بہار کا پہلا نسائی ناولٹ

عامرمجیبی ندوی

اصلاح النساء کواردو کا پہلا نسائی ناول کہا جاتا ہے ،جو ۱۸۸۸ء میں لکھا گیا تھا لیکن صرف ایک مختصر ناولٹ کی حیثیت سے بہار کی سطح پر’’ مسماۃ گیندھریادائی ‘‘کی اہمیت واولیت اپنی جگہ مسلم ہے ، اصلاح النساء کے بعد اردو زبان میں اس کتابچہ سے پہلے کسی ناول یا ناولٹ کا علم نہیں۔ (دیکھئے اردو ادب کی اہم خواتین ناول نگار از نیلم فرزانہ اور بہار میں ناول نگاری آصفہ واسع )
بہار کا پہلا نسائی ناولٹ
بہار کا پہلا نسائی ناولٹ
 لیکن پھر بھی ہم اسے اردوزبان کے دوسرے نسائی ناول یا پہلے ناولٹ کے بجائے کم ازکم صوبۂ بہار کی سطح پر اردوزبان میں کسی خاتون کے قلم سے پہلا ناولٹ یا اصلاح النساء کے بعد (اگر اس کے لئے ناول کا لفظ نہ استعمال کیا جائے تو )اس سمت میں دوسرا قدم ضرور کہ سکتے ہیں۔ بہار میں اردو نثر کے ارتقاء کا جائزہ لیتے ہوئے ڈاکٹر مظفر اقبال صاحب نے ۱۸۵۸ سے ۱۹۱۴ تک کے اردو ناولوں میں بہار کی سطح پر اصلاح النساء کے علاوہ کسی اور خاتون ناول نگار اور ان کی کسی نگارش کا ذکر نہیں کیا ہے،انہوں نے اس کتاب کا ذکر کیا ہے لیکن اس کا مصنف بہار کے معروف مصنف ومترجم اور صحافی ،سید عبدالغنی استھانوی (م ۱۹۱۸ء)کو بتایا ہے ،اورانہیں کی تقلید میں بعد کے کئی مضمون نگاروں نے بھی اس کتاب کا انتساب انہیں کی طرف کردیا ، اور ایک صاحب نے تو اسی کی تقلید میں مشرقی مگدھ( بہارشریف تا شیخپورہ )کا پہلا ناول نگار سید عبدالغنی استھانوی ہی کو قرار دے دیا ،لیکن اس سلسلہ میں سب سے پہلی غلطی ڈاکٹر مظفر اقبال ہی سے ہوئی ،اس غلطی کی وجہ بھی یہ تھی خدا بخش لائبریری کے دسنہ سیکشن میں اس کتاب کا اندراج غلطی سے سید عبدالغنی استھانوی کے نام سے ہے، ڈاکٹر مظفر اقبال نے اس کتاب کے بیچ کے اوراق کا مطالعہ کرکے اس کا جائزہ تو لیکن اس کے ابتدائی اوراق پر ان کی نگاہ نہیں گئی ،اگر انہوں نے اس کتاب کے ابتدائی اوراق پر اگر ایک سرسری نگاہ بھی ڈالی ہوتی تو شاید ایسی غلطی نہ کرتے ، کتاب کا نسوانی لہجہ صاف اس کی شہادت ہے کہ یہ کتاب کسی خاتون کا اثر خامہ ہے ،البتہ ہمیں یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ یہ سید عبدالغنی استھانوی ہی کے خاندان یا گھر کی کوئی خاتون ،اہلیہ یاہمشیرہ یا صاحبزادی ہوں گی ،اس کی توثیق اس سے بھی ہوتی ہے کہ سید عبدالغنی استھانوی کی کتابوں کی طرح اس کتاب کے ناشر بھی محمد بشیر خاں مالک مطبع شمسی اکبرآباد ہیں ۔ کتاب کے اخیر میں مصنفہ نے راقمہ مومنہ لکھا ہے ، پتہ نہیں ان کا نام ہے یا ایمانی نسبت کے پردہ میں انہوں نے اپنا نام چھپانے کی کوشش کی ہے ،ہمیں کوشش کے باوجود اس کا علم نہیں ہوسکا۔شاید عبدالغنی صاحب نے کتب خانہ الاصلاح دسنہ کو یہ کتاب ہدیہ کی ہوگی ، اور انہیں کے نام سے رجسٹر میں اس کا اندراج ہوگیا ۔۱۹۰۶ ء؁ میں یہ کتاب استھانواں یعنی مصنفہ کے وطن کی ایک قدیم علمی انجمن الفلاح سے شائع ہوئی تھی ،ڈاکٹر مظفر اقبال صاحب نے اس کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے۔ ـ’’ اس ناولٹ میں ایک جدت ہے ، عبدالغنی استھانوی[ ؟] نے اپنے دور کے قصہ گویوں کو اس امر کی طرف متوجہ کیا ہے کہ محلوں کے ساتھ جھونپڑیوں کو بھی کہانی کا موضوع بنایا جاسکتا ہے،اور لالہ وگل کی کہانی کے ساتھ کیچڑ کے کنول کے بھی گن گائے جاسکتے ہیں ،گیندھریا کے کردارمیں بڑی کشش ہے ،پڑھنے والوں کے ذہن پر اس کے اعلی کردار کا نقش ہمیشہ کے لئے ثبت ہوجاتا ہے ،قصہ کی ترتیب وتنظیم میں ہنرمندی سے کام لیا گیا ہے ،چنانچہ اس کی دلچسپی خاتمہ کی منزل تک برقرار رہتی ہے، اس ناولٹ کی زبان اور انداز بہت ہی صاف ،سادہ اور عام فہم ہے، اسے چھوٹے بچے اور بڑی عمر کے کم پڑھے لوگ بھی بہ آسانی سمجھ سکتے ہیں،(ص ۳۷۱)
ایسا لگتا ہے یہ کتاب بہار سے باہر لکھی گئی ہے ،اسی لئے مصنفہ کو جابجا حواشی میں بہارکے حوالہ سے بعض الفاظ واصطلاحات کی توضیح کی ضرورت پیش آئی ہے،ممکن ہے مولانا سید عبدالغنی استھانوی کی عزیزہ ہونے کی وجہ سے حیدرآبادمیں ہوں جہاں وہ اہم عہدہ پر فائز تھے ۔راقم نے مقدمہ اورکچھ توضیحی حواشی کے ساتھ دو سال قبل استھانواں ہی سے اسے شائع کروایا تھا۔اصلاح النساء کی تصنیف کے وقت رشیدۃالنساء کے پیش نظر ڈپٹی نذیر کی مرآۃ العروس اور بنات النعش تھی اور ان کا جذبہ بھی تعمیری واصلاحی تھا ،عجب نہیںکہ اس ناولٹ کی ناول نگار کے سامنے ڈپٹی نذیر اور رشیدۃ النساء دونوں کی تحریریں رہی ہوں ،اور رہا ان کا تعمیری جذبہ تووہ کتاب کے سطر سطر سے نمایا ں ہے،اس لئے تعمیر ی اور نسائی ادب میں بالخصوص بہار کی خواتین کی معاشرتی اصلاح کے سلسلہ میں اس کتاب کو اصلاح النساء کانقش ثانی کہنے میں کوئی حرج نہیں ۔اور ناولٹ کی صنف میں ہمارے علم کے مطابق بہارمیں کسی خاتون کے قلم سے یہ سب سے پہلی تحریر ہے۔

مسماۃ گیندھریا کی سوانح عمری

خدا کی حمد:

اے پروردگار مجھ عاجز گنہگار بندی کی کیا بساط کہ تیرے سرا ہنے کا نام لے، اور جس راہ میں بڑے بڑے سیانوں سے قدم نہ دھرا گیا، اس میں چلنے کا دم بھرے، اس جہاں کا ذرہ ذرہ تیری بڑائی کا گواہ ہے، اور اس زمین کا چپہ چپہ تیری کاری گری کا تماشاہ گاہ، انسان، حیوان، درخت، پتھر، زمین، آسمان، دیوار و در سب تیرا پاک نام جپتے ہیں، اور تیری یکتائی کا گیت گاتے ہیں، لیکن ہماری آنکھوں پر پردہ اور دلوں پر حجاب ہے جو نہیں سمجھتے، ہمارا رویاں رویاں تیری نعمتوں سے مالا مال اور ہماری بوٹی بوٹی تیری عنایتوں سے نہال، صدقے تیری کریمی کے کہ تیری بے نیاز درگاہ میں بی بی اور باندی کا فرق نہیں، جو سب سے زیادہ تیرا پاک نام رٹے اسی کا بول بالا ہے، اور جو سب سے بڑھ کر تیرے حکم پر چلے اسی کے لئے دونوں جہاں میں اجالا ہے۔

پیمبر کی نعت:

قربان تیری رحیمی پرکہ تونے اپنے ناچیز بندوں پر ترس کھا کے ایسا نرم دل اور محبت والا نبی بھیجا جو اپنی امت کے بچہ بچہ پر ماں باپ سے زیادہ مہربان تھا، اور جس کو سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے، ہر آن اور ہر لمحہ امت کی بھلائی اور بہتری کا دھیان تھا، اس کی بے مثل دیانت و امانت، اس کی بے لاگ سچائی کی سچی علامت، اور اس کی سیدھی سادی اپنی غرض سے خالی، اور درد دکھ سے بھری زندگی اس کی پیمبری کی بہت بڑی حجت، وہ کون؟ ہمارے پیارے نبی احمد مجتبیٰ محمد مصطفی ﷺ ،خدا قیامت تک ان کی اور ان کے کل آل واصحاب اور بیویوں کی پاک روحوں پر رحمت بھیجے، اور ہردم اور ہر آن ان پر نور برسا تارہے، آمین۔

تمہید:

اے لڑکیو! تم نے گڑھی ہوئی کہانیاں تو بہت سنی ہوں گی، اور بنائے ہوئے قصوں کی کتابیں بھی ضرور پڑھی ہوں گی، سب نے کانوں کی سنی تم سے کہی ہوگی، مگر میں تم کو آنکھوں کی دیکھی سناتی اور اپنی سچائی پر اللہ کو گواہ رکھتی ہوں، اگر تم اس کی ٹوہ لگانا چاہو کہ کہاں تک صحیح ہے تو تم اس بستی کی بیبیوں سے جہاں کا یہ قصہ ہے دریافت کرسکتی ہو، مجھے اگر کسی انسان کو خوش کرنا یا کسی سے انعام لینا ہوتا تو میں کسی شریف اور اونچے گھرانے کو تاکتی، اور میرے دل میں خدا کا ڈر اور پنچ کی لاج نہ ہوتی تو میں بھی بنائی ہوئی باتوں اور گڑھی ہوئی کہانیوں کا طومار باندھ دیتی۔

اس کتاب کے لکھنے کا سبب:

صرف چند باتوں کے خیال نے مجھ سے یہ کتاب لکھوائی، ورنہ کہاں میں اور کہاں کتاب لکھنا اور مصنفوں میں نام لکھوانا، ایک تو خدا کا ڈر کہ دست وقلم ہوکر ایسی نیک چلنی، پارسائی، سچائی اور جوانمردی کی ہو بہو تصویر اپنی بساط بھرنہ کھیچوں گی تو خدا کو کیا منہ دکھاؤں گی، دوسرے یہ یقین کہ سچی باتیں ہیں، ضرور اپنا اثر دکھائیں گی، جو کوئی اس کو پڑھے گا اس پر خواہ مخواہ اس کا پرتو پڑے گا، تیسرے یہ کھٹکا کہ اس کا نہ لکھنا خدا کی قدرت پر جو پتھر سے خوشنما و بے بہا جواہر اور سیپ سے خوش آب اور چمکتے دمکتے موتی پیدا کرتا ہے، جان بوجھ کر پردہ ڈالنا ہے۔
اگرچہ میں بہت دنوں سے اس کو لکھنا چاہتی تھی مگر ایک قدم آگے بڑھتا تھا تو دوسرا پیچھے ہٹتا تھا، آخر کار جب اس کا وقت آگیا تو میں نے یکایک اس کو باندھ دیا،اور بے انتہا قدرت والے مالک نے اس کو انجام تک پہنچایا۔
خداوندا! محض اپنے فضل وکرم سے اس کو پروان چڑھا اور اپنی نیک، دیندار لونڈی کی جس نے دنیا میں نیکی اور بھلائی کے سوا کوئی یادگار نہ چھوڑی، اس کتاب کو جس کا نام اسی کے نام پر ’’گیند ھریادائی‘‘ ہے یادگار بنا، اور اس کے ثواب کو خیرجاری بناکر اس کی روح کو پہنچاتا رہے۔

ابتدائی حالات:

بہار سے تین سوا تین کوس (۱)پورب ایک بستی استھانواں نام ہے جو پٹنہ کے ضلع میں بہت نامور اور مشہور ہے، یہاں اب سے ڈھائی تین ہی سال پیشتر(۲) ایک نرالے چال ڈھال اور انوکھے خیال کی ایک عورت رہتی تھی، اس میں وہ وہ خوبیاں اور ایسی ایسی نیکیاں کوٹ کوٹ کر بھری تھیں کہ چراغ لے کر ڈھونڈھنے سے بھی بہت سے پڑھے لکھے شریف مردوں میں نہ ملیں گی رذیل عورتوں کو کون پوچھتا ہے ۔یہ عورت ملا زادہ قوم کی تھی اور اس لئے اس دیار کی عام بول چال کے مطابق ’’گیندھریا دائی‘‘(۳) کہلاتی تھی، اور لونڈی باندیوں میں اس کا شمار تھا لیکن شرع اور قانون اور اس وجہ سے بھی کہ کسی امیر یا خوشحال گھر سے کوئی تعلق نہ رکھتی تھی اپنے گھر کی آپ بی بی اور پوری آزاد تھی، یہ باڑھ کے آس پاس کے کسی گاؤں میں پیدا ہوئی اور استھانواں میں کلوملا زادہ سے بیاہی گئی تھی۔
 کلو اس کا میاں نپٹ جاہل، اور نوکری پیشہ تھا، جب تک وہ زندہ رہا جیسا کہ دستور ہے، میاں باہر سے کما کر لاتا تھا اور بیوی اس کو گھر میں سلیقہ سے خرچ کرتی تھی، اس کی خوش نصیبی سے اس کے ساتھ ساس نندوں کا بکھیڑا نہ تھا، اور وہ زمانہ بھی سستے سامان اور آج کل سے بہت زیادہ سادگی کا تھا، اور پھر اس کے کوئی بال بچہ بھی نہ ہوا تھا، اس لئے میاں کی براہلی(۴) ہی میں وہ اچھی خاص اجلی گزران کرتی تھی، کلوکا کوئی ذاتی مکان نہ تھا، سید ٹولہ میں ایک چھوٹے سے بیرونی قطعہ میں یہ دونوں رہا کرتے تھے، اور بڑا قطعہ مالک کے قبضہ میں تھا، اس مکان کا مالک ایک سید کا خاندان تھا، جس میں ایک کم سنی کی بیوہ اور بے اولاد بیوی تھیں، جن کو بڑے چھوٹے سب ’’چھوٹی‘‘ کہہ کر پکار تے تھے، انہوں نے تیسوں پارے بڑی چیز اور کچھ اردو کی کتابیں جیسے ’’راہ نجات‘‘، ’’مفتاح الجنہ‘‘، ’’نور نامہ‘‘ اور ’’مولود شریف‘‘ پڑھ لی تھیں، ان کا رات دن شغل بس پڑھنا پڑھانا اور عورتوں میں وعظ و نصیحت کرنا تھا۔
رنڈاپا(۵):
کلو بہت ہٹا کٹا اور تندرست تھا، چند ہی دنوں کی بیماری سے چالیس پینتالیس برس کے سنہ میں اس دنیا سے چل بسا، اور گیندھریا جو اپنے میاں سے کئی سال چھوٹی تھی، تیس پینتیس برس کی عمر میں بیوہ و بیکس ہوگئی، معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ بیوہ ہوئی تو اس کے ماں باپ مرچکے تھے، اور اس کے میکہ میں اس کا کوئی ایسا قریب رشتہ ناطہ والا نہ تھا جس کا یہ سہارا ڈھونڈتی، جہاں تک میں جانتی ہوں اس کی ایک بھانجی تھی، جو اس زمانہ میں کبھی کبھی اس کے پاس آیا کرتی تھی، یہی وجہ تھی کہ بیوہ ہوجانے پر بھی اس نے میکہ کا رخ نہ کیا اور سسرال ہی کو اپنا وطن بنالیا۔

شکل اور صورت اور لباس:

یہ تھی تو نیچ قوم کی، مگر جس طرح اس پاک بے نیاز نے اس کو اعلی درجہ کی شریف زادیوں کی سی سیرت دی تھی ویسی ہی بڑے گھرانے والیوں کی سی صورت بھی عطا کی تھی، اس کا رنگ گندمی، بدن چھریرا، قد لمبا، آنکھیں بڑی بڑی اور سیاہ، پیشانی چوڑی اور ہموار، چہرہ کتابی، ناک ستواں اور سارا جسم سڈول تھا، اس کی وضع ولباس پر خیال نہ کیا جاتا تو جو دیکھتا اس کو اس پر شریف زادی ہی کا دھوکہ ہوتا، اس کا لباس ساری اور کرتہ تھا، جب تک یہ سہاگن رہی تو رنگین اور جب بیوہ ہوگئی تو سفید مگر ہمیشہ صاف مگر ستھرے کپڑے پہنتی تھی،اور بیوہ ہونے سے پہلے اور اس کے بعد بھی کچھ دنوں تک کھرپا (۵)ور بعد کو جوتیاں پہنتی تھی۔

چھوٹی کا ساتھ:

رانڈ ہوجانے کے بعد یہ چھوٹی کے ساتھ مل کر رہنے لگی، دونوں میں گہری دوستی اور بڑا اتحاد و ایکا تھا، کھانے پینے، رہنے، سہنے، لینے دینے کسی بات میں دونوں میں دوراونہ تھا، فرق تھا تویہ کہ یہ ہمیشہ ان کو بی بی اور اپنے آپ کو باندی سمجھتی تھی، وہ پلنگ پر بیٹھی پڑھایا کرتی تھیں، اور یہ گھر کے کام دھندوں میں لگی رہتی اور الگ بیٹھتی اٹھتی تھی، میں نے کبھی گیند ہریا کو تنہائی میں بھی ان کے برابر بیٹھتے نہ دیکھا، اور جو کوئی اجنبی آدمی دیکھتا وہ یہی سمجھتا کہ چھوٹی گھر کی مالکہ اور یہ ان کی زرخرید لونڈی ہے، یہ آج کل کی ملازادیوں کی طرح جو دوچار ہی پیسوں میں آپے سے باہر ہوجاتی اور ادب کیسا، غریب شریف زادیوں کو خاطر میں بھی نہیں لاتی ہیں کبھی اپنی ہستی کو نہ بھولی، کام کاج کے سوا چھوٹی یا محلہ کی اور کوئی بی بی تقریب یا معمولی دنوں میں جہاں کہیں اس کو بھیجتیں یہ بے عذر تنہا یا اور لونڈیوں کے ساتھ سرپر سینی یا ٹوکرارکھ کر بے تکلف چلی جاتی تھی۔
اس کے بیوہ ہونے کے شاید آٹھ دس برس بعد ’’چھوٹی‘‘ سے بھی اس کا ساتھ چھوٹا، انہوں نے جنت کی راہ لی، اور یہ اکیلی اسی طرح سیدانیوں کے قدموں سے لگی اسی مکان میں رہی۔

عقیدہ اور دینداری:

یہ پڑھی لکھی تو نہ تھی، مگر اس کا عقیدہ بہت درست تھا، جس کی بنیاد ’’چھوٹی‘‘ کی صحبت میں پڑی تھی، لیکن اس کی درستگی اور پختگی مولوی وحیدالحق(۶) جیسے اللہ والے سچے دیندار اور بے ریا پرہیز گار عالم سے (خدا ان کو جنت میں بہت بڑا درجہ دے) ہوئی، یوں تو سچی اور ایمان کی بات یہ ہے کہ عام طور پر استھانواں کی عورتوں میں مولوی عبدالمجید(۷) بہشت نصیب کے گھر سے اور مردوں میں مولوی وحید الحق کی ذات سے دینداری پھیلی، مگر جس گھر میں گیند ھریا رہتی تھی وہ مولوی وحید الحق صاحب کے گھر کے آمنے سامنے تھا، اور اس کی آمد ورفت مولوی صاحب مرحوم کے گھر سے اور اس کا میل جول مولوی صاحب کی ماں بہنوں سے بہت تھا، اس سبب سے اس کو دینی اور ایمانی فائدہ اٹھانے کا خاص موقع حاصل تھا، خلاصہ یہ کہ یہ مسئلہ مسائل سے پوری واقف کار، دیندار اور سچی پرہیزگار ہوگئی، مگر خلق کو حلق ہے، بہت سے لوگ اس کو وہابی کہنے لگے، اچھے کو برا کہنا ہمیشہ سے چلا آتا ہے، بیچاری وہابی تو نہ تھی، ہاں شرک وبدعت کے تمام عقیدوں اور کاموں سے الگ تھی، شب برأت میں جیسا کہ وہ خود کہتی تھی دوسروں کی محتاجی سے بچنے کے لئے حلوا مانڈا پکاتی تو ضرور تھی لیکن ایک دو دن پہلے یا پیچھے، محرم میں نہ امام باڑہ جاتی تھی اور نہ کوئی چیز نذر نیاز کے طور پر وہاں بھیجتی تھی۔ پیر کو پیر، پیمبر کو پیمبر اور خدا کو خدا مانتی، ان کے رتبوں میں گڈمڈ نہ کرتی، اور ایک کو دوسرے کی جگہ نہ دیتی تھی۔ اور سچی دینداری اور درست عقیدہ ہے بھی اسی کا نام، پنج وقتہ نماز کی پوری پابنداور رمضان کے علاوہ نفل روزے بھی کبھی ناغہ نہ کرتی تھی، اور جانے سچ یا جھوٹ گیلانی والے ملا صاحب (۸)کی مرید بھی تھی۔

پاک دامنی:

بیوہ ہوجانے کے بعد کبھی اس نے دوسرے  نکاح کا بھی نام نہ لیا، اور توبہ توبہ حرام کاری کا کیا ذکر ہے، کبھی اس کے دشمنوں نے بھی اس کی پارسائی کے خلاف کھسر پھسر تک نہ کیا، اور کسی نے عداوت سے بھی اس کی پاکدامنی کو دھبہ نہ لگایا، گویہ کام دھندے کے لئے ضرورت سے کھیت کھلیان، کوچہ بازار، اپنے جوار اور گنگا یار تمام آتی جاتی تھی، مگر اس سے خیر خواہ یا بدخواہ شریف یار ذیل سب کو اس کی بے داغ پاکدامنی پر اتنا ہی بھروسہ اور اعتبار تھا جتنا قصباتی و دیہاتی بہو بیٹیوں کی عفت وعصمت پر، اور کچھ تک نہیں کہ گیندھریا کی پاکدامنی بے کسر اور اس کی پارسائی تپایا ہوا کھراکندن تھی۔

دینداری:

پارسائی کی طرح اس کی دیانت داری کے بھی چھوٹے بڑے، مردعورت، اور شریف ورذیل سب قائل تھے، ٹولہ محلہ کی اکثر بہو بیٹیاں جن کے مرد اکثر باہر رہا کرتے تھے سونے چاندی کے گہنے اس کی معرفت بنو یا کرتی تھیں، اور محلہ کی بہت سی بیٹیاں جو اور بستیوں میں بیاہی تھیں اس کے ذریعہ سے زیور بنواکر منگواتی تھیں ،اور میں نے کبھی اس کی حیات میں یا مرنے کے بعد کسی کی زبان سے نہ سنا کہ گیند ھریادائی کسی ایک کا پیسہ بھی کھا گئی یا کسی ے حساب میں ایک جھنجھی(۹) کا بھی فرق آیا، اس کے علاوہ جن شریف بیبیوں کے کھیت برابر مرتے دم تک اس کی کاشت میں رہے وہ ہمیشہ اس کی دیانتداری وایمانداری کا کلمہ پڑھتی رہیں، ان میں سے جو اس وقت زندہ ہیں ان سے تو آج بھی پوچھ لو کہ وہ کیسی سچی دیانتدارتھی، کانٹے کی تول ادھون آدھ اناج تول کراور اپنے سرپر ٹوکرا رکھ کر تو پہنچاتی ہی تھی، آدھا پیال، بھوسا اور ان کا چورا بھی مالکوں کو دے جاتی تھی، لین دین ہی ایمانداری کی کسوٹی ہے، اسی سے کھرے اور کھوٹے دل کا پتہ لگتا ہے۔
اس کو بھی جانے دو، ایک اور بات سنو، جس سے تم کو صاف معلوم ہوجائے گا کہ لوگوں کو اس کی ایمانداری اور سچائی پر کیسا بھروسہ تھا، یہ زمانے سے برابر دو اچھی دودھیل گائیں بھی پالتی تھی، اور ان کا دودھ اور گھی بازار کے عام نرخ سے زیادہ پر بیچاکرتی تھی، مگر اس پر بھی جن لوگوں کو دوا درمن کے لئے گائے کے خالص دودھ اور گھی کی ضرورت ہوتی تھی وہ زیادہ دام دینا قبول کرتے مگر لیتے اسی کے ہاں سے تھے، کیونکہ سب کو پورا یقین تھا کہ یہ دودھ میں پانی اور گھی میں چھاچھ یا اور کوئی چیز ہرگز نہیں ملاتی اور ناپ تول میں بھی ذرہ برابر کمی نہیں کرتی ہے۔

معاش کا ذریعہ:

اس کی زندگی میں بہت ہی اچنبھے کی اور حد سے زیادہ سراہنے کے قابل جو بات ہے وہ اس کی محنت، سرگرمی، جانفشانی اور مردانہ ہمت ہے، اس کی اکیلی جان تھی، اس کے نہ بال بچہ تھا اور نہ کوئی کنبہ تھا، جس طرح اور پارسا وپاکدامن شریف ورذیل عورتیں کوٹنے، پیسنے اور پانی بھرنے کے ذریعہ سے گزران کرلیتی ہیں، یہ بھی کرسکتی تھی، اور استھانواں جیسی بڑی بستی میں اس طور سے اکیلی جان کا گزارا کرلینا کچھ دشوار بھی نہ تھا، یہ بھی نہ سہی تو ماما گری کرکے گزارا کرسکتی تھی، پکانے، ریندھنے، (۱۰)گھر کو صاف ستھرا رکھنے اور سلیقہ سے خانہ داری کرنے میں یہ آج کل کی پھوہڑ اور نکمی ماماؤں سے تو لاکھ درجہ بہتر تھی، اور اس سبب سے وہ بیبیاں جن کا بے تمیز وبد سلیقہ ماماؤں سے ناک میں دم رہتا ہے اس کو آنکھوں پر بیٹھاتیں، مگر اس کی مردانہ ہمت نے ان تمام معمولی راستوں کو چھوڑ کر اپنے لئے عورت ذات کے اعتبار سے بالکل انوکھا راستہ اختیار کیا، اور کتے اور لومڑی کی زندگی کو جو غیر کے شکار سے پیٹ پالتے ہیں نا پسند کرکے شیر متکبر رہنا پسند کیا۔
 تم کہو گی کہ اس نے کو ن سی ایسی انوکھی بات کی، اور کون سے آسمان میں اس نے تھگلی(۱۱) لگائی جو اس کی اتنی تعریفیں ہورہی ہیں، لیکن ذرا ٹھہرو اور غور کی نگاہ سے اس کے کاموں کو دیکھو اور ان سے نصیحت حاصل کرو، اور وں کی تومیں کہتی نہیں ،مجھے نہ اس کی نماز روزہ پر اتنا اچنبھا گذرتا ہے اور نہ اس کی پارسائی وپاکدامنی کے ساتھ رنڈا پاکھپنے پر، نہ اس کے صاف ستھرے عقیدہ پر، اور نہ تعریف کے قابل ایمانداری پر، میں یہ نہیں کہتی کہ یہ باتیں سراہنے کے لائق نہیں ہیں، ہیں اور خدا اور رسول کے نزدیک ہیں، مگر میں تو اچنبھے کی بات کو کہتی ہوں ،وہ سب باتیں تو تم کو باندیوں میں بھی ملیں گی جن کو خوش قسمتی سے اچھی صحبتیں مل گئی ہیں، مگر ان سب باتوں کے ساتھ ایسی مردانہ ہمت کی مثال تم کو بہت ہی کم ملے گی، میرے دل پر سب سے گہرا اثر اس مردانہ عورت کی صرف اسی صفت کا ہے، میں اس کی تمام صفتوں کو اچھے ،بے عیب، سڈول ہاتھ پاؤں اور اس ایک صفت کو تان کی جان اور روح رواں سمجھتی ہوں۔

گائیں پالنا:

اس نے کوئی تیس بتیس برس کے رنڈاپے کو اس طرح سے کاٹا کہ اس نے گائے پالنا شروع کیا، اور صبح کی نماز کے بعد ہاتھ میں لکڑی لے کر یہ ہمیشہ اپنی گائے کو درگاہ پر چرواہے کے سپرد کرآتی اور شام کو لے آیا کرتی تھی، اور گھر میں دونوںوقت اس کی ناند میں سانی پانی، بھوسی کھلی، پیچ اپنے ہاتھ سے ڈالتی اور اس کی ساری خبر گیری بڑی مستعدی سے کرتی تھی، جس کا نتیجہ یہ تھا کہ سدا اس کی گائیں موٹی تازی رہتیں، اور دوسرے لوگوں کی گایوں سے بہت زیادہ دودھ دیتی تھیں، کبھی ان کا دودھ بیچتی اور کبھی گھی اور اکثر مٹھا، اور کبھی دودھ دہی بھی، اپنے خرچ میں بھی لاتی اور دوسروں کو بھی مفت دیتی، اور دوسرے تیسرے سال ان کے بچھڑے بھی بیجتی یا اپنی کھیتی کے کام میں لگاتی تھی، بہیترے آدمی اس کی گایوں پر رشک کرتے اور کہتے تھے کہ یہ کیا کھلاتی ہے جو اس کی گائیں ایسی موٹی تازی رہتی ہیں، ہم تو جانوروں کو بہت کچھ کھانے کو دیتے ہیں مگر ایسی تازگی ان میں نہیں آتی، میں کہتی ہوں کہ یہ پرانی کہاوت ہے کہ جانورں کو صرف ایک ہی چیز موٹا تازہ رکھ سکتی ہے، اور وہ مالک کی آنکھ ہے، اور بس۔

کھیتی کرنا:

اس سے بھی آگے بڑھی تو اس نے کھیتی شروع کی، جن لوگوں کو اس دیانت ومحنت پر بھروسہ تھا، ان سے اس نے بھاؤلی شرح(۱۲) پر کھیت لئے، اور گو جوتنے، بونے گاہنے جیسے سارے کام مزدوروں سے لیتی تھی مگر ہر وقت مزدوروں کے سر پر سوار رہتی اور اور نگرانی میں ذرا بھی کوتاہی نہ کرتی تھی، موسلا دھار مینہ برستا ہو یا چلکتی ہوئی دھوپ ہو یہ کھیت یا کھلیان سے الگ نہ ہوتی تھی، مزدور ہل جوت رہے ہیں او یہ مردوں کی طرح ایک ٹانگ کھڑی ہے، مزدورنیاں دھان(۱۳) روپ رہی ہیں اور یہ پانی اور کیچڑ میں ہشاش بشاش کھڑی نگرانی کررہی ہے، کسی کو ڈانتی ہے ،کسی کو للکارتی ہے، اور کسی کو دوڑ کر مدد دیتی ہے، خلاصہ یہ ہے کہ جو حق محنت وجانفشانی، نگہبانی ونگرانی کا ہے اس میں یہ ذرا بھی کمی نہ کرتی تھی، اس لئے اچھے سے اچھے کسانوں سے یہ کسی طرح کم نہ پیدا کرتی تھی، اور کھیتوں کے مالکوں کو بھی خوش رکھتی، اور کبھی پیداوار کی کمی کی شکایت کا موقع نہ دیتی تھی، وہ نگرانی میں ایسی سخت تھی کہ ایک تنکا بھی برباد نہ ہونے دیتی تھی، اور گنواروں پر اس کا ویسا ہی رعب تھا، جیسا شریف مردوں کا ہوا کرتا ہے ، گنوار اس کی نسبت کہتے ہی تھے کہ یہ عورت نہیں عورت کے کالبوت (۱۴)میں مرد ہے ،کچھ دنوں بعد اس نے ایک گوالے کو اپنی کھیتی میں ساجھی کرلیا تھا، لیکن مرتے دم تک اس نے کھیتی نہ چھوڑی۔
وہ اپنی جوت سے اتنا پیدا کرتی تھی کہ آپ بھی سدا صاف ستھرے کپڑے پہنتی، اچھا کھانا کھاتی، اور دوسروں کی بھی موقع کے ساتھ مدد کیا کرتی تھی، مگر اس کو یہ خود کبھی زبان پر بھی نہ لاتی تھی، اور جن لوگوں کو اس کی اس مدد کا حال معلوم ہے انہوں نے خود انہیں لوگوں سے سنا ہے، نہ کہ گیندھریا دائی سے، اور آڑے وقتوں میں کام آنے کیلئے اسی کی آمدنی سے کچھ ٹوم ٹام(۱۵) بھی بنوالیا کرتی تھی، چنانچہ مرتے وقت اپنے ہاتھوں کے چاندی کے کڑے اور کچھ اور گہنے ایک یتیم سیدانی کے لئے جو اس وقت وہاں موجود نہ تھی ایک بی بی کے پاس امانت چھوڑ گئی ۔

عقل ورائے:

اللہ میاں نے اس عورت کو مردوں کی سی دور اندیش عقل اور سمجھ بھی دی تھی، جو بیبیاں اپنے چھوٹے یا بڑے کاموں میں اس سے رائے لیتیں، یہ ان کو یہ نیک صلاح دیتی اور ایسی چوٹی کی اور پکی بات کہتی کہ عقل دنگ رہ جاتی، میں تم کو ایک سچا ماجرا سناتی ہوں، اسی سے تم کو میرے بیان کی سچائی معلوم ہوجائے گی، ایک آدمی کی اپنے بہنوئی سے بہت بگڑی ہوئی تھی، ان کی بہن جن کے بال بچہ نہ تھا ان کو حد سے زیادہ مانتی تھیں، اور دل میں اپنے میاں سے کچھ بیزار تھیں، بھائی نے بہن سے کہا کہ تمہارے میاں کے تمام کاغذ پتر تمہارے ہی پاس رہتے ہیں، تم ان سب کو لے کر ہمارے ہاں چلی آؤ، ہم ان کے کل گاؤں گھر پر قبضہ کرلیں گے، بہن نے دیکھا کہ بات ہے بڑی بھاری، بے سمجھے بوجھے اس میں پڑنا ٹھیک نہیں، ایک تو جنم بھر کا سودا ہے اور دوسرے اس کی بھنک بھی کسی کو معلوم ہوگئی تو بڑے فضیحتے(۱۶) کا سامنا ہے، انہوں نے ایسے وقت میں گیندھریا سے صلاح لی، اس نے کہا کہ میں نے مانا کہ تم نے ان کا کل گاؤں گھر چھین لیا، لیکن ان کی نوکری، اقبال اور حیات تو نہیں چھین سکتی، پھر جب وہ ایسی آن بان اور طنطنہ(۱۷) کے ساتھ اسی بستی میں رہیں گے، اور دوسراگاؤں گھر مول لیں گے تو تمہارے دل پر کیسا سانپ لوٹے گا، اگر تم اس کو اور بیٹھے بٹھائے آپ سے آپ بیوہ ہوجانے کو انگیزتی(۱۸) ہو تو بھائی کے ہاں چلی جاؤ، اور سمجھ لوکہ تم سدا کے لئے اپنے میاں سے چھوٹ گئی، وہ بی بی مجھ سے کہتی تھیں کہ گیندھریا کے اتنی بات کہنے سے میری آنکھیں کھل گئیں، میں فوراً اپنی اس ننانویں نیست سے(۱۹) باز آئی۔
میں کہتی ہوں کہ صلاح دینے والے میں دو باتیں بہت ضروری ہیں، ایک تو صلاح لینے والے ہی کے نفع نقصان کا خیال رکھنا، اور اس میں اپنی یا کسی دوسرے کی غرض کا مطلق لحاظ نہ کرنا اور دوسرے ہر طرح کی امانت داری ورازداری، جس سے مراد یہ ہے کہ اس کو کبھی ظاہر نہ کرنا اور اس کے ذریعہ سے کبھی کوئی فائدہ حاصل نہ کرنا بلکہ اس کو اپنی بات ہی نہ سمجھنا، اور اپنے دل سے اس کو بالکل مٹادینا، گیندھریا نے یہاں پر دونوں شرطیں پوری کیں، میں اگرچہ لکھنا مناسب نہیں سمجھتی تھی ،لیکن پورے معاملہ کو تفصیل کے ساتھ جانتی ہوں اس لئے تم کو یقین دلاتی ہوں کہ جو مشورہ اس نے دیا تھا اس سے بہتر اور نیک صلاح لقمان بھی نہیں دے سکتا تھا، اور دوسری شرط کا حال یہ ہے کہ گیندھریا دائی مرتے دم تک اس کو زبان پر بھی نہ لائی، اور کبھی بھولے سے بھی اس نے یہ نہ کہا کہ یہ صلاح دے کر اس نے کن کن لوگوں پر احسان کیا، گویا سچ مچ اس کو بھول بسرگئی تھی۔
بیبیوں کے سوا پڑھے لکھے مردوں کو بھی اس کی دانائی وسنجیدگی پر بڑا اعتبار تھا، جہاں کہیں ایسا پیام بھیجنا ہوتا جس میں احتیاط اور اس کی ضرورت ہوتی کہ بات بگڑنے نہ پائے، بلکہ بگڑی ہوئی بات بن جائے وہاں سب کا خیال اسی کی طرف جاتا تھا، اور اس کو یہ ایسی خوبی اور سلیقہ سے انجام دیتی تھی کہ الجھی ہوئی گتھیاں سلجھ جاتی تھیں۔

خیر خواہی:

یہ ٹولہ محلہ کی نوعمر بہو بیٹیوں میں اگر کوئی ایسی ویسی بات دیکھتی تو بے دھڑک ٹوک دیتی، اور دلسوزی کے ساتھ نصیحت کرتی تھی، اور جس بھلے مانس کے گھر کی عور ت یا لڑکی کو ڈیوڑھی پر آکر تماشہ دیکھتے یا تاکتے جھانکتے دیکھ لیتی اس کو فوراً ڈانٹ بتاتی تھی، محلہ کی بیبیوں میں اس کی دھاک بندھی ہوئی تھی، اور اس کی گھن گرج آواز اور ’’کیوں جی‘‘ سے سب کے اوسان خطا ہوتے تھے، یہاں تک کہ بیبیوں نے اس کو ’’داروغہ‘‘ کا لقب دے رکھا تھا، اور محلہ کے لوگوں کے لئے تو وہ مسیحا ہی تھی، جس طرح شیر کی ڈکار سن کر جنگل کے سب جانور سہم جاتے ہیں اسی طرح جہاں بچوں نے دور سے اس کی آواز سن پائی، اور دم بخود ہوگئے، جو لڑکی ننگے پاؤں تھی اس نے جھٹ جوتیاں پہن لیں، اور جو بچہ رورہا تھا وہ چپ ہوگیا اور جو ہٹ کررہا تھا وہ من گیا۔

رعب:

بیبیوں اور بچوں کی جانے دو، بہتیرے مردوئے بھی اس کا لحاظ کرتے اور ان کے دل بھی اس سے دبتے تھے، سچی اور ایمان کی بات دو ٹوک منہ پر کہہ دیتی اور اس میں کسی سے بھی نہ دبتی تھی، اس کی باتوں میں کچھ ایسی ہیبت اور خدائی رعب تھا کہ شان وشوکت والوں کے بھی دل دہل جاتے تھے، میں سمجھتی ہوں کہ یہ ہیبت اس کی نہیں حق کی تھی، اور یہ رعب بے طمعی کا تھا، اس لئے کہ وہ لونڈی تھی کسی کی کنونڈی نہ تھی، اور نہیں تو اس میں رکھا کیا تھا، اس کے پاس نہ فوج ولشکر تھا اور نہ نوکر چاکر۔

ہمدردی:

ان تمام مردانہ صفتوں کے ساتھ اس میں عورتوں کا دردمند دل بھی تھا، پاس پڑوس کے لوگوں کے دکھ درد میں کام آتی، مصیبت اور بپتا میں فوراً دوڑتی، اور جو کچھ اس سے بن آتا اس میں کوتاہی نہ کرتی، شادی وغمی میں بھی یگانوں کی طرح پوری سرگرمی و دلسوزی کے ساتھ ان تمام گھروں میں شریک ہوتی تھی، جہاں اس کی آمدورفت تھی، یا جہاں یہ پوچھی جاتی تھی، اور وعظِ مولود اور کتاب خوانی کی زنانہ اور ایسی مردانہ مجلسوں میں جن میں عورتوں کوشرکت کا موقع دیا جاتا یہ سو کام چھوڑ کر شریک ہوا کرتی تھی۔

عیب:

میرے نزدیک اس میں عیب تھا تو یہی تھا کہ حد سے زیادہ بے باک اور ضرورت سے زیادہ مردانہ تھی، اس کی گفتگو کا طرز، لہجہ اور آواز عورت ذات کے لئے بہت سخت اور کرخت تھی، اور یہ حق بات کہنے میں بہت سختی اور کھرا پن برتتی تھی، جو آدمی کو خواہ مخواہ ناگوار گذرتا اور بہت برا لگتا ہے، مگر بے عیب ذات خدا کی، جس نے کچا دودھ پیا ہے اس میں کچھ نہ کچھ عیب ہونا ضروری ہے، بات اتنی ہے کہ جس میں نیکیوں کا پلہ بھاری ہوتا ہے اس کو نیک کہتے ہیں اور جس میں بدیوں کا اس کو بد، اور نہیں تو بروں میں بھی بھلائیاں ہوتی ہیں، اور اچھوں میں بھی کچھ برائیاں ہوتی ہی ہیں، اس پر بھی ایمان کی کہوں گی، ایمان ہے تو سب کچھ، خدا لگتی بات یہ ہے کہ جب سے میں نے ہوش سنبھالا اس کو دن بدن نرمی، رحمدلی اور ملائمت کی طرف بڑھتے پایا، یہاں تک کہ مرنے سے کئی برس پہلے بہت ہی دھیمی اور نرم ہوگئی تھی۔

وفات:

گیندھریا بہت بوڑھی یا کسی طرح معذور نہ ہونے پائی، اچھی خاصی چلتی پھرتی اور کھیت کھلیان آتی جاتی تھی، البتہ مرنے کے دو تین سال آگے سے ہر سال دو ایک مہینہ بیمار ضرور رہا کرتی تھی، اور آخر کار کئی مہینے بیمار رہ کر سدا کے لئے اس مردار دنیا پر لات مار کر آرام سے سونی قبر میں جاسوئی، جہاں اس کی نیک چلنی اور اچھے کرتوت کے سوا کوئی بھی کام نہیں آسکتا ، سچ ہے! ہمیشہ رہے نام اللہ کا۔

نتیجہ:

تم کو اس چھوٹی سی کتاب سے دو بڑی بڑی باتیں معلوم ہوئیں، ایک تو یہ کہ نیک چلنی گویا خوش نما اور خوش بوپھول ہے، کہ چاہے باغ میں لگے یا گھورے (۲۰)پر آخر پھول ہی ہے، جو نہ بولتا ہے نہ چالتا ہے، مگر خواہ مخواہ لوگوں کی زبان سے واہ واہ کہلواتا ہے، دیکھو گیندھریا ینچ قوم میں پیدا ہوئی، مگر اپنی نیک چلنی سے اونچے گھرانے والیوں سے بازی لے گئی، اور لوگوں کے دلوں پر اپنی نیکی کا سکہ بٹھاگئی۔

مثنوی :

نیک چلی خدا کی نعمت ہے
نیک چلنی عجیب دولت ہے
نیک چلنی کا بول بالا ہے
جگ میں اس کا ہی سب اجالا ہے
 اور دوسری یہ کہ اچھی صحبت برے کو اچھا اور مس(۲۱) کو طلا(۲۲)بنادیتی ہے، پڑھنے لکھنے کا اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا صحبت کا ہوتا ہے، دیکھو بیچاری گیندھریا دائی الف کے نام کو بھالا بھی نہ جانتی تھی، مگر پڑھے لکھوں اور دینداروں کی صحبت میں ایک چیز ہوگئی، صحبت کی تاثیر کوکیا اچھی مثال دے کر کسی نے سمجھایا ہے۔

قطعہ :

اک سہیلی نے مجھے حمام میں
بھینی بھینی باس کی مٹی جو دی
میں نے مٹی ہی سے پوچھا کیا ہے تو؟
کس قیامت کی لپٹ ہے تجھ میں بھی
بولی وہ ، ناچیز سی مٹی تھی میں
مدتوں پھولوں کی صحبت میںرہی
 آگئی پھولوں کی خوبو مجھ میں بھی
ورنہ میں تو ہوں سڑی مٹی وہی
 راقمہ مومنہ شعبان ۱۳۲۴؁ھ مطابق اکتوبر۱۹۰۶؁ء۔

حواشی

(۱)یعنی بہارشریف سے ۱۲،۱۳ کلو میٹر،موجودہ ضلع نالندہ میں۔
(۲)یعنی ۱۹۰۲،۱۹۰۳ء وغیرہ میں
(۳) بہار کے علاقہ میں ’’دائی ‘‘ کا لفظ خادمہ اور لونڈی کے معنی میں بھی عام طورپر بولاجاتا ہے۔(م)
(۴)صوبہ بہار میں ’’براہل‘‘ کمہرا یعنی گاؤں کے اس نوکر کو کہتے ہیں جو گماشتہ پٹواری سے نیچے تحصیل وصول یا کھیتی کے کام انجام دیتا ہو۔(م)
(۵)بیوگی
  (۶)کھرپا عرب کی نعلین جیسی دیسی جوتیاں ہوتی ہیں جس کے پنجے کھلے ہوئے ہوتے ہیں اور انگوٹھوں کے پاس تسمے لگے رہتے ہیں، بہار کے علاقہ میں ابھی حال تک لونڈیاںیہی پہنتی تھیں۔(م)
(۷) مولانا سید وحید الحق استھانویؒ (وفات ۱۳۱۵ھ-۱۸۹۸ء ) بانی مدرسہ اسلامیہ بہار شریف۔آپ مولانا ابوالمحاسن سجاد کے استاد وخسر کی حیثیت سے مشہور ہیں، صوبہ بہار کی تعلیمی بیداری، نوجوان نسل کی تربیت اور اصلاح عقیدہ ودعوت میں آپ کے کارنامے ناقابل فراموش ہیں جس کی شہادت کتاب ہذا کی سطروں سے بھی مل رہی ہے، نیز حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی کی والدہ کی چشم دید شہادت مولانا کے مضمون’’ مولانا سید عبد الغنی وارثی ‘‘مشمولہ مضامین گیلانی شائع شدہ بہار اردو اکیڈمی پٹنہ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے، تفصیلی حالات کے لئے دیکھئے نقیب پھلواری شریف پٹنہ یکم نومبر ۲۰۱۰ء۔
(۸)  ان کے حالات معلوم نہ ہو سکے۔
(۹) غالباً مولانا سید احسن گیلانی جد بزرگوار مولاناسید مناظر احسن گیلانی یا ان کے عم محترم مولانا ابوالنصر گیلانی مراد ہیں، یا شیخ واعظ الحق گیلانی ۔
 (۱۰) کوڑی (فیروزاللغات ص۲۶۸ مطبوعہ دہلی۲۰۰۳ء)
(۱۱) پکانا (حوالہ سابق ص۳۹۰)
(۱۲) پیوند ،جوڑ
(۱۳) ’’بھاؤلی شرح‘‘ اس کو کہتے ہیں جس میں جنس تقسیم ہوکر کھیت کے مالک کو ملتی ہے۔(م)
(۱۴)  دھان کے پودوں کو ایک جگہ سے اکھاڑ کر دوسری جگہ لگانے کو بہار کے علاقہ میں روپنا کہتے ہیں۔(م)
(۱۵) قالب ،ڈھانچہ
(۱۶) گہنہ ، زیور وغیرہ
(۱۷) ذلت ورسوائی
(۱۸) برداشت کرتی ہو
(۱۹) شان وشوکت
(۲۰) دولت جمع کرنے کی حرص (فیروزاللغات ص ۶۸۹)
(۲۱) گھورا: وہ جگہ جہاں کوڑا کرکٹ پھینکا جائے۔(فیروزاللغات ص ۵۸۶)
(۲۲) مس: تانبا(۲۳) سونا

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply