کتاب: بالمشافہ ( نامور ادیبوں، شاعروں اورفن کاروں کے انٹرویوز)
مصنف: معصوم مراد آبادی
صفحات: 232
قیمت: 400روپے
سال اشاعت: 2024ء (طبع دوم)
ناشر: نعمانی کیئر فاؤنڈیشن، لکھنؤ
تبصرہ نگار: حکیم وسیم احمد اعظمی
معصوم مراد آبادی (پ:1961ء) معتبر اردو صحافی، خاکہ نگار اورانٹرویو نگارہیں،گراؤنڈ زیرو کے رپورٹر کے طور پر بھی ان کی شناخت رہی ہے، اس حوالہ سے کئی اوّلیات ان سے منسوب ہیں۔ درجن بھر سے زیادہ کتابیں ان کے نامہ اعمال میں ہیں۔ انہوں نے ہفت روزہ ’نئی دنیا‘ دہلی کے لیے پانچ سال تک رپورٹر اورانٹرویور کا کام کیا اور مختلف حیثیتوں کے لوگوں سے پانچ سو سے زائد انٹر ویو کیے۔ انٹرویو کرنا ایک ’فن‘ ہے،جس میں ذہانت کے ساتھ ہی زیرکی درکار ہوتی ہے۔جس کا انٹرویو کیا جاتا ہے، اس کی شخصیت اور اس کے مالہ و ماعلیہ سے کما حقہ واقفیت ضروری ہے۔کسی شخص بالخصوص سیاسی رہنماؤں سے کامیاب انٹرویو کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں، ان کے پس ِچہرہ ایک نہیں، کئی چہرے ہوتے ہیں،وہ انتہائی ہوشیار، جہاں دیدہ ہوتے ہیں اور اپنے بیانیہ میں ایسے الفاظ کا سہارا لیتے ہیں،جو مختلف سمتوں میں کھلنے کا رجحان رکھتے ہیں۔وہ کب اپنی بات سے مکر جائیں یا کوئی نیا معنی پیدا کردیں، ذرابھی اعتماد نہیں۔شاید اسی لیے معصوم مراد آبادی نے ایسے انٹرویوز ’نئی دنیا‘ میں چھپوائے توضرور،لیکن کتابی شکل میں لانے کا جوکھم نہیں اُٹھایا۔وہ لکھتے ہیں:
”انٹرویو نگار کا کام محض سوال قائم کرکے ان کے جوابات حاصل کرنا نہیں ہوتا بلکہ وہ اس راہ میں طرح طرح کے تجربات سے گزرتا ہے۔ جب لوگ تنازعہ کھڑا ہوجانے کے بعد اپنی ہی باتوں سے مکر جاتے ہیں تو ایک عجیب و غریب صورت ِ حال جنم لیتی ہے۔ یہ مرحلہ انٹرویو نگار کے لیے سخت آزمائش کا ہوتا ہے۔اس لیے انٹر ویونگار کے کاندھوں پر ذمہ داری کا دوہرا بوجھ ہوتا ہے“۔ (پیش لفظ، طبع دوم،ص7)
زیر نظر ’بالمشافہ‘ نامور ادیبوں، شاعروں اورفن کاروں سے کیے گئے ان کے انٹرویوز کا مجموعہ ہے۔ان کے ساتھ انٹرویو کی ایک اچھائی یہ ہے کہ کم و بیش ہر ادیب، شاعر اور فن کار کی فکریات کا دستاویزی ثبوت ہوتا ہے،اس کا کہا، لکھا محفوظ رہتا ہے،اورجو اس کی شناخت اور مابہ الامتیاز ہوتا ہے،اس لیے مکرنے کے امکانات شاذ ہوتے ہیں۔شاید اسی لیے معصوم مراد آبادی نے سماج کے اس طبقے کے انٹرویوز کو کتابی شکل میں لانے کا ارادہ کیا۔’بالمشافہ‘ کی پہلی اشاعت 1996ء میں عمل میں آئی تھی۔ طبع ثانی میں پروفیسر ملک زادہ منظور احمد، عطاء الحق قاسمی اور صلاح الدین پرویز کے انٹرویوز کے علاوہ ’مظفر وارثی کا ردّ عمل‘ اور بشیر بدرکے انٹر ویو پر خامہ بگوش (مشفق خواجہ )کا تبصرہ/ ردّعمل کا اضافہ ہے۔ طبع اوّل میں بعض جوابات طولانی تھے،انہیں میں سے سوال قائم کرکے جوابات کو جامع بنادیا گیا ہے۔معصوم مراد آبادی نے ان ادیبوں، شاعروں اورفن کاروں کی حیات و خدمات کا اجمالی جائزہ لے کر اپنے قاری کی بہت سی مشکلیں آسان کردی ہیں،اور انٹرویو کی تفہیم آسان تر ہوجاتی ہے۔
’’بالمشافہ‘میں دو نوعیت کے انٹرویوز شامل ہیں، عمومی انٹرویوز اور موضوعاتی انٹرویوز۔عمومی انٹرویو کے زمرے میں اختر الایمان،کیف بھوپالی،حبیب جالب، علی سردار جعفری، جوگیندر پال،احمد فراز، بیکل اُتساہی،افتخار عارف، مظفر وارثی، مظفر وارثی کا ردّ عمل( قتیل شفائی کے انٹرویو مطبوعہ ہفت روزہ’نئی دنیا، نئی دہلی،مورخہ12تا18مئی1989ء کے تناظر میں )،بشیر بدر،خامہ بگوش کا ردّ عمل خامہ بگوش (مشفق خواجہ کا تبصرہ درکالم’سخن در سخن‘،مطبوعہ ہفت روزہ ’تکبیر‘ کراچی، 24مارچ1988ء)،ملک زادہ منظور احمد،عطاء الحق قاسمی، صلاح الدین پرویز، بھگوان گڈوانی،احمد مرزا جمیل کے انٹر ویو ہیں،ان میں انٹرویو کا دائرہ وسیع ہے۔
موضوعاتی انٹرویوز ’فرقہ واریت کا مسئلہ‘ کے زیرعنوان ہیں۔ معصوم مراد آبادی لکھتے ہیں:
”یکم جنوری1991ء کو دہلی میں ایک تاریخی دن کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا۔ اس روز منڈی ہاؤس کے قریب ایک زبردست دھرنا دیا گیا تھا،جس میں فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے ملک بھر کے اہم فن کار شریک ہوئے تھے اور انہوں نے ایودھیا تنازعہ کے پس منظر میں سماج کو بانٹنے کی کوششوں کے خلاف اپنا احتجاج درج کرایا تھا“۔
یہ انٹرویوز اسی موقع پر ریکارڈ کیے گئے تھے۔اس میں بھیشم سا ہنی (ناول نگار)،حبیب تنویر(ڈرامہ نگار)،جاوید اختر (شاعر، کہانی نویس)،فہیم ڈاگر( موسیقار)، سدھیر در( کارٹونسٹ)،سریندر شرما( مزاحیہ شاعر)،پرشوتم اگروال (ہندی ادیب )کے انٹرویوز شامل ہیں۔1991ء کے بعدفرقہ واریت نے تاریخ میں کئی اور سیاہ ابواب کا اضافہ کردیا ہے۔
’بالمشافہ‘طبع دوم کے آخر میں طبع اوّل(1996ء) پر ڈاکٹر خاور ہاشمی (ادبی انٹرویو کا اہم مجموعہ)، ڈاکٹر رضوان احمد (قابل مطالعہ کتاب)،رحمت اللہ فاروقی (اہم شخصیتوں کے انٹرویوز )، حقانی القاسمی (مستند ادبی دستاویز )، جی ڈی چندن (دلچسپ اور جاندار انٹرویوز )، ڈاکٹر سراج اجملی (کچھ افراد سے غائبانہ ملاقات) اور جعفر عباس (معصوم کا انداز تحریر )کے ’تبصرے‘ ہیں،جوبے حد اہم ہیں۔
’بالمشافہ‘ میں معصوم مراد آبادی نے جو سوالات قائم کیے ہیں، وہ پیچیدہ اور گھماؤ دار نہیں ہیں،بلکہ سیدھے سادے اور عام قاری کے ذہن میں اُٹھنے والے سوالات ہیں، اگر کسی سے نج کے سوال کیے بھی ہیں تو جملہ مشرقی آداب کے ساتھ ہیں،وہ لکھتے ہیں:
”میں نے سوالات کے دائرے کو محدود رکھا ہے اوریہ کوشش بھی کی ہے کہ شاعروں اور ادیبوں سے ایسے سوالات کیے جائیں جو عام قاری کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔خشک سوالات اور مباحث سے پرہیز کیا گیاہے، ان شخصیات کی نجی زندگی سے متعلق سوالوں کے جواب میں بعض اہم باتیں معلوم ہوئی ہیں اور ایسے پہلو نمایاں ہوئے ہیں،جو عام طور پر سامنے نہیں آتے“۔
معصوم مراد آبادی کا ادبی شعور بہت بالیدہ ہے۔وہ ادب برائے زندگی کے قائل اور اس پر عامل ہیں،ادب کے نام پر ہونے والی کج بحثیوں سے خوش نہیں ہیں،تحریر کرتے ہیں:
”ہمارے ادیب بالعموم ایسے موضوعات پر لکھ رہے ہیں، جن کا عام قاری سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔بے جان بحثوں اور نامانوس اصطلاحوں کے چلن نے ہمارے ادب کا رشتہ عام انسانی تجربوں سے باقی نہیں رہنے دیا ہے۔ ادبی تصنیفات کی دنیا نصابی کتابوں کی طرح اساتذہ اور طالب علموں تک محدودہوکر رہ گئی ہے،…..فیشن ایبل جدیدیت اور مابعد جدیدیت خواہ شاعری میں ہو یا افسانہ و تنقید میں، میری سمجھ میں نہیں آتی“۔ (پیش لفظ، طبع دوم،ص7-8 )معصوم صاحب ادیبوں،شاعروں اور فن کاروں کے بطون دماغ کے میں پیداہونے والے ارتعاشات سے بڑی حد تک واقف ہیں اوراسی لیے وہ ان کے انٹرویوز میں انہیں زیادہ مرتعش نہیں ہونے دیتے۔ یہ بات دیگر ہے کہ کوئی ادیب،شاعریا فن کاراگر خود کلامی پر آمادہ ہوجائے اور خود ساختیاتی رویہ اختیار کرلے تو بھلا انٹرویو کرنے والا کیا کرسکتا ہے اور قاری کو اس پر تبصرہ کرنے سے کیسے روک سکتا ہے،مثلاً:
”….کلیم الدین احمد کو نہ میں نقادمانتا ہوں اور نہ ہی پڑھا لکھا آدمی“۔ (کیف بھوپالی، بالمشافہ،ص29)
”…..تو پھر جب میں نے غزل کہی تو اپنا محبوب حریف میرؔ اور غالبؔ کو بنایا، باقی لوگوں سے میرا کوئی معاملہ نہیں ہے، پہلے بھی نہیں تھا، اب بھی نہیں ہے“۔ (بشیر بدر، بالمشافہ،ص112-113)
بشیر بدر کا انٹرویو متعدد رسالوں اور جریدوں میں شائع ہوا اور ’خامہ بگوش‘( مشفق خواجہ) نے اس پر خاصا لطف لیا۔
’بالمشافہ‘ کے انٹرویو دلچسپ اور معلوماتی ہیں،ان میں احمد مرزا جمیل (نوری نستعلیق کے خالق) کاانٹرویوبے حداہم ہے۔آج احمد مرزا جمیل کے بارے میں خاصا لوازمہ ملتا ہے، لیکن معصوم صاحب نے جب ان کا انٹرویو کیا تھا تو اردو دنیا کے لیے یہ اطلاعات نئی اور ان کہی تھیں۔
اس کتاب میں پروفیسر شمیم حنفی کا ’دیباچہ‘ہے،جس کی بظاہر کوئی ضرورت اور افادیت ہماری سمجھ میں نہیں آئی۔’اس کتاب کے ذریعے ہم ایک ٹکٹ سے کئی تماشے دیکھ سکتے ہیں‘ لکھنا مصنف اورموضوع کو سنجیدگی سے نہیں لینا ہے، ایسا گمان گزرتا ہے کہ گویا وہ کسی نو وارد کے ’فکاہیے‘ پر اظہار خیال فرمارہے ہیں۔
معصوم صاحب نے سیاسی رہنماؤں سے سیکڑوں انٹرویو کیے ہیں،لیکن ان سے کیے گیے ا نٹرویو کا انداز اورمعاملہ بے حد مختلف ہے،وہ سیاسی رہنماؤں کے اندرون میں جھانکنے،ان کے باطن کو باہر لانے اوراُنہیں حیران، پریشان بلکہ پشیمان کرنے کا کوئی دقیقہ اُٹھا نہیں رکھتے ہیں۔ ان سیاسی رہنماؤں کا ’بالمشافہ‘ (انٹرویو)ببی کتابی شکل میں لانا چاہیے۔ اِس کتاب کے ناشر اور نعمانی کیر فاؤنڈیشن لکھنؤ کے روح رواں محمد اویس سنبھلی اس کام کی راہ استوار کرسکتے ہیں۔ رابطہ نمبر 9810780563