آسی کی شاعری میں معیار عشق

حافظ افتخار احمد قادری

مشرق کے صوفی شاعروں میں صرف دو ہستیاں ایسی نظر آتی ہیں جنہوں نے مجاز کی حقیقت اور قدسیت کو کما حقہ تسلیم کیا ہے اور جن کے مسلک کو مجازیت کہا جا سکتا ہے۔ ایک تو حافظ دوسرے آسی۔ درد کے تصوف کی دھوم محض تاریخ شعر اُردو کی ایک رسم ہے۔ وہ خود کتنے ہی زبردست صوفی کیوں نہ رہے ہوں لیکن شاعری میں ان کا شعور عشق بہت ادنی سطح پر ہے اور وہ معاملہ عشق میں محض ایک نو آموز معلوم ہوتے ہیں۔ آتش میں تصوف اور تغزل دونوں کے قوی اور شدید امکانات موجود تھے لیکن زمانہ اور ماحول نے نہ تو ان کے تصوف کو اچھی طرح نمایاں ہونے دیا نہ تغزل کو ۔ آسی کے وہاں تصوف اور تغزل حقیقت اور مجاز دونوں ایک مزاج ہوکر نمایاں ہوتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ حقیقت والے اس کو حقیقت سمجھتے ہیں اور مجاز والے مجاز۔ مثال کے طور پر ایک شعر ملاحظہ فرمائیں:

بس تمہاری طرف سے جو کچھ ہو

میری سعی اور میری ہمت کیا

آسی کی شاعری میں معیار عشق
آسی کی شاعری میں معیار عشق

فوراً خيال ’’السعى منى واتمام من الله تعالیٰ‘‘ کی طرف جاتا ہے لیکن الفاظ میں جو سیدھا پن ہے اور لب ولہجہ میں جو ملائمت اور گداز ہے وہ اس شعر کو عام اور ہمہ گیر بنائے ہوئے ہے۔ ایک دائم الخمر اپنے بازاری محبوب سے بھی یہی کہ سکتا ہے بشرطیکہ وہ اپنے محبوب کے ساتھ اتنا ہی خود فراموش ہو اور معیار عشق پر پورا اترتا ہو اور آسی کا معیارِ عشق کیا ہے؟وہ بھی سن لیجئے۔

عاشقی میں ہے محویت درکار

راحت وصل و رنج فرقت کیا

اسی غزل کا ایک اور شعر سننے سے تعلق رکھتا ہے:

نہ گرے اس نگاہ سے کوئی

اور افتاد کیا مصیبت کیا

   اگر یہ خیال کسی اور شاعر کو سوجھتا جو رعایت لفظی کو ضروری سمجھتا تو یہ شعر الفاظ کی بازی گری ہو کر رہ جاتا اور اس میں کوئی تاثیر نہ ہوتی لیکن جیسا کہ قارئین آپ کو معلوم ہوگیا ہوگا آسی کا سب سے بڑا کمال یہی ہے کہ وہ تمام آرائش اور تکلف کے باوجود اپنے کلام کو اس تاثیر سے بھر دیتے ہیں جو خلوص اور سادگی سے پیدا ہوتی ہے۔ تشبیہات و استعارات کی شاعری دنیا میں بہت کم تاثیر کی شاعری ہوسکی ہے مگر آسی کے دل میں کیفیت پہلے ہوتی ہے اور تشبیہات و استعارات اور دوسرے مناسبات بعد کو سوجھتے ہیں اسی لئے ان کے تشبیہات و استعارات بھی ان کے جذبات و تاثرات کے لازمی عناصر بن جاتے ہیں اور صورت و معنیٰ میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ جو شعر ابھی سنایا گیا ہے اس پر غور کیجئے۔ ظاہر ہے کہ گرنا اور افتاد میں رعایت ملحوظ ہے لیکن شاعر خود اس قدر متاثر ہے اور اس رعایت کی واقعیت کو اس شدت کے ساتھ محسوس کر رہا ہے کہ آج ہر سننے والے کو اس کی واقعیت ایک نہایت عام بات معلوم ہو رہی ہے۔ لفظ اور معنیٰ کو ایک کر دینا اس کو کہتے ہیں گرنے کے لغوی معنیٰ کرنے کے استعاری معنی نگاہ سے گرنے کا محاوره افتاد اور مصیبت سب ایک ہی حالت کے مختلف نام ہیں۔ اس غزل کے دو اشعار اور قارئین ملاحظہ فرمائیں:

جن میں چرچا نہ کچھ تمہارا ہو

ایسے احباب ایسی صحبت کیا

جاتے ہو جاؤ ہم بھی رخصت ہیں

ہجر میں زندگی کی مدت کیا

   آسی کی ہر بات ہمارے دل میں تیر کی طرح اتر جاتی ہے اس لئے کہ وہ حال اور بیان حال میں کوئی فرق باقی نہیں رہنے دیتے۔ یہ شعر ملاحظہ ہو:

جو رہی اور کوئی دم یہی حالت دل کی

آج ہے پہلوئے غم ناک سے رخصت دل کی

اگر کبھی بھی آپ کے دل کی یہ حالت رہ چکی ہے تو اب آپ کو معلوم ہوا ہوگا کہ اس حالت کو بیان کیسے کرتے ہیں۔کسی قدیم مشرقی نقاد سخن کا یہ خیال بہت صحیح ہے کہ اصلی شعر وہ ہے کہ ہر سننے والا سمجھے کہ یہ تو میں بھی کہہ سکتا تھا لیکن جب کہنے بیٹھے تو معلوم ہو کہ واقعی اس کے لئے کس دل سوزی اور جگہ خراشی کی ضرورت ہے۔ آسی کا یہ شعر ایسا ہی ہے۔اس غزل کے تین شعر قارئین ملاحظہ فرمائیں:

کوچہ یار سے گھبرا کے نکلنا کیا تھا

دل کو شکوے ہیں مرے مجھ کو شکایت دل کی

 اگر آپ کو زندگی میں کبھی بھی کوچہ یار سے سابقہ رہا ہے اور اگر آپ کے اندر حمیت عشق کا کچھ بھی اثر باقی ہے تو آپ کے دل کو آپ سے اور آپ کو اپنے دل سے یہی شکایت ہوگی۔ اس شعر میں وحشتِ دل کا کیسا بے تکلف اور بے ریا نقشہ کھینچا ہے:

گھر چھٹا شہر چھٹا کوچہ دل دار چھٹا

کوہ و صحرا میں لئے پھرتی ہے وحشت دل کی

   مقطع میں جس تسلیم و رضا کی ترغیب دی گئی ہے وہ منتہائے عشق ہے اور ہر عاشق کے مقدر کی چیز نہیں ہے :

راستہ چھوڑ دیا اس نے ادھر کا آستی

کیوں بنی رہ گذر یار میں تربت دل کی

آسی کے کلام کے مطالعہ کے بعد مان لینا پڑتا ہے کہ کامیاب ادب میں لفظ اور معنیٰ کے درمیان کوئی دوئی نہیں رہتی۔لفظ ہی معنیٰ اور معنیٰ ہی لفظ ہوتا ہے۔شاعر کا کام نہ صرف یہ ہے کہ معنی کے لئے لفظ تلاش کرے بلکہ اس کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ لفظ کی معنوی کیفیت کو بڑھا دے۔مسیح کا معجزہ کچھ اس سے زیادہ نہ تھا الفاظ وہی تھے جو لغت میں صدیوں سے موجود تھے صرف ان کی معنوی کیفیت اور معنوی شدت اتنی بڑھ گئی تھی کہ مردوں میں بھی جان پڑ جاتی تھی۔ آسی نے اپنے بہترین اشعار میں یہی کیا ہے۔ وہ فرسودہ سے فرسودہ الفاظ کو ایسے وقت اور ایسی ترکیب کے ساتھ لاتے ہیں اور اس کے اندر ایسی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں کہ وہ لفظ ہمارے لیے بالکل نیا ہو جاتا ہے۔ قارئین آسی کی ایک رباعی ملاحظہ فرمائیں:

غنچے!تجھے میری دل فگاری کی قسم

شبنم!تجھے میری اشک باری کی قسم

کس گل کی نسیم صبح خوشبو لائی

بے تاب ہے دل جنابِ باری کی قسم

قارئین اس جنابِ باری پر غور کریں کہ کس قدر عام اور پرانی اصطلاح ہے لیکن آسی نے جیسا اس کو نئی معنوی کیفیت سے بھر دیا ہے اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آخر میں یہ قسم نہ کھائی گئی ہوتی تو نہ شاعر اس حالت کو پوری طرح بیان کر سکتا اور نہ ہم خاطر خواہ اس سے متاثر ہو پاتے۔شاعر کی زبان قسم کی تہذیب و تحسین کرتی چلی گئی ہے یہاں تک کہ اس کی قسم اس کی حالت پر محیط ہوگئی ہے۔

قارئین چند خالص استعاری انداز کے اشعار ملاحظہ فرمائیں جن میں صرف استعارہ سے کیف و جذب پیدا کیا گیا ہے؛

ناتوانوں کے سہارے کو ہے یہ بھی کافی

دامنِ لطف غبارِ پس محمل دینا

 کیا اس شعر نے غبارِ پس محمل کو ہمارے لئے ایک جانبدار حقیقت نہیں بنا دیا ہے؟

ذوق میں صورت موج آکے فنا ہو جاؤں

کوئی بوسہ تو بھلا اے لب ساحل دینا

  اگر استعارہ اس قدر کامل ہو اور اس میں ایسی لازمیت پائی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس میں تاثیر نہ ہو۔استعارہ اس وقت بے اثر ہوتا ہے جب کہ وہ ہمارے کسی خیال یا جذبہ پر حاوی نہ ہوسکے۔ آسی کا ہر استعارہ اضطراری ہوتا ہے اور اس میں آورد کا کوئی شائبہ نہیں ہوتا۔ان کے دیوان میں ایسے اشعار کی بھی کثرت ہے جو سیدھے سادھے ہیں اور جن کی تاثیر کا راز ان کی سادگی اور معصومیت میں ہے۔مثلاً آسی کے یہ دو اشعار قارئین ملاحظہ فرمائیں:

ہائے رے ہائے تری عقدہ کشائی کے مزے

تو ہی کھولے جسے وہ عقدہ مشکل دینا

درد کا کوئی محل ہی نہیں جب دل کے سوا

مجھ کو ہر عضو کے بدلے ہمہ تن دل دینا

پسند آئے تو لے لو دل ہمارا

مگر پھر دل بھی کس قابل ہمارا

چھری بھی تیز ظالم نے نہ کر لی

بڑا بے رحم تھا قاتل ہمارا

نہیں ہوتا کہ بڑھ کر ہاتھ رکھ دیں

تڑپتا دیکھتے ہیں دل ہمارا

نہ آنا ہم تمہارا دیکھ لیں گے

جو نکلا جذب دل کامل ہمارا

لیکن اسی غزل میں یہ شعر ملاحظہ فرمائیں ہے:

دل گردوں سے لے کر تا دل دوست

گیا نالہ کئی منزل ہمارا

ہم ان تمام منزلوں کو احاطہ کرنے سے قاصر ہیں جو ہمارے دل سے دل گردوں تک اور پھر دل گردوں سے دل دوست تک حائل ہیں اور جن کو ہمارا شاعر اس سہولت کے ساتھ بات کی بات میں طے کر گیا ہے۔ اس کے لئے جس کائناتی بصیرت اور جس ماحولیاتی تخیل ضرورت ہے وہ ہر شخص کے نصیب کی چیز نہیں۔ آسی کی شاعری اس بات کا پورا پتہ دیتی ہے کہ وہ صاحبِ کیف و حال تھے اور یہ کیف و حال صوفیانہ سے کہیں زیادہ عاشقانہ تھا بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ آسی کے تجربہ میں کیف و حال کی یہ تقسیم تھی ہی نہیں۔ان کا ہر شعر ایک وجہ ہوتا ہے اور اس مقام کی خبر دیتا ہے جہاں خارجی اور داخلی میں کوئی امتیاز نہیں کیا جاسکتا۔جہاں گرد و پیش کی ہر حالت ایک کیف باطن ہو جاتی ہے۔جہاں محبت کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا اور نظر و ناظر و منظور سب مل کر ایک ہو جاتے ہیں۔آسی چونکہ زندگی اور محبت کے تمام درمیانی اور ادبی مراحل و منازل طے کر کے اس منزل پر پہنچے ہیں اور جن جن صعوبتوں اور مشقتوں سے ان کو دو چار ہونا پڑا ہے ان کو بھولے نہیں ہیں بلکہ ان کی ماہیت اور اہمیت کے اب بھی قائل ہیں اس لئے جب وہ کوئی بات کہتے ہیں تو اس میں ان مرحلوں اور صعوبتوں کی بھی پوری جھلک ہوتی ہے لیکن وہ بات ہوتی ہے ان کی اپنی منزل سے۔ اسی لئے ان کی شاعری ہمارے اندر کیسی قسم کی دوری یا اجنبیت کا احساس پیدا کئے بغیر ہم کو غیر شعوری طور پر رفعت و تمکین کے احساس سے معمور کرتی رہتی ہے۔

آسی کے کلام سے ہمارے اندر کبھی افسردگی یا بے دلی نہیں پیدا ہوتی جیسا کہ بعض دوسرے متغزلین کے مطالعہ سے پیدا ہو جاتی ہے۔ان کا سوز و گداز ہمارے دل میں ایک نئی تاب پیدا کر دیتا ہے۔ ان کی دردمندی میں نشاط کا ایک پہلو ہوتا ہے جو نمایاں ہوتا ہے۔ وہ محبت کے غم کو زندگی کی اینچ بنا دیتا ہے اسی وجہ سے ان کے کلام میں وہ اثر ہے جو میر کی خاص شان ہے۔ایک غزل کے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں:

اس کے جلوے تھے لیکن وصالِ یار نہ تھا

میں اس کے واسطے کس وقت بے قرار نہ تھا

خرامِ جلوہ کے نقشِ قدم تھے لالہ و گل

کچھ اور اس کے سوا موسم بہار نہ تھا

غلط ہے حکم جہنم کسے ہوا ہوگا

کہ مجھ سے بڑھ کے تو کوئی گناہ گار نہ تھا

وفور بے خودی بزم سے نہ پوچھو رات

کوئی بجز نگہ یار ہو شیار نہ تھا

لحد کو کھول کے دیکھو تو اب کفن بھی نہیں

کوئی لباس نہ تھا جو کہ مستعار نہ تھا

تو محور گلبن و گل زار ہو گیا آسی

تری نظر میں جمال خیال یار نہ تھا

  یہی غزل گوئی آسی کا حاصل عمر ہے اس لئے کہ اُردو شاعری میں جو چیز ان کو ہمیشہ زندہ رکھے گی وہ ان کی غزل ہے۔ان کی شاعری کی سب سے نمایاں شان ان کی غزلیت ہے جو ان کی رباعیوں میں بھی موجود ہے۔رباعی کی صنف میں بھی آسی کا ایک مرتبہ ہے۔ مضمون کے آخیر میں قارئین آسی کی چند رباعیاں ملاحظہ فرمائیں:

یا مجھ کو ترا حسن نہ بھایا ہوتا

یا ہر رگ وپے میں تو سمایا ہوتا

یا دل ہی میں جلوہ گرا گر ہونا تھا

ہر جز و بدن کو دل بنایا ہوتا

کب تک کوئی اپنے دل کے غم کو روئے

کب تک کوئی یار کے ستم کو روئے

ہر دم یہ رلا رہی ہے الفت جس کی

اللہ کر ہے کہ اب وہ ہم کو روئے

جن سے رہ و رشم کی وہ رہزن نکلے

بھولا جنھیں سمجھے تھے وہ پر فن نکلے

جان اپنی جن احباب کو ہم سمجھے آہ

وہ دل کی طرح ہمارے دشمن نکلے

جس کی طبیعت میں یہ گداز اور جس کی زبان میں یہ نرمی ہو وہ کسی اور صنف سخن کے لئے موزوں نہیں ہو سکتا.شاید عشقیہ مثنوی میں بھی آسی کامیاب رہتے لیکن جس جذب و حال کے عالم میں وہ رہا کرتے تھے وہ مسلسل گوئی کے منافی تھا اسی لیے انہوں نے غزل رباعی کے سوا کسی اور صنف کی طرف توجہ نہیں کی۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare