بلڈوزر جسٹس
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
گذشتہ چند سالوں سے ہندوستان میں سزا کا ایک نیا طریقہ بی جے پی کے وزراء اعلیٰ نے ایجاد کیاہے ، اسے صحافتی زبان میں ’’بلڈوزر جسٹس‘‘ کہتے ہیں، نہ نوٹس، نہ کاغذات کی جانچ ، نہ عدالت اور نہ انصاف، ایف آئی آر درج ہو ااور متعلقہ شخص کو مجرم تسلیم کر لیا گیا اوربغیر کسی اطلاع کے بلڈوزر بھیج کر اس کے گھر کو منہدم کرا دیا گیا، اس طریقہ ٔ کار کو سب سے پہلے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے شروع کیا اور پھر یہ دھیرے دھیرے آسام ، مدھیہ پردیش، اتراکھنڈ وغیرہ میں تیزی سے رواج پا گیا، ہماچل پردیش میں کانگریس کی سرکار ہے، بی جے پی جانتی ہے کہ حکومتی سطح پر یہ ممکن نہیں ہے ، اس لیے ہنگامے کراکر آر ایس ایس کے غنڈوں کے ذریعہ تحریک چلا کر وہاں بھی مسجد کے انہدام کی کاروائی کی کوشش کی جارہی ہے، چنانچہ شملہ کی سنجولی مسجد کے خلاف ہندو تنظیموں نے مورچہ کھول رکھا ہے، بغیر سرکاری اجازت کے جلوس نکالے جا رہے ہیں فرقہ پرست بابری مسجد کی طرح اسے اپنے ہاتھوں سے منہدم کرنا چاہتے ہیں، پولیس کی بریکنگ کو توڑ کر وہ آگے بڑھ رہے ہیں اور ایک دن تو بھیڑ اور مسجد کے درمیان صرف پچاس میٹر کی دوری رہ گئی تھی ، اس صورت حال نے وہاں قانون کی حکمرانی پر سوال کھڑے کر دیے ہیں، پولیس اور فرقہ پرستوں کے درمیان تشدد کی نوبت بھی آ رہی ہے۔ مسجد کو حکومت نے بند کروا دیا ہے۔
2؍ ستمبر 2024ء کو عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) کی دو رکنی بینچ نے بلڈوزر کے ذریعہ مکانات کے منہدم کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ صرف الزامات کی بنیاد پر گھروں کے گرانے اور جائیداد کے تہس نہس کرنے کی کاروائی کیوں کرکی جا سکتی ہے، جسٹس وشو ناتھن اور جسٹس بی آر گوئی نے کہاکہ جرم ثابت ہونے کے بعد بھی مکان ڈھانے کی کاروائی نہیں کی جا سکتی ، جج صاحبان نے کہا کہ اس کا مطلب سرکاری زمین پر غیر قانونی قبضہ کی حوصلہ افزائی نہیں، بلکہ غیر دستوری طریقۂ کار کو اپنانے سے ہے، اس مقدمہ کی اگلی سماعت 17؍ ستمبر 2024ء کو ہو گئ جس میں عدالت نے بلڈوزر کاروائی پر روک لگا دی ہے۔سڑک وغیرہ کو اس سے مستثنی قرار دیا ہے
واقعہ یہ ہے کہ اقلیتوں کو ڈرانے اور ہراساں کرنے کے لیے یہ کاروائی کی جا تی رہی ہے ، آپ کو یاد ہوگا کہ 21؍ اگست کو مدعیہ پردیش کے چھتر پور میں پولیس اسٹیشن پر پتھر بازی کے الزام میں چوبیس گھنٹے کے اندر ہی بیس ہزار اسکوائر فٹ میں تعمیر بیس کروڑ روپے کی لاگت سے بنی عمارت کو پولیس نے منہدم کر دیا ، جو گاڑیاں گھروں میں تھیں اسے بھی کچل کر برباد کر دیا گیا، اس طرح کے واقعات مختلف الزامات میں اُدے پور، مراد آباد ، بریلی، دہلی کے جہانگیر پوری ، گجرات اور اتراکھنڈ میں کثرت سے پیش آئے، ایک اندازہ کے مطابق اب تک 5ء 1؍ لاکھ مکانات اور عمارتیں بغیر عدالتی فیصلے اور نوٹس کے منہدم کی جا چکی ہیں،یہ در اصل انصاف کا قتل ہے جو حکومت کی زیر سر پرستی مختلف علاقوں میں کیا جا رہا ہے ۔
یہ انصاف کا قتل اس لے بھی ہے کہ مکانات کے انہدام سے خاندان کے سارے لوگ کھلے آسمان کے نیچے آجاتے ہیں، جن میں بے قصور عورتیں اور بچے بھی ہوتے ہیں، بھلا یہ کیسا انصاف ہے کہ ملزم تو ایک ہے اور اس کی سزا پورے خاندان کو دی جارہی ہے ، دستور ہند میں اس کی قطعا گنجائش نہیں ہے ۔