بلقیس بانو کو انصاف

عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) نے گجرات سرکار کے ذریعہ بلقیس بانو کے مجرمین کی رہائی کے حکم کو رد کرکے بتا دیا ہے کہ گجرات سرکار کو یہ حق نہیں تھا کہ وہ ان گیارہ مجرمین کی رہائی کا حکم جاری کرے، جنہوں نے 3 مارچ 2002ءکو بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت دری کی تھی ، اس کے خاندان کے سات افراد کو قتل کر دیا تھا،جس میں بلقیس بانو کی تین سالہ بیٹی بھی شامل تھی ، خود 21 سال کی بلقیس بانو پانچ ماہ کی حاملہ تھی، یہ ایسا درد ناک واقعہ تھا جو گجرات فساد میںنسل کشی کا عنوان بن گیا تھا، 2004ءمیں ملزمین گرفتار کیے گیے ، 2018ءمیں خصوصی عدالت نے گیارہ مجرمین کو عمر قید کی سزا سنائی، مئی 2017ءمیں بمبئی ہائی کورٹ نے اس فیصلہ کو بر قرار رکھا، 15 اگست 2022ءکو گجرات سرکار نے معافی دے کر ان مجرموں کو رہا کر دیا،8جنوری 2024ءکو سپریم کورٹ نے گجرات سرکار کے فیصلے کو رد کرکے دو ہفتہ کے اندر مجرمین کو خود سپردگی کا حکم دیا ہے، پورے ملک نے اس فیصلہ کا خیر مقدم کیا ہے اور اسے حق وانصاف کی جیت قرار دیا ہے ۔
اس مقدمہ کا فیصلہ کرتے ہوئے جسٹس بی وی ناگر تھنا اور اُجل بھوئیاں نے گجرات حکومت کو سخت پھٹکار لگائی کہ اس نے اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کرکے یہ فیصلہ لیا، اسے اس طرح کا حکم صادر کرنے کا اختیار ہی نہیں تھا، اس قسم کا کوئی فیصلہ صرف گجرات حکومت لے سکتی تھی کیوں کہ اس کی سماعت مہاراشٹر ا میں ہوتی تھی اور وہی حکومت رہائی کا حکم دے سکتی تھی ، بینچ نے دفعہ 23 کے تحت بلقیس بانو کی عرضی کو قابل سماعت قرار دیا اور دفعہ 234 کی تشریح کے ضمن میں یہ ثابت کیا کہ گجرات حکومت کا یہ فیصلہ قابل اعتراض اور قانونی تقاضوں کے خلاف تھا، جسٹس بی وی ناگرتھنا نے مشہور فلسفی افلاطون کا یہ قول نقل کیا کہ ”منصف کی حیثیت ڈاکٹر کی ہوتی ہے جو مریضوں کی صحت یابی کے لیے کڑوی دوائیں تجویز کرتا ہے۔“
بلقیس بانو کے ہونٹوں پر کوئی ڈیڑھ سال بعد مسکراہٹ نظر آئی ، انہوں نے خود بھی اقرار کیا کہ ڈیڑھ سال کے بعد میں مسکرائی ہوں، جب سے مجرمین کو رہا کیا گیا تھا میں انتہائی کرب میں تھی، مجھے پھر سے ان مجرمین کی جانب سے خطرہ لاحق ہو گیا تھا، کیوں کہ کسی بھی مرحلہ میں مجھے حکومت کی جانب سے تحفظ فراہم نہیں کیا گیا، اور رہائی کے بعد ان کے حوصلے اس قدر بڑھ گیے تھے کہ وہ پھر سے کسی اور حد تک جا سکتے تھے، ان کے دو بارہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانے کے حکم سے مجھے انتہائی اطمینان اور سکون ملا ہے، اور یقین ہو گیا کہ انصاف ابھی زندہ ہے۔بلقیس بانو نے ان تمام لوگوں کا بھی شکریہ ادا کیا ہے، جو ان کی پشت پر مضبوطی سے کھڑے رہے اور ان کا حوصلہ بڑھایا، ان لوگوں میں خواتین بھی ہیں اور مرد بھی، یہ تعداد ہزاروں تک پہونچتی ہے، معلوم ہوا کہ فیصلہ یقینا ہمارے بس میں نہیں ہوتا لیکن مظلوموں کا ساتھ دے کر اسے کیفر کردار تک پہونچانے میں معاون تو بن ہی سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں
FacebookWhatsAppShare