احساس و ادراک : ایک تجزیاتی مطالعہ

اسلم رحمانی

پروفیسر فاروق احمد صدیقی ایک معروف اور کہنہ مشق ادیب ہیں جنہوں نے اردو ادب میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ ان کی تحریریں ادب کی مختلف اصناف میں پھیلی ہوئی ہیں اور ان کا کام اُردو ادب کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ان کی کتابیں اور مضامین اردو ادب کے قاریوں کے لیے قیمتی خزانہ ہیں، ان کے تحاریر میں ادب کی گہری بصیرت اور سلیقہ مندی نظر آتی ہے۔

احساس و ادراک : ایک تجزیاتی مطالعہ
احساس و ادراک : ایک تجزیاتی مطالعہ

"احساس و ادراک” اسی زریں سلسلے کی ایک کڑی ہے یہ کتاب ان کے علمی اور ادبی مضامین کا چوتھا مجموعہ ہے، کتاب میں کل چوبیس مضامین ہیں۔ سولہ مضامین میں اردو ادب کے درخشندہ ستاروں کی تخلیقی کاوشوں جائزہ لیا گیا ہے۔ چھ تبصرے اور تین تاثرات بھی ہیں۔ پیش لفظ کے بعد پہلا مضمون بہار میں اردو نعت کا آغاز و ارتقاء کے عنوان سے ہے۔نعت گوئی اردو شاعری کی ایک اہم اور مقبول صنف ہے، جس میں حضور اکرم ﷺ کی شانِ اقدس، حیاتِ مبارکہ، سیرتِ طیبہ، اور فضائل و کمالات کو بیان کیا جاتا ہے۔ نعت گوئی کا بنیادی مقصد محبتِ رسول ﷺ کا اظہار، امتِ مسلمہ کو آپ ﷺ کی تعلیمات کی طرف راغب کرنا، اور دلوں میں عشقِ رسول ﷺ کو مزید مستحکم کرنا ہے۔اردو میں نعت گوئی کا آغاز اردو شاعری کی ابتدائی دور سے ہی ہوا۔ دکنی ادب کے شعرا جیسے قلی قطب شاہ اور ولی دکنی نے نعتیہ کلام لکھ کر اس روایت کو مضبوط بنیاد فراہم کی۔ اردو کے بڑے شعرا، جیسے میر تقی میر، غالب، اقبال، اور حالی نے بھی اپنے کلام میں نعتیہ اشعار شامل کیے۔ حالی کی "مسدسِ حالی” میں نعتیہ اشعار نہایت مقبول ہیں۔ نعت گوئی کی روایت آج بھی مستحکم ہے، اس روایت کو پروان چڑھانے میں بہار کے شعراء کا کردار بھی قابل تحسین ہے۔ بہار کی سرزمین شعروادب کے حوالے سے ایک زرخیز خطہ رہی ہے، جہاں ہر صنفِ سخن کو فروغ ملا، لیکن نعت گوئی کے میدان میں بہار کے شعرا کا مقام نہایت بلند اور قابلِ ذکر ہے۔ یہاں کے شعرائے کرام نے اپنی شاعری میں حضور اکرم ﷺ کی مدح و ثنا کو نہایت عقیدت اور محبت کے ساتھ بیان کیا۔ نعت گوئی میں ان کا اسلوب منفرد، زبان پختہ اور اظہارِ عشق خالص ہے۔ احساس و ادراک کے مصنف نے بھی اپنی کتاب کے پہلے مضمون میں "بہار میں اردو نعت کا آغاز و ارتقاء” کے عنوان سے اس موضوع کا بھرپور احاطہ کیا ہے لکھتے ہیں کہ:

ریاست بہار میں اردو میں نعت گوئی کی روایت بہت قدیم معتبر، مستحکم اور مسلسل ہے۔دیگر جملہ اصناف سخن کی داغ بیل تو بعد میں پڑی مگر صنف نعت تو اس زمانے سے موجود ہے جب بہار میں اردو شاعری ابھی گھنٹوں کے بل چل رہی تھی۔ کیوں کہ اس عہد میں تو شاعری کی ابتداہی حمدیہ و نعتیہ اشعار سے ہوتی تھی۔بہار کی اردو شاعری اپنے دامن میں مقدار اور معیار دونوں اعتبار سے نعتوں کا عظیم سرمایہ ہے۔ اور ابتداء سے ہی یہاں نعت گویوں کا سلسلۂ نجوم نجوم نظر آتا ہے۔

(ص:13)

احساس و ادراک : ایک تجزیاتی مطالعہ
احساس و ادراک : ایک تجزیاتی مطالعہ

اس مختصر تمہید کے بعد انہوں نے مختصر مگر جامع انداز میں بہار کے شعراء مثلا حضرت سید شاہ قاسم ابو العلائی داناپوری، حضرت شاہ اکبر ابو العلائی،شاد عظیم آبادی، علامہ قتیل داناپوری، علامہ شاہ فضل امام واقف آروی،عطاء الرحمٰن عطا کاکوی،مولانا شبنم کمالی، حفیظ بنارسی،طلحہ رضوی برق،رمز عظیم آبادی، فرحت قادری،اشرف قادری، نجم الہدی، کلیم عاجز، منیر فاروقی، اویس احمد دوراں، عبد المنان طرزی،ناوک حمزہ پوری، مناظر عاشق ہرگانوی، قیصر صدیقی، صبا نقوی، قوس صدیقی، متین عمادی رشید عارف، اسد رضوی، مولانا شمیم القادری،مولانا اشتیاق عالم بھاگلپوری، ظفر حبیب، ناز قادری، ظفر صدیقی ان قدیم نعت گو شعراء کے علاوہ نئی نسل کے شعراء شکیل سہسرامی،بدر محمدی، ضمیر احمد مضمر،امجد رضا امجد اور ظفر انصاری کی نعتیہ شاعری کا تعارف کرایا گیا ہے، بہار میں اردو نعت کا آغاز و ارتقاء کے تحت جن شعراء کی نعتیہ شاعری پر گفتگو کی گئی ہے اس کے مطالعہ کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بہار کے نعت گو شعرا کا کلام سادہ، لیکن دل میں اتر جانے والا ہوتا ہے۔ان کے کلام میں عشقِ رسول ﷺ کا اظہار نہایت گہرے اور خالص انداز میں ہوتا ہے۔کئی شعرا کے کلام میں صوفیانہ افکار اور روحانی کیف پایا جاتا ہے۔یہ ایک سچائی ہے کہ نعت گوئی دلوں کو نرم کرتی ہے، ایمان کو مضبوط کرتی ہے، اور امت کو نبی کریم ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ یہ ایک روحانی عبادت بھی سمجھی جاتی ہے، بشرطیکہ اس میں مبالغہ آرائی یا شرعی حدود سے تجاوز نہ ہو۔یہی سبب ہے کہ اردو نعت گوئی آج بھی ایک زندہ روایت ہے اور مشاعروں، محفلوں، اور دیگر دینی اجتماعات میں مقبول عام ہے۔

زیر تبصرہ کتاب میں المبین کے حوالے سے علامہ سید اشرف کا اسلوب تحریر، شاد عظیم آبادی کی شاعرانہ عظمت کے بو قلموں جلوے، اجتبی رضوی کی رباعیات کا تجزیاتی مطالعہ، جمیل مظہری کا نعتیہ قصیدہ(بطرز محسن کاکوری) اک تجزیاتی مطالعہ، عطا کاکوی کی غزل گوئی( جمال غزل کے حوالے سے) نواب سعادت علی خاں پیغمبر پوری کی شاعرانہ عظمت و انفرادیت، کلیم عاجز:ایک خوشنوا فقیر، کائنات آرزو پر اک نظر، قیصر صدیقی اک ممتاز و مایہ ناز فن کار غزل، جدید اردو کا ایک معتبر نام:ڈاکٹر خورشید سمیع، صبا نقوی کی غزل گوئی، راشد طراز کی ایک مشکبار غزل کا تجزیاتی مطالعہ، بہار میں جدید اردو غزل کے نقاد،آسماں تہہ خاک۔ اک تعارفی نوٹ اور ظفر صدیقی کی غزل گوئی کے عنوانات کے تحت ان جہاں دیدہ ادبی شخصیات کی تخلیقات اور ان کی قلمی کاوشوں کا مدلل انداز میں جائزہ پیش کیا گیا ہے، اس سلسلے کے تحت کلیم عاجز کی مثالی شخصیت اور ان کی شاعرانہ عظمت پر بھی عالمانہ گفتگو کی گئی ہے۔ احساس و ادراک کے مصنف پروفیسر فاروق احمد صدیقی نے کلیم عاجز کی شاعری پر خامہ فرسائی کےلئے” کلیم عاجز: ایک خوش نوا فقیر” کا عنوان منتخب کیا ہے اس عنوان کے متعلق فاروق احمد صدیقی رقمطراز ہیں کہ:

میں نے اپنے اس مقالہ کا عنوان(اک خوش نوا فقیر) فیض احمد فیض سے مستعار لیا ہے۔

آیا ہمارے دیس میں اک خوش نوا فقیر

آیا اور اپنی دھن میں غزل خواں چلا گیا

(ص:91)

اک خوش نوا فقیر کا ذکر اکثر ادب اور شاعری میں ایسی شخصیت کے طور پر کیا جاتا ہے جو ظاہری دنیاوی دولت سے بے نیاز ہو، لیکن دل کی دولت، سخاوت، اور محبت سے مالا مال ہو۔ یہ فقیر اپنی سادگی، عاجزی، اور مخلصی کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں گھر کر لیتا ہے۔ کلیم عاجز کی شخصیت بھی انہیں صفات سے متصف تھی۔ فاروق احمد صدیقی کے اس مقالہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ کلیم عاجز اردو ادب کے ان بلند پایہ شاعروں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے اپنی شاعری میں جذبات کی گہرائی، سادگی، اور حقیقت نگاری کو بے مثال انداز میں پیش کیا۔ ان کی شاعری دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی ایسی آواز ہے جو سیدھے قاری کے دل میں اتر جاتی ہے۔ وہ نہ صرف ایک بہترین شاعر تھے بلکہ انسانی جذبات، مشاہدات اور تجربات کو کمال ہنر مندی سے اشعار میں ڈھالنے کا فن بھی رکھتے تھے۔کلیم عاجز کی شاعری میں ایک منفرد قسم کا درد اور سوز پایا جاتا ہے، جو ان کے ذاتی تجربات، خاص طور پر تقسیمِ ہند کے المیوں سے جڑا ہوا ہے۔ ان کی شاعری میں کرب اور دکھ کی کیفیت نمایاں ہے۔ان کا یہ شعر ان کے منفرد انداز کی عکاسی کرتا ہے:

بہاروں کی نظر میں پھول اور کانٹے برابر ہیں

محبت کیا کریں گے دوست دشمن دیکھنے والے

کلیم عاجز کی شاعری میں درد، مشاہدہ اور احساسات کی سچائی کو جو خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے، وہ انہیں اردو ادب کا ایک لازوال ستون بناتا ہے۔ زیر مطالعہ کتاب میں تبصرے کے تحت "اوراق حیات” ایک سوانحی کتاب، صباح الدین عبدالرحمٰن کی کتاب مولانا سید سلیمان ندوی، کتاب ” زندگی ریٹائرمنٹ کے بعد” دبستان نعت ۱/تبصراتی تحریر، دبستان نعت۲/پر تبصراتی تحریر کے علاوہ تاثرات کے عنوان سے مضامین خطیب الہند،اک تاثر، ٹکسال اور "انعکاس قلم” پر اک طائرانہ نظر پر طائرانہ نظر ڈالی گئی ہے۔ کتاب: "زندگی ریٹائرمنٹ کے بعد” اس تبصرہ میں بہار انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کونسل پٹنہ کے سابق وائس چیئرمین پروفیسر ابوذر کمال الدین کی کتاب پر گراں قدر تبصرہ شامل ہے،پروفیسر ابو ذر کمال الدین ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ممتاز شخصیت ہیں، جنہوں نے علم و ادب، تدریس اور تحقیق کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ ان کی تعلیمی قابلیت، تحقیقی کام اور علمی تجربات نے انہیں علمی دنیا میں منفرد مقام عطا کیا ہے۔

احساس و ادراک کتاب اردو ادب کےلئے ایک علمی اساسہ ہے، کیوں کہ احساس اور ادراک ادبی دنیا کے جوہر ہیں۔ احساس دل کی گہرائیوں سے نکلنے والی وہ کیفیت ہے جو انسان کو زندگی کے مختلف پہلوؤں کو محسوس کرنے کی صلاحیت عطا کرتی ہے، جبکہ ادراک ان احساسات کو سمجھنے، پرکھنے اور انہیں الفاظ میں بیان کرنے کا فن ہے۔ یہ دونوں مل کر ادب کو ایسا تحفہ بناتے ہیں جو قارئین کے دل و دماغ پر گہرے نقوش چھوڑتا ہے۔ادبی تخلیقات میں احساس و ادراک کی موجودگی مصنف کی تخلیقی صلاحیتوں اور ان کے مشاہدے کی گہرائی کو ظاہر کرتی ہے، جو ادب کو انسانیت کی اصل خوبصورتی کے قریب لے آتی ہے۔ یہ تحفہ مختلف ثقافتوں اور معاشرتی پس منظر میں پلنے والے افراد کو یکساں طور پر متاثر کرتا ہے اور انسانی جذبات کی کثیرالجہتی تصویر پیش کرتا ہے۔اس علمی کاوش کےلئے پروفیسر فاروق احمد صدیقی اور اس کتاب کو منظر عام پر لانے میں نمایاں کردار ادا کرنے والے بہار یونیورسٹی مظفرپور کے صدر شعبۂ اردو پروفیسر سید آل ظفر، امام الدین امام اور مولانا محمد قمر الزماں مصباحی قابل مبارک باد ہیں۔ دیدہ زیب سروق والی 224 صفحات یہ کتاب 2020ء میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی سے شائع ہوئی ہے۔ کتاب کی قیمت تین سو روپے ہے۔مصنف کا رابطہ نمبر:

9835660835

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare