بہار میں ووٹنگ کا گرتا تناسب

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

ہندوستان کا شمار دنیا کے بڑے جمہوری ملک میں ہوتا ہے ، یہاں کے انتخاب کودنیا بھر میں دکھانے کے لیے مختلف ملکوں سے پرنٹ میڈیا الکٹرونک میڈیا کے لوگ ہوتے ہیں، ان کی حیثیت صرف صحافی کی نہیں ہوتی بلکہ وہ بڑی حد تک انتخاب کے مشاہد ہوتے ہیں، وہ دیکھتے ہیں کہ ووٹ دینے کا تناسب اور فی صد کیا رہا ، اس کام کے لیے بتیس ملکوں کے ستر صحافی ان دنوں ہندوستان میں ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں، ابھی تک چار دور کا انتخاب ہو چکا ہے ، اس میں ووٹوں کا تناسب کافی کم پایا گیا ، حالاں کہ انتخابی کمیشن ، ملی تنظیمیں ، ذرائع ابلاغ، مساجد کے ائمہ ودانشور اپنی اپنی سطح سے ووٹروں میں بیداری لانے کی مہم چلا رہے ہیں،بعض تنظیموں کے ارکان گھر گھر دستک دے کر ووٹ دینے کی اپیل کر رہے ہیں، بعضوں کے ذریعہ زوم پر آن لائن میٹنگیں چل رہی ہیں، اشتہارات کے ذریعہ انہیں متوجہ کیا جا رہاہے،

بہار میں ووٹنگ کا گرتا تناسب
بہار میں ووٹنگ کا گرتا تناسب

لیکن لوگ ووٹ دینے کے لیے گھر سے باہر نکل نہیں رہے ہیں۔

 

19؍ اپریل کو بہار میں چار سیٹوں کے لیے اور 26؍ اپریل کو پانچ سیٹوں کے لیے ووٹ ڈالے گیے گذشتہ انتخاب کے مقابلے 19؍ اپریل والے دن 4.21فی صد لوگوں نے کم اپنا ووٹ ڈالا جبکہ 26؍ اپریل میں گذشتہ کے مقابلہ 3.47فی صد کم ووٹ ڈالے جا سکے۔آخر کے دو دور میں ووٹوں کا تناسب قدرے بڑھا، لیکن وہ ساٹھ فیصد کو عبور نہیں کر سکا، 13؍ مئی کو ہونے والے انتخاب میں زیادہ سے زیادہ سنتاون (57)فیصد ووٹنگ ہوئی، ایک ہفتہ کے بعد ممکن ہے الیکشن کمیشن اسے بڑھا کر پینسٹھ (65)فیصد کر دے، جیسا کہ پہلے دو دور میں اس نے کیا۔

بہار میں ووٹوں کے کم ہوتے تناسب پر ہر کوئی حیران ہے، مختلف حلقوں میں اس کا فائدہ مختلف امید واروں کو مل سکتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ کئی امیدواروں کو اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑے، یہ معاملہ اس قدر حساس ہے کہ انتخابی کمیشن نے اس کے اسباب تلاشنے کا حکم دیا ہے، بہار میں انتخابی کمیشن نے تمام اضلاع کے ضلع مجسٹریٹ کو خط لکھ کر تمام بوتھوں کی حلقہ وار رپورٹ مانگی ہے ، تاکہ ووٹوں کے کم ہوتے تناسب کے اسباب کا جائزہ لے کر ووٹروں کی دلچسپی کو بڑھایا جا سکے۔

ووٹوں کے کم ہوتے تناسب کے اسباب وعلل پر بہت زیادہ غور وفکر کی ضرورت نہیں، سامنے کی بات ہے کہ انتخاب کی تاریخیں سب موسم گرما میں رکھی گئی ہیں، جب کہ باد سموم کے جھونکے اور لو کے تھپیڑے اس قدر سخت ہیں کہ لوگوں کا گھر سے نکلنا دشوار ہو رہاہے ،یہ اس بات کا اشاریہ ہے کہ انتخابی کمیشن کو عوام کی سہولت کا ذرا بھی خیال نہیں ہے، اسے اس بات سے کچھ لینا دینا نہیں ہے کہ ملک کی بڑی آبادی اپنی حق رائے دہی کا استعمال نہیں کر رہی ہے، رائے دہندگان خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ جیت ہار کسی کی بھی ہو ، اس کی زندگی میں بدلاؤ کی کوئی شکل نہیں ہے ، جب کہ اس کی زندگی اس کے خاندان اور با ل بچوں کے لیے انتہائی ضروری ہے، ایسے میں عافیت بوتھ پر جا کر ووٹ دینے کے بجائے گھرمیں بیٹے رہنا مناسب ہے، وہ جانتا ہے کہ باہر کی بہ نسبت گھر میں رہنا زیادہ بہتر ہے۔

اس لیے انتخاب کے لیے ماضی بعید کی طرح ٹھنڈک کے موسم کا انتخاب کرنا چاہیے تاکہ لوگ آسانی سے ووٹ دینے کے لیے گھر سے نکل سکیں ، ورنہ عوام کی یہ لا تعلقی اور بے رخی ہندوستانی جمہوریت کو خطرات سے دور کردے گی۔تیسرے اور چوتھے دور میں ووٹوں کا تناسب تھوڑا بڑھائے اس کی بڑی وجہ موسم کا سازگار ہونا ہے۔ گرمی کی تمازت کم ہوئی تو رائے دہندگان نے پہلے دو دور کی بہ نسبت زیادہ پولنگ بوتھ کا رخ کیا۔

ایک دوسری وجہ عوام کی سرد مہری ہے، اب پرچار کے لیے اسٹار چنے جاتے ہیں، اور وہی آکر بھانج کر چلے جاتے ہیں ، عام کارکن کو صرف چا در بچھانے ، مجمع جمع کرنے اور مائیک لگانے کی خدمت ملتی ہے، ایسے میں وہ ذہنی طور پر مایوسی کے شکار ہوتے ہیں اور ان کی حصہ داری انتخاب کے موقع سے طے نہیں ہو پاتی، اس کا اثر اس حلقہ کے عوام پر بھی پڑتا ہے اور ان کی دلچسپی ووٹ دینے سے کم ہوجاتی ہے۔ دل بدلنے اور دل بدلو کو ٹکٹ دینے سے بھی کارکنوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے، کل تک جو کارکن بھاجپا کی مخالفت میں تھے، اس نے پالا بدل کر کانگریس جوائن کر لیا، اور اسے ٹکٹ مل گیا، ایسے میں قہراً جبراً کانگریس کے قدیم کارکنوں کو اس کے پاس جانا پڑتا ہے، جبکہ بھاجپا کے قدیم کارکن اسکے ساتھ ہوجاتے ہیں، اس لیے کارکنوں کو سُبکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور ان کی دلچسپی انتخاب سے کم ہوجاتی ہے اس کا بُرا اثر ووٹروں پر بھی پڑتا ہے اور وہ ووٹ دینے کے لیے بوتھ پر جاتے ہی نہیں، ایسے کارکنوں میں روح پھونکنے کے لیے اس طریقہ کار کو بدلنا انتہائی ضروری ہے ، اس کے بغیر ووٹوں کے تناسب کو بڑھایا نہیں جا سکتا۔

تیسری وجہ رائے دہندگان کا روزی روٹی کے لیے باہر کا قیام ہے ، ریاست میں ملازمت اور کام نہیں ملنے کی وجہ سے بہار کے لوگ، بڑی تعداد میں دوسری ریاستوں بلکہ ملک سے باہر بھی قیام پذیر ہیں، اس میں نو جوانوں کی بڑی تعداد ہے، وہ انتخاب کے موقع سے واپس اپنے گھر نہیں آپاتے، کیوں کہ سفر کے اخراجات کا ان کا جیب متحمل نہیں ہوتا ، اس لیے ان کا ووٹ یا تو پڑتا نہیں ہے یا پڑتا ہے تو دوسرے لوگ گرادیتے ہیں، ایک طریقہ ڈاک کے ذریعہ ان کی رائے دہندگی کا ہے، لیکن ان پڑھ مزدور اس کے طریقہ کار سے واقف نہیں ہوتے اور ووٹ دینے سے محروم ہوجاتے ہیں، ایسے میں انتخابی کمیشن کو کوئی ایسا طریقۂ کار وضع کرنا چاہتے کہ وہ ووٹ دے سکیں،ا ن کی انتخاب کے وقت اپنے حلقہ واپسی کی راہ بھی سوچنی چاہیے تاکہ وہ بھی جمہوریت کے اس عظیم تہوار میں شریک ہو سکیں ۔

ایک اور وجہ بوتھ پر قبضہ کا ہونا بھی ہے، اعلیٰ ذات کے لوگ ہریجنوں ، دلتوں اور مسلمانوں کو ڈرا دھمکا کر انہیں بوتھ پر پہونچنے ہی نہیں دیتے اور ان کا جعلی ووٹ ڈال کر اپنے امیدوار کی جیت کی راہ ہموار کرتے ہیں، ملک میں بڑی تعداد ہریجنوں ، مسلمانوں اور دلتوں کی ہے، ان کے ووٹ نہ دینے سے بھی بہار میں ووٹ کا تناسب گرتا جا تا ہے ۔

یہاں غور وفکر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ووٹوں کے فی صد میں کمی اور ووٹروں میں جوش کی کمی موجودہ سیاسی جماعتوں اور حکومت کے خلاف یہ بے رخی، عوام اور سماج کی جانب سے ملکی سیاست اور اس کے طریقۂ کار بیزاری کا اعلانیہ بھی ہو سکتا ہے ۔ایسے میں سیاست دانوں کو اپنے نظریات اور طریقۂ کار پر بھی نظر ثانی کرنی چاہیے، انتخاب کے وقت پورے پانچ سال اپنے حلقۂ انتخاب سے غائب رہنا، انتخابی منشور میں کیے گیے دعوے کو پورا نہ کرنا اس سرد مہری کا بڑا سبب ہے۔

بھاجپادور میں انتخابی عمل کو دن بدن لمبا کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے عوام انتخابی عمل سے اکتا جاتی ہے اسے لیڈروں کی آمد ورفت کے موقع سے عوامی آمد ورفت میں دشواریاں ہوتی ہیں، دکانیں بند ہوجاتی ہیں، کاروبار ٹھپ ہوجاتا ہے اور کمزورلوگوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے، اگر انتخابی عمل کو مختصر کیا جائے تو لوگوں کی دلچسپی ووٹنگ سے بڑھے گی۔

ان امور پر اگر حکومت اور انتخابی کمیشن توجہ دے اور ان اسباب کو دور کرنے کی شکلیں نکالے تو ووٹ کا تناسب بڑی حد تک بڑھ جائے گا، اور معلوم ہوگا کہ جمہوریت کے اس تہوار میں پورا ہندوستان کثرت کے ساتھ شریک ہے ۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply