بٹلہ ہاؤس میں انکاؤنٹر کی کہانی
افروز عالم ساحل
19 ستمبر۔۔۔ آج بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کی 16ویں برسی ہے۔ اب جب میں اس انکاؤنٹر کو اپنے نظریہ سے دیکھتا ہوں تو لگتا ہے کہ اس معاملے میں اب تک صرف سیاست ہی ہوئی ہے۔ اس معاملے کے بعد گرفتار نوجوان اب بھی جیل کی سلاخوں میں بند ہیں اور ان کے اہل خانہ انصاف کی امید میں مارے مارے پھر رہے ہیں، اور ہم سب کو ان کی کوئی فکر نہیں ہے، بلکہ سچ کہے تو اس معاملے کو شاید ہم نے پوری طرح سے بھلا دیا ہے۔
مندرجہ ذیل رپورٹ میں نے سال 2021 میں لکھی تھی، اور مجھے نہیں لگتا کہ اس رپورٹ میں کسی تبدیلی کی ضرورت ہے، حالات اب بھی ویسے ہی برقرار ہیں۔ ہاں! بس میں نے اپنی اس رپورٹ کے پہلے پیرا میں 13 برس کو 16 برس کردیا ہے۔ اس کے علاوہ اگر کچھ بدلا ہے تو مجھے ضرور بتائیں۔
افروز عالم ساحل
بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر معاملہ کو 16 برس پورے ہوچکے ہیں۔ لیکن اس انکاؤنٹر کے بعد گرفتار کیے گئے درجنوں نوجوان آج بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ ان میں سے کئی لڑکوں پر ایک سے زائد مقامات پر مقدمے قائم کیے گئے ہیں۔ نچلی عدالتوں میں مقدموں کے سماعت کی جو رفتار ہے اس سے نہیں لگتا کہ اگلے کئی سالوں تک بھی وہاں سے کوئی فیصلہ آئے گا۔ جیلوں میں قید نوجوانوں کے افراد خاندان کے نزدیک ’انصاف‘ کسی تاریک سرنگ میں گم ہو گیا ہے۔ وہیں انسانی حقوق کے خود ساختہ ٹھیکیدار یا وہ مفاد پرست سیاست داں خاموش ہیں جنہوں نے دو معصوموں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر اپنا قد اونچا کرنے کی کوشش کی تھی۔ آج ان کے خوابیدہ ضمیر عیش وتنعم کے گلشن میں نقارہ نامردی بجوا کر تماش بین بنے ہوئے ہیں۔
ایک خاص بات چیت میں اعظم گڑھ کے سنجرپور میں رہنے والے سماجی کارکن طارق شفیق کہتے ہیں کہ 16 برس ہوچکے ہیں لیکن ابھی بھی زیادہ تر معاملے نچلی عدالتوں میں ہی زیر سماعت ہیں۔ سنوائی کی جو رفتار ہے، اس سے نہیں لگتا اگلے 16 برسوں میں بھی انصاف مل سکے گا۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ بچوں کی زندگی برباد ہو رہی ہے ان کے گھروں کے حالات بھی بڑے نازک ہو گئے ہیں۔ کئی والدین اپنے بچے کے صدمے میں اس دنیا کو الوداع کہہ گئے ہیں۔ انکاؤنٹر میں مارے گئے عاطف امین کے والد اور ان کے بھائی بھی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ اب گھر میں صرف ان کی ماں ہیں۔ وہیں اسی انکاؤنٹر میں مارے گئے محمد ساجد عرف چھوٹا ساجد کے والد بھی صدمے میں چل بسے ہیں۔ محمد سلمان کے دادا، اسی طرح عارف بدر، محمد عارض خان اور ابو راشد کے والد بھی صدمے میں اس دنیا سے چلے گئے۔ جتنے بھی بچے جیل میں بند ہیں ان میں زیادہ تر کے گھروں میں کوئی نہ کوئی صدمے کا شکار ہو کر چل بسا ہے۔
طارق شفیق یہ بھی کہتے ہیں کہ اس معاملے پر اب تک صرف سیاست ہی ہوئی ہے کئی لوگ اس کے نام پر رکن اسمبلی بن گئے جس کے بعد اب ان کو بھی ان معاملوں میں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔
سنجرپور کے حقوق انسانی کے کارکن مسیح الدین سنجری کا کہنا ہے کہ کئی معاملوں میں تو گرفتار کیے گئے نوجوانوں کو عدالت میں بھی پیش نہیں کیا جا سکا ہے۔ کئی معاملے ایسے بھی ہیں جن میں ملزموں کی گرفتاری تک نہیں دکھائی گئی جبکہ وہ برسوں سے عدالتی تحویل میں ہیں۔ جس رفتار سے مقدمہ چل رہا ہے اس سے تو یہی لگتا ہے کہ سنوائی میں ہی ان بچوں کی عمر ختم ہو جائے گی۔ یہ تو سسٹم کی ناکامی ہے اور تفتیشی ایجنسیاں سسٹم کی انہی خامیوں کا فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ ایسے میں نچلی عدالتوں سے کیا امید کی جا سکتی ہے۔ شاید یو پی الیکشن سے پہلے کچھ معاملوں میں فیصلہ آئے جیسا کہ ماضی میں ہوتا آیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر میں موہن چند شرما کی موت کا معاملہ ہائی کورٹ میں گیا ہے، لیکن وہاں ابھی تک کوئی سنوائی نہیں ہوئی ہے۔ یاد رہے کہ اس معاملے میں دہلی کی نچلی عدالت نے دو نوجوانوں کو سزا کا مستحق قرار دیا ہے۔
ایڈووکیٹ محمد شعیب ایک خاص بات چیت میں کہتے ہیں کہ اس ملک میں ’اسٹیٹ اسپانسر دہشت گردی‘ اس لیے شروع کی گئی کہ ملک کے مسلمانوں کو ڈرا دھمکا کر رکھا جائے تاکہ ملک کے اہم مسائل سے عوام دور رہیں۔ مرکز میں حکومت چاہے کسی کی ہو سب کی یہی کوشش رہی ہے۔ مسلم نوجوانوں کو ایک ساتھ کئی کئی معاملوں میں پھنسا دیا جاتا ہے تاکہ وہ زیادہ عرصہ تک جیل میں رہیں اور ان کا حوصلہ پوری طرح سے ٹوٹ جائے۔ اگر وہ ایک معاملے میں جلدی بری بھی ہو جائے تو دوسرا چلتا رہتا ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ اگر عدالتوں میں پیروی قاعدے سے ہو تو یقیناً انصاف ملے گا۔ اگرچہ آج کل بعض جگہ ججوں میں بھی فرقہ پرستی نظر آنے لگی ہے۔ لکھنؤ کے این آئی اے اسپیشل کورٹ میں ایک جج صاحب کا یہ تبصرہ کہ ’صرف وکیل ہی نہیں، جج بھی غنڈے ہوتے ہیں‘ کتنا بھیانک ہے۔ اگر ایسے جج کے ہاتھ میں اس طرح کے معاملے آجائیں تو ان کا فیصلہ کیا اور کیسا ہو گا اس کا اندازہ آپ لگا سکتے ہیں۔
گجرات کی سابرمتی جیل میں قید ضیاء الرحمٰن کے والد عبدالرحمن کی یادداشت اب کمزور پڑنے لگی ہے لیکن اس کے باوجود ان کو پورا یقین ہے کہ عدالت ان کے بیٹے کے دامن پر لگے دہشت گردی کے داغ کو ایک نہ ایک دن ضرور دور کرے گی۔ خیال رہے کہ عبدالرحمٰن کو بھی بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کیس میں گرفتار کیا گیا تھا لیکن تین ماہ بعد انہیں رہا کر دیا گیا۔ اس دوران انہیں ان کی نوکری سے معطل کر دیا گیا۔ عدالت نے جب انہیں سال 2017 میں تمام الزامات سے بری کیا تو انہیں عدالت کے حکم پر پوری تنخواہ ملی۔ واضح رہے کہ ان پر جعلی دستاویزات کے ذریعے انڈین مجاہدین کے ’دہشت گردوں‘ کو کرائے پر فلیٹ دلانے کا الزام تھا۔ وہ کچھ برس پہلے اتر پردیش کے پی ڈبلیو ڈی محکمہ سے ریٹائر ہوئے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اب میری یادداشت میرا ساتھ نہیں دیتی لیکن اس دن کو نہیں بھول سکتا جب میرے بیٹے کا نام بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کے ساتھ منسلک کیا گیا اور میں ہی اپنے ساتھ اسے تھانے لے گیا۔ پہلی بار پولیس نے کچھ نہیں کیا لیکن جب میں اسے دوسری بار تھانے لے گیا تو انہوں نے اسے اور مجھے دونوں کو گرفتار کر لیا۔ مجھ پر جو الزام لگے وہ سب عدالت میں غلط ثابت ہوئے۔ مجھے امید ہے کہ ایک دن میرا بیٹا بھی عدالت سے بے گناہ ثابت ہو گا۔
اتر پردیش کی سماجی وسیاسی تنظیم ’رہائی منچ‘ کے جنرل سکریٹری راجیو یادو کہتے ہیں کہ آج کی اپوزیشن پارٹی جو ماضی میں اقتدار پر تھی اسی کے دور میں بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر ہوا اور بے شمار مسلم نوجوان گرفتار ہوئے، وہی اپوزیشن آج یو اے پی اے کو ختم کرنے اور سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے ۔ تو ’ایسی سیاسی جماعتوں سے میری گزارش ہے کہ ان کو یہ بات صرف این ڈی اے کے دور حکومت میں گرفتار نوجوانوں کے لیے نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی جو نوجوان جیلوں میں ڈالے گئے ہیں ان کے لیے بھی کرنی چاہیے تبھی اس ملک میں انصاف زندہ رہ سکتا ہے‘۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ اگر کانگریس یہ سمجھ رہی ہے کہ یو اے پی اے کا استعمال غلط ہو رہا ہے تو ان کو اس ملک کو بتانا چاہیے کہ کیا ان کے دورِ اقتدار میں اس کا استعمال صحیح ہوا تھا؟ اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب کانگریس یو اے پی اے لا رہی تھی تب اٹل بہاری واجپئی سمیت بی جے پی نے اس کی مخالفت کی تھی۔ قانونِ بغاوت کی مخالفت شیاما پرساد مکھرجی نے یہ کہتے ہوئے کی تھی کہ غلام بھارت کا قانون آزاد بھارت میں نہیں ہونا چاہیے۔ یہی بات جن سنگھ اور بی جے پی کے لوگ کہہ رہے تھے جو لوگ اس وقت یو اے پی اے اور قانونِ بغاوت کی حمایت کر ر تھے آج وہ کہہ رہے ہیں کہ اس کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔
طویل گفتگو کے دوران راجیو یادو نے کہا کہ عدالت سے حصول انصاف میں بہت تاخیر ہو رہی ہے اور جب تک انصاف ملتا ہے تب تک انصاف کا مطلب نہیں رہ جاتا ہے کیونکہ اس وقت تک ان کا گھر خاندان سب کچھ تباہ ہو چکا ہوتا ہے۔ ہماری عدالتوں کو یو اے پی اے پر بہت گہرائی سے سوچنا چاہیے۔ آزاد بھارت میں اس طرح کا کوئی بھی قانون نہیں ہونا چاہیے جو کسی ایک خاص طبقہ کو نشانہ بنائے۔ آج ضروری ہے کہ ہماری عدالتیں یو اے پی اے کے تحت جیلوں میں بند لوگوں کے معاملوں کو سنجیدگی سے دیکھیں اور ان معاملوں کو فاسٹ ٹریک کورٹ میں لا کر مظلومین کو از جلد انصاف پہنچانے کے اقدامات کریں۔
کیا ہے پورا معاملہ؟
19 ستمبر 2008 کو دلی کے جامعہ نگر میں بٹلہ ہاؤس کے ایل 18 فلیٹ میں مبینہ طور پر پولیس ’انکاؤنٹر‘ کے دوران دو مسلم نوجوان عاطف امین اور محمد ساجد مارے گئے تھے۔ عاطف جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ایم اے ہیومن رائٹس کا طالب علم تھا جبکہ ساجد گیارہویں میں داخلہ کی تیاری کے لیے دلی آیا ہوا تھا۔ ان دونوں پر 2008 کے دلی سیریل بم دھماکوں کو انجام دینے کا الزام لگایا گیا اور کہا گیا کہ یہ انڈین مجاہدین کے رکن تھے۔ اس ’انکاؤنٹر‘ میں دلی پولیس اسپیشل سیل کے انسپکٹر موہن چند شرما کی بھی موت ہوئی تھی۔
اس کے بعد ملک میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ صرف اعظم گڑھ سے ہی انڈین مجاہدین کا ’دہشت گرد‘ بتا کر چودہ مسلم نوجوانوں کی گرفتاری ہوئی۔ ان کے نام ملک کے متعدد بم دھماکوں کے ساتھ جوڑ دیے گئے۔ وہیں اس معاملے میں سات نوجوانوں کو مفرور قرار دیا گیا، حالانکہ پانچ سال بعد اس فہرست میں محمد راشد، شرف الدین اور شاداب کے نام کے ساتھ یہ تعداد دس ہوگئی۔ ان تینوں کے خلاف این آئی اے نے سال 2012 میں ایک ایف آئی آر درج کی اور ان پر انسداد غیر قانونی سرگرمیوں کی دفعات لگائی گئیں حالانکہ ان کے ایف آئی آر میں کسی واقعے کا ذکر نہیں تھا۔ گرفتار نوجوان ابھی بھی ہندوستان کی مختلف جیلوں میں بند ہیں اور ان کے گھر والے انصاف پانے کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں۔
اعظم گڑھ سے گرفتار ان نوجوانوں کے ناموں کو 13 مئی 2008 کے جے پور سیریل دھماکے، 26 جولائی 2008 کو احمد آباد میں ہوئے دھماکے، سورت میں زندہ بموں کی بازیابی، 13 ستمبر 2008 کو دہلی دھماکے، 23 نومبر 2007 کو اتر پردیش کے وارانسی، فیض آباد اور لکھنؤ کی کچہریوں میں ہوئے سلسلے وار دھماکے اور 22 مئی 2007 کو گورکھپور گول گھر دھماکے سمیت کئی معاملوں میں جوڑ دیا گیا۔
خیال رہے کہ جئے پور میں کل آٹھ مقدمے الگ الگ چل رہے ہیں۔ مجموعی طور پر تقریباً 1200 گواہ ہیں۔ جانکاروں کے مطابق اب تک آدھے گواہ بھی پیش نہیں کیے جا سکے ہیں۔ مقدمات کی کارروائی کئی بار تعطل کا شکار ہو چکی ہے۔ وہیں احمد آباد کے تمام معاملات کو مستحکم کر کے سیشن ٹرائل نمبر 38/2009 کے تحت مقدموں کی سماعت جاری ہے۔ یہاں 3500 سے زائد گواہ ہیں۔ دہلی میں تقریباً ایک ہزار گواہ ہیں۔ کیرالا کے واگمن ٹریننگ کیمپ کیس، ارناکُلم میں کل 122 گواہ ہیں۔ لیکن ان تمام جگہوں پر گزشتہ تیرہ سالوں میں آدھے گواہ بھی نہیں سنے جا سکے ہیں۔
کیا کہتی ہے پوسٹ مارٹم رپورٹ؟
سال 2010 میں راقم الحروف کو قومی حقوق انسانی کمیشن کے ذریعہ آر ٹی آئی کے تحت فراہم کی گئی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں عاطف اور ساجد کے ساتھ انسپکٹر موہن چند شرما کی بھی رپورٹ تھی۔ رپورٹ کے مطابق عاطف امین (24 سال) کی موت شدید درد (Shock & hemorrhage) سے ہوئی اور محمد ساجد (17) کی موت سر میں گولی لگنے کی وجہ سے ہوئی تھی جبکہ انسپکٹر شرما کی موت کی وجہ گولی سے پیٹ میں ہوئے زخم سے بہت زیادہ خون بہنا بتائی گئی۔ رپورٹ کے مطابق تینوں لوگوں (عاطف، ساجد اور موہن چند شرما) کو جو زخم لگے ہیں وہ موت سے پہلے کے (Antemortem in Nature) ہیں۔
رپورٹ کے مطابق محمد عاطف امین کے جسم پر اکیس زخم تھے جن میں سے بیس گولیوں کے ہیں۔ عاطف امین کو کل دس گولیاں لگیں اور ساری گولیاں پیچھے سے (پیٹھ کی طرف سے) لگی تھیں۔ آٹھ گولیاں پیٹھ پر، ایک دائیں بازو پر پیچھے سے اور ایک بائیں ران پر نیچے سے۔ 2X1 سینٹی میٹر کا ایک زخم عاطف کے دائیں پیر کے گھٹنے پر تھا۔ رپورٹ کے مطابق یہ زخم کسی غیر دھار دار چیز سے یا رگڑ لگنے سے ہوا تھا۔ اس کے علاوہ رپورٹ میں عاطف کی پیٹھ اور جسم کے کئی حصوں میں خراشوں کا تذکرہ ہے۔ جبکہ ایک زخم میں سے جو بائیں کولھے کے پاس ہے دھات کا ایک تین سینٹی میٹر مادہ بھی ملا۔
محمد ساجد کے جسم پر کل 14زخم تھے۔ ساجد کو پانچ گولیاں لگیں اور ان سے بارہ زخم آئے تھے۔ جس میں سے تین گولیاں دائیں طرف پیشانی کے اوپر، ایک گولی پیٹھ پر، بائیں طرف اور ایک گولی دائیں کندھے پر لگی تھیں۔ محمد ساجد کو لگنے والی تمام گولیاں نیچے کی طرف سے نکلی تھی۔ جیسے ایک گولی جبڑے کے نیچے سے (ٹھوڑی اور گردن کے درمیان) سر کے پچھلے حصے سے اور سینے سے۔ ساجد کی رپورٹ میں کم از کم دو دھات کے مادے (Metalic Object) ملنے کا تذکرہ ہے جس میں سے ایک کا سائز 0.8X1 سینٹی میٹر ہے جب کہ دوسرا مادہ پیٹھ پر لگے زخم (GSW 7) سے ساجد کی ٹی شرٹ سے ملا ہے۔ اس زخم کے پاس 5X1.5 سینٹی میٹر لمبا کھال چھلنے اور خراش کا نشان بھی تھا۔ محمد ساجد کی پیٹھ پر درمیان میں سرخ رنگ کی 4X2 سینٹی میٹر کی خراش تھی۔ اس کے علاوہ دائیں پیر میں سامنے (گھٹنے سے نیچے) کی طرف 3.5X2 سینٹی میٹر کا گہرا زخم تھا۔ ان دونوں زخموں کے بارے میں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ زخم گولی کے نہیں ہیں۔ ساجد کو لگے کل چودہ زخموں میں سے رپورٹ میں سات زخموں کو انتہائی گہرا ( Deep Cavity) زخم قرار دیا گیا ہے۔
محمد عاطف امین کے جسم پر تقریباً تمام گولیاں پیچھے سے لگی ہیں۔ آٹھ گولیاں پیٹھ میں لگ کر سینے سے نکلی ہیں۔ ایک گولی دائیں بازو پر پیچھے سے باہر کی جانب سے لگی ہے جبکہ ایک گولی بائیں ران پر لگی ہے اور یہ گولی حیرت انگیز طور پر اوپر کی جانب جاکر بائیں کولھے کے پاس نکلی ہے۔ پولیس نے پوسٹ مارٹم کے تعلق سے چھپی خبروں اور اٹھائے جانے والے سوالات کا جواب دیتے ہوئے یہ بیان دیا تھا کہ عاطف گولیاں چلاتے ہوئے بھاگنے کی کوشش کررہا تھا اور اسے معلوم نہیں تھا کہ کتنے لوگ فلیٹ میں موجود ہیں لہٰذا کراس فائرنگ کی وجہ سے اسے پیچھے سے گولیاں لگیں۔ لیکن انکاونٹر یا کراس فائرنگ میں کوئی گولی ران میں لگ کر کولھے کی طرف کیسے نکل سکتی ہے؟ عاطف کے دائیں پیر کے گھٹنے میں 1.5×1 سینٹی میٹر کا جو زخم تھا اس کے بارے میں پولیس کا کہنا تھا کہ گولی چلاتے ہوئے وہ گر گیا تھا۔ پیٹھ میں گولیاں لگنے سے گھٹنے کے بل گرنا سمجھ میں آسکتا ہے لیکن ماہرین اس بات پر حیران ہیں کہ پھر عاطف کی پیٹھ کی کھال اتنی بری طرح سے کیسے اُدھڑ گئی؟
پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق عاطف کے دائیں کولہے پر سات سے چھ سینٹی میٹر کے اندر کئی جگہ رگڑ کے نشانات بھی پائے گئے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد پولیس کا بیان آیا کہ ساجد ایک گولی لگنے کے بعد گر گیا تھا اور وہ کراس فائرنگ کی زد میں آگیا۔ اس بیان کو گمراہ کن کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ ساجد کو جو گولیاں لگی ہیں ان میں سے تین پیشانی سے نیچے کی طرف ہیں جس میں سے ایک گولی ٹھوڑی اور گردن کے درمیان جبڑے سے بھی نکلی ہے۔ ساجد کے دائیں کندھے پر جو گولی ماری گئی ہے وہ بالکل سیدھی نیچے کی طرف آئی ہے۔ گولیوں کے ان نشانات کے بارے میں پہلے ہی آزاد فارنسک ماہرین کا کہنا ہے کہ یا تو ساجد کو بیٹھنے پر مجبور کیا گیا یا گولی چلانے والا اونچائی پر تھا۔ ظاہر ہے کہ دوسری صورت اس فلیٹ میں ممکن نہیں۔ دوسرے یہ کہ کراس فائرنگ تو آمنے سامنے ہوتی ہے نہ کہ اوپر سے نیچے کی طرف۔ ساجد کے دائیں پیر میں جو زخم ہے آخر وہ کیسے لگا؟ پشت اور جسم کے دوسرے مقامات پر خراش کے نشانات کیسے آئے؟
ساجد کے پیر کے زخم کے تعلق سے رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یہ کسی غیر دھار دار چیز (Blunt Force by object or surface) سے لگے ہیں، پولیس اس کی وجہ گولی لگنے کے بعد گرنا بتا رہی ہے لیکن کیا 3.5×2 سینٹی میٹر کا گہرا زخم فرش پر گرنے سے آسکتا ہے؟ پوسٹ مارٹم رپورٹ سے اس الزام کی توثیق ہوتی ہے کہ عاطف اور ساجد کو شہید کرنے سے پہلے بری طرح زد وکوب کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ آر ٹی آئی کے ذریعے بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر سے متعلق معلومات حاصل کرنے میں مجھے دو سال کا وقت لگ گیا۔ اس میں پوسٹ مارٹم رپورٹ سب سے اہم ہے۔ آر ٹی آئی کے ذریعے باہر آئی پوسٹ مارٹم رپورٹ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر پر کئی سوال کھڑے کرتی ہے۔ سب سے اہم سوال ایم سی شرما کی موت پر ہے۔ جو شخص گولی لگنے کے بعد اپنے پیروں پر چل کر چار منزلیں اتر کر نیچے آیا ہو اور کہیں بھی ایک قطرہ خون بھی نہ گرا ہو اور جو میڈیا کے رپورٹ کے مطابق شام پانچ بجے تک بالکل خطرے سے باہر ہو اس کی شام سات بجے اچانک موت کیسے ہو گئی؟
جہاں تک پوسٹ مارٹم رپورٹ کا تعلق ہے انسپکٹر موہن چند شرما کے بائیں کندھے سے دس سینٹی میٹر نیچے اور کندھے سے آٹھ سینٹی میٹر اوپر زخم کے باہری حصہ کی صفائی کی گئی تھی۔ موہن چند شرما کو 19ستمبر 2008 میں L-18 میں زخمی ہونے کے بعد قریبی اسپتال ہولی فیملی میں داخل کیا گیا تھا۔ انہیں کندھے کے علاوہ پیٹ میں بھی گولی لگی تھی۔ رپورٹ کے مطابق پیٹ میں گولی لگنے سے خون زیادہ بہہ گیا تھا اور یہی موت کا سبب بنا۔ اب پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ جب موہن چند شرما کو دس منٹ کے اندر طبی امداد حاصل ہو گئی تھی تو پھر حساس ترین مقامات (Vital part) پر گولی نہ لگنے کے باوجود بھی ان کی موت کیسے واقع ہو گئی؟
سوال یہ بھی ہے کہ موہن چند شرما کو گولی کس طرف سے لگی، آگے سے یا پیچھے سے؟ کیوں کہ اس طرح کی بھی آراء تھیں کہ شرما پولیس کی گولی کا شکار ہوئے ہیں۔ اس معاملے میں فارنسک ماہرین کا بھی جو بیان ہے وہ تشفی بخش نہیں ہے اور پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی اس کو واضح کرنے سے قاصر ہے، کیوں کہ ہولی فیملی اسپتال میں جہاں انہیں طبی امداد کے لیے لایا گیا تھا اور بعد میں وہیں ان کی موت بھی واقع ہوئی، ان کے زخموں کی صفائی کی گئی تھی۔ لہٰذا پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر حتمی طور پر یہ نہیں بتا سکے کہ یہ زخم گولی لگنے کی وجہ سے ہوا ہے یا گولی نکلنے کی وجہ سے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ انسپکٹر موہن چند شرما کو آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسس (ایمس) میں سفید سوتی کپڑے میں لپٹا ہوا لے جایا گیا تھا اور ان کے زخم پٹی (Adhesive Lecoplast) سے ڈھکے ہوئے تھے۔ رپورٹ میں واضح طور پر درج ہے کہ تفتیشی افسر (IO) سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ موہن چند شرما کے کپڑے فارنسک سائنس تجربہ گاہ میں لائیں۔ لیکن آج تک ایسا ہو نہ سکا۔ اس کی موت پر بے شمار سوالات ہیں جن کا جواب آج تک نہیں مل پایا ہے۔
سارے قاعدے قانون طاق پر
اب جہاں تک قومی انسانی حقوق کمیشن کا تعلق ہے اس طرح کے کیس میں پوسٹ مارٹم کی رپورٹ، ویڈیو گرافی رپورٹ کے ساتھ کمیشن کے دفتر کو بھیجی جاتی ہے لیکن ایم سی شرما کی رپورٹ میں صرف یہ لکھا ہے کہ زخموں کی تصویر پر مبنی سی ڈی متعلقہ تفتیشی افسر کے سپرد کی گئی جبکہ عاطف اور ساجد کی رپورٹ میں اس طرح کی کوئی بات نہیں کہی گئی۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی، موہن چند شرما کے بلٹ پروف جیکٹ نہ پہننے کے سوال پر قومی انسانی حقوق کمیشن کو دیے گئے جواب میں دہلی پولیس نے یہ دلیل دی تھی کہ پولیس افسروں کا اس علاقے میں بلٹ پروف جیکٹ پہن کر جانا مناسب نہیں تھا، اس سے علاقے کے لوگوں کو شک ہو سکتا تھا۔ پولیس کی یہ دلیل واقعی کافی دلچسپ ہے۔
راقم الحروف کے پاس موجود قانونِ حقِ اطلاعات کے تحت حاصل شدہ معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت نے ہر طرح سے اس ’انکاؤنٹر‘ کی حقیقت پر پردہ ڈالنے کا کام کیا ہے۔ آپ کو جان کر حیرانی ہو گی کہ جو قومی حقوق انسانی کمیشن دلی پولیس کو کلین چیٹ دے چکا ہے وہی اس انکاؤنٹر کو فرضی انکاؤنٹر کی فہرست میں رکھے ہوئے ہے، وہی تحریری طور پر یہ کہتا ہے کہ نہ وہ کبھی بٹلہ ہاؤس گیا نہ کبھی کسی سے بات کی۔
یہی کہانی دلی اقلیتی کمیشن کی بھی ہے۔ قانونِ حقِ اطلاعات سے حاصل شدہ معلومات کے مطابق دلی اقلیتی کمیشن نے بھی پانچ نومبر 2008 کو ایک فیکٹ فائڈنگ کمیٹی تشکیل دی تھی جسے اپنی رپورٹ پیش کرنے کے لیے ایک مہینے کا وقت دیا گیا تھا۔ لیکن افسوس کہ دلی اقلیتی کمیشن کی یہ انکوائری کبھی عمل میں نہیں آئی۔ نہ ہی دلی اقلیتی کمیشن نے بٹلہ ہاؤس کا دورہ کیا اور نہ ہی اس نے کسی سے بات کی اور نہ ہی کوئی رپورٹ پیش کی۔
اس کے آگے کی کہانی تو اور بھی دلچسپ ہے۔ اس انکاؤنٹر کے بعد پولیس اور میڈیا نے گلا پھاڑ پھاڑ کر یہ سنسنی پھیلائی تھی کہ دلی پولیس کو جہاد سے متعلق قابل مواخذہ دستاویز اور لٹریچر ملا ہے۔ لیکن قانونِ حقِ اطلاعات سے حاصل شدہ معلومات کے مطابق بٹلہ ہاؤس کے L-18 سے پولیس کے ذریعہ جمع کیے گئے پارسلز میں دوسری چیزوں کے علاوہ ایک کتاب ’پنچ تنتر‘ بھی برآمد ہوئی ہے اور ظاہر ہے کہ ’پنچ تنتر‘ کا تعلق نام نہاد جہادی لٹریچر سے نہیں ہے۔
انسپکٹر کے قتل کے الزام میں سزائے موت اور پپو کا چکر
بٹلہ ہاؤس میں ہوئے مبینہ انکاؤنٹر میں انسپکٹر موہن چند شرما کی موت کے معاملے میں دلی کی ساکیت کورٹ نے جولائی 2013 میں اپنے ایک فیصلے میں شہزاد کو انسپکٹر موہن چند شرما کا قاتل بتایا اور عمر قید کی سزا سنائی۔ وہیں مارچ 2021 میں اسی معاملے میں عارض خان کو موت کی سزا سنائی گئی۔
شہزاد کے فیصلے میں عدالت نے صاف طور پر کہا تھا کہ عدالت کے سامنے ایسا کوئی ثبوت نہیں آیا جس کی بنیاد پر شہزاد کو انڈین مجاہدین کا دہشت گرد سمجھا جا سکے۔ عدالت نے شہزاد پر پچاس ہزار روپے کا جرمانہ عائد کیا جبکہ عارض خان پر گیارہ لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا۔
کورٹ نے پولیس کی اس دلیل کو قبول نہیں کیا کہ شہزاد بم دھماکوں سے منسلک ہے۔ کورٹ نے پایا کہ اس پر اس سے پہلے ایک بھی کیس نہیں تھا۔ بم دھماکوں کے الزام میں بھی وہ اب تک مجرم ثابت نہیں ہوا ہے۔ کورٹ نے انڈین مجاہدین کے ساتھ اس کے تعلق کو بھی مسترد کر دیا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ شہزاد کے متعلق عدالت کے اس فیصلے کو ہی بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کے فرضی نہ ہونے کا ثبوت مان لیا گیا۔
عدالتی عمل پر تبصرہ کیے بغیر یہاں ہمیں کچھ حقائق پر غور کرنا چاہیے۔ مثلاً شہزاد کی سنوائی کے لیے عدالت کے سامنے پیش ہوئے گواہوں میں ایک بھی عام شہری یا واقعہ کا چشم دید نہیں تھا۔ ستر گواہوں میں سے زیادہ تر پولیس محکمے کے لوگ تھے۔
لیکن یہاں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ پپو کے ساتھ شہزاد کیسے جڑ گیا؟ یا پھر شہزاد کے نام کے ساتھ پپو کا نام جوڑا گیا؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے بٹلہ ہاؤس ’انکاؤنٹر‘ سے منسلک کچھ دستاویزات کھنگالنے ہوں گے۔
19 ستمبر 2008 کی صبح بٹلہ ہاؤس میں ہوئے ’انکاؤنٹر‘ کے جامعہ نگر پولیس اسٹیشن میں درج ایف آئی آر نمبر 208/8 کے مطابق دو مشتبہ دہشت گرد فرار ہونے میں کامیاب ہوئے تھے۔ ان میں ایک کا نام جنید اور دوسرے کا پپو درج ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق انکاؤنٹر کے دوران ہتھیار ڈالنے والے مشتبہ دہشت گرد محمد سیف نے ان دونوں کے نام پولیس کو بتائے۔ یہ ایف آئی آر 19 ستمبر 2008 کو ہی درج کی گئی تھی۔ یہاں شہزاد نام کے کسی مفرور دہشت گرد کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
23 اکتوبر 2008کو دہلی پولیس کے اس وقت کے ایڈیشنل کمشنر پولیس (ویجلینس) آر پی اپادھیائے کی طرف سے قومی انسانی حقوق کمیشن کے طریقہ کار شعبہ کے اسسٹنٹ رجسٹرار کو لکھے گئے خط میں فرار دہشت کا نام شاہنواز عرف پپو بتایا گیا۔ دہلی میں ہوئے 13 ستمبر 2008 کو ہوئے دھماکوں کی دہلی پولیس کے اسپیشل سیل کی طرف سے تیار تفتیشی رپورٹ میں بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کے دوران فرار دہشت گرد کا نام شہباز عرف پپو بتایا گیا ہے۔ اس رپورٹ پر دلی پولیس کے اسپیشل سیل کے جوائنٹ کمشنر کرنال سنگھ کے 19 نومبر 2008 کو کیے گئے دستخط ہیں۔
دہلی پولیس کی طرف سے قانونِ حقِ اطلاعات کے تحت راقم الحروف کو دی گئیں معلومات کے مطابق شہزاد عرف پپو نام کے مشتبہ دہشت گرد کو دلی پولیس نے 6 فروری 2010 کو پٹیالہ ہاؤس کورٹ کے احاطے سے گرفتار کیا تھا جبکہ ساکیت کورٹ کے فیصلے کے مطابق شہزاد عرف پپو کو یکم فروری 2010 کو لکھنؤ اے ٹی ایس کی طرف سے گرفتار بتایا گیا ہے اور اسی وقت پہلی بار شہزاد کا نام آیا۔ اسے فرار بتایا گیا تھا جبکہ اعظم گڑھ کے مقامی باشندوں کے مطابق وہ اپنے گھر پر ہی موجود تھا، کیونکہ اس کی گرفتاری اس کے گھر سے ہی ہوئی تھی۔ اس کےبعد شہزاد کو دلی پولیس کو سونپ دیا گیا اور اسے جنوب مشرقی دلی کے اے سی ایم ایم کے کورٹ میں پیش کیا گیا۔ پولیس شہزاد کی طرف سے گنگ نہر میں پھینکے گئے ہتھیار کو برآمد کرنے کے لیے اسے گنگ نہر بھی لے گئی لیکن ہتھیار برآمد نہیں کیا جا سکا۔
اب تک کی تفتیش سے یہ تو صاف ہو گیا کہ پپو پہلے شاہنواز بنا پھر شہباز اور آخرکار شہزاد بن گیا تھا۔ لیکن بٹلہ ہاؤس’انکاؤنٹر‘ میں پپو کے چکر کی کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ کیونکہ شہزاد کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ اسے کبھی کسی نے پپو کے نام سے پکارا ہی نہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ پپو کون ہے۔
ساکیت کورٹ کے فیصلے کے مطابق ایل-18 کی تلاشی کے دوران اے سی پی سنجیو کمار یادو نے شہزاد عرف پپو کا پاسپورٹ بھی ضبط کیا تھا۔ ساتھ ہی اس کے نام سے بنا ایک ای ریلوے ٹکٹ بھی ضبط کیا تھا۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب شہزاد کا پاسپورٹ اور اس کے نام کا ریلوے ٹکٹ ضبط کیا گیا تھا تو پھر پولیس کی تحقیقات کی رپورٹ میں شاہنواز اور شہباز کے نام کہاں سے آئے؟
یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ 19 نومبر 2008 کو آئی پی ایس ستیش چندر (خصوصی پولیس کمشنر، محکمہ نگرانی) کی طرف سے قومی انسانی حقوق کمیشن کو لکھے گئے خط میں ایل-18 سے ضبط کیے گئے دستاویزات اور سامان کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں لیپ ٹاپ، موبائل، سی ڈیز، انٹرنیٹ ڈیٹا کارڈ، پینڈرائیو، ڈیجیٹل ویڈیو کیسٹ، ٹوٹے ہوئے سم کارڈز، سائیکل بیرنگ، جعلی ووٹر آئی کارڈ، فرضی ڈرائیونگ لائسنس، ریزرویشن سلپ کا ذکر ہے لیکن پاسپورٹ ضبط کرنے کا ذکر نہیں ہے۔
ایسی ہی ایک اور رپورٹ میں جس پر کرنال سنگھ کے دستخط ہیں، ضبط شدہ اشیاء کا ذکر ہے۔ اس میں دھماکہ خیز مواد سے بھرے ٹب، اجئے کے نام سے بنائے گئے جعلی ووٹر آئی کارڈ، گھڑیاں، اسکریو ڈرائیور، پنسل سیل، ٹیپ، جلے ہوئے کپڑے، وہسکی کی بوتل، تعلیمی دستاویزات اور ایک ای ریلوے ٹکٹ کو جنوبی دلی پولیس کی طرف سے ضبط کیے جانے کا ذکر ہے۔ اس میں بھی پاسپورٹ کا ذکر نہیں ہے۔ ضبط شدہ ٹکٹ کے مطابق شہزاد احمد کو 24 ستمبر 2008 کو کیفیات ایکسپریس سے دلی سے اعظم گڑھ جانا تھا۔ تو کیا ٹکٹ پپو کے نام سے بنا تھا یا پاسپورٹ پپو کے نام سے بنا تھا؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر شہزاد کے نام کے ساتھ پپو کیسے جڑ گیا؟ یا پھر پپو کے ساتھ پہلے شاہنواز نام شامل کر دیا گیا، پھر شہباز نام شامل کر دیا گیا اور بالآخر شہزاد کر دیا گیا۔ اگر ایسا ہے تو پھر انسپکٹر موہن چند شرما کا قاتل کوئی شاہنواز یا شہباز بھی ہو سکتا تھا!
یہی نہیں، پولیس نے اپنی کہانی میں بتایا تھا کہ شہزاد کے پستول سے ایم سی شرما کی موت ہوئی تھی اور گولی مارنے کے بعد شہزاد فرار ہو گیا تھا۔ جبکہ بیلسٹک رپورٹ کے مطابق انسپکٹر ایم سی شرما کے جسم میں جو گولی پائی گئی تھی وہ اسی پستول سے چلی تھی جو موقع واردات سے ملی تھی۔ اب اگر شہزاد اپنی پستول لے کر فرار ہو گیا تھا تو ظاہر ہے کہ موقع واردات سے ملنے والی پستول اس کی نہیں تھی اور جبکہ بیلسٹک رپورٹ یہ واضح کر رہی ہے کہ موقع سے ملنے والی پستول کی گولی سے موت ہوئی ہے تو ظاہر ہے کہ شہزاد ایم سی شرما کا قاتل نہیں ہے۔
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ ہماری پولیس ہائی کورٹ میں کیا کہانی پیش کرتی ہے؟
اب 16 برسوں بعد جب میں اپنے نظریے سے اس ’انکاؤنٹر‘ کو دیکھتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ اس معاملے میں اب تک صرف سیاست ہوئی ہے۔ شرم کی بات یہ ہے کہ کانگریس کی حکومت میں سسٹم میں مضبوط گرفت رکھنے والے انسانی حقوق سے متعلق ادارے، قوم کے ٹھیکیدار اور ملی سیاسی رہنماؤں نے اس انکاؤنٹر کے بہانے اپنا قد بلند کرنے کی کوشش کی اور اب خاموش ہو کر بیٹھ گئے ہیں۔ جامعہ نگر علاقے کے دو لیڈر اسی بٹلہ ہاؤس ’انکاؤنٹر‘ کی وجہ سے ایم ایل اے بن گئے اور اب وہ بھی پوری طرح خاموش ہیں۔ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ بڑے بڑے انسانی حقوق کے کارکن اور وکیل انصاف تلاش کرنے کے بجائے بس مسئلے کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کا سیاہ پہلو یہ بھی ہے کہ دہشت گردی کے نام پر اگر مسلم نوجوان پولیس کی گولی کا شکار ہوئے تو انصاف دلانے کا وعدہ کرنے والے ’اپنوں‘ نے بھی دھوکا دیا ہے۔