اوقاف کی زمین اور مسلمان
تاریخی تناظر میں

افروز عالم ساحل

برٹش انڈیا میں جب اوقاف کی تباہی کا سلسلہ شروع ہوا اور انہیں ذاتی جائیدادوں کی طرح بیچا اور منتقل کیا جانے لگا تو انگریزوں نے ایک پالیسی کے تحت ان کو ختم اور ہڑپنا شروع کیا۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ 1873میں بمبئی ہائی کورٹ نے وقف علی الاولاد کے خلاف ایک فیصلہ صادر کیا گیا۔ 1894 میں پریوی کونسل نے اس فیصلے کی تصدیق کی۔ کلکتہ ہائی کورٹ میں بھی جب اسی قسم کا ایک مقدمہ پیش ہوا تو جسٹس امیر علی نے وقف بل کی حمایت میں فیصلہ دیا، لیکن ان کے ساتھی انگریز ججوں نے ان کے اس فیصلے کی مخالفت کی۔ انگریز ججوں کی اسی مخالفت نے ملک میں ایک وقف بل کی ترتیب کے لیے ماحول پیدا کر دیا۔ اس وقف بل پر ہندوستانی مسلمانوں میں بے چینی بڑھنے لگی، اسی درمیان 1910 میں مسلمانان ہندوستان کو ایک موقع ہاتھ آیا۔ سر علی امام حکومت ہند کے وزیر قانون مقرر ہوئے۔ انہوں نے اوقاف کے مسئلہ پر اپنے وکیل دوستوں سے مشاورت کی۔ پھر کیا تھا۔ کلکتہ کے مشہور وکیل خان بہادر مولوی محمد یوسف نے ایک وقف بل امپیریل کونسل میں پیش کیا، اس وقت تک بر عظیم ہند میں وقف علی الاولاد کا کوئی قانون موجود نہیں تھا۔

2 مارچ 1911 کو سر علی امام نے اس بل کو یہ کہتے ہوئے آگے بڑھایا کہ ’میری رائے ہے کہ اس بل کو پیش کرنے کے لیے منظوری دی جانی چاہیے۔ اس موضوع پر مسلم احساس بہت مضبوط ہے۔ پریویی کونسل کے اس فیصلے کے بارے میں جانا جاتا ہے کہ وہ وقف کے محمڈن قانون کو غلط سمجھتے ہیں۔۔ مجھے سخت خدشات ہیں کہ بل کو متعارف کرانے کے لیے روکنے والے سیکشن سے مسلمانوں میں کافی عدم اطمینان پیدا ہوگا۔‘ اس کے آگے بھی سر علی امام برٹش حکومت کے سامنے اس بل کی حمایت میں اپنی باتیں رکھتے رہے۔ آخرکار امپیریل کونسل نے اس وقف بل کو منظور کیا اور 7 مارچ 1913 کو ’مسلمان وقف ویلڈیٹنگ ایکٹ 1913‘ پاس ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ وقف بل امپیریل کونسل میں اس لیے بھی منظور ہو کر قانون بن گیا کیونکہ وہاں سر علی امام جیسا وزیر قانون موجود تھا جس کی تائید اس قانون کو حاصل تھی۔

بتادیں کہ ہندوستان میں وقف قانون کی تاریخ 1810 سے شروع ہوتی ہے۔ اس سے قبل اوقاف کی نگرانی حکومت کے ذریعہ مقرر کردہ قاضی کیا کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ زوال سلطنت مغلیہ کے بعد جب اوقاف کی حالت بدتر ہونے لگی تو فورٹ ولیم کلکتہ کے ماتحت علاقوں کے لیے ایک قانون سن 1810 میں پاس ہوا۔ 1817 میں ایک ایسا ہی قانون فورٹ سینٹ جارج، مدراس کے تحت آنے والے علاقوں میں نافذ کیا گیا۔ 1818 میں ایک قانون پاس ہوا، جس کے ذریعہ اوقاف کی نگرانی بورڈ آف ریونیو اور بورڈ آف کمشنرس کو دے دی گئی۔ 1863 میں پہلے کے تمام قانون منسوخ کر دیے گئے، مذہبی اوقاف کو متولیوں کے سپرد کر دیا گیا، بقیہ اوقاف حکومت کی ہی نگرانی میں برقرار رہے۔ دراصل اس قانون کے ذریعہ مذہبی اوقاف اور چیریٹبل اوقاف کے درمیان فرق پیدا کیا گیا۔ 1890 میں چیریٹبل اوقاف کے لیے ’چیریٹبل انڈؤمنٹ ایکٹ‘ کے تحت اوقاف کو ٹرسٹ شمار کیا گیا، جس کی وجہ سے ان کی دائمی برقراری کا تصور ختم ہوگیا۔

سر علی امام اور مہاتما گاندھی

سر علی امام کی اہمیت کا اندازہ گاندھی جی کے کئی خطوط سے بھی ہوتا ہے۔ گاندھی جی کے خط سے معلوم ہوتا ہے کہ سال 1909 کے ستمبر کے مہینے میں سر علی امام لندن میں تھے۔ گاندھی جی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں، ’نٹال کے لوگوں نے بیرسٹر علی امام سے ملاقات کی۔ امام صاحب نے مدد کا وعدہ کیا ہے۔ اگلے ہفتے وہ ٹرانسوال کے متعلق بھی کیفیت سنیں گے۔۔۔‘ گاندھی جی کا یہ مضمون 16 اکتوبر 1909 کو انڈین اوپینیئن میں شائع ہوا تھا۔

گاندھی جی 30 ستمبر 1909 کو لندن سے ایچ ایس ایل پولک کو لکھے گئے خط کے آخر میں لکھتے ہیں، ’علی امام اس وقت یہاں ہیں۔ میں ان سے کچھ دیر تک بات کرچکا ہوں۔ وہ مجھے بہت اچھے شخص لگے، وہ بالکل سادہ مزاج کے ہیں… آج ان کو ایک بھوج دیا جا رہا ہے۔ میں آپ کو اس سلسلے میں نکالی جانی والی معلومات کی ایک کاپی بھیج رہا ہوں۔ وہ یہاں سے پندرہ دن میں ہندوستان روانہ ہوجائیں گے۔ وہ یہاں اپنے بیٹوں کو آکسفورڈ میں داخل کرانے آئے تھے اور یہاں آنے پر لارڈ مورلے اور دیگر رہنماؤں سے خاص طور پر مسلمانوں کی نمائندگی کے سلسلے میں مل رہے ہیں۔ آپ براہ کرم اخبارات دیکھتے رہیں اور جیوں ہی وہ آئیں انہیں خط لکھیں۔ان سے آپ کو بہت بڑی مدد ملےگی۔‘

دراصل گاندھی جی نے اپنے متعدد مضامین اور خطوط میں سر علی امام کا ذکر کیا ہے اور زیادہ تر ان کی تعریف ہی کرتے نظر آئے ہیں۔

کانپور مسجد کانڈ اور سر علی امام

1913 کا سال ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے بڑی آزمائش کا سال تھا۔ یکم جولائی 1913 کو کانپور میں برٹش حکومت کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ایچ جی ایس ٹیلر نے گھڑ سوار فوج کی موجودگی میں مچھلی بازار میں مقیم ایک مسجد کی دیوار منہدم کر دی۔ انہدام کی یہ خبر پورے ہندوستان میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ ہر جگہ احتجاجی جلسے ہوئے اور حکومت کے خلاف غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔ اس سلسلے میں مولانا محمد علی جوہر نے بھی اتر پردیش کے گورنر سے خط و کتابت کی، لیکن ان سب کا کوئی خاص اثر نہیں پڑ رہا تھا۔ صوبہ اتر پردیش کی حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی۔ ایسے میں کانپور کے مسلمانوں نے 3 اگست 1913 کو ایک جلسہ عام عیدگاہ میدان میں منعقد کیا۔ اس جلسہ میں قریب پچیس ہزار افراد شریک ہوئے۔ جلسہ کے اختتام پر ایک جلوس مسجد کی جانب بڑھا۔ اس جلوس کی قیادت مولانا آزاد سبحانی کررہے تھے۔ لیکن اچانک اس خاموش و نہتے جلوس پر برٹش فوج نے بلا کسی سبب کے گولیاں برسادیں، جس میں 70 مسلمان شہید ہو گئے۔ مولانا آزاد سبحانی سمیت بے شمار مسلمانوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ پٹنہ کے مسٹر مظہرالحق نے اس مقدمے کی پیروی کی۔ آخر میں سر علی امام نے بحیثیت مشیر قانون وائسرائے ہند کو رائے دی کہ مقدمہ واپس لے لیا جائے۔ لارڈ ہارڈنگ کی معیت میں جائے وقوعہ کا معائنہ کیا۔ مسجد کی ٹوٹی ہوئی دیوار دیکھی اور مسلمانوں کے کشت و خون کی داستانیں سنیں، اس کے بعد وزیر قانون کی رائے سے اتفاق کیا۔ مسلمانوں کے خلاف مقدمات واپس لے لیے گئے۔ گرفتار شدگان رہا کردیے گئے۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ مسجد کی ٹوٹی ہوئی دیوار از سر نو تعمیر کر دی گئی۔ اس طرح سر علی امام کی دور اندیشی اور فراست نے ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک بڑی الجھن سے نجات دلا دی۔

حیدرآباد میں مسلم حکومت قائم رکھنا چاہتے تھے سر علی امام

سال 1919 میں سر علی امام حیدرآباد اسٹیٹ کے وزیر اعظم مقرر ہوئے۔ اسی سال مالابار کے موپلا مسلمانوں کی آزادی ہند کی تحریک کو حکومت ہند نے ہندو مسلم فساد میں تبدیل کروا دیا۔ اس فساد کے نام پر ہزاروں موپلا مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا۔ کئی لوگوں کو پھانسی دی گئی۔ اس دور میں موپلا مسلمانوں میں انتشار و بے چینی زیادہ پھیل گئی۔ اس وقت سر علی امام نے موپلا مسلمانوں کو حیدرآباد دکن میں آباد ہونے کی دعوت دی اور سینکڑوں خاندانوں کو لا کر نظام کی حکومت میں آباد کر دیا۔ حیدرآباد کی سلطنت میں موپلا مسلمانوں کو زمینیں دی گئیں، ان کے لیے مکانات تعمیر کیے گئے، ان کو آسامیاں مہیا کی گئیں اور ان کی آبادکاری کے لیے حکومت حیدرآباد نے ہر قسم کی سہولتیں مہیا کیں۔ سر علی امام کی اس حکمت عملی کے پس پردہ یہ فکر کار فرما تھی کہ حیدرآباد اسٹیٹ میں مسلم اکثریت کا قیام ایک عملی صورت اختیار کرلے۔ یہ ان کی اس اسکیم کی ابتدا تھی، جس کا مقصد حیدرآباد کی مسلم حکومت کے استحکام کو قائم و دائم رکھا جائے۔ وہ اس فکر کے حامل تھے کہ جب تک مقامی طور پر مسلمانوں کی اکثریت قائم نہ کردی جائے گی، اس وقت تک حیدرآباد کی مسلم حکومت کو قائم نہیں رکھا جا سکتا۔ حالانکہ سر علی امام کی اس اسکیم کی یہاں کچھ لوگوں نے مخالفت بھی کی، ان کے خلاف یہ شور بلند کیا گیا کہ وہ حیدرآباد میں غیر ملکیوں کی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔

مجلس اقوام میں ہندوستان کی نمائندگی

پہلی جنگ عظیم کے اختتام کے بعد جو پہلا بین الاقوامی ادارہ قائم ہوا، اس کا نام ’مجلس اقوام‘ رکھا گیا۔ اس کا مقصد عالمی برادری کو ایک مرکز پر سیاسی اور ثقافتی حیثیت سے مجتمع کرنا تھا۔ ساری دنیا کے ممالک نے اپنا نمائندہ اس مرکزی ادارے کے لیے منتخب کیا۔ 1920 میں اس مجلس اقوام کے لیے ہندوستان کی حکومت نے سر علی امام کا انتخاب بر عظیم ہند کے نمائندے کی حیثیت سے کیا۔ سر علی امام پہلی مسلمان شخصیت تھے جنہوں نے مجلس اقوام میں ہندوستان کی نمائندگی کا فرض ادا کیا۔ یہ بڑا ہی عظیم اعزاز تھا جو اس دور میں کسی ہندوستانی مسلمان کو حاصل ہوا۔

سر علی امام نے وائسرائے ہند کے فرائض بھی انجام دیےسر علی امام عظیم آباد پٹنہ کے موضع کرائے پر سرائے میں نواب امداد امام کے گھر 11 فروری 1869 کو پیدا ہوئے۔ تعلیم آرہ ضلع اسکول اور اس کے بعد پٹنہ کالج میں ہوئی۔ 1887 میں بیرسٹری کی تعلیم کے لیے انگلینڈ گئے اور جون 1890 میں بیرسٹری کی سند لے کر ہندوستان واپس ہوئے۔

1907 میں مسلمانان ہند کے سیاسی مطالبات کو لے کر ایک وفد حکومت ہند کے سامنے پیش ہوا، اس وفد کے ترجمان سر علی امام تھے۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ یہ مسلمانان ہند کا پہلا وفد تھا جس نے برٹش حکومت کے سامنے اپنے مطالبات پیش کیے اور تاریخی حیثیت سے سرزمین ہند میں سر علی امام پہلی شخصیت ہیں جس نے مسلمانان ہند کے مطالبات کی ترجمانی کی اور ان کے حقوق کے لیے تحفظات طلب کیے۔ اسی سال یعنی 1907 میں کلکتہ ہائی کورٹ میں حکومت کے وکیل مقرر ہوئے۔ 1910 میں حکومت ہند کے وزیر قانون بنے اور اس عہدہ پر 1915 تک فائز رہے۔ اس کے بعد وائسرائے ہند کی ایگزیکیٹیو کمیٹی کے نائب صدر بنے۔ کچھ دنوں کے لیے جب لارڈ ہارڈنگ انگلینڈ چلا گیا تو سر علی امام نے وائسرائے ہند کے فرائض بھی انجام دیے۔ وہ پہلے ہندوستانی تھے جس نے کچھ دنوں تک وائسرائے کی حیثیت سے ہندوستان کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں سنبھالی۔ 1917 میں پٹنہ ہائی کورٹ کا جج مقرر کیا گیا، لیکن جج کے عہدے پر وہ زیادہ دنوں تک فائز نہیں رہے بلکہ کچھ دنوں کے بعد خود سے مستعفی ہوگئے۔ 30 اکتوبر 1932 کو علم و دانش اور سیاست و تدبر کا یہ مہرِ درخشاں ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply