اردو میں عربی وفارسی کے الفاظ
مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی
زبان اپنے خیالات ، جذبات اور احساسات کو دوسرے انسانوں تک پہنچانے کا ایک موثر ذریعہ ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ زبان موضوع اور بامعنی الفاظ کے مجموعہ کو کہتے ہیں، چونکہ بےمعنی اور مہمل الفاظ کے ذریعہ خیالات، جذبات اور احساسات کی ترسیل ممکن نہیں ہے۔
انسان جو کچھ بولتا ہے، اس کو لفظ کہتے ہیں، لفظ کی دوقسمیں ہیں، ایک موضوع اور دوسرا مہمل۔ موضوع بامعنی لفظ کو کہتے ہیں ، جیسے پانی، کتاب وغیرہ اور مہمل اس لفظ کو کہتے ہیں جس کے کوئی معنی نہ ہوں ، جیسے پانی وانی، کتاب وتاب، اس میں ’’وانی‘‘ اور’’ وتاب‘‘ مہمل ہے۔
انسان اپنی بات دوسرے انسانوں تک پہنچاتا ہے اور یہ ترسیل کا کام موضوع اور بامعنی الفاظ ہی کے ذریعہ ممکن ہے، اس لئے کسی بھی زبان میں جو الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں ،وہ موضوع اور بامعنی الفاظ ہوتے ہیں، بے معنی اور مہمل الفاظ کے لئے کوئی بات بتائی اور سمجھائی نہیں جاسکتی ہے۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ زبان میں جو الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں ، وہ موضوع الفاظ ہوتے ہیں۔
زبان جہاں خیالات ، جذبات اور احساسات کو دوسرے انسان تک پہنچانے کا ذریعہ ہے ،وہیں یہ تہذیب وثقافت کی ترجمان اور امین بھی ہوتی ہے۔
اردو ایک زبان ہے اور یہ مخلوط زبان ہے، یہ زبان مختلف زبانوں کے الفاظ سے مل کر وجود میں آتی ہے، اس لئے یہ زبان عربی ، فارسی، سنسکرت ،ہندی، انگریزی، ترکی اور بہت سی زبانوں کے الفاظ سے مرکب ہے۔ اس طرح مختلف زبانوں سے مل کر اردو زبان بنی ہے ،
اردو ایک زبان ہے، اس کے ذریعہ ایک انسان اپنے خیالات ، جذبات اور احساسات کو دوسرے انسان تک پہنچاتا ہے، خیالات ،جذبات اور احساسات کی ترجمانی کے لئے ضروری ہے کہ الفاظ بامعنی اور موضوع ہوں، ورنہ خیالات، جذبات اور احساسات کی ترجمانی نہیں ہوسکتی ہے، اس طرح اردو موضوع اور بامعنی الفاظ کا مجموعہ ہے، یہ مہمل۔ اور بے معنی الفاظ کا مجموعہ نہیں ہے۔
اردو مختلف زبانوں کے الفاظ کا مجموعہ ہے، اس کا تقاضہ ہے کہ جو الفاظ اس زبان میں مستعمل ہیں، اس کے ماخذ کی رعایت کی جائے ، تاکہ اس کی معنویت برقرار رہے، چونکہ الفاظ میں کچھ بھی تبدیلی سے الفاظ موضوع اور بامعنی نہیں رہتے، بلکہ وہ مہمل اور بے معنی کی فہرست میں آجاتے ہیں۔
اردو زبان تشکیل کے مرحلہ میں تھی، تشکیلی مراحل میں اس کے اصول وضوابط کو منضبط کرنا مشکل تھا ،اس لئے یہ کہا گیا کہ جو حرف بولنے میں آتے ہیں ،اسی کو شمار کیا جائے اور اسی کو لکھا جائے یا اس کو اشعار کی تقطیع کے لئے کہا گیا کہ جو حروف بولنے میں آئے اسی کو شمار کیا جائے ، اس کا مطلب یہ سمجھ لیا گیا کہ یہ اصول ہر موقع پر اور ہر وقت کے لئے ہے۔
چنانچہ اس اصول کو اردو پر نافذ کردیا گیا ،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مختلف زبانوں کے الفاظ موضوع اور بامعنی کے دائرہ سے خارج ہوکر مہمل اور بےمعنی ہوگئے۔جیسے بعض ماہر لسانیات نے کہا کہ خود کو ’’خد‘‘ لکھا جائے، خویش کو ’’خیش‘‘ لکھا جائے، اس طرح اردو زبان ایک مضحکہ خیز بن کر رہ گئی اور ایسی تحریف کو اردو کے دوسرے ماہرین لسانیات نے رد کردیا۔
اردو ایک ہند آریائی زبان ہے، لیکن اس کا رسم الخط سامی خاندانی کی زبان عربی سے ماخوذ ہے۔ عربی کے اس رسم الخط کو فارسی نے لیا اور فارسی سے یہ اردو میں آیا، چونکہ ہندوستان میں برسوں تک فارسی سرکاری زبان رہی ، اس لئے عربی وفارسی کے بہت سے الفاظ اردو میں رائج ہوگئے ، یہاں تک کہ اصطلاحات اور قواعد پر عربی کے اثرات نمایاں ہیں۔
اردو ایک مخلوط زبان ہے، اس میں مختلف زبانوں کے امت سے الفاظ داخل ہوگئے ہیں، جس کی وجہ سے اردو میں اظہار کی قوت بڑھ گئی ہے۔ بالخصوص عربی اور فارسی کے الفاظ نے اس کے اور املائی نظام کو وسیع کردیا ہے۔ عبدالستار صدیقی کے مطابق عربی وفاسی خصوصیات کی وجہ سے اردو میں اظہار کی قوت بڑھ گئی ہے، اس لئے اردو کے صوتی نظام اور دیگر ہندوستانی زبانوں کے صوتی نظام کے مقابلہ میں وسیع تر ہے۔
(اردو املا کے مسائل ومباحث ، ص ۱۳۳)
’’جیسا بولو ویسا لکھو‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے مظفرعلی سید تحریر کرتے ہیں:
’’ جیسا بولو ویسا لکھو‘‘ کا یہ معتبر قول اردو میں قباحتیں پیدا کرتا ہے۔ دوسری زبانوں میں اس اصول کی پیروی نہیں ہوسکتی۔ عربی میں حروف لکھے جاتے ہیں، مگر پڑھے نہیں جاتے۔ انگریزی زبان میں جیسے Ps ychology, catch ,وغیرہ ، عربی کے بعض حروف کی آوازیں ا،ء،ت، ط، ح، ہ ، ز،ذ، ض، ظ، س، ص، ث، کا تلفظ یکساں کرتے ہیں، تاہم اردو میں بکثرت ایسی آوازیں موجود ہیں، جن میں ان حروف کا استعمال ہوتا ہے۔ جہاں لہجے کے فرق کو نظر انداز کرکے تلفظ کی اصل ہیئت کو بررقرار رکھا گیا ہے۔ اگر صرف ا، ت، ز، س اور ہ کو چھان لیں تو
(1) زبان مسخ ہوجائے گی۔ آئندہ نسلوں کے لئے ہمارے دفتر بے معنی ہوجائیں گے۔
(۲) کسی لفظ کے مادے یا اصل کا کھوج لگانا مشکل ہوجائے گا۔
(۳) عربی سے نئے الفاظ تراشنا یا وضع کرنا یا وضع اصطلاحات مشکل ہوجائے گا۔ زبان بدہیئت اور بے مزہ ہوجائے گی۔ اس کی وجہ سے ہمارے بہت سے علوم وفنون مثلا جمل ، بیان ، بدیع وغیرہ مجروح ہوجائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح ’’بولو اسی طرح لکھو‘‘ کی پیروی ہمارے لئے بعض جگہ تو مفید ہی نہیں ، بلکہ ضروری ہے۔ جیسے ٹھیٹ اردو یا ہندی میں اور بعض جگہ ہمارے ادب کے لئے خطرناک ہے، اس لئے عربی کے ان حروف میں سے جنہیں ہم بہ دقت ہی ادا کرسکتے ہیں، کوئی حرف اردو سے خارج نہیں کرسکتے ۔(ص ۱۲۵)
موصوف کا یہ بھی خیال ہے کہ حرف وصوت کے اختلافات بہت سےساری ترقی یافتہ زبانوں میں بھی موجود ہے۔ چنانچہ ان زبانوں کے املائی نظام کو صوتی نظام کے تابع بنانا ان کو پھر علاقائی حدود تک محدود کرنا ہے اور تاریخ کو الٹے رخ پر چلانا ہے۔(ص ۱۲۷)
پروفیسر غازی علم الدین کا خیال ہے کہ ’’اردو نے اپنے دامن کی وسعت اور کشادگی کا ثبوت دیتے ہوئے علمی ، ادبی ، معاشرتی ،ثقافتی ،اصطلاحی اور فنی موضوعات پر عربی کے خوبصورت الفاظ وتراکیب کو اپنے اندر سمولیا ہے۔ ضروری تبدیلیوں کے ساتھ مزید الفاظ وتراکیب کی آمد کا امکان رہے گا۔ خصوصی حالات میں یہ عمل اور بھی نمایاں ہوجاتا ہے۔ البتہ احتیاط ، پاس اور لحاظ ملحوظ رکھنا ہوگا، کیونکہ اس ضروری تبدیلی سے تشکیل پانے والا لفظ مادے ( Root)کے اعتبار سے اصل عربی لفظ سے متصادم اور مخالف نہ ہو ، ان کا خیال ہے کہ بولنے، پڑھنے، لکھنے کے طے شدہ قواعد وضوابط کو اختیار کیا جائے، تو زبان کی صحت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
مزید ان کا خیال ہے کہ آج عرب دنیامیں کئی لہجے اور بولیاں موجود ہیں، لیکن بنیادی اصول وقواعد اور املاء میں کوئی فرق نہیں آتا۔ صحیح لکھنے اور بولنے کے لئے اردو میں مستعمل عربی الفاظ کے تلفظ سے بہرور ہونا بہت ضروری ہے۔ عربی زبان سے گہرے تعلق کے باوجود اردوداں غیرشعوری طور پر اکثر الفاظ کا تفلظ غلط کرتے ہیں۔(ص ۱۳۳)
شیر محمد زماں کی رائے ہے کہ املا کے معاملے میں دخیل الفاظ کی اصل کی طرف رجوع نہ کیا گیا تو عربی کے معاملے میں خصوصاً آنے والی نسلوں کے لئے تہذیبی پس منظر کی شناخت ایک مسئلہ بن جائے گا۔(ص ۱۳۳)
ڈاکٹر شوکت سبزواری کے مطابق مسلمانوں کی قومی زندگی میں عربی زبان وحروف کو وہی درجہ حاصل ہے جو یہود کی زندگی میں عبرانی زبان اور حروف کو حامل ہے اور ہنود کی زن زندگی سنسکرت اور دیوناگری کو ۔(ص ۱۳۳)
اس موقع پر انشاءاللہ خاں کی رائے کا ذکر بھی ضروری ہے جسے بڑی شہر ت ملی۔ وہ یہ ہے:
’’ ہر لفظ جواردو میں مشہور ہوگیا ،عربی ہویا فارسی ،ترکی ہویا سریانی، پنجابی ہو یابورئی اردو ہے۔ غلط ہو یا صحیح وہ لفظ اردو کا لفظ ہے۔ اگر اصل کے موافق ہے تو یہی صحیح ہے، اگر خلاف اصل ہے تو معنیٰ صحیح ہے، اس کی صحت اور غلطی اردو کے استعمال پر موقوف ہے، کیونکہ جو خلاف اردو ہے ، غلط ہے۔
یہ اس دور کی باتیں ہیں، جب اردو زبان ترقی کے مراحل سے گزرہی تھی۔ ماہرین لسانیات کو اس رائے کا باریکی سے جائزہ لینا چاہئے تھا ،مگر ایسا نہیں ہوا اور اسے بنیاد بناکر یا اس کی آڑ میں بعض اہل علم نے عربی وفارسی یا دخیل الفاظ کے حوالہ سے غیر متوازن رویہ بھی اپنایا، جس کو بعد میں دوسری ماہرین لسانیات نے رد کردیا۔
عربی و فارسی زبان کے بیشمار صحیح الفاظ اردو میں شامل ہوگئے ہیں ، عربی زبان کے ماہرین کے خیالات درج کئے جا چکے ہیں کہ انہوں نے ” جیسا بولو ویسا لکھو ” کے اصول کو خاص طور پر عربی الفاظ کے سلسلہ میں مسترد کردیا ہے ، نیز انشاء اللہ خان انشا کے اس قول کو بھی رد کردیا ہے ، جس کا مفہوم یہ ہے کہ دخیل الفاظ جو اردو میں آگئے وہ اردو کے الفاظ ہیں ، اگر وہ غلط ہی رائج ہوگئے ،تو وہی صحیح ہیں ، چونکہ ان اصول کی وجہ سے اردو زبان زبان نہیں رہے گی ، بلکہ وہ مہمل الفاظ کا مجموعہ ہونے کی وجہ سے زبان سے خارج ہو جائے گی ، اس طرح عربی داں حلقہ نے ہمیشہ اس بات کی کوشش کی کہ اردو میں عربی کے ایسے الفاظ جن کے املاء کی تبدیلی سے زبان مہمل کے دائرہ میں چلی جائے ،اور اپنی تہذیبی اور ثقافتی شناخت کھو دے ،ایسے عربی کے الفاظ کو عربی املاء کے مطابق لکھا جائے ، مگر ایسا نہیں ہوا ، جس کی وجہ سے اردو املاء میں یکسانیت پیدا نہیں ہوسکی۔
عربی داں طبقہ عربی الفاظ کو عربی املاء کے ساتھ لکھتے ہیں ،جبکہ دیگر ماہرین لسان بغیر ہمزہ کے لکھتے ہیں ، جیسے عربی کے الفاظ جن کے آخر میں الف اور ہمزہ ہے ، ان کی تعداد اردو میں بہت ہے ، انجمن ترقی اردو کی اصلاح رسم خط کمیٹی نے ایسے الفاظ کے بارے میں یہ تجویز پیش کی کہ ایسے الفاظ کو بغیر ہمزہ کے لکھا جائے ، چونکہ ہمزہ پڑھنے میں نہیں آتا ہے ، جس کی وجہ سے عربی کے بہت سے الفاظ جن کے آخر میں الف اور ہمزہ ہے ، وہ موضوع سے نکل کر مہمل کے دائرے میں آگئے ، آملا کمیٹی ،ترقی اردو بورڈ نے بھی یہی سفارش کی ، سفارش پیش ہے۔
” عربی کے متعدد مصادر ، جمعوں اور مفرد الفاظ کے آخر میں اصلا ہمزہ ہے ، جیسے ابتدا، انتہا، املا، انشا، شعرا، حکما، ادبا، علما، فقرا، وزرا، اردو میں یہ لفظ الف سے بولے جاتے ہیں ، اس لئے انہیں ہمزہ کے بغیر لکھنا چاہئے ” عربی کے اس طرح کے الفاظ کی تفصیل پیش ہے۔
املاء باب افعال سے عربی مصدر ہے، عربی میں اس کا املاء ہمزہ کے ساتھ ہے، یعنی املاء، ہمزہ کے ساتھ یہ لفظ موضوع اور بامعنی ہے، جبکہ بغیر ہمزہ کے یعنی ’’املا‘‘ مہمل اور بے معنی ہے۔ املاء کے لغوی معنی لکھانا اور لکھنا ہے۔ زبان کی اصطلاح میں ’’املاء‘‘ سے مراد کسی لفظ کو مقرر ضابطوں کے ساتھ اس طرح لکھنا کہ بولنے اور لکھنے میں اسے صحیح لفظ کے ساتھ ادا کیا جاسکے اور اس سے اس کے ماخذ کی نشاندہی ہوتی ہو۔
ہمزہ اردو زبان کے حروف تہجی میں شامل ہے اور یہ مستقل ایک حرف ہے، اس کا استعمال اردو زبان میں بھی کثرت سے ہوتا ہے ۔ عربی کے جو ہمزہ والے الفاظ اردو میں آئے ہیں، ان کا اسی طرح استعمال صحیح ہے، ورنہ کسی طرح کی تحریف سے الفاظ موضوع نہیں رہیں گے، بلکہ وہ مہمل اور بے معنی ہوجائیں گے۔جیسے لفط ’’املاء‘‘ ہی کو لے لیجئے، یہ عربی کا لفظ ہے۔
بعض ماہر لسانیات نے لکھا کہ اس کو ’’بغیر ہمزہ‘‘ کے ’’املا‘‘ لکھا جائے، جس کو اردو اور عربی کے ماہرین نے کو قبول نہیں کیا ، اور یہ لفظ بغیر ہمزہ کے رائج نہیں ہوسکا، نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ اس کو ’’املا‘‘ لکھتے ہیں، جو مہمل لفظ ہے ،جبکہ اکثر لوگ اس کو ’’املاء‘‘ ہمزہ کے ساتھ لکھتے ہیں، یہی صحیح اور موضوع وبامعنی ہے۔
موجودہ وقت میں اردو ایک ترقی یافتہ زبان ہے، اس کو مہمل الفاظ کے مجموعہ سے بچانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ اردو میں استعمال ہونے والے الفاظ جس زبان کے ہوں ، حتی الامکان اس لفظ کو لکھنے اور لکھانے میں اس کی رعایت کی جائے، یہی ’’املاء‘‘ کا تقاضہ ہے۔ نیز ایک عرصہ تک فارسی ہندوسان کی سرکاری زبان رہی،اس کے اثرسے کچھ الفاظ فارسی کے ’’املاء‘‘ کے طرز پر اردو میں اس طرح رائج ہوگئے ہیں کہ ان کو الگ نہیں کیا جاسکتا ہے، ایسے الفاظ کو بھی رائج ’’ املاء‘‘ اور ’’رسم الخط‘‘ میں لکھنا چاہئے، تاکہ اس کے رائج ہونے میں دشواری نہ ہو۔
’ اردو میں عربی کے الفاظ جن کے آخر میں الف اور ہمزہ ہے،ان میں ہمزہ کے مقام کےتعین پر مندرجہ ذیل باتیں تحریر ہیں:
(۱) عربی کے تین حرفی الفاظ یعنی ثلاثی کے مصادر جن کے آخر میں ء (ہمزہ ) آئے، وہ ہمزہ برقرار رکھنا بہتر ہے ۔ چونکہ عربی کے یہ الفاظ ہمزہ کے ساتھ ہی موضوع او ربامعنی ہے، ورنہ وہ مہمل اور بے معنی ہوجائیں گے، جیسے شفاء، ثناء وغیرہ۔
(۲) عربی کے وہ الفاظ جو باب افعال، استفعال، افتعال سے مصادر ہوں اور ان کے آخر میں ’’ء‘‘ (ہمزہ) ہوتو اس کو ہمزہ کے ساتھ لکھا جائے، یہی بہتر ہے ، ہمزہ کے ساتھ یہ لفظ موضوع اور بامعنی ہے، بغیر ہمزہ کے مہمل اور بے معنی ہے جیسے اقتداء، املاء، اخفاء، القاء، استثناء، استعفاء،استواء، انتہاء ،یہ الفاظ ہمزہ کے ساتھ صحیح اور بامعنی ہیں ، بغیر ہمزہ کے بےمعنی اور مہمل ہیں
(۳) عربی کے وہ الفاظ جو جمع ہوں اور ان کے آخر میں ’’ء‘‘ (ہمزہ) ہو، ان کو ’’ہمزہ‘‘ کے ساتھ لکھنا ضروری ہے، ورنہ وہ لفظ مہمل ،بے معنی ہوجاتے ہیں اور بہت سی دفعہ توہین کا پہلو بھی نمایاں کرتے ہیں، جیسے حکماء، علماء، شعراء ، یہ الفاظ جمع ہیں، ان کا واحد حکیم، عالم، اور شاعر ہے، ان کو ہمزہ کے ساتھ لکھنا ضروری ہے،ورنہ یہ الفاظ حکیم، عالم اور شاعر کا جمع شمار نہیں ہوسکتے ہیں ۔ ، مذکورہ الفاظ جمع اسی شکل میں شمار کئے جائیں گے، جب ان کے آخر میں الف اور ہمزہ ہو۔
(4) عربی الفاظ جو اسم کے طور پر مستعمل ہوں، اور ان کے آخرمیں’’ء‘‘ (ہمزہ) ہو تو ان کو ہمزہ کے ساتھ لکھا جائے، جیسے دعاء، سماء، ضیاء وغیرہ
(5) عربی وفارسی کے تمام ایسے الفاظ جن کے کسی درمیانی حرف پر ہمزہ مستقل حرف کی حیثیت سے آئے، وہ ہمزہ اردو املا ء میں بھی برقرار رہے گا، جیسے فائدہ، جرأت، قرأت، ذائقہ، لائق، فائق، ضائع، نمائش، آرائش۔
(6)عربی کے وہ الفاظ جس کے آخر میں ’’ء‘‘ (ہمزہ) ہو، تو ترکیب کے لئے یائے مجہول کا استعمال ہوگا، جیسے علمائے کرام، بقائے دوام
(7) عربی وفارسی کے وہ الفاظ جس کے آخر میں ہائے مختفی ہو اور اس کی اضافت کی جائے، تو اضافت کے زیر کے عوض ’’ء‘‘ (ہمزہ) کا استعمال کیا جائے ، جیسے مطبوعۂ دہلی، حصۂ دوم
(8) عربی اور فارسی کے بعض الفاظ میں ’’ی‘‘ استعمال ہوتی ہے، لیکن اردو تلفظ میں ’’ء‘‘ (ہمزہ) کی آواز نکلتی ہے، ان کو ہمزہ سے لکھا جائے ،جیسے آزمائش، افزائش، پیمائش، نمائش، آئندہ، پائندہ، مسائل، قائل، فائل، لائق، فائق، ذائقہ ، معائنہ وغیرہ
,،(9 ) عربی کے ایسے الفاظ جن کے درمیان ’’الف‘‘ کے اوپر ہمزہ لکھا جاتا ہے، اس کو اسی طرح استعمال کیا جائے، جیسے تأثر تأمل، جرأت، قرأت، مؤذن، مؤلف، مؤنث ،مؤکل وغیرہ۔
(10) عربی کے کچھ الفاظ ایسے ہیں، جن کے آخر میں ہمزہ آتا ہے، جیسے کبریاء، دعاء، بلاء، عشاء، ان کو ہمزہ کے ساتھ لکھا جائے، ورنہ یہ الفاظ مہمل ہوجائیں گے۔
(11) عربی کے بعض الفاظ کی تانیث فُعلی کے وزن پر آتی ہے، جیسے کبری ، صغری، حسنی، عظمی، یہ سب اسی طرح لکھے جائیں گے۔ چونکہ ان کا صحیح املاء یہی ہے۔
(12 ) عربی کے جن الفاظ کی تانیث فعلاء کے وزن پر آتی ہے، جیسے خضراء، صفراء، صحراء، بیضاء، ان کو ہمزہ کے ساتھ لکھا جائے گا
مذکورہ بالا عربی کے وہ الفاظ ہیں ،جن کے آخر میں الف اور ہمزہ ہے ، ان کے علاؤہ بہت سے الفاظ ہیں ، جن پر غور و فکر کی ضرورت ہے ، ساتھ ہی املا کمیٹی ، ترقی اردو بورڈ کی سفارشات کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے