”ارمغان رافق“ : ایک دلچسپ اور انوکھی کتاب
اقبال حسن آزاد
انشائیہ نگاری ایک نازک فن ہے۔ اس میں تنقید کی ذہانت و بلاغت، افسانے کی حلاوت و لذت اور شاعری کی نزاکت و لطافت پائی جاتی ہے۔ انشائیہ نگارکے لیے بیدار مغز ، وسیع القلب اور وسیع المشرب ہونا ضروری ہے۔انشائیہ نگار کے اندر حس مزاح اور جمالیاتی حس کا ہونا بھی ضروری ہے۔ کوئی خشک مزاج آدمی کبھی بھی انشائیہ نگار نہیں بن سکتا ۔ایک اچھا انشائیہ وہ ہے جو روح میں بیداری وسر شاری پیدا کر دے اور ساتھ ہی ساتھ غور و فکر کے نئے در بھی وا کرے۔ ایک ذہین انشائیہ نگار زیر لب مسکراتا ہے لیکن پڑھنے والے کے ہونٹوں پر تبسم کے پھول کھلا دیتا ہے۔کہیں کہیں اس کی تحریر قہقہہ بار بھی ہو جاتی ہے مگر دل و دماغ پر بار نہیں ہوتی۔

پروفیسر سید محمد رافق زماں صاحب سے میری کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔مگر ان کے لائق فرزند سید شمس الزماں عرف بزمی(ایم سی اے،سینیئر سوفٹ ویئر انجینیئر،بنگلور) نے ”ارمغان رافق“ کے ذریعے ان سے آدھی ملاقات کروا دی۔ وہ اپنے اداریہ میں پروفیسر رافق زماں کا تفصیلی تعارف پیش کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں:
”….والد گرامی کی لکھی ڈائری، نوٹ پیڈس اور کاپی کو پڑھنے کا سلسلہ شروع ہوا ۔جو قصے کہانیاں ان سے سنتے آئے تھے یہ اوراق ان کو دہرانے لگے ۔الگ الگ رنگ کے مضامین ملے جن میں مزاح بھی تھا،تنقید بھی اور نصیحت بھی ۔جب میں نے ان سب کو پڑھا تو یہی خواہش ہوئی کہ اسے منظر عام پر لایا جائے ۔کافی محنت سے اسے رومن اسکرپٹ میں تیار کیا ۔چونکہ مجھے اردو میں مہارت تو ہے نہیں اس لیے ضرورت تھی کہ اس کے لکھنے میں مجھ سے جو غلطیاں ہوئی ہیں اسے اشاعت سے پہلے درست کر لیا جائے ۔ اس سلسلے میں مولانا احمد رضا عزیزی صاحب (خطیب و امام مسجد الصالحین محلہ داوؤد چک ) سے ملاقات ہوئی اور ہم نے کریکشن کا کام پورا کیا تو ان کی خواہش ہوئی کہ اسے اردو ہی میں شائع کیا جائے تاکہ یہ کتاب اہل علم کے پاس پہنچ جائے ۔ ان کی محنت سے آخر کار یہ کتاب اپنی اصلی شکل میں اور آج آپ تک پہنچ رہی ہے۔“(صفحہ نمبر۔12)
اس کتاب کو پڑھنے کے بعد یہ سوچ کر افسوس ہوا کہ اتنے قریب رہ کر بھی ایسی باغ و بہار شخصیت سے میری کبھی بالمشافہ ملاقات نہ ہو سکی۔ بہر کیف!214 صفحات پر محیط ”ارمغان رافق“ادب کے سنجیدہ قارئین کے لئے ایک تحفہ ء خاص کا درجہ رکھتا ہے۔
”ارمغان رافق “ پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے صدر شعبہء اردو ،مونگیر یونیورسیٹی،مونگیر، ڈاکٹر شاہد رزمی لکھتے ہیں :
”کئی شخصیتیں کثیر الجہات ہوتی ہیں جو بیک وقت کئی علوم و فنون اور زبانوں پر قدرت رکھتی ہیں اور دوسروں کو متاثر کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں ۔ایسی ہی ایک جاذب نظر شخصیت پروفیسر سید رافق زماں صاحب کی تھی(جن کا تعلق قدیمی خانقاہ شہبازیہ ملا چک شریف بھاگلپور سے ہے جو ہمیشہ سے ایک علمی گھرانہ رہا ہے) جو بظاہر علم طبیعات کے پروفیسر تھے تاہم ان کی دسترس کئی شعبوں تک تھی خواہ انگریزی ہو ،اردو ہو ،یا کہ فارسی حتیٰ کہ علم موسیقی اور دیگر مروجہ علوم و فنون پر ان کی گرفت قابل تحسین ہے۔“(صفحہ نمبر۔14)
ڈاکٹر شاہد رزمی کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے میں اس میں اتنا اضافہ کرنا چاہوں گا کہ وہ اردو انگریزی اور فارسی زبانوں کے ساتھ ساتھ ہندی اور عربی زبان میں بھی ید طولیٰ رکھتے تھے۔ جس کا ثبوت اس کتاب میں جا بجا ملتا ہے۔ایک جگہ لکھتے ہیں:
”قرآن پاک کے اختتام پر دوسورتیں رکھ دی گئیں ہیں۔ انہیں ہمیشہ ورد کرتے رہنا چاہیے۔ پہلی سورة ہے سورہفلق اور دوسری ہے سورہ ناس۔ اس میں اللہ کی پناہ چاہتا ہے اللہ کا ہر بندہ چونکہ اصل پناہ دینے والا صرف اور صرف اللہ ہے۔ سورہ فلق میں کہا جاتا ہے اے نبی آپ فرمادیجئے ” قل اَعوذ بِرَبِّ الفَلَقِ“ فرمائیے یا کہتے رہیے کہ میں پناہ چاہتا ہوں فلق کے رب سے۔فلق کیا ہے پو پھٹنا یعنی رات کے اندھیرے کا ختم ہونا اور صبح کے جالے کا آغاز۔ اسی سے فالق الاصباح بنا ہے۔ کن چیزوںسے میں پناہ چاہتا ہوں ؟ مِن شَرِّ مَا خَلَقَ “۔ جو چیزیں تو نے تخلیق کی ہیں انکے شر سے پناہ چاہتا ہوں۔ وَ مِن شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ اوراندھیروں کے شر سے جب وہ ڈوبے۔ وَ مِن شَرِّ النّفّثٰتِ فیِ العُقدِ اور جادوگروں کے پھونک کے شر سے جو وہ گرہوں میں پھونک کر باندھتے ہیں اور جادو ٹونا کرتے ہیں ، وَ مِن شَرّحَاسِدٍ اذَا حَسَدَ اور حاسدوں کے شر سے جو حسد کرتے ہیں۔
اسی طرح سورہ والنّاس میں بھی پناہ چاہتے۔” قل اََعوذ بِرَبِّ النَّاس“ فرمائیے یا کہتے رہیے میں پناہ چاہتا ہوں انسانوں کے رب سے ” مَلکِ النَّاس“ِ انسانوں کے حقیقی بادشاہ یا مالک سے ”الہِِ النَّاسِ“۔ انسانوں کے اللہ ! یعنی معبود سے ” مِن شرِّ الوسواسِ الخَنَّاسِ“ شیطان یعنی خناس کے وسوسہ کے شر سے۔ الَّذی یُوسِوسُ صدورِ النَّاسِ“وہ شیطان جو وسوسہ کرتا ہے انسانوں کے دلوں میں ” مِنَ الجِنَّةِ وَ النَّاسِ“ جن والے شیطان اور انسان والے شیطان سے یعنی شیطان جنوں میں بھی ہیں اور انسانوں میں بھی۔“(ڈائری کا ایک ورق ، تاریخ28.07.2008،صفحہ نمبر۔187)
ایک عمدہ نثر نگار کے ساتھ ہی ساتھ وہ ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ اس مجموعے میں ایک غزل بھی شامل ہے ۔اس غزل کا مطلع ،مقطع اور ایک شعر ملاحظہ فرمایئے:
گرداب وقت سیل بلا کو لپیٹ کر
رکھ دے تو آنچلوں میں خودی کو سمیٹ کر
آسودگی نہیں ہے تری منزل حیات
کرنا ہے جو بھی کار جنوں خالی پیٹ کر
روزی ملے گی، روٹی ملے گی،مکان بھی
لا تقنطو کو سینے میں رکھ لے سمیٹ کر
کسی کتاب کی کامیابی کا ایک پیمانہ یہ بھی ہے قاری جب اسے ایک بار شروع کرے تو پڑھتا ہی چلا جائے اور ختم کر کے ہی دم لے۔اس کتاب میں پروفیسر سید رافق زماں نے قدم قدم پر انشاءکے پھول کھلائے ہیں جن کی رنگت سے آنکھیں خیرہ اور جن کی خوشبو سے دل و دماغ معطر ہو جاتے ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمایئے:
” لفظ دادا بھی عجیب تماشا ہے۔ ہمارے یہاں بہار میں باپ کا باپ، بنگال میں بڑا عالی ، اور ممبئی یا بمبئی میں سارے علاقے کا باپ !!! ( جو شان سے کہہ سکے رشتے میں تو ہم تمہارے باپ لگتے ہیں) اب دادا کے بعد بھائی کی باری آتی ہے۔ ہندو میں بھائی وہ ہوتا ہے جس کے سر پہ بہنیں شادی میں اپنا آنچل اور رکشا بندھن میں کلائی پر راکھی باندھتی ہیں اور مسلمان بہنیں جائیداد کا اچھا خاصہ حصہ بٹوا کر لے جاتی ہیں اور ہر قسم کی تقریب میں بھائی سے نقد و زیور وصولتی رہتی ہیں !! مگر دنیائے مجرمین میں بھائی وہ ہوتا ہے جس کی کلائی پر پولیس ہتھکڑی کی راکھی باندھ کر رشتہ استوار کرنے میں عموما ناکام رہتے رہتے بوڑھی ہو جاتی ہے کیونکہ یہ بھائی بہت سارے منسٹروں اور سیاسی لیڈروں کا باپ یا بیٹا ہوتا ہے۔ رشتے میں نہ سہی تو کاروبار میں۔“( کریلا،صفحہ نمبر19)
عصر حاضر کی بے پردگی اور بے حیائی پر وہ طنز کے تیر چلاتے ہوئے کہتے ہیں:
” چاند کتنا ہی حسین سہی وہ بے پردہ ہے۔ اس لیے غیر آباد ہے۔ وہاں پانی نہیں ہے اور ہو بھی کیسے سکتا ہے جہاں شرم و حیا نہیں وہاں پانی کہاں؟
رحیمن پانی راکھیے بن پانی سب سون
پانی نہیں تو کچھ نہیں موتی مانُس چون
یہ دونوں طرح کے پانی کا ذکر ہے۔ پانی، جل ، واٹر جو زندگی کے لیے اہم ضرورت ہے۔
جل ہی جیون ہے۔ اور دوسرے شرم و حیا، تلوار کی دھار ، عصمت ، عفت یہ بھی پانی ہے۔موتی کی چمک یہ بھی پانی ہے۔ موتی سیپ کے پردے میں اور سمندر کے تہ میں رہتا ہے اور جب باہر آتا ہے تو بازار میں بکتا ہے۔ تاجوں اور زیوروں میں جڑا جاتا ہے اور نمائش کی شے بن جاتا ہے۔ خاتون خانہ سے سبھا کی پری بننے کا یہ عمل ہر بے پردہ پر لاگو ہوتا ہے۔ اس کی حد متعین کرنا دوسروں کا نہیں خود اس کا کام ہے جس نے پردہ ہٹایا ہے پردہ اٹھایا ہے۔ وہ بے پردگی کی کس حد تک جانا چاہتا ہے وہ خود سوچے ! اسی سے اس کے مقام کا تعین ہوگا۔ آج دنیا بے شرم ہو چکی ہے، بے حیا ہو چکی ہے۔ پھر بھی اگر کوئی حسینہ جسم کی نمائش کرتی ہے ،کوئی مسخرہ گرایم ایم ایس کرتا ہے ،کوئی آوارہ اگر نازیبا حرکت کرتا ہے تو اتنا واویلا کیوں ! اتنی چیخ پکار کیوں؟ اتنا ہنگامہ کیوں؟ کیس اور مقدمہ کیوں؟ قانون سے فریاد کیوں جب سب جائز ہے تو اسے بھی جائز کر دو معاملہ ختم۔“(حباب کی سی ہے،صفحہ نمبر 33)
اسی خیال کو ایک دوسری جگہ یوں لفظوں کا جامہ پہناتے ہیں:
”آپ ایک بھی ٹی وی سیریل ایسا دکھا دیجئے جس میں اچھائی،اخلاق و مروت،اتفاق واتحاد ، شرم و حیا کا ماحول پروان چڑھتا ہوا دکھا یا جاتا ہو۔ ٹی وی سیریل والوں کا جب بے حیائی دکھانے کا جی کرتا ہے ایک جشن بر پا کرتے ہیں۔کسی انعامات کے تقسیم کے نام پر ،کسی تہوار کے نام پر ، مقابلہ رقص کے نام پر ، اور پھر جو چاہتے ہیں دکھاتے ہیں۔ ہر سیریل میں سازش کی نئی نئی ترکیبیں سکھائی جارہی ہیں۔ رسم و رواج کے ساتھ بھونڈا مذاق کیا جارہا ہے۔ ہماری ہندوستانی تہذیب کے ساتھ دھڑلے سے مغربی تہذیب کی برائیوں کو ری مکس کیا جارہا ہے۔ “(آتش گل،صفحہ نمبر37-38)
اردو ہماری مادری زبان ہے مگر خود ہم ہی اس کی قدر نہیں کرتے ہیں۔اردو کی زبوں حالی کی تمام تر ذمہ دار خود اردو والے ہی ہیں۔ ملاحظہ فرمایئے:
” بوڑھوں کی ایک کھیپ رہ گئی ہے جو اردو پڑھتی ہے، اوراردو سجھتی ہے ، اردو بولتی ہے، اردو لکھتی ہے۔ نوجوان ، کم عمر بچے ، نونہال ، سب عموما اردو سے نابلد ہیں سوائے انکے جو کسی مدرسہ ، مکتب یا یتیم خانہ میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اس لیے بڑے بڑے سیمیناروں، نوحہ گروں کی مجالس اور قصیدہ خوانوں کی بزموں کے باوجود اردو ہندوستان میں اپنی موت آپ مر رہی ہے۔ چونکہ شاخوں پر چھڑکاؤ ہو رہا ہے شاخوں کو زندہ اور ہرا بھرا رکھنے کی مصنوعی مشقیں نمائش کے طور پر کی جارہی ہے اور جڑوں میں زہر ڈال دیا گیا ہے۔ جڑوں میں گھن کی نسل بٹھادی گئی ہے۔ چوہوں کی فوج متعین کر دی گئی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بول چال کی حد تک اگر اردو زندہ ہے تو اسکے لیے فلموں کا اورریڈیو اور ٹی وی کے پروگراموں کا احسان مند ہونا چاہیے،مذہبی جلسوں کا،قوالیوں کا اور مشاعروں کا۔ اور لکھنے پڑھنے کی حد تک اگر اردو زندہ ہے تو اسکے لیے ہمیں ممنون ہونا چاہیے مدرسوں کا مکتبوں کا ، یتیم خانوں کا ، اردو میڈیم اسکولوں کا ، جنہیں عموماً دانشوران قوم وملت نظر تحقیر سے دیکھتے ہیں۔“
(شہر بھاگلپور: گہوارہء علم و ادب، صفحہ نمبر45-46)
سید رافق زماں ایک زندہ دل انسان تھے اور زندگی کو برتنے کا فن اچھی طرح جانتے تھے۔ ایک جانب تو وہ مبلغ اور مصلح قوم نظر آتے ہیں اور دوسری طرف آج کل کے مشہور و مقبول مشاغل سے بھی غایت درجے کا لگاؤرکھتے تھے۔ فلموں اور ٹی وی سیریئلس سے ان کی دلچسپی قدم قدم پر نظر آتی ہے۔ ایک مثال ملاحظہ فرمایئے:
” آج کے دور میں منفیت کا زور ہے اور Negativityعموماً کرداروں کو زیادہ دلچسپ بنا دیتی ہے اور غیر معمولی بھی۔ مثلاً ہیرو جب ولن کاکردار نبھانے لگے ، ولن ہیرو جیسے کام کرنے لگے، کامیڈین سیریس ہو جائے اور sisters sobہنسانے لگیں تو یہ کتنا عجیب ہو گا۔ ابھی اخبار میں ایسی ہی ایک خبر نظر آئی کہ ”شعلے“ فلم کودوبارہ بار دیگر بنایاجارہا ہے اور اس میں Big B یعنی امیتابھ بچن گبر سنگھ کا رول نبھائیں گے۔ جو ڈاکو نہیں بلکہ ڈان ہوگا کیونکہ اب ڈاکو کہلانا بھی کسر شان سمجھا جانے لگا ہے اب تو ڈان ہی زیاد با وقار لگتا ہے۔“(ہر بات پہ رونا آیا ،صفحہ نمبر(58-
ایک مثال اور ملاحظہ فرمایئے:
”کل گھر پر اتوار منایا ، سوچا تھا کرکٹ کا فائنل دیکھوں گا۔ اتفاقا ًایک پرانی فلم ” جس دیش میں گنگا بہتی ہے” چل رہی تھی۔ تھوڑی دیکھی دوسری طرف ”شعلے“ چل رہی تھی، وہ بھی دیکھی۔ پھر انکم ٹیکس Return بھروانے کے لیے ضروری کا غذات تلاشنے میں سارا وقت گزر گیا اور ساڑھے تین بجے اپنے دوست جناب دلدار ہاشمی کے یہاں جا کر کا غذات حوالے کیا جوانکم ٹیکس کے وکیل ہیں اور مجموعی میرا ریٹرن بغیر اجرت بھرتے ہیں۔ یہ ان کی کرم فرمائی ہے۔“(ڈائری کا ایک ورق، صفحہ نمبر148)
پروفیسر رافق زماں نئی پرانی فلموں،ان کے کلاکاروں،نغمہ نگاروں ،موسیقاروں اور گلو کاروں کے بارے میں بھی وسیع معلومات رکھتے ہیں اور ان کا ذکرنہایت بے تکلفی کے ساتھ کرتے نظر آتے ہیں۔ انہیں بہت سارے قصے اور بے شمار لطیفے بھی یاد ہیں جنہیں وہ اپنی تحریر میں نگینوں کی مانند جڑنے کا ہنر جانتے ہیں۔ غالب ایک ایسا شاعر ہے جس کی باتیں سب سے زیادہ کی گئی ہیں۔اس کتاب میں غالب کا ذکر جا بجا ملتا ہے۔ایک جگہ لکھتے ہیں:
”ایک لطیفہ سن لیجیے مگر اس کی صداقت کی گارنٹی میں نہیں لیتا۔سنا ہے کہ ایک ایسا موقع آیا تھا کہ غالب کو قرض کی شراب بھی میسر نہ ہوئی:
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
غالب نے سوچا آج چلو نماز ہی پڑھ لیں۔ مسجد پہنچ گئے اور وضو کرنے لگے۔ کہیں ایک مداح غالب کو یہ خبر پہنچ گئی اوروہ از راہ محبت نفیس شراب کی ایک بوتل لے کر خانہ غالب پر پہنچ گئے۔معلوم ہوا غالب تو نماز پڑھنے مسجد چلے گئے ہیں۔ خیر مسجد پہنچے اور باہر ہی سے غالب کو بوتل دکھائی۔ غالب وضو ختم کیے بغیر ہی انکی جانب لپکے۔ لوگوں نے حیرت سے پوچھا حضرت کہاں چل دیئے؟غالب نے کہا جس کمبخت کی دعا وضو ہی میں قبول ہو جائے تو پھر نماز کی کیا حاجت۔“
(آؤ ہنسیں اور ہنسائیں،صفحہ نمبر91-92)
ہر عاشق اردو کی طرح پروفیسر رافق زماں بھی اردو کی بے حرمتی اور پامالی پر خون کے آنسو روتے دکھائی دیتے ہیں۔ایک طرف تو اردو کے وجود کو مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور دوسری جانب اسے مسخ کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جا رہاہے۔ کہتے ہیں کہ اردو ایک میٹھی اور پیاری زبان ہے لیکن اس کی ساری مٹھاس اس کے تلفظ میں پوشیدہ ہے ۔اگر اس کا تلفظ بگاڑ دیا جائے تو اس سے زیادہ کریہہ اور کوئی زبان نہ ہوگی۔کہتے ہیں:
”اردو کو آج کل ہند یا یا جا رہا ہے اور اسے ہر دو بنایا جا رہا ہے ؟ اسکے لیے حرفوں پر ستم کی بجلی کثرت سے گرائی جا رہی ہے ۔سب سے زیادہ ”خ“ کا قتل عام کیا جا رہا ہے یعنی کھواب،کھوبصورت،کھوشی،کھدا،کھد وغیرہ وغیرہ قصداً بولا جا رہا ہے۔ پرانی ہندی فلموں کے گائک اور اداکار بہت صحیح تلفظ ادا کرتے تھے مگر آج کل ایسا کیوں نہیں ہے۔ اب تو مسلمان ادا کاربھی یہی مسخ شدہ تلفظ ادا کرنے لگے ہیں۔ دوسرا حرف” ق“ ہے جس کی درگت بنی ہے۔“(ڈائری کا ایک ورق ،صفحہ نمبر140-)
پروفیسر سید رافق زماں نے ایسے بہت سارے الفاظ کی نشاندہی کی ہے جن کا تلفظ جان بوجھ کر بگاڑ دیا گیا اور سب سے زیادہ افسوسناک صورت حال میرے نزدیک یہ ہے کہ اردو میں اعزازی ڈگریاں لینے والے،اردو میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کرنے والے لڑکوں اور لڑکیوں کا تلفظ خراب ہی نہیں بہت زیادہ خراب ہے۔فراق گورکھپوری کے بارے میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ:
”فراق گورکھپوری ہندو ہوتے ہوئے بھی ذخیرہ الفاظ اور ان کے تلفظ کے بادشاہ تھے بہت نازک طبع۔ سنا ہے کسی مشاعرے میں ان کے قبل کوئی ہندی کے شاعر کی باری آگئی جو تلفظ کے معاملے میں افسوسناک حد تک برے تھے۔ اپنا کلام پیش کرنے کے بعد انہوں نے اپنے دوست فراق سے پوچھا کہ آپ کو کیسا لگا۔ فراق بہت منہ پھٹ تھے۔ انہوں نے کہا ” مجھے ایسا لگا کہ میرے کانوں میں کوئی پیشاب کر رہا ہے۔“(ڈائری کا ایک ورق صفحہ نمبر140-141)
تلفظ ہی سلسلے میں ایک جگہ یوں رقم طراز ہیں۔
”مجھے ایک ماسٹر صاحب کا لطیفہ یاد آ رہا ہے جو حقیقت ہے۔ ان کے ہیڈ ماسٹر صاحب نے،(جو انگریزی کے ٹیچر تھے)ان کی درخواست میں لکھے کسی لفظ کی غلط Spelling پر ان کا مذاق سب کے سامنے اڑایا۔ انہوں نے برجستہ کہا کہ اگر میری انگریزی ہنسنے کے لائق ہے تو آپ کی انگریزی رونے کے لائق چونکہ آپ فش کو فس، و از کوباج ، اور روز کو روج بولتے ہیں۔ ہیڈ ماسٹر شرمندہ ہوئے یا نہیں مگر سنا ہے کہ اسی غصہ میں مولوی صاحب نے پوری ڈکشنری یاد کر لی اور بعد میں یہ عالم ہوا کہ ہیڈ ماسٹر صاحب جب کسی لفظ پر اٹکتے تھے تو مولوی صاحب سے اس کا معنی پوچھتے تھے۔ "(ڈائری کا ایک ورق،صفحہ نمبر142)
ان باتوں کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تلفظ کو بگاڑنے کے ساتھ بہت سارے الفاظ کے معنی بھی بدل دیئے گئے ہیں ۔وہ لکھتے ہیں:
”انکار کو منع کہا جا رہا ہے۔ مجھے کی جگہ میں نے استعمال کیا جا رہا ہے۔ جبکہ منع ہمیشہ کسی دوسرے کو کیا جاتا ہے اور انکار خود کرتے ہیں۔ مخالفت کی جگہ خلافت بولا جارہا ہے۔ وقت کی دھارا عموماً زبان کو شفاف بناتی ہے اور یہی عمل اردو میں سدا جاری رہا جس کی وجہ سے بہت سارے الفاظ متروک ہوتے چلے گئے اور زبان شستہ ہوتی چلی۔ مگر آج گنگا میلی ہوتی چلی جا رہی ہے اور آلودگی بڑھتی جا رہی ہے یا قصداً بڑھائی جا رہی ہے۔“(ہر بات پہ رونا آیا، صفحہ نمبر59-60)
کہتے ہیں کہ شاعر و ادیب اپنی دنیا میں اس قدر مگن رہتے ہیں کہ وہ اپنے گھر اور گھر والوں کی طرف سے لگ بھگ لا تعلق ہو جاتے ہیں۔مگر پروفیسر رافق زماں اس معاملے میں سب سے الگ ہیں۔ انہیں اپنے گھر اور گھر والوں سے بہت لگاؤتھا جس کا ثبوت اس کتاب میں جا بجا ملتا ہے۔ اور ان کی ڈائری کے اوراق اس کے گواہ ہیں۔ طوالت کے خوف سے صرف ایک مثال پر اکتفا کر رہا ہوں۔ لکھتے ہیں:
”آج موسم خوشگوار ہے ۔ہلکا ترشح ( پھو ہار ) ہو رہی ہے۔ بزمی سلمہ اپنی گرمی کی تعطیل گھر پر گذار کر آج برہم پتر میل سے صبح 8 بجے الہ آباد روانہ ہو گئے ہیں۔ گھر میں انکے آنے سے جو چہل پہل تھی وہ ختم ہوگئی۔ سماں بابوتین چار دن قبل پٹنہ سے اپنے جانگھ کی ہڈی کا آپریشن کرا کے لوٹے ہیں ، ابھی بستر پر ہی ہیں ، دیکھیں کب تک کھڑے ہو کر چلنے پھرنے کے لائق ہوتے ہیں۔“(ڈائری کا ایک ورق، صفحہ نمبر148)
مختصر طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پروفیسر سید رافق زماں ایک باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے ۔”ارمغان رافق "سے باغ ادب میں مسکراہٹوں کے یہ پھول ہمیشہ کھلتے رہیں گے اور ان کے قلم نے صفحہ قرطاس پر جو گل بوٹے پیدا کیے ہیں ان کی دلکشی اور دلنوازی تا دیر قائم رہے گی۔
٭٭٭