اُسوۂ ابراہیمی
سرِ تسلیم ہے خم تیری رضا کے آگے
ڈاکٹر محمد اعظم ندوی
استاذ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد
آج قربانی کا عظیم الشان دن ہے،ہم اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اللہ کی رضا کے لیے جانوروں کی قربانی کریں گے،عید الاضحی ہمارے دو سالانہ تہواروں میں ایک ہے، ہم آپ کو دل کی گہرائیوں سے عید الاضحی کی مبارکباد پیش کرتے ہیں، ہم ان ایام میں خوشی کا اظہار کریں گے، اورقربانی کے گوشت سے کام ودہن کی لذت کا سامان کریں گے، جلد ہی قربانی کے تین دن گزر جائیں گے، اور پھر وہی زندگی، وہی شکوے غم دوراں کے، غم جاناں کے، پھر وہی قصے آن اور بان کے، تنگی گذران کے:
وہی ہم ہیں، قفس ہے، اور ماتم بال وپر کا ہے
خوشا وہ کاروان ایمان وعمل جس نے یہ قربانی ابراہیم واسماعیل علیہما الصلاۃ والسلام کی نقل میں اور ملت ابراہیمی کی اتباع میں کی، کاش وہ ہر ہر عمل میں ان کو اپناراہنما اور رول ماڈل بنالیتا، ایسا تو نہیں انہوں نے زندگی میں تنہا یہی ایک قربانی دی تھی، وفا شعارباپ اور فرماں بردار بیٹے نے کیا خود کو خدا کے سپرد نہیں کردیا تھا! کیا سر تسلیم خم نہیں کردیا تھا! کیا اپنے جذبات کو اپنے رب کریم کے حکم کے تابع نہیں بنادیا تھا! یقینا ًوہ حکم کے بندے اور اشارۂ چشم وابرو کے پابند تھے، ان کی زندگی میں’کیا،’کیوں‘ اور’کیوں کر‘ کے سوالات باقی نہیں رہے تھے، وہ عجز کے اسرار سے محرم تھے، انہوں نے حق کے جس راستہ کا انتخاب کیا تھا اس میں بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے تیار تھے، سچ پوچھئے تو آج بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کھلی کتاب کی طرح ہمارے سامنے موجود ہے، یہ ہماری پسند ہے کہ کیا ہم اس شاہراہ پر چلنے کے لیے تیار ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کوبچپن سے ہی رشدوہدایت کا تمغہ عطا ہوگیاتھا، اسی کا فیض اثر تھا کہ بت پرستی سے حد درجہ نالاں، بیزار ونفور، گھراور بازار میں معبودان باطلہ کی بے وقعتی کا بار بار اظہار ہورہا ہے، قوم کو سورج اور چاند،ستاروں اور سیاروں کی مثال دے کر سمجھایا جارہا ہے کہ یہ ڈوب جاتے ہیں، اور ڈوبنے والا رب نہیں ہوتا، رخ ایک اللہ کی طرف کرو ،جو ان ڈوبنے والوں کا مالک ہے، قوم کی سمجھ میں نہ آیا تو پتھر کی بنی ہوئی مورتیوں کو توڑ ڈالا، اوربڑے بت پر کلہاڑی رکھ دی کہ اگر ان میں سکت ہے تو ذرا یہ بڑے صاحب کچھ ارشاد فرمائیں، بے جان اور بے حس وحرکت ہیں، نفع وضرر کے مالک نہیں تو ان کو چھوڑ کرمالک حقیقی کی چوکھٹ پہ آؤ، ضرورت پڑنے پر بادشاہ وقت کے روبروتوحید کی دعوت پیش کررہے ہیں اور اپنی دلیل وحجت اور دعوت کی حکمت سے اس کو خاموش وششدر کررہے ہیں۔
طاقت کے پرستاروں نے اس حق کے پیامبر کو آگ میں ڈالنے کی دھمکیاں دیں، اور بالآخر اپنے منصوبہ پہ عمل کر گذرے،تاریخ انسانی کے ایسے نازک ترین موقع پر بھی چہرہ پر خوف کے آثار نظر نہ آے، اور بے خطر آتش نمرود میں کود پڑے، یہاں بھی مدد آئی اور آگ کو حکم ہوا کہ ابراہیم پر ٹھنڈک اور سلامتی بن جاؤ، آگ کی کیا مجال کہ جب مالک کا حکم ہو تو وہ اپنی فطرت سے جلانے کا کام کرے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے والد کے ساتھ آزمائے گئے، کھرے نکلے، باپ بت فروش تھے، خودبت شکن بن گئے، لیکن نصیحت سے باز نہ آئے، صبر کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیا، احترام وتوقیر کے تقاضوں کو نظر انداز نہ کیا، ہر طرح سے فکر مندی کا اظہار کیا، والد کو نہ ماننا تھا نہ مانے، دھمکیاں دینے لگے، پدرانہ شفقت کو نظر انداز کیا،فرزند ارجمندناراضگی یا جدائی کا سلام پیش کرتے ہوئے رخصت ہوئے، اللہ سے ان کے لیے معافی تلافی کا وعدہ کیا اور اس کو نباہتے رہے، جب حکم ہوگیا، ایسے پاس عہد کی ضرورت نہیں، خدا کے باغی مغفرت کی دعا کے مستحق نہیں،زبان روک لی، اللہ کا حکم بخوشی قبو ل کر لیا، اور باپ سے براء ت کا اظہار کردیا، جب باپ کی محبت رضائے الہی سے میل نہ کھائی، پوری بر دباری اور صبر وقار کے ساتھ رب کریم کی پناہ میں آگئے اور باپ کی پروا نہ کی۔
دوسری طرف عالم شباب میں اولاد سے محرومی، اور ضعیفی میں تربیت اولاد کی ذمہ داری سے آزمائے گئے، دونوں حالتوں میں صبر وشکر کا حق ادا کردیا، جب باپ ہوئے، تو شیرخوار بچہ کو اس کی ماں کے ساتھ بے آب وگیاہ وادی میں تن تنہا چھوڑ دینے کا حکم فرمانروائے دوجہاں کی طرف سے صادر ہوا، جہاں نہ کوئی آدم نہ آدم زاد، نہ کھانے کو توشہ نہ نہ سونے کو بستر، کل سرمایہ وہ امید جو مالک حقیقی نے دل میں جگادی دی تھی کہ حکم جب اس کا ہے تو وہ ہرگز ضائع نہ کرے گا، عمر درازلیکن وفا شعار بیوی بھی سرجھاکر ماننے کو تیار، اور اس امتحان میں بھی سو فیصد کامیاب، لخت جگر کسی کام کے ہونے لگے تو اپنے ہاتھوں سے ذبح کردینے کا حکم آگیا، برضا ورغبت تیار ہوگئے، انتہائی سخت آزمائش لیکن پائے ثبات کو لغزش نہیں، دنیا نے دیکھا کہ زمزم کا چشمہ جاری ہوا، اور جنت سے مینڈھا اتارا گیا، سب کی حفاظت دست غیب سے کی گئی، لیکن تصور کیجئے کہ اس امتحان سے گزرنے کے لیے کتنا بڑا دل چاہیے تھا جوحضرت ابراہیم علیہ السلام کے سینہ میں دھڑک رہا تھا۔
ضعیف العمری میں اپنے وطن مالوف بابِل (عراق) کوچھوڑ کرملک شام( فلسطین وغیرہ)کی جانب ہجرت کرنا، پھر وہاں سے مصر، اور مکہ مکرمہ کا سفر،پھر مکہ مکرمہ سے شام، سفر در سفر،کیسی جانفشانیوں سے پر ہوا کرتھے یہ دشورا گزار سفر، لیکن اف تک نہ کیا، اور قدم بڑھاتے رہے، اللہ کی مددشامل حال ہوتی رہی، کبھی بیت المقدس کی تعمیر نومیں مصروف ہیں تو کبھی صاحبزادے کو ساتھ لے کر کعبۃ اللہ کی دیواریں کھڑی کررہے ہیں، کبھی حج کے لیے منادی کررہے ہیں، ہر قدم پر دعا ومناجات، گریہ وزاری، آہ سحرگاہی، انابت، تذلل اور رقت قلبی کی کیفیات سے سرشار، دن رات اپنی قوم کی رہنمائی میں بے قراری اورتڑپ کی ایسی کیفیت جیسے پارہ بھر دیا گیا ہو۔
جو کچھ ہے راہ خدا میں ہے، پھر بھی ہر لمحہ فکر اپنی قوم کی ہدایت کی، اپنے بچوں کی تربیت کی، آئندہ نسلوں کی، دعائیں ہیں تو اپنے بچوں کے نمازی بننے اور اور کعبۃ اللہ کی جانب لوگوں کے دلوں کو مائل کرنے کی، ان کے رزق میں کشادگی کی، شہر مکہ کو پر امن بنانے کی، آئندہ ایک مطیع وفرمانبردار امت کو برپا کرنے کی اور ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجنے کی، آنے والی امت کا نام بھی مسلم رکھ کر گئے اور خودمسلم بن کر دکھادیا، خود کو سپرد اللہ کے مرضی کے کردیا،کیا یہی مطلب نہیں مسلمان ہونے کا؟ یا کچھ اور؟۔
اگر سچ مچ آپ حضرت ابراہیم کی ملت کی پیروی کا دم بھرتے ہیں تو حق کی آواز بن جائیں، اور اس راہ کی مشکلات کے لیے تیار رہیں،مسلمان ہونا شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے، کوئی ہنسی کھیل نہیں، یہ پھولوں کی سیج نہیں، کانٹوں کی رہ گذر ہے، آپ کو اس کے لیے اپنی متاع عزیزکو قربان کرنا پڑ سکتا ہے، اس سے دریغ نہ کیجئے، اپنا گھر بارچھوڑنا پڑ سکتا ہے، اس کو اپنی کامرانی سمجھئے، الجھن، پیاس، خلش، تنہائی، آتش، زہر اور دارورسن تک کی نوبت آسکتی ہے، وہاں ثابت قدم رہنے کو عین سعادت جانئے۔
اگر آپ اسوۂ ابراہیمی کو مانتے ہیں تو قربانیوں کے لیے تیار رہیں، قربانی جذبات کی، ترجیحات کی، خواہشات وشہوات او رشکوک وشبہات کی، اپنے اوقات اور اپنی اوقات کی، قربانی عہدہ ومنصب کی، جان ومال کی، قربانی رسم ورواج کی، قربانی کل اور آج کی، قربانی اپنی پسند اور خوشی کی، قربانی اپنے پیسوں اور ریالوں کی، قربانی اپنے پیالوں اور نوالوں کی، قربانی اللہ کے نور کے اتمام کے لیے حور وقصور کی، قربانی بڑے مقاصد کو پانے کے لیے چھوٹے مقاصد کی،قربانی حق و انصاف کے لیے، قربانی مساوات ومؤاساۃ کے لیے، قربانی ستم رسیدہ انسانوں کی داد رسی کے لیے، قربانی اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے کے لیے۔
اس وقت ہماری اخلاقی حالت قابل رحم ہے، دینی تربیت کو رجعت پسندی کی علامت سمجھا جارہا ہے، پورا معاشرہ بے اعتدالی کا شکار ہے،پڑھا لکھا دانشور نور ایمان، اور نماز واذان کی لذت سے محروم ہے، اچھا خاصا نمازی اور عبادت گذار علمی واخلاقی اور جسمانی اعتبار سے کمزور ہے، کئی کئی زبانوں اور فنون کے ماہرین قرآن مجید کی ایک آیت سے بھی بے بہرہ ہیں، عالمی درجہ کے داعی ہیں اور ان کا گھر ایمانی تربیت سے محروم ہے، عراق وافغانستان، مصروفلسطین ، برما وصومالیہ پر ماتم کناں اورکشمیری وایغور مسلمانوں کا غم کھانے والے ہیں، لیکن ان کی راتیں ویران، نماز فجر غائب، اوراورادوظائف اور تلاوت سے کوسوں دور، اپنی عبادت، اپنے اہل خانہ اور رشتہ داروں کی فکر ہے لیکن اپنے معاشرہ کی خبر گیری سے بے پروا، ملازم تھے تو خوش مزاج اور نرم رو،ذمہ دار بنتے ہی سخت دل اور درشت مزاج، غیروں سے اسلام کو بدل دینے کا شکوہ اور خود تقریبات میں اسلامی تعلیمات کا کھلواڑ، اور نہ جانے کیا کیا!
دوسری طرف مسلمان پوری دنیا میں نشانہ پر ہیں، ان میں خوف، پژمردگی، تعب وتھکن اور ناامیدی کے آثار نمایاں ہیں، ان کے دلوں میں بزدلی، اور ’وھن‘ نے اپنے گھونسلے بنالئے ہیں، وہ گویا موت کی طرف ہنکائے جارہے ہیں، بے لشکر وسپاہ کہیں خونی معرکوں، اور کہیں خاموش نسل کشی کا سامنا کررہے ہیں، ان کے وجودکے سرچشموں کو خشک کیا جارہا ہے، ان کے دل ودماغ میں دینی مسلمات کو مشکوک بناکریا توڑوں کی لالچ اور اور کوڑوں کا خوف دلاکرکانٹے چھبوے جار ہے ہیں، کہنے والے نے کیا غلط کہا:
ہاتھ بے زور ہیں، الحاد سے دل خوگر ہیں
امتی باعثِ رسوائی پیغمبر ہیں
بت شکن اٹھ گئے، باقی جو رہے بت گر ہیں
تھا براہیم پدر، اور پسر آزر ہیں
ایسے میں ہماری ذمہ داری ہے کہ پورے اعتماد اور توکل علی اللہ کے ساتھ پوری انسانیت کے پیشوا، ابو الانبیاء خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اورسید الاولین والآخرین، امام المرسلین، رحمت عالمﷺ کے اسوۂ حسنہ کو اپنی نجی اور قومی زندگی کا شعار بناکر شعور کے ساتھ آگے بڑھیں اور قربانیوں سے نہ گھبرائیں، ان شاء اللہ اللہ کی مدد آئے گی اور حالات بدلیں گے:
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ