خاکِ کاشغر(سنگیانگ،چین) کے اویغور علماء سے ملاقات

( اویغور قوم کی مختصر تاریخ )

از:مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے

نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر

بچپنے سے ہی شاعر مشرق علامہ اقبال رح کا یہ شعر سنتا رہا، اس کا سر سری مفہوم جو ذہن میں آیا وہ یہ تھا کہ اتحادِ ملت کے یہ نقیب پوری دنیا کے مسلمانوں کو اسلامی مقدسات کی حفاظت دفاع کے لیے متحد ہونے کی دعوت دے رہے ہیں؛ نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر کی تعبیر مغرب تا مشرق تک کی؛ بلکہ پوری دنیا کی عکاسی کے لیے ہے. عالمی پس منظر میں ایسی ہی تعبیر ہے، جیسے ہندوستان کے پس منظر میں کہتے ہیں کشمیر سے کنیا کماری تک. مقصد پورے ملک کی عکاسی کرنا ہوتا ہے۔

اویغور قوم کی مختصر تاریخ
اویغور قوم کی مختصر تاریخ

کاشغر علامہ اقبال کے مطابق عالم اسلام کا آخری خطہ ہے۔

یہ خطہ اگرچہ اب زیادہ مشہور نہیں رہ گیا ہے ، لیکن جس علاقے میں” کاشغر” واقع ہے، کئی لحاظ سے اسے اب بھی بڑی شہرت حاصل ہے۔

"کاشغر” چین کے سنگیانگ کے خطہ کا ایک شہر ہے،۔
سنگییانگ وہ خطہ ہے، جس میں اویغور قوم بستی ہے، میڈیا میں آئے دن اویغور مسلمانوں کا اور چینی حکومت کی طرف سے ان پر روا رکھے جانے والے مظالم کا بڑا چرچا ہوتا رہتا ہے،لیکن عام صورت حال یہ ہے کہ اویغور اور سنگیانگ کے الفاظ بہتوں کے لیے اجنبی الفاظ محسوس ہوتے ہیں، اور ان دونوں کے بارے میں مستند معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

ہمارے دوست مولانا شیخ سلیم الدین خلیفہ زید مجدہم اور ہمارے کرم فرما حضرت مولانا محمد صابر نظامی قاسمی زادت حسناتہم نے کئی مواقع پر اس عاجز سے اس سلسلے میں معلومات بھی حاصل کیں اور اس موضوع پر ایک مفصل مضمون لکھنے کا بھی اس عاجز کو حکم فرمایا۔

اللہ کی شان گذشتہ دنوں اس عاجز کا” الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین، دوحہ ،قطر” کی دعوت پر جمعیۃ عمومیہ کے اجلاس اور اس موقع پر دوحہ کے ساحل خلیج عربی پر واقع ” ہوٹل شیراٹن” میں منعقد "طوفان الاقصی” کانفرنس اس کے علاوہ دیگر دو موضوعات پر منعقد عالمی کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا، ان کانفرنسوں میں دنیا کے نوے سے زائد ممالک کے علماء، اسکالرس اور مشائخ و دانشوران کی شرکت ہوئی. دنیا کے چھ بر اعظم سے تعلق رکھنے والے شرکاء میں الگ الگ رنگ ونسل اور شکل وشباہت اور لباس و پوشاک رکھنے والے تھے. ان میں سے حسبِ موقع متعدد نمایاں اور ممتاز شخصیات سے ملاقات استفادہ اور تبادلہ خیال کا مواقع ملے . اس سفر میں ایک خاص موقع پر چینی نقش ونین اور اپنے انڈیا کے شمال مشرقی پہاڑی علاقوں نیپال یا تبت سے ملتی جلتی شکل و شباہت رکھنے والے چند علماء سے تعارف ہوا.

دوران گفتگو پتہ چلا کہ یہ حضرات اویغور نسل سے تعلق رکھتے ہیں، یعنی یہی حضرات میڈیا کے ایغور مسلمان ہیں؛ جو چین کی ریاست سنگیانگ سے تعلق رکھتے ہیں. یہ حضرات فی الحال ترکی میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں. قبل سے ہی ایغور مسلمانوں کے بارے میں جاننے کی جستجو تھی. اس موقع کو میں نے غنیمت سمجھا. ان سے یہ تعارف مضبوط رابطہ میں تبدیل ہوگیا. ان سے خصوصی ملاقات کی ترتیب بنائی گئی. اس خاص ملاقات میں ان کے بارے میں اور ان کے وطن اور ان کی قوم کے بارے میں بیش قیمت معلومات حاصل کی گئیں ۔

ان اسکالرس سے اویغور مسلمانوں کے بارے میں جو تفصیلات حاصل ہوئیں؛ انھیں میں نوٹ کرتا گیا؛ ان کے علاوہ انٹرنیٹ اور دیگر ذرائع سے بھی معلومات حاصل ہوئیں؛ ان مفصل معلومات کو مضمون کی شکل میں احباب کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے بڑی مسرت ہورہی ہے۔

کاشغر” چین کے مغربی سرحد پر واقع ہے، سر حد کے اس پار پڑوسی ملک کا نام کرغزستان ہے. اسی کرغزستان کے مغربی سرحد پر پھیلے ہوئے خطے کا نام” وادئ فرغانہ” ہے، جو مغل فرماں روا ظہیر الدین بابر کا آبائی وطن ہے. اسی خطے کو مشرقی ترکستان بھی کہا جاتا ہے۔

فارسی کا ایک مشہور شعر ہے

ترسم کہ نرسی بہ کعبہ اے اعرابی!

کہ ایں رہ کہ تو میروی بہ ترکستانست.

اے دیہات کے رہنے والے مجھے اندیشہ ہے کہ تم اپنی منزل ( خانہ کعبہ، حرم شریف) تک ہرگز نہیں پہنچ سکوگے، اس لیے کہ تم جس راستے پر چل رہے ہو وہ ترکستان کی طرف جاتا ہے۔

اس شعر میں شیخ سعدی شیرازی نے کعبہ کے مخالف سمت کو ترکستان سے تعبیر کیا ہے۔

سنگ یانگ کو انگلش میں ( Xingjiang )لکھا جاتا ہے اور عربی میں "شنجاک” کہا جاتا ہے، چین کے شمال مغربی علاقے میں ایک دریا ہے، جسے چین کی سرکاری دستاویزات میں خودمختار لکھا گیا ہے۔ چین کے کل تینتیس صوبوں میں سنک یانگ کا یہ صوبہ رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا ہے ،اس کا علاقہ ڈیڑھ لاکھ مربع کلو میٹر سے زیادہ ہے، جس کے بعد تبت اور اندرون منگولیا کے علاقے ہیں۔ اس طرح صرف یہ تین صوبے چین کے مجموعی رقبے کا بیالیس فیصد ہیں۔

سنگ یانگ کی آبادی دو کروڑ ہے،جب کہ تبت کی آبادی تیس لاکھ اور اندرونی #منگولیا کی ڈھائی کروڑہے۔ اس طرح ان تین سب سے بڑے صوبوں کی آبادی مجموعی طور پر پانچ کروڑ سے بھی کم ہے. یعنی چین کے بیالیس فیصد رقبے پر اس کی صرف تین، ساڑھے تین فیصد آبادی مقیم ہے۔

لیکن آبادی کی قلت و کثرت سے قطع نظر سنک یانگ کا اصل مسئلہ اس کی خود مختاری کا مسئلہ ہے، کچھ زمانہ قبل یہاں صرف ایغور مسلمان ہی آباد تھے اور انہیں کی اس ریاست پر حکمرانی تھی؛ مگر بتدریج اس کی آبادی کے منظر نامہ کو بدلنے کی منظم پلاننگ کی گئی؛ اس منصوبے کے تحت پچھلے ستر سال میں چین کے دیگر علاقوں سے چینیوں کو لا کر یہاں آباد کیا گیا ہے، جس کے باعث اب سنک یانگ کی دو کرڑو آبادی میں؛ مسلمان آدھے سے بھی کم رہ گئے ہیں یعنی بہ مشکل ایک کروڑ۔سنکیانگ میں چین نے جب سے بڑے پیمانے پر ہان کمیونٹی کو بسانا شروع کر دیا ہے، جس سے اویغور اقلیت میں آگئے ہیں۔

اس کا رقبہ 1,664,897مربع کلومیٹر ہے۔اگر یہ مملکت بن جائے تو بہ لحاظ رقبہ دنیا کا آٹھواں بڑا ملک شمار ہوگا۔

اویغور 1500سال پہلے وسطی ایشیاء میں آباد تھے۔ آج وہ زیادہ تر چین کے اسی مغربی صوبے ژنگ جیانگ میں آباد ہیں۔جب دین اسلام وسطی ایشیا پہنچا تو آہستہ آہستہ ترک اس نئے دین کے شیدائی بن کر مسلمان ہو گئے۔آٹھویں صدی میں ایغوروں کی اکثریت نے بھی اسلام قبول کر لیا۔یہ ترک بہت پُرجوش اور متحرک مسلمان بن گئے اور دل وجان سے اسلامی تہذیب ثقافت کو قبول کیا . سنگ جیانگ کا صوبہ ہر زمانہ میں متمدن ثقافت اور اسلامی تہذیب کا حامل رہا ہے، یہ خطہ وسطی ایشاء کے مسلم عہد کے وقت "چھوٹا بخارا” کہلاتا تھا۔
اس کی انتہائی شاندار تاریخ رہی ہے۔

رفتہ رفتہ ترکوں کے کئی خاندان وجود میں آ گئے۔ان میں بعض منگولیا سے نکل کر وسطی ایشیا ہجرت کر گئے۔جو ترک خاندان جنوبی سنکیانگ آباد ہوئے،انھیں ایغور کہا گیا۔اسی طرح وسطی ایشیا سے لے کر اناطولیہ(ترکی)تک بسنے والے ترک خاندان اپنے اپنے علاقوں کی مناسبت سے مختلف ناموں سے موسوم ہوئے۔

جب چنگیز خان کی زیرقیادت منگول عالم اسلام پر حملہ آور ہوئے تو ایک ترک شہزادے، جلال الدین خوارزم شاہ نے ان کا بھرپور مقابلہ کیا اور مختلف معرکوں میں شکست دی۔جلال الدین تمام مسلم حکمرانوں کو منگولوں کے خلاف متحد کرنا چاہتے تھے؛ مگر ذاتی و گروہی مفادات میں گھرے مسلم حکمران فروعی اختلافات سے بلند نہ ہو سکے۔ شہزادہ جلال الدین بھی ایغور ترک تھے۔بعد ازاں اوغوز ترک قبیلے کے ایک سردار،سلیمان شاہ کے بیٹے #ارطغرل غازی نے بھی مسلم حکمرانوں کو متحد کرنا چاہا تو انھیں جزوی کامیابی ملی۔اور ان کے صاحبزادے محمد #عثمان سلطنت عثمانیہ /خلافت عثمانیہ کی بنیاد ڈالنے میں کامیاب رہے.

سنکیانگ کو مشہور سِلک روٹ کی مرکزی چوکی ہونے کے ناطے شہرت حاصل ہے اور یہ چین کے سیاحوں کو بھی اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔

سنکیانگ کا علاقہ چاروں طرف سے بلندوبالا پہاڑی سلسلوں میں گھرا ہوا ہے، جن کے درمیان میں دَرّے ہیں۔وسط میں صحرااور جنگل ہیں۔

قراقرم،پامیر،قن لن اور تیان شان سلسلہ ہائے کوہ کے بلند وبالا پہاڑ سنکیانگ کے ماتھے کا جھومر ہیں۔یہ علاقے میں جابجا پھیلے ہیں۔درمیاں میں صحرائے تکلامکان اپنی شان دکھلاتا ہے۔ان قدرتی مظاہر کے باعث سنکیانگ میں صرف10فیصد زمین قابل رہائش ہے۔اسی علاقے میں انسان کھیتی باڑی بھی کرتے ہیں۔۔دیگر بڑے شہروں میںکاشغر، تورپان،ینگ،کرامے نمایاں ہیں۔

اس قدرتی ماحول نے ایغوروں کو جفا کش اور سخت جان بنا دیا۔حتی کہ چینیوں کو جرات نہ ہوئی کہ وہ ان کے علاقے پر حملے کر سکیں۔ایغوروں کے سردار ہی طویل عرصہ علاقے پر حکمرانی کرتے رہے۔بدقسمتی سے سولہویں صدی کے بعد سرداروں میں اتحاد ویک جہتی نہ رہی۔اس باعث علاقے میں کئی چھوٹی ریاستیں وجود میں آ گئیں۔

صدیوں سے اس علاقے کی معیشت زراعت اور کاروبار پر مرکوز رہی ہے۔ یہاں کاشغر جیسے قصبے معروف سِلک روٹ کے مرکز ہیں۔
اس علاقہ پرمتعدد خاندانوں کی حکومت رہی؛ بالآخر 1878میں چینیوں کے کنٹرول میں آگیا۔ژنگ جیانگ خاندان نے 1884میں اس کانام ژنگ جیانگ رکھ دیا۔ جس کے معنی ہیں : نیا صوبہ
بیسوی صدی کے آغاز میں کچھ عرصے کے لیے اوغروں نے خود کو آزاد قرار دیدیا تھا، لیکن کمیونسٹ چین نے 1949 میں اس علاقے کو مکمل طور پر اپنے قبضے میں لے لیا۔

سنکیانگ کا دارالحکومت ” ارومچی” ہے ، جو پہلے ” ڈیہوا” کے نام سے جانا جاتا تھا، ایک بیان میں چینی حکومت کے ترجمان نے صحافیوں کو یہ حیران کن خبر دی کہ سنکیانگ میں ’’24ہزار‘‘مساجد واقع ہیں۔گویاہر530 مسلمانوں کے لیے ایک مسجد ہے۔ یہ دنیا بھر میں فی کس کے لحاظ سے مساجد کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔

1949 میں عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے بعد بیجنگ میں کمیونسٹ حکومت نے اپنے بھرپور وسائل کے لئے اس خطے کا استحصال کرنا شروع کردیا اور وہاں کی چینی آبادی کوبڑے پیمانے پر ژنگ جیانگ میں نقل مکانی کرنے کی سہولت فراہم کی۔چین کی جبر کی پالیسی کے تحت ایغور مسلمانوں کوامتیازی سلوک کا نشانہ بنایا گیا۔

رسوں کے شدید معاشی استحصال، معاشرتی امتیاز اور مذہبی اخلاق اور روایتی ڈھانچوں کی زبردست تباہی نے علیحدگی پسندی کے رجحانات کوفروغ دیا. جس کی وجہ سے 1980 سے1987 کے درمیان ایغور مسلمانوں نے چین کے خلاف مظاہرے کئے۔ ان مظاہروں میں اس وقت شدت پیدا ہوئی جب سوویت یونین کا خاتمہ ہوا اور اسلامی قوتوں کو افغانستان میں اقتدار حاصل ہوا۔

ایغور مسلمانوں نے 1990کے اوائل میں مشرقی ترکستان کی ریاست کے قیام کے لئے ایک زبردست احتجاجی تحریک شروع کی۔ ان ہنگاموں میں مسلمانوں کے جانی نقصان کے ساتھ ساتھ کچھ پولیس اہل کاروں کی ہلاکت بھی ہوئی، جس کے بعد چین نے ان مظاہروں کو بغاوت اور مذہبی سرگرمیوں کو روکنے کے لئے ظلم وستم کی راہ اختیار کی۔ ایغوروں پر بڑھتا ہوا دباؤ 2009 کی بغاوت کا سبب بنا، جس میں تقریباً 400 سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ 1989میں تیان مین اسکوائر سانحہ کے بعد سب سے خونریز بدامنی دیکھنے میں آئی۔جس کے نتیجے میں 3500سے زیادہ ایغوروں کو گرفتار کیا گیا۔

چین کے مغربی صوبہ سنکیانگ میں انتظامیہ ’ہان‘ ذات کےچینی افراد پر مشتمل ہے اور مقامی اویغور برادری کے ساتھ ان کے تنازعے کی ایک طویل تاریخ ہے۔
اویغور مسلمان ثقافتی اور مذہبی لحاظ سے خود کو وسطی ایشیائی ممالک کے قریب سمجھتے ہیں۔

اس سے قبل، اپریل کے آغاز میں، سنکیانگ میں حکومت نے نام نہاد اسلامی شدت پسندوں کے خلاف مہم کے تحت اویغور مسلمانوں پر نئی پابندیاں عائد کی ہیں۔
ان میں ‘غیر معمولی لمبی داڑھی اور عوامی جگہوں پر نقاب پہننے سے منع کرنا شامل ہے۔

سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت کی پالیسیوں نے آہستہ آہستہ کسانوں کی مذہبی، اقتصادی اور ثقافتی سرگرمیاں ختم کردی ہیں۔ وہاں اقلیت مسلم کمیونٹی سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ قران اور نماز میں استعمال ہونے والی دیگر اشیا کو حکومت کے دفاتر میں جمع کرائیں۔

بیجنگ حکومت پر یہ الزام ہے کہ اس نے 1990 میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد سنکیانگ میں ہونے والے مظاہروں، اور 2008 میں بیجنگ اولمپکس سے پہلے مقامی لوگوں کے خلاف کاروائیاں تیز کر دیں۔

گزشتہ ایک دہائی کے دوران زیادہ تر اہم اویغور رہنماؤں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے۔ کچھ فی الحال جلا وطنی کی زندگی گذار رہے ہیں؛ جن میں دوحہ میں ہم سے ملنے والے یہ ایغور علماء بھی شامل ہیں۔

بیجنگ حکومت پر یہ بھی الزام ہے کہ اس علاقے میں اس کے اپنے مبینہ مظالم کو صحیح ٹھرانے کے لیے وہ اویغور علیحدگی پسندوں کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔

سنکیانگ میں صنعتی اور توانائی کے منصوبوں میں بہت بڑی سرکاری سرمایہ کاری ہوئی ہے اور چین ان کو ہی اپنی بڑی کامیابیوں کے طور پر گنوانے کی کوشش کرتا ہے۔

لیکن بہت سےاوغروں کی شکایت کی ہے کہ ہان ان کی ملازمتوں پر قبضہ کررہے ہیں اور ان کی زرعی زمینوں پر اصلاحات کے نام پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔

متعدد ایغور دانشوران کا کہنا ہے کہ کہ وہ سنکیانگ کے بجائے اس علاقے کو "مشرقی ترکمانستان” کہنا پسند کرتے ہیں
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق(OHCHR) کے دفتر نے گزشتہ سال طویل انتظار کی رپورٹ جاری کی جس میں چین کی جانب سے ایغور مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر روشنی ڈالی گئی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا کہ سنکیانگ میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی گئی ہیں، جہاں 10 ملین ایغور آباد ہیں۔

اقوام متحدہ کے سبکدوش ہونے والی انسانی حقوق کی سربراہ مشیل بیچلیٹ چلی کی سابق صدر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چین کی جانب سے چین کے شمال مغربی علاقے سنکیانگ میں ایغوروں اور دیگر مسلمانوں کی "من مانی اور امتیازی حراست” "انسانیت کے خلاف جرم” ہو سکتی ہے۔ یہ نسلی امتیاز کے خاتمے سے متعلق اقوام متحدہ کی کمیٹی(UNCERD) کی رپورٹ کے چار سال بعد سامنے آئی ہے کہ سنکیانگ میں 10 لاکھ سے زیادہ ایغوروں کو حراستی مراکز کے نیٹ ورک میں رکھا گیا ہے۔
سنکیانگ میں بڑے پیمانے پر ظلم و ستم، امتیازی سلوک اور جبری قید کی گئی ہے۔ ایغوروں کے علاوہ، دیگر نسلی ہوئی (چینی مسلمان)، قازق، ازبک، تاجک، تاتار، تہور اور روسی بھی حراستی مراکز میں بند ہیں، جب کہ دنیا اس سلسلے میں بالکل خاموش ہے۔ حراستی کیمپوں میں انہیں مبینہ طور پر جبری مشقت، جبری نس بندی اور اپنی ثقافت اور مذہبی شناخت کی تباہی کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سامنا ہے۔ یہ واقعی ایک انسانی بحران ہے!
سنہ2017 میں جاری ظلم و ستم کے دوران، اقوام متحدہ کے اندر بین الاقوامی تنظیموں نے چین پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کے سلسلے میں بہت کم کام کیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سنکیانگ کا دارالحکومت ارومچی، جو پہلے ڈیہوا کے نام سے جانا جاتا تھا، دنیا کا سب سے جدید ترین نگرانی کا نظام رکھتا ہے۔ ہر شخص اتھارٹی کے ریڈار کے تحت 24/7 ایک ہائی ٹیک سی سی ٹی وی نیٹ ورک کے ساتھ آڈیو آلات کے ساتھ ہے تاکہ وہ گلی کے کونوں اور ہینگ آوٹ پر جو بات چیت کرتے ہیں اس کی جاسوسی کر سکے۔

اقوام متحدہ انسانی حقوق کمیشن نے کہا کہ سنکیانگ میں حکومت کی جانب سے "انسداد دہشت گردی اور انسداد ‘انتہا پسندی’ کی حکمت عملیوں” کے اطلاق کے تناظر میں "انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی گئی ہیں”۔

9 اکتوبر 2022 کو مغربی ممالک امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور دیگر نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں ایک قرارداد پیش کی جس میں چین کے خود مختار علاقے سنکیانگ کے ایغور مسلمانوں پر 2017 سے کمیونسٹ حکومت کے ہاتھوں ڈھائے جانے والے ظلم و ستم پر بحث کی تجویز پیش کی گئی۔ بدقسمتی سے، قرارداد کو 47 رکنی کونسل نے ووٹوں کے معمولی فرق سے مسترد کر دیا۔ اس تجویز کے حق میں 17 اور خلاف میں 19 ووٹ ملے جبکہ 11 ارکان نے ووٹ نہیں دیا۔
اس تردید کی دنیا بھر میں مذمت کی گئی اور انسانی حقوق کے اداروں اور کارکنوں نے اسے انصاف کی دھوکہ دہی قرار دیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس ووٹنگ سے صرف ایک ماہ قبل ہی اقوام متحدہ نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ چین کی جانب سے ایغوروں کو من مانی طور پر حراست میں رکھنا انسانیت کے خلاف جرائم کا درجہ رکھتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ انسانی حقوق کونسل کے فیصلے سے مجرموں کو تحفظ حاصل ہوا۔

واضح رہے کہ چینی حکومت نے تقریباً 10 لاکھ ایغوروں کو حراستی کیمپوں میں رکھا ہوا ہے جسے چین پیشہ ورانہ مہارت کے تربیتی کیمپ کا نام دیتا ہے۔ ان کیمپوں میں اویغوروں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور انہیں اسلام ترک کرنے اور چین کی کمیونسٹ پارٹی سے وفاداری کا عہد کرنے، کمیونزم کو تسلیم کرنے اور مینڈارن سیکھنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

اویغور اپنے خلاف معاشی اور ثقافتی امتیازی سلوک سے پہلے ہی ناخوش تھے۔ ۔ 2014 کے بعد سے، چینی حکومت نے ایغوروں کے خلاف آمریت کے استعمال کی وکالت شروع کردی۔ نقاب اور لمبی داڑھی پر پابندی کا قانون نافذ کیا گیا۔ چینی حکومت نے ایغوروں کو "مذہبی انتہا پسندی کے زہریلے پن” سے خبردار کیا۔ ان کے نزدیک مذہب محض عوامی افیون ہی نہیں بلکہ ایک زہریلا مادہ تھا۔

2017 میں، چینی حکومت نے واضح طور پر خود کو ایغوروں کے خلاف کریک ڈاؤن کے لیے تیار کیا۔ ژی جن پنگ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے خفیہ تقریروں میں کہا تھا کہ ایغوروں کو ان کی اوقات دکھانے کی ضرورت ہے۔

چین کو چاہئے کہ وہ سنک یانگ اور تبت وغیرہ کے علاقوں میں مقامی لوگوں کی ثقافت، مذہب اور زبان کا تحفظ اور ترویج کرے۔ چین ایک کثیرالقومیتی ملک ہے جہاں کئی قومیتیں بستی ہیں جنہیں زبردستی اپنی شناخت بدلنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔

سوویت یونین نے ستر سال لوگوں کے ذہنوں سے زبردستی مذہب نکالنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ چین بھی ایسا نہیں کر سکتا۔ انتہاپسندی، بنیاد پرستی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ان سب کو ایک لاٹھی سے نہیں ہانکا جا سکتا۔ ہر ایک کو اپنے عقیدے پر قائم رہنے کا حق ہے بشرط یہ کہ وہ اپنا عقیدہ دوسروں پر مسلط نہ کرے اور نہ ہی تشدد کا راستہ اپنائے۔ یہی راستہ بہتر ہے۔

چین میں ایغور مسلمانوں کے علاوہ ایک اور مسلمان طبقہ بھی بستا ہے جنہیں ہوئی کہا جاتا ہے۔ چین کی حکومت کو ہوئی مسلمانوں سے کوئی خاص مسئلہ نہیں، جنکی بہت سی وجوہات ہیں:

(۱) ہوئی مسلمانوں کی اپنی کوئی الگ زبان نہیں۔ یہ چینی زبان بولتے ہیں اور عام چینیوں سے زیادہ مختلف نہیں دکھتے۔

(۲) ان مسلمانوں نے ہمیشہ عام چینی شہریوں کیساتھ زندگی بسر کی ہے اور انکی کسی موقع پر بھی اپنی الگ ریاست نہیں رہی ، اور نہ ہی انہوں نے کبھی الگ ریاست کا مطالبہ کیا ہے۔

(۳) دین کی سمجھ بوجھ کے معاملے میں عام ہوئی ایغور مسلمانوں سے بہت پیچھے ہیں۔ میں ایسے ہوئی مسلمانوں سے بھی ملا ہوں جنہیں
سلام تک صحیح سے کہنا نہیں آتا اور قرآن پڑھنا تو بہت دور کی بات ہے۔

اس کے برعکس اویغور مسلمان اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں، الگ زبان بولتے ہیں اور ایک دور میں اپنی الگ ریاست کے مالک رہ چکے ہیں۔ اکثر
ایغور دین سے واقف ہیں اور بیشمار پریشانیوں کے با وجود دین پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

فی الوقت سرکاری طور پہ چین میں ہوئی مسلمانوں کی تعداد ایک کروڑ پانچ لاکھ بتائی جاتی ہے۔ ایغور مسلمانوں کی آبادی ایک کروڑ سے کچھ زیادہ ہے۔ بقیہ مسلم گروہوں میں قازق ترک(پندرہ لاکھ)،ڈونگ زیانگ (ساڑھے چھ لاکھ)،کرغز ترک(دو لاکھ)اور سالار(ڈیرھ لاکھ)نمایاں ہیں۔

غیر سرکاری ذرائع کا دعوی ہے کہ چین میں چھ تا آٹھ کروڑ کے مابین مسلمان بستے ہیں۔ایغور اور ہوئی مسلمانوں کے مابین تاریخی طور پر سب سے بڑا اختلاف یہ رہا ہے کہ بہت سے ایغور جنوبی سنکیانگ میں آزاد وخودمختار حکومت قائم کرنے کے خواہش مند رہے ہیں۔

مگر ہوئی مسلمان مرکزی چینی حکومت کے ماتحت زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ چین کے اویغور مسلمان اپنی شاندار تاریخ رکھنے والی، دینی غیرت وحمیت سے پُر اسلامی ثقافت تہذیب کے دلدادہ لوگ ہیں؛ انہیں چین کی لادین کمیونسٹ حکومت کے ظلم وجبر کا سامنا ہے، اور سیاسی اور ملی طور پر انہیں کرش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، لیکن صدہا آفریں کی مستحق ہے اویغور قوم جو اپنے ایمان وعقیدہ کو بچانے کے لیے ہر قسم کی جانی ومالی قربانیاں پیش کررہی ہے… اللہ تعالیٰ اویغور قوم کو ایمان وعقیدہ پر ثابت قدمی عطافرمائے، انھیں دشمنوں پر غلبہ عطافرمائے اور خیر کے مقاصد میں انہیں کامیابی عطا فرمائے آمین

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply