آہ! علامہ قمرالدین احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ حیات وخدمات
مولانا مجیب الدین قاسمی ایم اے
مفسر قرآن محدث خلیل صوفئ باصفا عارف باللہ حضرت علامہ قمرالدین احمد صاحب گورکھپوری کا سانحۂ ارتحال علمی دنیا کے لئے بالعموم اور بالخصوص فرزندان دارلعلوم دیوبند کے لئے عظیم علمی خسارہ اور حادثۂ فاجعہ ہے، آپ کا شمار مادر علمی دارلعلوم دیوبند کےقدیم ترین کہنہ مشق اور نابغۂ روزگار اساتذہ میں ہوتاتھا کیونکہ فی الحال دارالعلوم میں موجوداکثر اساتذہ کی تعداد آپ کے شاگردوں اور خوشہ چینوں کی ہے۔۔۔
پیدائش وتعلیم: آپ کا نام نامی اسم گرامی قمرالدین احمد بن حاجی بشیر الدین احمد مرحوم ہے اپ کی پیدائش مشرقی یوپی کے ضلع گھورکپور قصبہ بڑہل گنج میں ۲ فروری 1938 میں ہوئی اللہ تعالی نے آپ کے والد ماجد کو دینی مزاج عطا فرمایا تھا اسی لیے انہوں نے اپنے لائق و فائق فرزند ارجمند کو علم دین کے حصول کے لیے مدرسے میں داخلہ دلوایا آپ نے ابتدائی تعلیم حضرت مولانا صفی اللہ صاحب رحمۃاللہ علیہ سے حاصل کی پھر مدرسہ احیا العلوم مبارک پور میں ایک سال زیر تعلیم رہنے کے بعد مزید تعلیمی مراحل طے کرنے کے لیے مشرقی یو پی کی مشہور و معروف دینی درسگاہ دارالعلوم مئو میں داخلہ لیا وہاں ایک حد تک درس نظامی کے مراحل طے کرنے کے بعد درس نظامی کی تکمیل کے لیے ایشیا کے عظیم دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا اور اس وقت کے مقتدر اور مشاہیر علمائے عظام سے اکتساب فیض حاصل کرتے ہوئے سند فضیلت حاصل کی پھر مزید دو سال علوم و فنون کی تکمیل میں لگائے۔
اپ کے اساتذہ میں قابل ذکر حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی حضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاوی اور حضرت مولانا فخر الحسن صاحب مراد آبادی قابل ذکر ہیں دوران تعلیم آپ اپنی نیک اور صالح طبیعت کی بنا پر اپنے اساتذہ کے نور نظر رہے خصوصا اپنے مخدوم مکرم حضرت علامہ محمد ابراہیم صاحب بلیاوی کے آپ خادم خاص رہے۔۔۔
آغاز تدریس: حضرات علامہ قمرالدین صاحبؒ فراغت کے بعد ہی حضرت علامہ محمد ابراہیم صاحب بلیاوی کے حکم پر مدرسہ عبدالرب دہلی میں تدریسی خدمات کا اغاز فرمایا اور کم و بیش آٹھ سال وہاں تدریسی خدمات انجام دیں اس دوران درس نظامی کی مختلف علوم و فنون کی موقر کتابیں اپ سے متعلق رہیں اور کچھ عرصہ بخاری شریف کا درس بھی اپ سے متعلق رہا اسی کے ساتھ دہلی کی ایک جامع مسجد میں قران پاک کی تفسیر کا سلسلہ بھی جاری رہا جس کو لوگ بہت شوق کے ساتھ سنتے اور پسند کرتے تھے۔۔۔
دارالعلوم دیوبند میں تقرر: 1966 میں حضرت علامہ ابراہیم بلیاوی صاحب ہی کے توسط سے اپ کا (حضرت علامہ قمرالدین صاحبؒ ) ازہر ہند دارالعلوم دیوبند میں تقرر ہوا، مسند تدریس پر فائز ہو کر تقریبا چھ مہینے بعد حضرت علامہ ابراہیم صاحب بلیاوی نے آپ سے فرمایا کہ آپ کی حسن کارکردگی کی بنا پر دارالعلوم میں آپ کا استقلال کیا جاتا ہے اور اس وقت کے نائب ناظم تعلیمات حضرت مولانا اختر حسین صاحب کو اپ کی آئندہ جلد ترقی کی ہدایت دی اسی وجہ سے 12 سال کے مختصر عرصے میں درجۂ ابتدا سے درجۂ علیا تک اللہ تعالی نے آپ کو ترقی عطا فرمائی آپ کے اخلاص اور عند اللہ مقبولیت کی اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہوگی کہ آپ دارالعلوم دیوبند کے عربی درجات کے قدیم ترین لائق و فائق استاد تھے تقریبا 66 سال دارالعلوم دیوبند کی متبرک و متشرف مسند تدریس کی آپ زینت بنے ہوئے تھے اور معقولا ت و منقولات کی بڑی کتب خصوصا فن حدیث میں مسلم شریف اور فن تفسیر میں بیضاوی شریف کی تدریس کی ذمہ داری حسن و خوبی کما حقہ انجام دیتے رہے درمیان میں کچھ مدت کے لئے بخاری شریف بھی آپ کے زیر درس رہی لیکن سابق شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحق صاحب اعظمی کے سانحۂ ارتحال کے بعد بخاری شریف جلد ثانی مستقل سے متعلق ہوگئی تھی ۔۔۔
علامہ قمرالدین صاحب ؒ کی ایک قابل رشک خصوصیت یہ بھی تھی کہ اس وقت دارالعلوم دیوبند کے 95 فیصد اساتذہ آپ کے شاگرد ہیں نیز ایک خصوصیت آپ کی یہ بھی ہے کہ دارا لعلوم دیوبند کی مسجد طیب میں تقریبا دو دہائیوں سے زائد سے بعد نماز عصر آپ کی وعظ و نصیحت کی مجلس منعقد ہوتی تھی جس میں طلبۂ دارالعلوم کا ایک بڑا مجمع شریک ہو کر آپ سے استفادہ کرتا تھا۔۔۔
بیعت و سلوک: بیعت و سلوک میں آپ کا تعلق اولا حضرت مولانا شاہ وصی اللہ خان صاحب کی ذات بابرکت سے رہا پھر آپ حضرت محی السنہ مولانا شاہ محمد ابرار الحق صاحب ہردوئی کے حلقۂ ارادت میں شامل ہوئے اور بہت جلد منازل سلوک طے فرما کر اجازت و خلافت سے مشرف ہوئے نیز آپ کو حضرت علامہ ابراہیم صاحب بلیاوی حضرت مولانا قاری سید صدیق احمد صاحب باندوی حضرت مولانا محمود صاحب خلیفہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی سے بھی اجازت و خلافت کی عظیم سعادت حاصل رہی بیعت و سلوک کے منازل طے کرنے کے لیے آپ کے استاد محترم حضرت علامہ ابراہیم صاحب بلیاوی نے آپ کو حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب کے پاس بھیجا اور تحریر فرمایا کہ جو کچھ علوم ظاہری دینا تھا وہ میں نے دے دیا اب علوم باطنی اور تزکیہ نفس کے لیے آپ کی خدمت میں بھیج رہا ہوں اور میں اس سلسلے میں کوئی سفارش بھی نہیں کرتا تو حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب نے مسکراتے ہوئے ارشاد فرمایا یہ بھی تو ایک سفارش ہے اور پھر بیعت فرما لیا آپ اپنی نیک طبیعت اخلاص للہیت کی بنا پر چند ہی دنوں میں حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ایسے نور نظر بنے کہ حضرت نے ایک دن آپ سے بڑی محبت میں ارشاد فرمایا کہ جب بھی کوئی مجھ سے بیعت ہو تو تم بھی ان کے ساتھ بیعت ہو جایا کرو اور کبھی کبھی فرط محبت میں اپنے سینے سے بھی لگا لیتے تھے۔۔۔
مشاہیر علمائے عظام کا آپ پر اعتماد: حضرت محی السنہ شاہ محمد ابرار الحق صاحب ہردوئی بھی آپ کی بڑی قدر فرمایا کرتے تھے جب بھی آپ اپنے شیخ و مربی کی خدمت بابرکت میں ہر دوئی حاضر ہوتے تو آپ کا بہت خیال فرماتے مسجد میں آپ سے تقریر کرواتے ایک مرتبہ حضرت محی السنہ اپنے داماد محترم کے یہاں علی گڑھ تشریف لائے ہوئے تھے تو آپ بھی بغرض ملاقات علی گڑھ تشریف لے گئے عصر کی نماز کا وقت تھا اور بعد نماز حضرت مولانا شاہ مسیح اللہ خان صاحب کی نواسی کا نکاح منعقد تھا آپ نے سوچا کہ وضو نماز وغیرہ سے فارغ ہو کر اطمینان کے ساتھ حضرت سے ملاقات کر لوں لیکن اس سے پہلے ہی کسی نے آپ کے تشریف لے جانے کی اطلاع حضرت شاہ صاحب ہردوئی کو دے دی تو حضرت شاہ صاحب نے آپ کو طلب فرما کر بڑی محبت سے ارشاد فرمایا آپ تشریف لائے اور ہمیں بتایا بھی نہیں پھر بعد نمازعصر نکاح کے عنوان پر کچھ دیر تقریر کرنے کا حکم فرمایا لہذا الامر فوق الادب کے تحت آپ نے ایسی عمدہ تقریر فرمائی کہ حضرت شاہ صاحب نے فرمایا ماشاءاللہ سبحان اللہ،
1963 میں جب آپ حج بیت اللہ کے لیے تشریف لے گئے تو آپ کے ساتھ ایک قافلہ تھا ایک جگہ آپ اپنے ساتھیوں کو فضائل حج سنا رہے تھے تو کسی نے کوئی اشکال کیا تو آپ نے اس کا معقول اور مستند جواب دیا اتفاق سے اس مجمعہ میں مکۃ المکرمہ کے امیر حضرت مولانا سعید خان صاحب بھی موجود تھے (جس کا اپ کو علم نہیں تھا) وہ بھی آپ کی علمی صلاحیت و لیاقت اور عمدہ جواب سے بہت متأثر ہوئے بعد مجلس ملاقات کر کے اپنے یہاں ناشتے کی دعوت دی جب آپ تشریف لے گئے تو دوران گفتگو حرم شریف میں ایک جگہ کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا آج سے روزانہ وہاں بعد نماز مغرب آپ کی وعظ و نصیحت ہوا کرے گی لہذا آپ نے حضرت کے حکم پر عمل کرتے ہوئے حرم شریف میں روزانہ بعد مغرب تقریبا دو مہینے وہاں لوگوں کے ایک بڑے مجمعے کو نصیحت فرمائی۔۔۔
حضرت کے دعوتی اسفار: دعوت اسلام اور تبلیغ و ارشاد کی غرض سے آپ وقتا فوقتا ملک و بیرون ملک کے مختلف حصوں میں تشریف لے جاتے تھے اسی غرض سے آپ انگلینڈ بھی کئی مرتبہ تشریف لے گئے اسی سلسلے کی ایک کڑی تقریبا چھ سال سے رمضان المبارک کے اخیر عشرے میں مسجد ہاشم امبور میں تشریف آوری بھی ہوتی تھی الحمدللہ اس موقع پر آپ اس مسجد میں اعتکاف بھی فرماتے اور دلوں کو موہ لینے والے علم و حکمت سے لبریز نصیحت آموز حضرات اکابر کے واقعات اور اشعار سے مزین مواعظ سے شہر اور بیرون شہر کےسینکڑوں افراد کو مستفیض فرماتے تھے۔۔۔
ان سب فضل و کمالات کے باوجود آپ سراپا تواضع تھے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان من تواضع للہ رفعہ اللہ کے حقیقی مصداق تھے طلبہ کرام متعلقین رشتہ داروں اور حضرات علماء کرام خصوصا فضلائے دارالعلوم سے آپ کا مشفقانہ سلوک مشہور و معروف ہے اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور اپ کی سنتوں پر عمل کا یہ عالم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور اپنے اکابر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جب بھی کوئی کام خلاف سنت نظر آتا تو فورا مجمعہ میں اس پر نکیر فرماتے آپ مقدمہ مسلم کے درس میں ضعیف روایات پر کلام کرتے ہوئے بطور حوالہ ان چیزوں کو بھی پیش فرماتے تھےجو عوام میں تو رائج ہو گئیں ہیں مگر جس کی کوئی اصل موجود نہیں ہے مثلا نور نامہ کلاں اور دعائے گنج العرش وغیرہ فن حدیث میں مسلم شریف بہت ہی انہماک اور عالمانہ گفتگو کے ساتھ اپ پڑھایا کرتے تھے فن تفسیر میں بیضاوی شریف سے خاص لگاؤ تھا۔۔ دارالعلوم میں تکمیل تفسیر والے سال بیضاوی شریف آپ ہی سے متعلق ہوتی اور طلبہ اپ کے علمی فیضان سے خوب بہرور ہوتے ۔۔
آپ انتہائی سادہ مزاج بے تکلف شخصیت کے مالک تھے اپنی علمی شان اور محدثانہ وقار کے باوجود اپنی ضروریات کی خریداری کے لیے بنفس نفیس بازار تشریف لے جاتے دارالعلوم میں ہزاروں کی تعداد میں آپ کے شاگرد ہونے کے باوجود اس سلسلے میں کسی سے کسی طرح کی کوئی خدمت لینا پسند نہیں فرماتے تھے نیز کہیں بھی یا کسی بھی طالب علم کو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کوئی کام کرتے ہوئے دیکھتے تو انتہائی شفقت و محبت کے ساتھ سنت کی طرف رہنمائی فرماتے کیونکہ آپ کو خلاف سنت کوئی بھی کام بالکل ناقابل برداشت تھا جو درحقیقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے عاشقین حضرات صحابہ کرام کا مزاج رہا ہے ادھر کچھ دنوں سے اپ کی طبیعت علیل ہوئی اور مختلف علاج اور معالجے کے بعد افاقہ نہ ہوا دیوبند میں چند دن زیر علاج رہے پھر اپ کو میرٹھ منتقل کیا گیا مگر طبیعت میں افاقہ نہ ہوا تو آپ کو واپس گھر بھیج دیا گیا اور اپنی طویل علالت کے بعد ہمارے مشفق و مربی استاد محترم حضرت علامہ قمرالدین احمد صاحب 22 دسمبر 2024 مطابق 20 جمادی الثانی 1446 بروز اتوار بوقت نماز فجر 86 سال کی عمر میں اپنے حقیقی مولا سے جا ملے آپ کی نماز جنازہ احاطۂ مولسری میں جانشین شیخ الاسلام مولانا سید ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم کی امامت میں ادا کی گئی چو نکہ اپ کی صلبی اولاد نہیں ہے لیکن آپ کے ہزاروں تلامذہ آپ کے لیے صدقہ جاریہ ہیں اور آپ کے لیے مستقل دعا گو ہیں کہ اللہ آپ کو کروٹ کروٹ راحت نصیب فرمائے جنت الفردوس میں اعلی علین میں بلند مقام عطا فرمائے اور آپ کی دینی اسلامی مذہبی خدمات کو قبول فرماکر آپ کے لیے ذخیرۂ آخرت بنائے آمین۔۔۔۔۔۔