بھارتی کرکٹ میں تکثیری سماج کی نمائندگی کیوں نہیں ہے؟
افتخار گیلانی
حال ہی میں بھارت نے امریکہ میں بین الاقوامی ٹی – 20 ٹورنامنٹ کے فائنل میں جنوبی افریقہ کو ایک اعصاب شکن مقابلے میں شکست دے کر چیمپین شپ اپنے نا م کر لی۔ جس طرح سے ٹورنامنٹ کی ابتدا سے ہی بھارتی ٹیم کھیل رہی تھی، وہ عالمی چیمپین بننے اور کپ اٹھانے کی یقینی طور پر حقدار تھی۔
کرکٹ ٹیم کے اس پندرہ رکنی اسکاڈ نے اپنی صلاحیت، لیاقت اور قابلیت کا لوہا منوا کر پورے ملک میں خوشی کی لہر دوڑا دی۔ سوال مگر یہ ہے کہ کرکٹ، جو اب حالیہ عرصے میں بالی ووڈ کی طرح بزنس اور تفریح سے لبریز ایک چکا چوند کے مرکب کے طور پر سامنے آیا ہے، اورجس کے کھلاڑی راتوں رات ارب پتی بن جاتے ہیں، آخر اس کی ٹیم کے اسکواڈ میں بھارت کی اکثریتی آبادی کو جگہ کیوں نہیں مل پاتی ہے ؟
اگر بھارت کی اس ٹیم کا جائزہ لیا جائے، جس نے ورلڈ کپ جیتا، تو پتہ چلتا ہے کہ پندرہ رکنی اسکواڈ میں سات اونچی ذات کے ہندو، تین مڈل کاسٹ یعنی دیگر پسماندہ ذاتوں (او بی سی) سے تعلق رکھنے والے، ایک دلت، دو سکھ، ایک مسلمان اور ایک مسیحی برادری سے تعلق رکھتے تھے۔
چند برس قبل بھی ایک جریدہ اکنامک اینڈ پولیٹکل ویکلی نے اپنی ایک تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ بھارتی ٹیسٹ کرکٹ کی نوے سالہ تاریخ میں کل 300کرکٹروں میں سے بس چھ یا سات ہی دلت یعنی نچلے طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے ٹیم میں ابھی تک جگہ بنائی ہے۔
یہ سچ ہے کہ کرکٹ میں سیلکشن ذات پات کی بنیاد کے بجائے صرف میرٹ پر ہونی چاہیے۔ مگر سوال ہے کہ پچھلے 70سالوں سے ملک کی اکثریتی آبادی کو زمینی سطح سے ہی اس پر تعیش کیریئر کے لیے تیار کیوں نہیں کیا جاتا ہے، جس میں پیسہ اور نام وافر مقدار میں دستیاب ہے؟
یا پھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا نچلی ذاتوں سے تعلق رکھنے والے کھلاڑیوں کو جان بوجھ کر نظر انداز کرکے ان کو قومی ٹیم میں شامل نہیں کیا جاتا ہے؟
موجود ٹیم میں سات اونچی ذاتوں کے کھلاڑیوں میں چار برہمن، دو ویشیا یعنی بنیا برادری سے اور ایک راجپوت ہیں۔ پچھلے نوے سالوں میں بھارتی ٹیم میں اعلیٰ ذاتوں کی شرح اپنی آبادی سے کہیں زیادہ رہی ہے۔ اب کچھ عرصے سے سوریہ کانت یادو، کلدیپ یادو، اکسر پٹیل وغیرہ کو موقع ملنے سے او بی سی کھلاڑیوں کو موقع مل رہا ہے۔
مگر عمومی طور پر آج بھی قومی ٹیم میں برہمن طبقے کی بالا دستی ہے، جو ہندوستان کی مجموعی آبادی کا بس 3.5 فیصد ہے؟ برہمن، چھتری (راجپوت)، ویشیا یا بنیا، جو ہندو آبادی کی اعلیٰ ذاتیں مانی جاتی ہیں، کل آباد ی کا صرف 15 فیصد ہیں اور کرکٹرز میں ان کا تناسب تو 90 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ موجودہ ٹیم کے پندرہ رکنی اسکاڈ میں بھی اونچی ذاتوں کا تناسب 46 فیصد سے اوپر تھا۔
چند برس قبل جب گجرات سے تعلق رکھنے والے دلت کھلاڑی یوزویندرا چہل نے ٹیسٹ کرکٹ میں پیش قدمی کی، تو ان کے سینئر ساتھی یوراج سنگھ ان کو ‘بھنگی’ کہا تھا جس کے بعد دلت سماجی کارکنوں نے پولیس میں ان کے خلاف شکایت کی اور اس کو ایک نسل پرستانہ اور تعصب سے بھر پور جملے سے تعبیر کیا۔
بعد میں یوراج سنگھ نے اس پر معافی مانگی۔ مگر یہ شاید عمومی فکر اور ذہن کی نما ئندگی کرتی ہے، جو کرکٹ جیسے چکا چوند کھیل میں کسی بھنگی کو برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔ حالانکہ بتایا جاتا ہے کہ صرف چھ دلت -پال وانکر بالو، ایکناتھ سولکر، کرسن گھاوڑی، ونود کامبلی، بھونیشور کمار اور اب یوزوندرا چہل ہی ہندوستان کی طرف سے بین الاقوامی کرکٹ کھیل چکے ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت میں وزیر اور دلت لیڈر رام داس آٹھوالے نے کئی برس قبل تجویز دی تھی کہ کرکٹ میں دلت کھلاڑیوں کے لیے اسی طرح کوٹہ رکھا جائے، جس طرح جنوبی افریقہ میں سیاہ فام کھلاڑیوں اور دیگر نسلوں کے لیے رکھا جاتا ہے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ کم از کم اکیڈیمی اور نچلی سطح کی کرکٹ میں اس طرح کا کوٹہ نافذ کردینا چاہیے۔ 2008 میں کرکٹ بورڈ کے سکریٹری نرنجن شاہ نے بھی جنوبی افریقہ کی طرز پر بھارت میں بھی کرکٹ میں کوٹہ سسٹم لاگو کرنے کی تجویز دی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹیم میں کم از کم سات کھلاڑی نچلے طبقات سے آنے چاہیے۔ مگر اس پر بورڈ میں ہی ہنگامہ برپا ہوگیا اور اس کو سرد خانہ میں ڈال دیا گیا۔
محقق سری وایام آنند کے مطابق کرکٹ کا کھیل برہمن کے رسم و رواج کے ساتھ عین مطابقت رکھتا ہے، کیونکہ اس کھیل میں دیگر کھیلوں کے برعکس دیگر کھلاڑیوں کو چھونا نہیں پڑتا ہے۔ بس گیند اور بلا ہی ایک دوسرے کو چھوتے رہتے ہیں۔
مشہور تاریخ دان اور مصنف رام چندر گہا نے ہندوستانی کرکٹ پر لکھی اپنی دو تصنیفات میں درج کیا ہے کہ جب برصغیر میں کرکٹ کی بنیاد ڈالی گئی تو کئی دلت کھلاڑی اس کا حصہ تھے۔ متحدہ ہندوستان کے پہلے بڑے کرکٹر اور مشہور بالر پال وانکر بالو، دلت تھے۔ وہ ایک چمار فیملی سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ 1875 میں کرناٹک کے دھارواڑ شہر میں پیدا ہوئے، مگر ان کی فیملی نے روزگار کی خاطر مہاراشٹرہ کے شہر پونہ ہجرت کی۔
وہ شہر کے جمخانہ کلب میں نوکری کرتے تھے کہ وہ ایک برطانوی افسر کی نظر میں آگئے اور نیٹ پریکٹس کے دوران اس نے ان کو گیند بازی کروانے پر متعین کیا۔ بس کیا تھا دیگر برطانوی افسران جو کرکٹ کھیلتے تھے، اپنی بلے بازی درست کروانے کے لیے ان سے بالنگ کرواتے تھے۔
ان دنوں شہر کی مقامی ٹیم، جو برہمن ٹیم کے نام سے موسوم تھی، برطانوی ٹیم کو ہروانے کی تگ ودو تھی۔ انہوں نے بالو کو ٹیم میں شامل کردیا۔ گو کہ فیلڈ میں وہ دیگر کھلاڑیوں کے ساتھ گھل مل جاتے تھے، مگر ڈریسنگ روم میں آنے یا دیگر ٹیم ممبران کے ساتھ کھانا کھانے کی ان کوممانعت تھی۔ ان کو چائے یا تو مٹی کے برتن میں دی جاتی تھی یا گھر سے ان کو اپنا کپ لانا پڑتا تھا۔
بالو کی دیکھا دیکھی اس کے دیگر بھائی شیوارام، گنپت اور ومل نے بھی کرکٹ کھیلنے کی شروعات کی۔ بالو اور شیوارام 1906 کی اس ہندوستانی ٹیم کا حصہ تھے، جس نے یورپی ٹیم کے ساتھ میچ کھیلا۔ بالو نے اس میچ میں آٹھ وکٹ لیے۔ مگر اس کار کردگی کے باوجود ان کو بعد میں ڈراپ کیا گیا۔ خدشہ تھا کہ وہ کہیں ٹیم کی کپتانی کی مانگ نہ کریں۔
احتجاج میں اس کے بھائیوں نے بھی کرکٹ کو خیر باد کہہ دیا۔ ایک بیان جاری کرتے ہوئے، انہوں نے کہا،’ان کی ذات کی وجہ سے ان کو تحقیر کا نشانہ بنایا جا رہا تھا اور اگر کرکٹ میں قابلیت سے زیادہ ذات کی اہمیت ہے، تو وہ اس سے کنارہ کشی کر رہے ہیں۔’
یورپ میں اپنی بالنگ کا لوہا منوا کر واپسی پر ڈپریسڈ کلاس ایسوسی ایشن نے بمبئی میں ان کے اعزاز میں استقبالیہ منعقد کیا، جس میں دلت رہنما ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے تقریر کی۔
مؤرخ رام چندر گہا نے اپنی کتاب ‘اے کارنر آف فارن فیلڈ’ میں ان کا موازنہ امریکی سپر اسپورٹ اسٹارز جیکی رابنسن اور محمد علی جیسے شہری آزادیوں کی تحریک کے ہیرو سے کیا ہے۔ بھارت کے اس عظیم کرکٹر پلوانکر بالو کو ان کی دلت شناخت کی وجہ سے فراموش کر دیا گیا ہے۔ اس کے بارے میں شاید ہی کوئی جانتا ہو۔ ان کے نام پر کوئی یادگار، مجسمہ یا ٹورنامنٹ ابھی تک نہیں رکھا گیا ہے۔
جیمز ایسٹل نے اپنی کتاب ‘دی گریٹ تماشا: کرکٹ، کرپشن، اینڈ دی سپیکٹاکولر ماڈرن انڈیا’ نے ایک اور دلت کھلاڑی وڈا گنیش کا ذکر کیا ہے۔ گنیش نے بھی 1990 کی دہائی میں ہندوستان کے لیے چار ٹیسٹ کھیلے۔ نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے ایک اور عظیم کرکٹر، جن کا تعلق ماہی گیر برادری سے تھا، ونود کامبلی تھے، جو کرکٹ لیجنڈ سچن تندولکر کے بچپن کے ساتھی تھے۔ ان دونوں کو رماکانت اچریکر نے تربیت دی تھی۔
کامبلی کے بارے میں، اچریکر کا کہنا تھا کہ وہ تندولکر سے زیادہ باصلاحیت ہیں۔ ان دونوں نے ہیرس شیلڈ اسکول ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ شراکت کا ریکارڈ قائم کیا تھا۔ کامبلی نے 349 بنائے اور 6 وکٹیں حاصل کیں، اور تندولکر نے 326 رنز بنائے۔ تندولکر نے ایک سال بعد بمبئی رنجی ٹیم کے لیے ڈیبیو کیا، اور کامبلی نے اس کے ایک سال بعد ڈیبیو کیا۔
تندولکر نے 1991 میں اور کامبلی نے 1993 میں ہندوستان کے لیے کھیل کی شروعات کی۔ کامبلی نے اپنے پہلے سات ٹیسٹ میچوں میں دو ڈبل سنچریوں سمیت چار سنچریاں بنائیں۔ اپنے 17 ٹیسٹوں کے بعد، کامبلی کی ویسٹ انڈیز کے خلاف بری سیریز تھی اور اسے ڈراپ کر دیا گیا۔ 2008 میں ایک انٹرویو میں کامبلی نے کہا کہ انہیں ان کی ذات اور رنگت کی وجہ سے ڈراپ کیا گیا تھا۔
سچن تندولکر کے اس ساتھی بلے باز ونود کامبلی نے محض تین سال ٹیسٹ کرکٹ کھیلی۔ مسلسل نظر انداز کرنے پر2000 میں انہوں نے کر کرکٹ کو الوداع کر دیا۔ان کا کہنا تھا کہ ڈریسنگ روم میں ان کو تحقیر کا سامنا کرنا پڑتا تھا، جس سے انکی کارکردگی متاثر ہوگئی۔ اعلیٰ ذات کے تندولکر کی کامیابی اور نچلی ذات کے کامبلی کی تنزلی، ہندوستانی کرکٹ اور بھارت کے سماجی نظام کے بارے میں بہت کچھ بتاتا ہے۔
بیسویں صدی کے اوائل تک کئی دلت مقامی و قومی کرکٹ کا حصہ رہے ہیں۔ مگر جیسے ہی راجے مہاراجوں نے کرکٹ کی سرپرستی کرنی شروع کردی، دلت کرکٹر کم ہوتے گئے۔ آزادی کے بعد کارپوریٹ سیکٹر نے راجے مہاراجو ں کی جگہ سنبھالی او سلیکشن میں کئی اور عوامل شامل ہوگئے
ایک کھلاڑی کے لیے کارپوریٹ نوکری کی طرح فرفر انگریزی بولنا، تعلیم اور نفاست ضروری جز وبن گئے، اس کو جنٹلمین گیم کا نام دیا گیا۔ جس کی وجہ سے کسی دیہاتی ٹائپ سنگلاخ شخص کے لیے کرکٹ میں کیرئیر بنانا مشکل ہوگیا۔
دلتوں کے برعکس ہندوستانی کرکٹ ٹیم میں مسلمانوں کی نمائندگی نسبتاً بہتر رہی ہے۔ ممبئی، دہلی، بنگلور، حیدر آباد اور کولکاتہ سے نکل کر کرکٹ جوں جوں چھوٹے شہروں کو منتقل ہوتی گئی، ٹاپ کرکٹروں میں مسلمانوں کا تناسب جو 1950 میں چار فیصد تھا، اس صدی کی شروعات تک 12.5فیصد پہنچ گیا تھا۔
سوربھ گانگولی نے اپنے دور کپتانی میں پانچ مسلم کرکٹروں کو ٹیم میں شامل کروایا۔اسی طرح کم و بیش تیس مسلمان کھلاڑیوں کو انڈین پریمیر لیگ میں کھیلنے کا موقع ملا ہے ء، جن میں اکثریت باؤلروں کی ہے۔ ا س کی شاید وجہ یہ ہے کہ بلے بازی کے لیے ساز و سامان و ٹریننگ خاصی مہنگی ہے، جو ہر ایک کے بس میں نہیں ہوتی ہے۔
نوے کی دہائی میں جنوبی افریقہ میں نسل پرست نظام کے خاتمہ کے بعد جہاں دیگر شعبہ ہائے زندگی میں غیر سفید فام طبقات کو ان کا حق دلانے کے لیے اصلاحات کی گئیں، وہیں کرکٹ بورڈ اور دیگر کھیلوں کے ذمہ داران کو بھی بتایا گیا کہ ٹیموں کے لیے بھی غیر سفید فام کھلاڑی تیار کریں۔ کیونکہ سفارت کاروں کی طرح کھلاڑی بھی ملک کی ثقافت، تہذیب، رہن سہن، اور یگانگت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔
اس سعی کا اثر یہ ہوا کہ چند برسوں میں ہی جنوبی افریقہ کی کرکٹ اکیڈیمیاں عمر ہنری، ہرشل گبس، پال آدمز، رباڑا، ہاشم آملہ اور دیگر لاتعداد غیر سفید فام کھلاڑیوں کو سامنے لے آئیں، جنہوں نے کرکٹ کے علاوہ ملک کا نام روشن کیا۔ 2007کے بعد تو کرکٹ بورڈ کے لیے لازم قرار دیا گیا کہ قومی ٹیم میں کم از کم چھ کھلاڑی غیر سفید فام اور ان میں دو تو لازماً سیاہ فام افریقی ہونے چا ہیے۔
سفید فام کھلاڑیوں نے اس پر احتجاج بھی درج کروایا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسپورٹس ایک مسابقتی شعبہ ہے اور اس میں میرٹ ہی مدنظر ہونا چاہیے۔ مایہ ناز بلے باز کیون پیٹرسن نے تو جنوبی افریقہ کو ہی خیر باد کہہ کر انگلینڈ کی طرف سے بین الاقوامی کرکٹ کھیلنی شروع کی۔ مگر حکومت کا کہنا تھا کہ اگر ٹیم ملک کی آبادی اور اس کی کثرت کی نمائندگی نہیں کرتی ہے، تو اس کا نہ ہونا ہی بہترہے۔
مگر یہ بھی دیکھا گیا کہ سبھی طبقات کو قومی ٹیم میں نمائندگی دینے سے جنوبی افریقہ کی ٹیم کی کارکردگی میں کوئی فرق نہیں پڑا، وہ فتوحات کے جھنڈے متواتر گاڑتی گئی اور دیگر ٹیموں کی ہی طرز پر ہی اس پر بھی اتار چڑھاؤ آتے گئے۔اس بار بھی فائنل میں ہندوستان کا کانٹے کا مقابلہ اسی ٹیم سے تھا، جو ایک کثیر جہتی کلچر اور سماج کی نمائندگی کر رہی تھی، نہ کہ محض ایک قلیل اشرافیہ طبقہ کی۔