اس کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
از قلم: معاذ حیدر کلکتہ
مذہب اسلام نے تخلیقِ نسواں کے بڑے عمدہ مقاصد ذکر کیے ہیں ، اور ان کی حیاتِ مستعار کے مختلف مراحل کو کسی نہ کسی مقدس رشتہ سے سررشتہ کیا ہے ، ان کی نا سوتی زندگی کے تمام گوشوں سے متعلق افراد کو اس بابت اہم ذمہ داریاں سونپی ہیں، اور اپنی مسئولیات کو بروئے کار لانے پر ہر ایک سے دارین کے اجر و انعام کا وعدہ کیا ہے۔
یقیناً شریعتِ مصطفویہ نے ان کی پیدائش کو رحمت کا سبب ، ان کی عمدہ ترین نگہداشت، اعلیٰ ترین تریبت اور بہترین آرائش کو مغفرت کا ذریعہ اور ان کے اقدار کی پاسداری کو ” دینی معاشرے کی تکوین” میں ایک بنیادی عنصر قرار دیا ہے۔
نیز ان کے وجود سے ابنِ آدم کے وجود کو مربوط ، اور ان کی بقا پر ” نسلِ انسانی کی بقا” کو موقوف کیا ہے ۔
الغرض دنیا کی نیرنگیاں ، کائنات کی بوالعجبیاں ، زمانے کی کروٹیں ، لیل و نہار کی خلوتیں وغیرہ امور ان ہی کے دم سے ہیں ، بقول علامہ اقبال کے کہ
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
موجودہ تاثرِ نسواں کی دل خراشی :
مگر موجودہ نظامِ عالم میں ” حقوقِ نسواں” کے عجیب و غریب تاثر سے ہماری آنکھیں پرنم اور قلوب پر غم ہیں ، روشنی کے اس پروانے سے نور کو چھیننے کے شاہی انتظام سے ہمیں بے انتہا رنج والم ہے ، رحمت کے ان بادلوں سے زمین کو محروم رکھنے کے اس منصوبے سے ہمارا ذہن بوالعجبی کا شکار ہے ۔
(۲)آربی کار میڈیکل کے اندوہناک حادثہ کا ہم پر گہرا اثر ہے :
٩/اگست کے اس دل سوز واقع کے بعد تو ہماری عجیب کیفیت ہو گئی ہے۔ اب محسوس ہوتا ہے کہ ہماری روح رنج و الم سے دب گئی ہے ، اور کیوں نہ ہو جبکہ ہم بھی تو اپنے پہلو میں زندہ دل رکھتے ہیں ، اور دوسروں کی تکلیفوں پر رنج والم کا ہونا ” زندہ دلی ہی تو ہے ۔ بقول مرزا غالب کے کہ
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں
اس کے بعد سے ذہن ” عصمت دری کی روک تھام کے طریقے اور آبرو ریزی کے عناصر و عوامل کو ختم کرنے کے منصوبے ” مستقل سوچ رہا ہے ، جس کا پر تو ذیل کے سطور میں ظاہر کرنے کی قلم جراءت کیا چاہتا ہے ۔
عصمت دری، آبروریزی : اسباب و عوامل:
عصمت دری کے واقعات میں اضافہ کے سبب میں سماج کی نو تبدیلیوں کا اہم دخل ہے ، موبائل اور انٹرنیٹ کا بے تحاشہ استعمال ، آزادانہ اختلاط ، لیواِن رلیشن شپ ، رضامندی سے جنسی تعلقات کو جائز تسلیم کیے جانے کا رجحان ، اس جرم کی سنگینیت کے تصور کا بالکلیہ فقدان ، مسئلہ نکاح کا استصعاب ، عریاں مشاہدات ،مخربِ اخلاق رسائل ، نیم عریاں رقص ، اِس نوع کے مشتغل اشتہارات ، نمایاں ملبوسات ، تعلیم گاہوں اور سیاحت گاہوں میں آزادانہ میل میلاپ ، منشیات کا بے دریغ استعمال، اس مکروہ امر کے ارتکاب کرنے والوں کا اقتدار و منصب پر فائز ہونا ،اس کوچہ کی منفعِلات کو نسوانیت کا معیار قرار دنیا، نامانوس اشیاء کو مانوس بنانے کے لیے اِن کا جسدی استعمال ، اور اس طریقہ کی چیزوں کو ترقیات کی انتہا سمجھنے کا نا عاقبت اندیشانہ رجحان کا زنانہ حلقے میں عام ہونا وغیرہ وغیرہ امور ہیں جوں "ناموسِ نسواں ” کے تہتک کے بنیادی عناصر ہیں ۔
اس کی بیخ کنی کے لیے شعبہائے امت کے ہر فرد کو تیار ہونا پڑے گا ، اس سیلاب کو روکنا کسی مخصوص فرد اور مخصوص طبقے کے بس میں نہیں ہے، بلکہ ہر طبقے کے ہر فرد کے تعاون کے ذریعہ ہی اس کا قلع قمع کیا جا سکتا ہے ۔ اللہ تعالٰی سے دعاء ہے کہ ہمیں اس عمل قبیح میں ملوث ہونے اور اس کا ہدف بنے سے بچائے ، اور اس آندھی کو روکنے کے اسباب و اعمال پر ہمیں جمع فرمائے ۔ آمین .