اگر اب بھی نہ جاگے تو

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

انتخاب سر پر سوار ہے،پوری دنیا کی نگاہ اس وقت ہندوستان پر لگی ہوئی ہے، مختلف پارٹیوں نے اپنے امید واروں کے ناموں کو آخری شکل دیدی ہے، جنہیں ٹکٹ ملا، وہ شاداں وفرحاں ہیں اور جنہیں نہیں ملا ان میں سے کچھ روپیٹ کر، گڑگڑا کر اپنی بربادی کا ماتم کر کے رہ گیے، کچھ نے احتجاج، دھرنے اور مخالفت میں نعرہ بازی کی راہ اپنائی، ان کے باغیانہ تیور سے سیاسی پارٹیاں پریشان ہیں، بغاوت کرنے والے دوسروں کے ساتھ ساتھ پارٹی سر براہان کے گھر کے لوگ بھی ہیں، گویا مخالفت اندر سے بھی ہورہی ہے اور باہر سے بھی۔

غریبوں کا سہارا لے کر کچھ خود رو پارٹیاں اور امیدوار بھی میدان میں ہیں، آثار یہی ہیں کہ حسب سابق ماضی کی طرح سیکولر کہے جانے والے ووٹ منتشر ہو جائیں گے، انتشار پارٹیوں ہی میں نہیں، ان کے نصب العین اور منشور میں بھی ہے، سیکو لر کہی جانے والی پارٹیوں کی شبیہ عوام میں یہی بنی ہے کہ یہ سب اپنے خاندان کو سیاست میں آگے لے جانا چاہتے ہیں، بیٹا،بیٹی، بہو، بھائی، بھابی بہنوئی کابول بالا ہے، بہن اور بہنوئی جو محروم رہ گیے انہوں نے گھر سے باہر اپنا الگ محاذ سنبھال رکھا ہے، اس موقع سے بڑے پیمانے پر آیا رام، گیا رام بھی خوب ہوا ہے، اور حسب سابق سیاسی پارٹیوں نے ٹکٹ دے کر اس رویہ کی حوصلہ افزائی کی ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ ہمارے رہنماؤں میں سیاست میں اخلاقی قدروں کے تحفظ کا احساس ختم ہوتا جا رہا ہے کسی بھی طرح کسی بھی قیمت پر اسمبلی اور پارلیامنٹ پہونچنے کی حرص وہوس شباب پر ہے، دوسری طرف مقابل پارٹی کا صرف ایک ایجنڈا ہندوتو اہے، جس کے سہارے وہ اس ملک کو ہندو راشٹربنانا چاہتی ہے، گو اس کا زکو دنیا کی واحد ہندو ریاست نیپال کے ہندو راشٹرنہ بننے اور آئینی طور پر اسے مسترد کرنے کے نتیجے میں سخت دھکا لگا ہے، لیکن اتنی مایوسی بھی نہیں ہے کہ اس نعرہ سے فرقہ پرست طاقتیں بازآجائیں، دوستانہ مقابلے اور ووٹوں کو گول بند کرنے اور مقصد کے حصول کے لیے نت نئے تجربے آزمائے جارہے ہیں۔

ہر پارٹی اپنے ماڈل کی بات کر رہی ہے، کوئی بہار کو گجرات ماڈل بنانا چاہتا ہے اور کوئی یوپی ماڈل، بہار میں ممبئی کی چکاچوند لانے کی بات بھی کہی جا رہی ہے اور ان نعروں میں ’’بہاریت‘‘کہیں گم ہوتی جا رہی ہے، ’’بہاریت‘‘ کا مطلب علاقائی تعصب نہیں، اس کا مطلب بہار کے مفادات سے ہے،بہار کی اپنی تہذیب ہے، اپنے مسائل ہیں، اپنی ضرورتیں ہیں، اپنا جینے کا انداز ہے اور ترقی کے اپنے منصوبے ہیں، یہ نہ گجرات ماڈل سے پورا ہونے کو ہے اور نہ یوپی ماڈل سے، خصوصا جب ان ماڈلوں میں مسلمانوں کی نسل کشی اور سینکڑوں فسادات میں بہے خون، ماؤں بہنوں کی لٹتی عصمتیں، نیزوں پر اچھالے گیے بچے، ان کا ؤنٹر (Incounter) کے نام پر قتل کیے گیے جوان، خاکستر دکانیں، قید وبند کے نام پر جیلوں میں سڑ رہے بے قصور لوگ اور ان سب کی کربناک چیخیں کانوں میں گونج رہی ہوں، گودھرا، سورت، برودرہ، مراد آباد، مظفر نگر،بھاگل پور،دہلی اور اس جیسے کتنے قصبات وشہر اس خونی تاریخ کے گواہ ہوں، ایسے میں رائے دہندگان نہ گجرات ماڈل کی طرف جائیں گے، نہ یوپی ماڈل کو پسند کریں گے، بلکہ اس ماڈل کے ذکر پر انہیں بھاگل پور بھی نظر آئے گا اور اس کے قصور وار بھی ذہنوں میں گردش کریں گے، یقینا یہ ماڈل بھی دوسروں سے الگ نہیں تھا، جہاں زمین میں سروں کے بونے کا کام کیا گیا تھا، اور فرقہ واریت کے شجر وثمر کی فصل لہلہا اٹھی تھی۔

ان حالات میں رائے دہندگان کو انتہائی ہوشیاری سے اپنی رائے کا استعمال کرنا چاہیے، بے خوف ہو کر و وٹنگ کے لیے گھر سے نکلنا چاہیے ووٹوں کا تناسب بڑھانا چاہیے کیونکہ فرقہ واریت سے متاثر پارٹیوں نے انتہائی منصوبہ بندی کے ساتھ اپنے مہرے بساط پر لگا دیے ہیں، اس منصوبہ بندی کا حاصل یہ ہے کہ اسی فی صد ووٹوں کو ایک خاص پارٹی کے نام پر گول بند اور متحد کر لیا جائے، پھر اسے ’’پول‘‘ بھی کروالیا جائے اور بیس فی صد ووٹ کو کسی بھی طرح کسی بھی قیمت پر منتشر کر دیا جائے،اس منصوبے کو انجام تک پہونچانے کے لیے ایک ذات اور ایک مذہب کے کئی کئی آزاد امیدوار کو میدان میں اتار دیا گیا ہے، انہیں کثیر رقم فراہم کرائی جا رہی ہے تاکہ ہارنے کے بعد بھی سالوں وہ اپنی معاش کے لیے محتاج نہ ہوں اور اگر تیز طرار ہوں تو آگے زیادہ ووٹ کاٹنے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کر لیں، ان سازشوں اور مکر جالوں سے کس طرح بچا جائے اور کس طرح ان سازشوں کو ناکام کیا جائے، وہ ہر حلقہ انتخاب کے لوگوں کو اپنے اپنے طور پر سوچنے کی چیز ہے، کیونکہ امید واروں کے اعتبار سے ہر حلقے میں حکمت عملی ایک نہیں ہو سکتی، اس حکمت عملی کی تشکیل سے ایک بات مشترک ہو سکتی ہے کہ سیکولرزم کا نعرہ لگانے والے جس حلقے میں جوامید وار جیتنے کی پوزیشن میں ہو، خواہ وہ کسی پارٹی کا ہو اور کسی نشان سے امید وار ہو، اس کو جتانے کی جد وجہد کی جائے اور ووٹ کاٹنے والے امید واروں کی اتنی حوصلہ شکنی کی جائے کہ آئندہ وہ اس قسم کی حرکتوں کے لیے حوصلے نہ جٹا پائیں، دوچار ایسے حلقے بھی ہو سکتے ہیں۔

جہاں کے امیدوار نے ایمانداری سے حلقہ میں ترقیاتی کام کیا ہوگا اور وہ حالات کی ستم ظریفی سے نمدہ کی طرح کسی کی دم سے لٹک گیے ہوں، ان کے کاموں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور انہیں بھی کامیاب کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ اس سے آئندہ ترقیاتی کاموں کے جاری رکھنے کا انہیں حوصلہ ملے گا، ہمیں ایسا اس لیے بھی کرنا چاہیے کہ انصاف کا تقاضہ یہی ہے، ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ کسی قوم کی دشمنی ہمیں نا انصافی پر آمادہ نہ کرے، ہمیں ہر حال میں انصاف کرنا چاہیے۔اور انصاف یہی ہے کہ جو لوگ قوم کے خادم کی طرح کام کرتے رہے ہیں۔ انہیں اس خدمت کا بدلہ دیا جائے۔

ہمیں خوب معلوم ہے کہ حکومتیں ایک ووٹ سے بنتی اور گرتی رہی ہیں، لیکن ہم اس خدشہ کے با وجود انصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑ سکتے، کیونکہ یہ اسلام کی بڑی خوبیوں میں سے ایک ہے۔ یقینا اسے امیدواروں کی تعداد برائے نام ہی ہوں گی ،جہاں تک مسلمانوں کی حصہ داری کا سوال ہے تو واقعہ یہ ہے کہ ہر پارٹی نے مسلمانوں کے ساتھ ٹکٹ دینے میں نا انصافی سے کام لیا ہے، اور انہیں نمائندگی نہیں دی گئی ہے۔،جب ٹکٹ ہی نہیں دیے گیے تو آبادی کے اعتبار سے انہیں جیتنے اورپارلیامنٹ میں جانے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے؛ بلکہ ماضی کی تاریخ بتاتی ہے کہ جو ٹکٹ مسلمانوں کو دیے جاتے ہیں، پارٹی عام حالات میں ان کی جیت کو یقینی بنانے کی جد وجہد نہیں کرتی اور کئی ایک کو شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں سب پارٹی کے مسلم امیدوار جن کی تعداد ناگفتہ بہ ہے مجموعی طور پر پارلیمنٹ نہیں پہونچ سکتے اور اگر تمام پارٹیوں کے مسلم امید وار جیت کر اسمبلی پہونچ جائیں تو بھی ان کا وزن محسوس نہیں کیا جائیگا۔

اس صورت حال پر مسلمانوں کو مایوسی کا سامنا ہے، جب ہم کوئی منصوبہ نہیں بنا سکتے، اقدام نہیں کر سکتے، ہمارے اندر ماننے کا جذبہ مفقود، اتحاد واتفاق معدوم، اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے نفسیاتی طور پر ہم مجبور ہوں تو ہمارے حصے میں مایوسی کے سوا اور کیا آسکتا ہے؛ بلکہ ایسی کمزور اور ضعیف قوم کے لیے تو مرگِ مفاجاۃ تک کی بات سامنے آتی ہے؛ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ایمان والے مایوس نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ اللہ کی رحمت سے نا امید ہوتے ہیں، شاعر نے کہا ہے ؎

وطن کی خاک ذرا ایڑیاں رگڑنے دے مجھے یقین ہے پانی یہیں سے نکلے گا

بعض مسلم تنظیموں نے سیاسی پارٹیوں میں سے کسی کو ووٹ دیں ،اس کے لیے سو سے زیادہ شرائط پارٹی سربراہوں تک پہونچانے کا کام کیا ہے ، جس کا کوئی نوٹس پارٹی والوں نے نہیںلیا اور وہ اپنی روش پر قائم ہیں، ایسے میں اچھی بات یہ ہے کہ ہر علاقہ میں ایسے امیدواروں کو ووٹ دیں ، جو مذہبی ، سماجی ، تہذیبی ، لسانی اور ثقافتی آزادی پر یقین رکھتے ہوں، عدل وانصاف پر مبنی سماج کی تشکیل اس کے منشور کا حصہ ہو، وہ نفرت کی دکان پر بات کرنے کے بجائے محبت وبقائے باہم کے اصول پر گامزن ہو اور مساوات کے ساتھ معاملہ کرنے کو تیار ہو ، ، پھر انتہائی شعور کے ساتھ کئی دعویداروں میں ایسے امیدوار کا انتخاب کریں جو جیتنے کا دعویدار نہیں، بلکہ متحد ہو کر ووٹنگ کرنے سے اس کے جیتنے کے امکانات واضح اور روشن ہوں، اس منصوبے اور مہم کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لیے ووٹوں کے تناسب کو بڑھانے کی ضرورت ہے، دیکھا یہ جا رہا ہے کہ مسلم ووٹرس ووٹ دینے کے لئے گھر سے باہر نہیں نکلتے، یقینی پتا ہے کہ ایک ایک ووٹ آپ کا جمہوری اور سیکولر قدروں کو مضبوط کرنے کے لیے پڑے، اپنی خواتین کو بھی شرعی حدود وقیود کے ساتھ ووٹ دینے کے لیے پولنگ بوتھ پر لے جائیں یہ اس وقت کی سب سے ڑی ضرورت اور ملی فریضہ ہے، اس ضرورت کا احساس سماج کے ہر فرد کو کرائیے ورنہ اگر اب بھی نہ جاگے تو۔۔۔

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare