تذکرہ و اسناد حدیث : مشائخ دارالعلوم وقف دیوبند
کتاب اور صاحبِ کتاب کا مختصر تعارف
تحریر: بدرالاسلام قاسمی
خوش نصیب ہیں وہ ادارے اور درس گاہیں جنھیں علوم و فنون کی ماہر شخصیات کی خدمات میسر آئیں، خلوص و للہیت سے پُر جن کی حیات مستعار کا ہر ہر گوشہ نسل نو کے لیے مشعل راہ بنے، وفا شعاری اور فنائیت جن کی پہچان ہو اور مشکل سے مشکل حالات میں صبر و قناعت اور زباں پر کلمات شکر جن کا امتیاز ہو. بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے دارالعلوم وقف دیوبند کو ایسے ماہرین، جہاں دیدہ، تجربہ کار اور اعلی ترین نسبتوں کے حامل افراد کی ایک کہکشاں 22 مارچ 1982ء کی اُس صبح سے ہی عطا فرمائی جو جملہ وابستگانِ دیوبند کے لیے نہایت کرب انگیز اور افسوسناک تھی.
کاروانِ حکیم الاسلام کے یہ 85 افراد ہی در اصل دارالعلوم وقف کی بنیاد تھے، جس قافلے کا ہر ہر فرد اس کی بنا میں شریک رہا، جس نے اپنی اپنی صلاحیتوں کو ایسے ادارے کے لیے وقف کر دیا جس کا مستقبل اس وقت موہوم، حالات سخت ترین، بدگمانی اور الزام تراشی کا دور دورہ، نہ عمارت، نہ چھت، نہ چٹائیاں اور نہ تپائیاں، لیکن انھوں نے وفا شعاری اور اخلاص و للہیت کی وہ مثال قائم کی جسے ماضی قریب میں چشم فلک نے نہ دیکھا تھا. ان کا سارا سرمایہ توکل علی اللہ اور قاسمی، شاہی و عثمانی خانوادے کی عظیم نسبی و علمی نسبتیں تھیں.
دیوبند کی مرکزی جامع مسجد میں کئی سالوں تک حالات کا شکار رہے اس ادارے کے حالات قدرے بہتر ہونے کو ہوئے تو ایک قیامت اور ٹوٹی کہ جامع مسجد سے انخلاء، پھر چند ماہ اس بے سر و سامانی میں بھی گزرے کہ خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی، فخر المحدثین حضرت مولانا سید محمد انظر شاہ کشمیری، استاذ الاساتذہ حضرت مولانا خورشید عالم دیوبندی، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد نعیم دیوبندی، شارح ہدایہ حضرت مولانا جمیل احمد سکروڈوی، درویش صفت حضرت علامہ حسن باندوی، والد گرامی شیخ الادب حضرت مولانا مفتی محمد اسلام قاسمی علیہم الرحمہ جیسے جبال علم نے صبر و استقامت اور عزم و حوصلے کی وہ مثال قائم کہ کچھ درسگاہیں ظہیر منزل میں، کچھ طیب منزل میں، بعض کا نظم آدینی مسجد میں تو کوئی جماعت عثمانی مسجد کے صحن میں.
تاریخ دیوبند میں 24 جون 1994ء کا دن بھی ہمیشہ یاد رکھا جانا چاہیے جب یہ بے سہارا قافلہ بارہ سالوں تک ادھر ادھر بھٹکتے ہوئے اور ابتلاء و آزمائش کے موقع پر عزم و حوصلے کی داستان رقم کرتے ہوئے بالآخر ایک وسیع و عریض زمین پر فروکش ہوا اور یہاں علماء، صلحاء، دانشوران قوم و ملت اور جاں نثارانِ حکیم الاسلام نے مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی کو دارالحدیث کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے دیکھا.
اپنی زمین پر ہونے کے بعد مسائل کا سلسلہ ختم نہیں ہوا تھا، بس آزمائش کی نوعیتیں تبدیل ہو گئی تھیں، دارالعلوم وقف کو "مکتب” کا طعنہ دینے والوں کی زبان پر اب "جنگل، وادئ غیر ذی زرع، ریلوے پلیٹ فارم، بریکٹ والا مدرسہ” وغیرہ جیسے الفاظ جاری تھے، اسباب و وسائل کی قلت اور بشری تقاضوں کے تحت ہونے والی ذرا ذرا سی بد نظمی یا خطاؤں کو ملی و سماجی گناہ بنا کر پیش کیا جاتا. لیکن سلام ہے ان جبالِ استقامت پر کہ انھوں نے سب کچھ جھیلا، مصائب و آلام کو جیا، طعنے برداشت کیے اور بفضل الہی سال بہ سال یہ مسائل رفتہ رفتہ کم ہوتے گئے. طلبۂ عزیز کے لیے مسائل دوسری نوعیت کے ہوتے، رہائش گاہ کی کمی اور امدادی داخلے محدود، جہاں ضروریات کی تکمیل نہ ہو وہاں سہولیات کا کیا گزر!!! ایسے مشکل ترین حالات میں ان کا سرمایہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور توکل و قناعت کے بعد فقط اپنے عظیم ترین اساتذۂ کرام اور مشائخ حدیث کی اعلی ترین نسبتیں، ان کی ارفع و عالی اسناد تھیں جن کے حصول کے لیے انھیں ہر سرد و گرم نشیب و فراز برداشت تھا.
مجھے یاد پڑتا ہے، غالباً 2006/2007 میں راقم کا عربی ششم کا سال تھا، ادارے کے قدیم رکن حاجی اسعد صدیقی لائبریری کی ترتیب و تکمیل اور انتقالِ کتب میں شبانہ روز مصروف تھے، پھر آئندہ تعلیمی سال کے آغاز پر فخر المحدثین حضرت مولانا سید محمد انظر شاہ کشمیری علیہ الرحمہ کی وہ آخری اجتماعی گفتگو سننے کو ملی جو اسی لائبریری "المکتبۃ القاسمیہ” کے افتتاح کے موقع پر ہوئی تھی، جس میں بیماری کے آثار ان کے جسم اور خطاب میں نمایاں ہو رہے تھے. بہر حال لائبریری کا نظام شروع ہو گیا، کچھ ماہ بعد ہمیں حاجی اسعد صاحب کے معاون کے طور پر ایک نئے فاضل مولوی انعام الحق لائبریری میں نظر آئے، جن کا وطنی تعلق راقم کے آبائی صوبے جھارکھنڈ سے تھا، خاموش صفت، مفوضہ ذمہ داریوں کی انجام دہی میں منہمک، انھوں نے ادارے میں اپنی ایک الگ شناخت بنائی اور رفتہ رفتہ طلبہ و اساتذہ انھیں "صوفی انعام” کہنے لگے.
والد مرحوم شیخ الادب حضرت مولانا مفتی محمد اسلام قاسمی علیہ الرحمہ کی سوانح "کیا شخص زمانے سے اٹھا” کی دوسری جلد میں شائع مضمون میں مولانا انعام الحق صاحب نے لکھا ہے کہ جب وہ دارالعلوم وقف میں تقرری کے بعد ان سے ملاقات کے لئے حاضر ہوئے تو والد مرحوم نے انھیں نصیحت کی تھی :
"کتب خانہ کتابوں کے درمیان علمی مشغلہ جاری رکھنے کی بہترین جگہ ہے. "
شاید اسی نصیحت نے ان کے پڑھنے لکھنے کے ذوق کو مہمیز کیا اور وہ ہزاروں کتابوں کے درمیان استفادے اور حاصل مطالعہ یا حاصل گفتگو کی جمع و ترتیب وغیرہ میں مصروف ہو گئے.
کچھ سالوں پہلے حاجی اسعد صاحب ادارے سے علاحدہ ہوئے تو لائبریری کی مکمل ذمہ داریاں مولانا انعام پر ہی آ گئی،
انھوں نے کتابوں کی ترتیب، تنظیم، فن کے اعتبار سے جملہ کتابوں کی فہرست سازی وغیرہ کو بہت ہی سلیقے سے انجام دیا، مستفیدین کی سہولت کے لیے نظام کو اپڈیٹ یعنی کمپیوٹرائزڈ کرنے کا وقت آیا تو خود کمپیوٹر سیکھا، اور ہزارہا کتب کا اندراج کر ڈالا، انتظامیہ نے قدیم ترین مخطوطات اور نایاب کتب کو محفوظ کرنے کا ارادہ کیا تو عمدہ انداز میں صفحہ بہ صفحہ کتابوں کو اسکین کر کے محفوظ بھی کیا، اس دوران مستقل مہمانوں کا ورود ہوتا تو خندہ پیشانی سے سب سے ملاقاتیں، مزاج پرسی اور اگر دارالعلوم وقف کے فیض یافتہ ہوں تو سن فراغت اور دورہ حدیث کے اساتذہ کی تفصیلات بھی معلوم کر کے اپنے ریکارڈ میں محفوظ کرتے. چناں چہ رفتہ رفتہ انھوں نے محافظ خانے، دفتر تعلیمات کے تمام تر ریکارڈ اور سینکڑوں فضلاء سے رابطہ کر کر کے مشائخ دارالعلوم وقف پر اچھا خاصا مواد محفوظ کر لیا جو آج ہمارے سامنے "تذکرہ و اسناد حدیث مشائخ دارالعلوم وقف دیوبند” کے نام سے موجود ہے.
320 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں قیام دارالعلوم وقف دیوبند سے تا حال اساتذۂ دورۂ حدیث کا مختصر تعارف اور ان کی جملہ متداول کتبِ حدیث کی اسناد کو مسند الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ تک بیان کیا گیا ہے.
سرورق کی پیشانی پر عبد اللہ ابن المبارک کا یہ قول "الإسناد من الدین و لو لا الإسناد لقال من شاء ما شاء” اور کتاب میں مصنف کا 17 صفحات پر مشتمل تفصیلی مقدمہ دین میں سند حدیث کی اہمیت کو شاندار انداز میں بیاں کرتا ہے.
کتاب پر حضرت مولانا محمد سفیان قاسمی، حضرت مولانا سید احمد خضر شاہ مسعودی اور برادر محترم جناب مولانا ڈاکٹر محمد شکیب قاسمی کی تائیدات اسے اعتبار بخشتی ہیں.
کتاب تین ابواب پر مشتمل ہے، پہلے باب میں دارالعلوم وقف کے ان 14 مشائخ حدیث کا تذکرہ اور سندیں ہیں جو جوار رحمت میں منتقل ہو چکے ہیں. ان کے اسماء گرامی یہ ہیں :
حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی، خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی، فخر المحدثین حضرت مولانا سید محمد انظر شاہ کشمیری، استاذ الاساتذہ حضرت مولانا خورشید عالم دیوبندی، حضرت مولانا محمد نعیم دیوبندی، حضرت مولانا مفتی سید احمد علی سعید بجنوری، حضرت مولانا محمد اسلم قاسمی، حضرت علامہ رفیق احمد بھیسانوی، حضرت مولانا مفتی محمد واصف صاحب دیوبندی، حضرت علامہ سید حسن باندوی، والد گرامی شیخ الادب حضرت مولانا مفتی محمد اسلام قاسمی، حضرت مولانا محمد حنیف صاحب مظفرنگری، امام الفرائض حضرت مولانا مفتی انوار الحق صاحب دربھنگوی اور بحر العلوم حضرت مولانا غلام نبی کشمیری علیھم الرحمہ
دوسرے باب میں موجودہ 12 اساتذۂ کرام کا تذکرہ ہیں جو دورہ حدیث وغیرہ میں احادیث کی متداول کتب کا درس دے رہے ہیں.
تیسرے باب میں سال رواں (1445-1446ھ) کے اساتذہ کی متعلقہ کتب کی سند بیان کی گئی ہے، سب سے اخیر میں مہتمم ادارہ حضرت مولانا محمد سفیان قاسمی کی سند مسلسلات بھی ذکر کی گئی ہے.
صفحہ نمبر 20 پر مصنف کتاب رقم طراز ہیں :
"میں اس کتاب کو حرف آخر نہیں مانتا، یہ تو نقش اول ہے اور نقش اول میں بہت ساری کمیاں رہتی ہیں، سو اس میں بھی ہوں گی، مجھ امید ہے کہ آئندہ کوئی صاحب قلم جب اس موضوع پر کام کرنا چاہے گا تو اسے چیونٹی کے منہ سے دانہ دانہ جمع کرنے کے مراحل سے نہیں گزرنا ہوگا.”
سرسری طور پر کتاب کو دیکھنے کے بعد دو تسامحات میرے سامنے بھی آئے، ایک تو شارح ہدایہ حضرت مولانا جمیل احمد سکروڈوی کا تذکرہ شامل کتاب نہیں ہے، ممکن ہے کہ ان کی عمر کے اخیر حصے کا اعتبار کیا گیا ہو کہ سن 2000ء سے تا وفات وہ دارالعلوم دیوبند سے وابستہ ہو گئے تھے، لیکن اس پر علمی اشکال باقی رہتا ہے کہ اگر اعتبار اخیر کا ہی کیا گیا ہے تو پھر حضرت مولانا محمد حنیف صاحب مظفرنگری کا ذکر بھی کتاب میں نہیں ہونا چاہیے تھا جنھوں نے حکیم الاسلام علیہ الرحمہ کے سانحہ ارتحال کے بعد دیگر مدارس میں خدمت تدریس انجام دی.
دوسرا نام میرے استاذ گرامی حضرت مولانا جعفر صاحب کا ہے، ان سے متعلق بھی دورہ حدیث کا سبق رہا ہے، ممکن ہے کہ ان کا نام اس لیے شامل نہ کیا گیا ہو کہ وہ غالباً مستقل استاذ نہ تھے بلکہ معین مدرس کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے.
بہرحال! چونکہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جو آگے چل کر دارالعلوم وقف کے ہر قدیم و جدید فاضل کے لیے ایک اہم مرجع ہوگی اس لیے ہر اس شخص کا ذکر اور اسناد ضروری معلوم ہوتے ہیں جنھوں نے کبھی بھی دورۂ حدیث کا درس دیا ہو. مجھے امید ہے کہ یہ کمیاں آئندہ ایڈیشن میں درست کر لی جائیں گی، مشمولات کی اہمیت، اسناد کی صحت وغیرہ تسلیم، لیکن اگر اگلے ایڈیشن سے قبل کتاب کی زبان و انداز بیان پر بھی گہری نظر کرا لی جائے تو یقیناً اس کی افادیت اور مقبولیت میں اضافہ ہوگا. ان شاء اللہ. وما ذلک علی اللہ بعزيز
بلاشبہ مصنف کتاب سالہا سال کی عرق ریزی کے بعد منظر عام پر آنے والی اس کتاب کے لیے مبارکباد کے مستحق ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو صحت و عافیت کے ساتھ طویل عمر عطا فرمائے تاکہ وہ کتابوں کے درمیان رہ کر نسل نو کے لیے اس طرح کے مختلف الانواع علمی گلدستے تیار کر سکیں جن کی خوشبو سالہا سال بلکہ نسلاً بعد نسلٍ باقی رہنے والی ہے. و ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء
کتاب حاصل کرنے کے لیے رابطہ کریں. مولانا انعام الحق قاسمی، ناظم کتب خانہ دارالعلوم وقف دیوبند
9997711132