اظہر عنایتی کی ”کائنات سخن“
اظہر عنایتی ہمارے عہد کے ایک منفرد شاعر اور جدید غزل کی نمائندہ آواز ہیں۔ میں نے انھیں اپنےلڑکپن میں اکثر مشاعروں میں سنا اور ان کی شاعری اور ترنم دونوں سے محظوظ ہوا۔ اس وقت یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ آگے چل کر وہ میرے کرم فرماؤں کی مخصوص فہرست میں شامل ہوں گے۔ میں ان کی بے پایاں محبتوں کا مقروض ہوں۔ پچھلے ہفتہ انھوں نے مجھے فون پر یہ خوشخبری سنائی کہ ان کی کلیات ”کائنات سخن‘‘ شائع ہوگئی ہے اور وہ اس کی ایک کاپی مجھے بھیجنا چاہتے ہیں۔ تیسرے دن ڈاکیہ جب ان کی کلیات لے کرآیا تو میری خوشی دوبالا ہوگئی۔
شاعری میری کمزوری ہے اور میں اسے نثر پر فوقیت دیتا ہوں۔ ہرچند کہ پچھلے چالیس برسوں سے میں نثر میں قسمت آزما رہا ہوں مگر کبھی کبھی کوئی ایسا شعر سماعت سے ٹکراتا ہے کہ اپنی تمام کاوشیں ہیچ محسوس ہوتی ہیں۔
اچھی شاعری مجھے حددرجہ متاثر کرتی ہے اور اگر یہ شاعری کسی ایسے شاعر کی ہو جو کردار کے معاملہ میں بھی کھرا ہو تو دوآتشے کا لطف آتا ہے۔ میں اظہرعنایتی کو ان شاعروں میں سرفہرست رکھتا ہوں، جو اپنے فن کے ساتھ ساتھ کردار واطوار کے معاملے میں بھی طاق ہیں۔ بقول خود
اپنی تصویر بناؤگے تو ہوگا احساس
کتنا دشوار ہے خود کو کوئی چہرہ دینا
مجھے اظہرعنایتی کے نہ جانے کتنے شعر یاد ہیں۔ کچھ ایسے بھی جنہیں میں تنہائی میں اکثر گنگناتا ہوں۔ ان سے میرا ایک اور بھی رشتہ ہے اور وہ یہ کہ میرا شہر مرادآباد ان کے جد امجد رستم خان دکنی نے آباد کیا تھا جو شاہجہاں کے سپہ سالار تھے اور انھوں نے ہی اس کا نام شاہجہاں کے چھوٹے بیٹے مراد کے نام پر رکھا تھا۔ رامپور اس اعتبار سے میری ددھیال ہے کہ میرے والد اوردادا اسی شہر میں پیدا ہوئے۔ آج بھی میرے سیکڑوں رشتے دار یہاں رہتے ہیں، جو مجھ سے بے پایاں محبت کرتے ہیں۔رامپورکا پرسکون طرز زندگی مجھے مرادآباد کی بے ہنگم صنعتی زندگی سے اچھا لگتا ہے۔ اسی لئے میں بار بار وہاں جاتا ہوں۔ یوں بھی اظہرعنایتی کی طرح میرا شجرہ روہیلہ پٹھانوں سے ملتا ہے۔
اب سے کوئی پچیس برس پہلے اظہرعنایتی نے میری ایک مشکل آسان کی تھی۔ ہوا یوں کہ میرے لکھے ہوئے سوانحی خاکوں کا پہلامجموعہ اشاعت کے مراحل میں تھا اوراس کانام میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ اچانک ایک دن اظہرعنایتی کا ایک شعر سماعت سے ٹکرایا۔
راستو!کیا ہوئے وہ لوگ جو آتے جاتے
میرے آداب پہ کہتے تھے کہ جیتے رہئے
مجھے شعر بہت پسند آیا اور میں نے ان کے شعر سے اپنی کتاب کا نام سرقہ کرلیا۔یہ کتاب ”کیا ہوئے وہ لوگ‘‘کے عنوان سے شائع ہوئی توکتاب سے زیادہ اس کا نام پسند کیا گیا۔ یہ دراصل اظہرعنایتی صاحب کی شاعری کا فیضان تھا۔یہ کتاب دراصل مرحوم ادیبوں، شاعروں، صحافیوں اور مجاہدین آزادی کوخراج عقیدت کے طورپر لکھے ہوئے مضامین کا مجموعہ تھا اور اس کے پہلے صفحہ پرعنایتی صاحب کا مذکورہ شعر درج تھا۔ یہ وہ دور تھا جب میری اظہرعنایتی صاحب سے براہ راست شناسائی نہیں تھی۔ انھیں اس کا علم ہی نہیں ہوسکا۔ بہت بعد میں جب میں نے انھیں اس کی اطلاع دی تو بہت خوش ہوئے اور کتاب پڑھنے کی خواہش کی ، لیکن کتاب ختم ہوچکی تھی۔میں ان کے حکم کی تعمیل نہیں کرسکا، مگر اب امید ہے کہ اس کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوگا تو بصد احترام ان کی خدمت میں پیش کروں گا۔
بہرحال یہاں مجھے اظہرعنایتی صاحب کی کلیات پر اظہارخیال کرنا ہے جس کی صورت گری میرے ہمدم دیرینہ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اردو کے استاد پروفیسر شہزاد انجم نے کی ہے۔ انھوں نے کچھ عرصہ رامپور میں بھی گزارا ہے، اس لیے رامپور اور اہل رامپور سے انھیں خاص عقیدت ہے۔ رامپور کی علمی اور ادبی فضا انھیں بہت راس آئی۔یہ وہ دورتھا جب اظہر عنایتی کی شخصیت اور شاعری کا جادو سرچڑھ کر بول رہا تھا۔ یہ کوئی بیس سال اُدھر کا قصہ ہے۔ اسی زمانے میں انھوں نے اظہرعنایتی پر ایک کتاب ترتیب دی۔ نام تھا ”اظہرعنایتی: ایک سخنور“۔ اس کتاب کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔گزشتہ دنوں ان کی مرتب کردہ ایک اور کتاب شائع ہوئی ”آرزوئے نجات“۔ اس میں اظہرعنایتی کی حمد، نعت، منقبت اور سلام کا انتخاب شامل ہے۔اس اعتبار سے ان کی کلیات کو مرتب کرنے کا مستحق برادرم شہزاد انجم سے زیادہ کون ہوسکتا تھا۔حق بحق دار رسید۔ برادرم شہزادانجم نے یہ کام بڑی محنت، سلیقے اور خلوص کے ساتھ انجام دیا ہے، جس کے لیے انھیں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ”کائنات سخن“ سے چند اشعار پیش کرتا ہوں۔
خودکشی کے لیے یہ تھوڑا سا کافی ہے مگر
زندہ رہنے کو بہت زہر پیا جاتا ہے
یہ مسخروں کو وظیفے یونہی نہیں ملتے
رئیس خود نہیں ہنستے ہنسانا پڑتا ہے
یہ بھی رہا ہے کوچہ جاناں میں اپنا رنگ
آہٹ ہوئی تو چاند دریچے میں آگیا
لہوجو بہہ گیا وہ بھی سجاکے رکھنا تھا
جو تیغ وتیر عجائب گھروں میں رکھے ہیں
تو شہر بھر کے جلتے چراغوں کو قتل کر
میں سرپھری ہوا تجھے بادِ صبا کہوں
550 صفحات کی اس کتاب میں اظہر عنایتی کی شاعری کا پورا جہان سمٹ آیا ہے۔ آخر میں ان کی رنگین البم بھی ہے۔
ابتداء غزلوں سے ہوتی ہے، پھر نظمیں، قطعات، تظمینیں،سہرے اور رخصتیاں (جن کا چلن رامپور میں آج بھی ہے)حمدباری تعالیٰ، بارگاہ رحمۃ اللعالمین،منقبت، متفرق اشعار شامل ہیں۔ اس کے بعد اظہرعنایتی کی شاعری پر فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، گوپی چند نارنگ،وزیرآغا، احسان دانش، ابواللیث صدیقی، نثار احمد فاروقی، شمیم حنفی، قمر رئیس، انورسدید اور عنوان چشتی جیسے اکابرین شعروادب کی آراء ہیں۔ ان سبھی نے اظہر عنایتی کے فن کا اعتراف کیا ہے۔ سچ پوچھئے تو مجھے ان میں سب سے اچھی رائے وزیرآغا کی محسوس ہوئی اور اسی پر اس تبصرے کو تمام کرتا ہوں۔وہ لکھتے ہیں:
”میں اظہر عنایتی کے اشعار پڑھ کر حسرت اور حیرت کی کیفیت سے آشنا ہوا۔ اس نے غزل کی بنی بنائی کھائیوں سے باہر نکل کر اپنے ماحول کو دیکھا ہے۔ وہ بیشتر نئے غز ل کاروں کی طرح بالا بالا اُڑنے کا کرتب نہیں دکھاتا۔ وہ تو زمین اور اس کے مظاہر اور معاملات کو رومانیت کے حنائی لمس سے روشناس کرکے اچھوتی اور انوکھی پیکر تراشی کرتا ہے۔“