” اداس موسم ” – ایک جائزہ

ڈاکٹر محمد شاہنواز عالم

انوؔر آفاقی اردو کے ان مخلصین میں ہیں جنہوں نے شاعری کے ساتھ ساتھ تنقید و تحقیق کے حوالے سے بھی قابل ذکر کارنامے انجام دینے ہیں. موصوف کی جو تصنیفات و تالیفات منظر عام پر آ کر مشاہیر ادبا و ناقدین سےداد و تحسین حاصل کر چکی ہیں ان میں ‘لمسوں کی خوشبو’ ( شعری مجموعہ ) ‘دیرینہ خواب کی تعبیر’ (سفر نامہ) پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی سے گفتگو ‘(انٹرویو)’ نئی راہ نئی روشنی ‘(افسانوی مجموعہ)’ دو بدو ‘(ادبی مکالمہ) اور میزان فکر و فن (مضامین) ان کے جادو بیان قلم کا بین ثبوت ہیں.

" اداس موسم " - ایک جائزہ 
” اداس موسم ” – ایک جائزہ

اداس موسم ” انور آفاقی کا دوسرا شعری مجموعہ ہے ۔ حمد اور نعت کے علاوہ ساٹھ غزلیں، بارہ نظمیں اور قطعات کے علاوہ متفرق اشعار سے مزین اس شعری مجموعہ کو انہوں نے اساتذہ، طلبہ و طالبات اور قارئین کے نام منسوب کیا ہے ۔ ان کا یہ انتساب صرف انتساب ہی نہیں ہے بلکہ اردو زبان سے ان کی والہانہ محبت ہے ساتھ ہی اس کے بین السطور میں اردو زبان کے تعلق سے ایک دعوتِ غور فکر بھی ہے ۔ پیش لفظ کے طور پر”اپنی بات ” کے عنوان سے انہوں نے اپنے ادبی سفر کو اختصار لیکن جامعیت کے ساتھ پیش کیا ہے ۔ جو ان کے ادبی ذوق و شوق کی روداد ہے ۔ اندرونی فلیپ پر کامران غنی صبؔا اور احمد اشفاق نے شاعر کی انفرادیت کے متعلق اظہار خیال کیا ہے۔ جبکہ کور پیج پر عہد حاضر کے معتبر ناقد حقانی القاسمی نے انور آفاقی کے لہجے کی انفرادیت اور موضوعات و مضامین کے انوکھے پن کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ان کی شاعری میں نصب العنیت کو ان کی شاعری کا وصف قرار دیا ہے۔

بنیادی طور پر”اداس موسم” عصری زندگی کے معاملات و مسائل سے رونما ہونے والی کیفیات کا شعری اظہار ہے ۔ انور آفاقی کا کمال فن یہ ہے کہ وہ برجستگی کے ساتھ صاف ستھری زبان میں عام فہم اور سہل انداز میں بڑی سے بڑی بات کہہ جاتے ہیں ۔ موضوع کے تعلق سے میرا ماننا ہے کہ حیات و موت کے درمیان زندگی جس نشیب و فراز سے گزرتی ہے ان میں بیشتر ہمیشہ سے موجود رہے ہیں اور ہمیشہ موجود رہیں گے ۔ لیکن جو چیز ایک فنکار کو دوسرے فنکار سے ممیز کرتی ہے وہ دراصل موضوع نہیں بلکہ موضوع کو بیان کرنے کا فنکارانہ شعور ہوتا ہے ۔ اس اعتبار سے انور آفاقی کے یہاں جدت دکھائی دیتی ہے۔ مثلاً شہری زندگی کی بےجہت رفتار اور ماحول کے بے سمت کردار کے نتیجے میں بےچین و مضطرب کردینے والی کیفیت اردو شاعری کا اہم موضوع رہا ہے ۔ بھیڑ میں رہ کر بھی تنہائی کا احساس کوئی اچھوتا موضوع نہیں ہے۔ لیکن شامِ تنہائی کے خدشے سے پریشان اور مضطرب انورآفاقی جب جگنوؤں کو اپنے ساتھ چلنے کی گزارش کرتے ہیں تو بے بسی اور بے چینی کا سارا منظردل و دماغ پر نقش ہو جاتا ہے ۔

جگنوؤں آؤ میرے ساتھ چلو

شامِ تنہائی نے پکارا ہے

تمھارے شہر سے پھر نامراد لوٹا ہوں

نہ در کھلا نہ ہی کھڑکی، نہ ہی صدا آئی

ترقی کے تمام تر دعوؤں کے بیچ شہروں کی چکاچوندھ زندگی کا جو کرب ہے اس کا مشاہدہ انور آفاقی نے قریب سے کیا ہے ۔ لہٰذا شہروں کی گھٹن بھری زندگی ان کی شاعری کا ایک خاص موضوع رہا ہے ۔ انہیں شدت سے اس کا احساس ہے کہ شہروں میں مادیت پرستی غالب ہے اور اس کا زہر ہر فرد کے اندر سرایت کر چکا ہے ۔ انسانی دردمندی اور ہمدردی کی تتلی چمنیوں سے اٹھنے والی زہیر آلود دھوئیں کے نرغے میں نیم مردہ ہو چکی ہے ۔ اپنائیت ختم ہو رہی ہے اور اجنبیت اپنے تمام مکروہات کے ساتھ انسانی رشتوں کو پسپا کرنے پر آمادہ ہے ۔ وہ اس طرح کی زندگی سے بیزار ہیں ۔ لہٰذا وہ سکون کی تلاش میں گاؤں کا رخ کرتے ہیں ۔

مرے بھائی چلو چلتے ہیں گاؤں

یہاں تم تو بدلتے جا رہے ہو

گاؤں سے ہیں جڑی مری یادیں

مجھ کو گاؤں میں یار جانا ہے

ہمارے گاؤں میں پیپل کی چھاؤں کافی ہے

تمہارے شہر میں ہوٹل ستارا، ہے تو ہے

ادھر چند برسوں میں سماجی اور سیاسی حالات نے افراد پر بڑے گہرے اثرات چھوڑے ہیں . رواداری ، وسیع المشربی اور آپسی بھائی چارگی کو ذات پات اور مذہب کے بیجا استعمال نے گہن لگا دیا ہے. ایسے میں ہر فرد کے اندر ایک عجیب بےبسی ہے ۔ انسان کی یہ بے بسی شاعر کو مضطرب اور بے چین کرتی ہے اور اس کا اظہار اس انداز میں کرتا ہے.

آگ ایسی لگائی اندھوں نے

جل رہا ہے گلاب لکھتا جا

ہمارے دور میں فرعون پھر ہوا پیدا

ہمارا دور بھی ضربِ کلیم مانگتا ہے

ہوا اب سنسناتی پھر رہی ہے ہر طرف انوؔر

چراغ اپنے سنبھالو، یہ چراغوں کو بجھاتی ہے

عشق و محبت شاعروں کا پسندیدہ موضوع رہا ہے. اور اس موضوع کو غزل گو شعرا کے یہاں” پیدائشی حق” کے طور پر نئے رنگ و آہنگ کے ساتھ پیش کرنے کی روایت رہی ہے ۔ انور آفاقی نے بھی اس روایت کی پاسداری کی ہے ۔ ان کے کلام میں محبوب کا تصور اور اس سے عشق کی پھوٹنے والی کونپلیں پڑھنے والے کو جمالیاتی انبساط عطا کرتی ہیں ۔ چونکہ وہ صورتاً اور سیرتاً پارسا ہیں لہٰذا ان کے اشعار میں سطحیت اور آوارگی نہیں ہے ۔

میں گھرا ہوں اداس موسم میں

تم جو آ جاؤ تو بہار آئے

بات ہی بات میں یوں ہم کو رلاتے کیوں ہو

جب سبب ہی نہیں کوئی تو ستاتے کیوں ہو

عشق ہی راستہ ہے منزل کا

دوسرا راستہ نہیں ہوتا

یہ کس مقام پہ دل نے مجھے ہے پہنچایا

جدھر بھی دیکھوں فقط تو ہی روبرو ہے ابھی

تجھ سے ملنے کی آس میں اے چاند

چھت پہ اکثر میں رات کرتا ہوں

انور آفاقی بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں. لیکن نظم "جلتی ہوائیں” ، "خدشہ "، "غلیل کی زد پہ "اور "کرب تنہائی ” میں تخلیقی فکر کی آنچ بھی گرویدہ بناتی ہے۔ مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ انور آفاقی نے فکر و خیال کی زرخیزی اور تخیل کی بلند پروازی سے شاعری کو جو اعتبار بخشا ہے وہ ان کو اردو ادب میں زندہ رکھے گا ۔ اس شعری مجموعہ کو منظر عام پر لانے کے لئے انہیں ہم دلی مبارکباد دیتے ہیں ۔ امید ہے کہ اردو کے ادبی حلقوں میں "اداس موسم ” کی خاطرخواہ پزیرائی ہوگی ۔

*****************************

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare