی اور جناب مولانا مفتی محمد حسنین ارشد قاسمی صاحبان شامل ہیں. یہ جلد زکوٰۃ کے مسائل پر مشتمل ہے. اہل فقہ و فتاویٰ کے لیے یہ بہت بڑا سرمایہ ہے.

3. تجلیاتِ انور. 136 صفحات پر مشتمل یہ کتاب دراصل دارالعلوم وقف دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا محمد سفیان قاسمی مدظلہ کا وہ مقالہ ہے جو سیمینار کے لیے لکھا گیا تھا، لیکن رفتہ رفتہ وہ تحریر اتنی تفصیلی ہو گئی کہ اس نے باقاعدہ ایک کتابی شکل اختیار کر لی جو علامہ کشمیری کی علمی میراث اور ملی و فکری ہمہ گیر خدمات کا ایک تحقیقی جائزہ ہے.

4. علامہ انور شاہ کشمیری کی سیاسی بصیرت. 328 صفحات پر مشتمل یہ کتاب علامہ کشمیری کے معروف و مقبول "خطبۂ صدارت، جمعیۃ علمائے ہند” کا ایک تجزیاتی مطالعہ ہے، جسے دارالعلوم وقف کے مقبول استاذ جناب مفتی سجاد حسین قاسمی صاحب نے بہترین انداز میں مرتب کیا ہے، مصنف دارالعلوم وقف کے شعبۂ انگریزی کے استاذ ہیں، عربی، انگریزی اور اردو؛ تینوں زبانوں پر یکساں عبور رکھتے ہیں، آپ کی تحریریں تحقیق اور ادیبانہ اسلوب لیے ہوتی ہیں.

5. امام العصر حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیری اور علوم و فنون میں آپ کی جامعیت. 136 صفحات پر مشتمل یہ کتاب دیوبند کے معروف و مستند ادارے جامعہ امام محمد انور شاہ کے استاذ حدیث، جناب مولانا محمد صغیر پرتاپ گڑھی نے مرتب کی ہے، جو علامہ کشمیری کے جامع الکمالات اور ہر فن مولا ہونے کو بھرپور انداز میں ثابت کرتی ہے. کتاب تین ابواب پر مشتمل ہے، پہلے باب میں علامہ کے ذاتی احوال ہیں، دوسرا باب علامہ کشمیری کے انقلابی درس اور اہل علم کی نظر میں آپ کے علمی مقام کو بیان کرتا ہے، جب کہ تیسرے باب میں علم تفسیر، علم حدیث، فن اسماء الرجال، تاریخ و سیر، علم اصول و عقائد، فقہ و اصول فقہ، علم طب اور علم الحیوانات وغیرہ میں علامہ کشمیری کی جامعیت و مہارت کو بیان کیا گیا ہے.

6. علامہ کشمیری کے درخشاں نقوش (فیض یافتگانِ کشمیری) 296 صفحات پر مشتمل یہ کتاب معروف ادیب و قلم کار، نظم و نثر میں اپنی معتبر شناخت رکھنے والے جناب مولانا سید فضیل احمد ناصری (استاذ حدیث جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند) کی تصنیف ہے جس میں آپ نے علامہ کشمیری کے 16 ممتاز اور خصوصی تلامذہ کا تفصیلی ذکر کیا ہے، ان میں حضرت علامہ یوسف بنوری، حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی، حضرت مولانا احمد رضا بجنوری، حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی علیہم الرحمہ وغیرہ شامل ہیں. کتاب کے کچھ مضامین ماہنامہ محدث عصر میں شائع بھی ہو چکے ہیں. شاید یہ سلسلہ جاری رہے اور مستقبل میں اس کی اور بھی جلدیں سامنے آئیں.

7. لطائف قاسمیہ مع تشریح و تسہیل. 144 صفحات پر مشتمل یہ کتاب حجۃ الاسلام، بانی دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی علیہ الرحمہ کے 9 اہم مکتوبات اور 2 مناجات کا مجموعہ ہے، بیشتر مکتوبات خالص علمی مباحث اور اصطلاحات پر مشتمل ہیں، ان کی تشریح و تسہیل کے فرائض مولانا مفتی محمد جاوید قاسمی (استاذ حدیث مدرسہ بدر العلوم گڑھی دولت) نے انجام دیے ہیں جو خود بھی ایک سنجیدہ عالم دین ہیں، فارسی دانی کا اچھا ذوق رکھتے ہیں، ان کی کچھ درسی شروحات نہایت مقبول ہیں، مثلاً درس ھدایۃ النحو، درس کافیہ وغیرہ. آپ نے اس کتابچے میں 111 قیمتی حواشی لگا کر اسے باقاعدہ کتاب بنا دیا ہے.

8. خامہ گل ریز، جلد دوم. 434 صفحات پر مشتمل یہ کتاب حضرت مولانا محمد سفیان قاسمی کے مقالات و مضامین کا مجموعہ ہے جو اکثر ماہنامہ ندائے دارالعلوم وقف کے اداریے کے طور پر شائع ہو چکے ہیں. غالباً دو سال قبل ہی اس کی جلد اول منظر عام پر آئی تھی.

9. دارالعلوم دیوبند. 343 صفحات کی یہ کتاب حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی علیہ الرحمہ کے تین نہایت اہم رسائل (بنیادی اصول تعلیم و انتظام اور مسلک، معتدل مکتب فکر اور تاریخی تسلسل، جامعیت پر مبنی مسلک علمائے دیوبند) کا مجموعہ ہے، ان تینوں رسائل پر گراں قدر تحقیق و تعلیق معروف عالم دین حضرت مولانا عبد الخالق رائے پوری نے انجام دی یے. یہ کتاب مسلک دیوبند بالفاظ دیگر مسلک اہل سنت و الجماعت سے وابستہ مدارس کے فضلاء کو ضرور بالضرور مطالعہ کرنی چاہیے، اس سے وہ اپنے اکابر و اسلاف کی فکر کو سمجھیں گے اور مستقبل میں کسی باطل نظریے سے مرعوب بھی نہیں ہوں گے. ان شاء اللہ

10. احکام النعال. 233 صفحات پر مشتمل یہ کتاب ابو الحسنات حضرت علامہ عبد الحی لکھنوی کے عربی رسالے "غایۃ المقال فی ما یتعلق بالنعال” کا اردو ترجمہ ہے، ترجمہ کے ساتھ ہی تحقیق و تعلیق بھی کتاب کا حصہ ہے، اس کام کی سعادت دارالعلوم وقف دیوبند کے نوجوان فاضل اور معین مدرس، مفتی محمد عمیر شاملی کے حصے میں آئی ہے جسے انھوں نے بہت خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیا ہے.

11. خواتین کی نماز با جماعت. 144 صفحات پر مشتمل یہ کتاب بھی علامہ عبد الحیی لکھنوی کے ایک رسالہ "تحفۃ النبلاء فی جماعۃ النساء” کا اردو ترجمہ ہے، تحقیق و تعلیق اور ترجمہ کی ذمہ داری دارالعلوم وقف دیوبند کے نوجوان فاضل اور معین مدرس مفتی شمس قمر قاسمی نے ادا کی ہے، کتاب کے اخیر میں تقریباً 42 صفحات پر مشتمل ضمیمہ بھی شامل کتاب ہے.

12. Islam and Christianity (انگریزی ترجمہ” تعلیمات اسلام اور مسیحی اقوام” از حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی علیہ الرحمہ.

یہ تمام کتب اعلی معیار طباعت کے ساتھ حجۃ الاسلام اکیڈمی اور مکتبہ دارالعلوم وقف دیوبند سے شائع ہو چکی ہیں اور دیوبند کے معروف کتب خانوں پر دستیاب ہیں. اہل علم کے لیے یقیناً یہ بہت بڑا ذخیرہ اور علمی سرمایہ ہے.

اللہ تعالیٰ مادر علمی کو یوں ہی ترقیات سے نوازتا رہے، علمی فتوحات اس کا مقدر کرے اور ہر قسم کے شرور و فتن سے محفوظ رکھے. آمین

Leave a Reply