بچوں کی تعلیم و تربیت میں سرپرستوں کا کردار
ڈاکٹر سراج الدین ندوی
اولاد اللہ کی بیش قیمت نعمت ہے۔ اولاد کے اچھے برے ہونے پر آپ کا،سماج کا، ملک کا اور خود اولاد کا مستقبل منحصر ہے۔ نالائق اولاد والدین اور سرپرستوں کی زندگی اجیرن کردیتی ہے۔ بڑھاپے میں سہاراہونے کے بجائے بوجھ بن جاتی ہے۔ ایسی اولاد سے انسان پناہ مانگنے لگتا ہے۔ اولاد کی نالائقی میں جہاں اس کے برے دوستوں اور برے ماحول کا رول ہوتا ہے وہیں اس کے والدین اور سرپرستوں کی بے توجہی، ناتجربہ کاری اور غیر اسلامی رویہ کا بھی دخل ہوتا ہے۔ عام طور پر ہم اپنی معاشی مصروفیات کے باعث اپنے بچوں کے لیے وقت نہیں نکال پاتے۔ اسکول یا مدرسہ میں داخل کرنے کے بعد مطمئن ہوجاتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ساری تربیت کا ذمہ اسکول اور مدرسہ کے اساتذہ کا ہے۔ مجھے تعجب ہوتا ہے جب والدین اسکول میں آکر شکایت کرتے ہیں کہ:”میرا بچہ میرا کہنا نہیں مانتا، یہ گھر پر نہیں پڑھتا،یہ اپنے چھوٹے بھائی بہنوں کو تنگ کرتا ہے، یہ گالیاں بہت دیتا ہے۔“ حالانکہ بچہ اسکول میں دن کے صرف پانچ سے چھ گھنٹے گزارتا ہے، وہ ایک سال میں صرف 240دن ہی اسکول آتا ہے۔ اگر ہم حساب لگائیں تو بچہ اسکول میں صرف چالیس دن رات کے مساوی رہتا ہے۔ دنیا کا کوئی ٹیچر اتنی کم مدت میں بچے کی اخلاقی تربیت کیسے کرسکتا ہے؟ معلوم ہوا کہ بچوں کی اخلاقی تربیت کی اصلاً ذمہ داری والدین ہی کی ہے۔ استاذ اور اسکول اس میں ان کی معاونت کرسکتے ہیں۔
والدین اور سرپرستوں کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ بچوں کی اہمیت کو سمجھیں، وہ جن معاشی سرگرمیوں کے باعث بچے کے لیے وقت نہیں نکالتے ان معاشی سرگرمیوں سے حاصل ہونے والا مال دراصل ان کے بچوں کا ہے۔جب بچے ہی بگڑ جائیں گے تو مال کمانے سے کیا فائدہ ہوگا۔ ہماری اصل دولت ہماری اولاد ہے۔ اگر یہ درست رہی تو ہمارا مستقبل درست رہے گا اور اگر اولاد ہی بگڑ گئی تو مال کچھ کام نہ آئے گا۔ ہمیں اپنے کاربار کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے وقت فارغ کرنا چاہئے۔ ماں چونکہ گھر میں رہتی ہے اور وہ بچے کا پہلا مدرسہ ہے اس پہلو سے اس کی ذمہ داری باپ سے زیادہ ہے، لیکن باپ کی بھی ذمہ داری ہے۔ بعض گھروں میں باپ قطعاً توجہ نہیں دیتے۔ آج کل کی مائیں بھی گھریلو کاموں کے بعد موبائل پر مصروف ہوجاتی ہیں، اس لیے ان کی توجہ کے بڑے حصہ سے بچہ محروم ہوجاتا ہے۔ دنیا کا ایک اصول ہے کہ ”انسان کچھ کھوکر ہی پاتا ہے۔“ اگر ہمیں اپنے بچوں کو اچھا بنانا ہے، ان کی دنیا اور آخرت کو کامیاب کرنا ہے تو ہمیں قربانی دینا ہوگی۔ بغیر قربانی دیے ہم اتنی اہم ذمہ داری ادا نہیں کرسکتے۔
ہم جانتے ہیں کہ بچہ جو کچھ دیکھتا ہے ویسا ہی کرتا ہے، بچہ جو سنتا ہی وہی بولتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ والدین اور گھر کے بڑے گالیاں دیں، اور بچہ ان گالیوں کو نہ دہرائے، ماں باپ اور بڑے بھائی بہن جھگڑا کریں اور بچہ پرامن رہے، آپ غیبت کریں اور بچہ نہ کرے، والدین کتاب کھول کر نہ دیکھیں بلکہ ٹی وی یا موبائل پر فلمیں اور سیریل دیکھیں اور بچہ کتاب اور مطالعہ کی طرف متوجہ رہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ ایک ورق پڑھیں گے تو آپ کا بچہ ایک سبق پڑھے گا۔ آپ اچھی زبان بولیں گے تو بچہ بھی اچھی زبان بولے گا۔ سوئے اتفاق بچہ گھر کے باہرسے اگر کوئی غلط لفظ سیکھ کر آئے گاتو آپ اس کو درست کرادیں گے، لیکن جب گھر کی زبان ہی بے حیائی بھری ہوگی تو باہر والے کیوں اصلاح کریں گے؟ اس لیے والدین کی ذمہ داری ہے کہ ہر اس بات سے اجتناب کریں جس سے وہ اپنے بچوں کو بچانا چاہتے ہیں۔
بچے کی شخصیت پر صحبت کا بہت اثر ہوتا ہے۔ والدین کی ذمہ داری ہے کہ بچوں کو اچھی صحبت فراہم کریں اور برے دوستوں سے انہیں بچائیں۔ اسی طرح بچے کی عزت نفس کا خیال رکھیں۔ اسے کسی کے سامنے نہ ڈانٹیں، دوسروں سے اس کی کمزوریاں نہ بیان کریں، بلکہ اس کی خوبیاں بیان کریں۔ اس کے عیوب کی پردہ پوشی کریں۔ لیکن اس کی برائیوں اور عیوب کی اصلاح کی تدابیر برابر اختیار کریں۔اگر غلطی پر تنبیہ کرنا آپ کی ذمہ داری ہے تو اچھے کاموں پر بچے کی حوصلہ افزائی کرنا اور اسے انعام دینا بھی آپ کی ذمہ داری ہے۔
بچوں کوخوب محبت اور پیار دیجئے۔ جن بچوں کو ماں باپ کا پیار نہیں ملتا ہے وہ عموماًبگڑ جاتے ہیں۔ آنحضور ﷺ بچوں سے بہت پیارکرتے تھے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ آپؐنماز پڑھ رہے ہیں اور حضرت حسنؓ اور حضرت حسین ؓ سجدہ کی حالت میں آپﷺ کی پیٹھ پر سوار ہوجاتے۔ آپؐ انہیں کچھ نہ کہتے بلکہ دیر تک سجدہ کرتے تاکہ بچے خوب مزہ لیتے رہیں۔(مسند احمد)
ایک بار حضرت اقرع بن حابسؓ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔آپؐ اس وقت حضرت حسنؓ کو پیار کررہے تھے۔ یہ دیکھ کر حضرت اقرع رضی اللہ عنہ کوبہت تعجب ہوا۔ بولے:”اے اللہ کے رسولؐ! آپ بھی بچوں کو پیار کرتے ہیں؟ میرے تو نو بچّے ہیں مگر میں نے کبھی کسی کو پیار نہیں کیا۔ ”پیارے نبیؐ نے حضرت اقرع کو دیکھا اور فرمایا:”اگر خدانے تمہارے دل سے رحمت وشفقت کو نکال دیاہے تو میں کیا کرسکتا ہوں۔“(بخاری و مسلم)
لیکن پیار میں بچوں کو بگڑنے نہ دیجئے۔ ضد اور ہٹ دھرمی کی عادت پیدانہ ہونے دیجئے۔ بچوں کو کبھی نہ چڑائیے اور نہ للچائیے کہ بچوں میں چڑ اور کھسیانہ پن پیدا ہوجائے۔ بچوں میں کوئی بری عادت نہ پڑنے دیجئے۔ مثلاً جھوٹ بولنا،چوری کرنا، دوسرے کی برائی کرنا۔ اگر ایسا محسوس کریں کہ کسی بچہ میں کوئی بری عادت پڑ رہی ہے تو اس کے اسباب کاپتہ لگائیے اور حکمت کے ساتھ اصلاح کی کوشش کیجئے۔
تمام بچوں کو ایک نظر سے دیکھئے۔ سب کے ساتھ یکساں برتاؤ کیجئے۔ کسی کے ساتھ ترجیحی سلوک روانہ رکھئے۔ ہمیشہ مساوات اور عدل وانصاف سے کام لیجئے۔ کسی بچے کے ساتھ امتیازی سلوک دوسرے بچوں میں نفرت ودشمنی، احساس کمتری اور مایوسی کا سبب بن سکتاہے اور آپ آخرت میں بھی مجرم قرار پاسکتے ہیں۔
ایک بار نبی کریم ﷺ تشریف رکھتے تھے کہ ایک شخص آکر آپؐ کے پاس بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد اس کا ایک بچہ اور ایک بچی آئی۔ اس نے بچے کو اپنی گود میں بٹھالیا اور بچی کو نیچے زمین پر۔ آپؐ نے یہ دیکھ کر اس آدمی کو مخاطب کرکے فرمایا:”جب تمہاری یہ بچی بے انصافی لے کر کل خدا کے سامنے آئے گی تو تم خدا کو کیا جواب دو گے۔“
ایک بار حضرت بشیرؓاپنے بیٹے نعمان ؓ کو لے کر آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا:”اے اللہ کے رسولؐ! میرے پاس ایک غلام تھا وہ میں نے اپنے اس لڑکے کو دے دیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے پوچھا: اے بشیر کیا تم نے اپنے ہر لڑکے کو ایک ایک غلام دیاہے۔ حضرت بشیرؓ بولے:”نہیں۔“ پیارے نبیؐ نے فرمایا:”اس غلام کو تم واپس لے لو، خدا سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان مساوات وبرابری اختیا ر کرو۔“ (بخاری ومسلم)
بچوں میں رقابت اوربدمزگی پیدا نہ ہونے دیجئے۔ اگرکبھی بچے لڑپڑیں تو ان میں صلح وصفائی کرادیجئے۔ اگر بچے آپس میں لڑپڑیں تو اپنے بچے کی بے جا حمایت نہ کیجئے۔ جس طرح آپ اپنے بچے کو معصوم سمجھتے ہیں، اسی طرح بچے کے دوسرے والدین بھی اپنے بچے کو معصوم سمجھتے ہیں۔ اگر دوسرے کا بچہ غلطی کرسکتا ہے تو آپ کا بچہ بھی غلطی کرسکتا ہے۔
بچوں کوملاقات،مجلس، گفتگو،کھانے پینے، چلنے پھرنے، دوسروں کو کوئی چیز پیش کرنے یا دوسروں سے کوئی چیز قبول کرنے کے مہذب طور طریقے سکھائیے۔ بڑوں کا نام ادب سے لینے اور ان کا ادب کرنے کی ترغیب دیجئے اور چھوٹوں پر شفقت کرنے کی عادت ڈالیے۔ کبھی کبھی اپنے احباب واعزہ کے یہاں بچوں کو اپنے ہمراہ لے جائیے۔ گھر پرمہمان آئیں تو ان کی خاطر تواضع میں بچوں سے مدد لیجئے۔
بچے کہانیاں اور قصے بہت غور اور دلچسپی سے سنتے ہیں اور بہت متاثر ہوتے ہیں اس لیے اخلاقی کہانیاں اور بزرگوں کے قصے سناکر ان کی اچھی تربیت کیجئے۔ ہر واقعہ ان کے دل ودماغ میں بیٹھ جاتا ہے اور وہ اس کو اپنی زندگی میں اتارنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بچے کی تعلیم کی منصوبہ بندی اس کی صلاحیتوں اور اپنی ضرورت کو دیکھ کر کیجیے۔ اس عمل میں اساتذہ سے بھی مشورہ کرلیجیے۔ اس کی تعلیم کی نگرانی کیجیے، ہر ماہ اس کے اسکول جائیے، اس کی فیس وقت پر ادا کیجیے، تعلیمی ضروریات کی تکمیل کو ترجیح دیجیے، آج اور کل پر نہ ٹالیے، اس رویہ سے بچے کی شخصیت اور تعلیم دونوں پر برااثر پڑتا ہے۔ اس کا رپورٹ کارٖڈ غور سے دیکھئے۔ کم مارکس آنے کی وجوہات کو جانئے۔ ان وجوہات کو دور کیجیے۔
بچے کی جسمانی صحت کی جانب بھی فکر مند رہئے۔ اس کو لنچ باکس میں گھر کا پکا ہوا کھانا دیجیے۔ کوشش کیجیے کہ وہ ٹھیلے کے پکوان سے دور رہے۔ اس کی پسند کی ڈشیز گھر پر ہی تیار کرادیجیے۔ فاسٹ فوڈ کے نام پر بازار کے کھانے صحت خراب کردیتے ہیں۔
مختصر یہ کہ بچوں کی بہترین تعلیم کا بندوبست کریں اور ان کی اچھی تربیت کریں تاکہ وہ اچھے انسان، بہترین شہری، سچے مسلمان بن سکیں۔ وہ آپ کے لیے دنیا میں آرام وسکون کا ذریعہ اور آخرت میں جہنم سے چھٹکارے کا سبب بن سکیں۔ یہی حکم ہمیں دیا گیاہے:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَکُمْ وَأَہْلِیْکُمْ نَاراً(تحریم:۶)”اے ایمان والو! اپنے آپ کواور اپنے اہل وعیال کو آگ سے بچاؤ۔“ آنحضورﷺ نے ارشاد فرمایا: باپ کا اپنے بچہ کوکوئی ادب سکھانا ایک صاع صدقہ سے بہتر ہے۔(مسلم)